یونیورسٹی طالبہ اور کمسن بچی کے قاتلوں کا تاحال سراغ نہ مل سکا
معصوم بچیوں کے اغواء، زیادتی اور قتل کے واقعات نے والدین کی نیندیں حرام کر دیں
اخلاقی قدریں انحطاط پذیرہونے کے سبب قصورکے بعد گزشتہ دنوں فیصل آباد میں درندگی کے رونما ہونے والے دلخراش واقعات شہریوں کے دل ودماغ پرکرب کے انمٹ نقوش چھوڑ چکے ہیں۔
والدین کی نیندیں اس تشویش میں حرام ہوچکی ہیں کہ ایسے ماحول میں خدانخواستہ ان کی اولاد بھی کہیں کسی سانحہ کاشکارنہ ہوجائے۔ اوباش نوجوانوں پرمشتمل گروہ کی جانب سے جڑانوالہ کے درجنوں نوعمر بچوں کو جنسی تشددکا نشانہ بنائے پرمبنی وڈیوز منظرعام پر آنے اورشرمناک بلیک میلنگ پرلوگ ابھی تشویش میں مبتلاتھے کہ چند روز بعد شیرازی ٹاون جڑانوالہ ہی سے تعلق رکھنے والی فیصل آباد جی سی یونیورسٹی کی ایم اے انگلش کی طالبہ عابدہ کوگھر واپسی کے موقع پر اغواکرکے جنسی زیادتی کانشانہ بنائے جانے کے بعد قتل کر دیا گیا اور نعش ڈجکوٹ کی راجباہ میںپھینک دی گئی۔
طالبہ عابدہ کے پراسرار اغوا،زیادتی اورقتل پر شہریوں کا احتجاج ابھی جاری تھا کہ اس کے چند روزبعد ہی گھرسے جانے والی گلشن عزیزجڑانوالہ کی سات سالہ مبشرہ بھی ایسی لاپتہ ہوئی کہ زندہ لوٹ کرنہ آسکی۔ دن بھر کی تلاش و بسیارکے بعد اس کی نعش رات کو ایسی حالت میں کھیت سے ملی کہ دیکھنے والوں کی چیخیں نکل گئیں۔ موت کے منہ میںجانے والی ننھی پری کا جسم جانوروں نے اس طرح نوچا کہ جگہ جگہ سے گوشت غائب اور اس کی ایک ٹانگ بھی الگ ہو چکی تھی۔
مبشرہ کی خون میں لت پت نعش ملنے کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پورے علاقہ میں پھیل گئی ۔پولیس کی جانب سے نعش پوسٹمارٹم کی غرض سے ہسپتال منتقل کردی گئی۔ عابدہ کے بعد مبشرہ کے بیہمانہ قتل پر لوگ آپے سے باہر ہوگئے۔ایسے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پولیس سے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبات کئے گئے۔
جڑانوالہ کے تاجروں کی طرف سے طالبہ عابدہ اور مبشرہ کے بہیمانہ قتل کے خلاف شٹرڈاون ہڑتال کی گئی۔ میڈیا پرخبریں نشر ہونے پر وزیراعلیٰ پنجاب کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بھی ازخودنوٹس لیتے ہوئے کیس ٹریس کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ بڑھتے ہوئے پریشر کے پیش نظر اعلیٰ پولیس افسران بھی ٹھنڈے ٹھاردفاترسے نکل کرتپتی دھوپ میں کھیتوں میں جانے پر مجبور ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ کمسن مبشرہ، طالبہ عابدہ قتل کیس کے سلسلہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کی جڑانوالہ متوقع آمدکے پیش نظر تیارکیاجانے والاہیلی پیڈ دیکھنے محلہ کے چند بچوں کے ہمراہ گئی جس کے بعد سے اس کاکہیں سے سراغ نہ مل پایا۔
ذرائع کاکہنا ہے کہ لیڈی ڈاکٹرکی طرف سے عمل میں لائے جانے والے مبشرہ کے پوسٹمارٹم میں زیادتی ہونے کے شواہد واضح کرنے کے بجائے حتمی نتائج کافیصلہ فرانزک رپورٹ سے مشروط کردیا گیا، اسی بنا پربعض پولیس افسران اس سے زیادتی کے پہلو کوخارج ازامکان قراردیتے ہوئے دبے الفاظ میں کہتے رہے کہ مبشرہ کسی درندہ صفت شخص کے بجائے کمادکے کھیت میں خونخوارآوارہ کتوں کی درندگی کانشانہ بنی۔
اعلیٰ سطحی احکامات کے پیش نظر آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نوازخان کوبھی اس دوران فیصل آباد آنا پڑا۔ آرپی اوآفس میںمنعقدہ اجلاس میں دونوں ہائی پروفائل کیسز پر ہونے والی پیش رفت کاجائزہ لیتے ہوئے انہوں نے ماتحت افسران کو روایتی اور غیر روایتی اندازمیںتفتیش عمل میں لاتے ہوئے حقائق منظرعام پر لانے کی ہدایات جاری کیں۔ پنجاب پولیس کے سربراہ اس موقع پر جڑانوالہ بھی گئے جہاں دونوں خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں جلد انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی۔
ازخود نوٹس کے جواب میںسپریم کورٹ پیش ہونے پر آئی جی پنجاب ،آرپی او اور سی پی اوفیصل آبادکی جانب سے پوسٹمارٹم اور فرانزک رپورٹ پیش کی گئی ،ورثاکے عدم اطمینان ظاہرکئے جانے پر چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے قبرکشائی اور میڈیکل بورڈکے ذریعے مبشرہ کے دوبارہ پوسٹمارٹم کے احکامات جاری کر دیئے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ قبرکشائی کے بعد عمل میں لائے جانے والے پوسٹمارٹم اوراس کے نتیجہ میںمرتب ہونے والی رپورٹس سے حقائق واضح ہوسکیںگے۔
جی سی یونیورسٹی کی طالبہ کے اغواء، زیادتی اورقتل میں ملوث عناصر کاسراغ لگانے کے لئے فیصل آبادپولیس مختلف زاویوں پر تفتیش کررہی ہے ۔ایسے میںعابدہ کے موبائل فون ڈیٹا سے حاصل ہونے والی معلومات کے پیش نظر جہاں اس کے کلاس فیلوزسے بازپرس کی گئی وہاں مقتولہ طالبہ کوایس ایم ایس کرنے والے افراد سے ہونے والی انٹیروگیشن کی روشنی میں نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر نوجوانوں کی گرفتاری کیلئے بھی مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
یہ امرقابل ذکرہے کہ عابدہ کے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے پر لواحقین کی طرف سے مقامی پولیس کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا لیکن پولیس کی طرف سے کیس اندراج تودرکنار بروقت گمشدگی کی رپورٹ بھی درج نہ کی گئی، ایسے میں عابدہ کے جیتے جاگتے سراغ لگانے کی کوششیں کس طرح عمل میں لائی جا سکتی تھیں۔ ڈجکوٹ کی راجباہ سے نعش قبضہ میں لے کر پولیس نے رضاکارسلطان کی مدعیت میں نامعلوم قاتلوں کے خلاف کیس کااندراج کیا۔
ساتھی طالبہ کی ہلاکت اور پولیس کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کے خلاف جی سی یونیورسٹی کے طلباء کئی روز تک سراپا احتجاج بنے رہے۔ حوا کی دونوں بدقسمت بیٹیاں اگردرندہ صفت افرادکی سفاکی کاشکارہوئی ہیں تو فیصل آباد پولیس اوریہاں کے افسران کوسنجدگی سے کام لیتے ہوئے آئندہ سے ایسے واقعات کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانا چاہئیں تھے لیکن ضلع کے کسی تھانہ کی حدودمیںبھی اس حوالہ سے کوئی غیر معمولی کوشش دیکھنے میں نہیں آسکی ۔
والدین کی نیندیں اس تشویش میں حرام ہوچکی ہیں کہ ایسے ماحول میں خدانخواستہ ان کی اولاد بھی کہیں کسی سانحہ کاشکارنہ ہوجائے۔ اوباش نوجوانوں پرمشتمل گروہ کی جانب سے جڑانوالہ کے درجنوں نوعمر بچوں کو جنسی تشددکا نشانہ بنائے پرمبنی وڈیوز منظرعام پر آنے اورشرمناک بلیک میلنگ پرلوگ ابھی تشویش میں مبتلاتھے کہ چند روز بعد شیرازی ٹاون جڑانوالہ ہی سے تعلق رکھنے والی فیصل آباد جی سی یونیورسٹی کی ایم اے انگلش کی طالبہ عابدہ کوگھر واپسی کے موقع پر اغواکرکے جنسی زیادتی کانشانہ بنائے جانے کے بعد قتل کر دیا گیا اور نعش ڈجکوٹ کی راجباہ میںپھینک دی گئی۔
طالبہ عابدہ کے پراسرار اغوا،زیادتی اورقتل پر شہریوں کا احتجاج ابھی جاری تھا کہ اس کے چند روزبعد ہی گھرسے جانے والی گلشن عزیزجڑانوالہ کی سات سالہ مبشرہ بھی ایسی لاپتہ ہوئی کہ زندہ لوٹ کرنہ آسکی۔ دن بھر کی تلاش و بسیارکے بعد اس کی نعش رات کو ایسی حالت میں کھیت سے ملی کہ دیکھنے والوں کی چیخیں نکل گئیں۔ موت کے منہ میںجانے والی ننھی پری کا جسم جانوروں نے اس طرح نوچا کہ جگہ جگہ سے گوشت غائب اور اس کی ایک ٹانگ بھی الگ ہو چکی تھی۔
مبشرہ کی خون میں لت پت نعش ملنے کی خبرجنگل کی آگ کی طرح پورے علاقہ میں پھیل گئی ۔پولیس کی جانب سے نعش پوسٹمارٹم کی غرض سے ہسپتال منتقل کردی گئی۔ عابدہ کے بعد مبشرہ کے بیہمانہ قتل پر لوگ آپے سے باہر ہوگئے۔ایسے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پولیس سے قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبات کئے گئے۔
جڑانوالہ کے تاجروں کی طرف سے طالبہ عابدہ اور مبشرہ کے بہیمانہ قتل کے خلاف شٹرڈاون ہڑتال کی گئی۔ میڈیا پرخبریں نشر ہونے پر وزیراعلیٰ پنجاب کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بھی ازخودنوٹس لیتے ہوئے کیس ٹریس کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ بڑھتے ہوئے پریشر کے پیش نظر اعلیٰ پولیس افسران بھی ٹھنڈے ٹھاردفاترسے نکل کرتپتی دھوپ میں کھیتوں میں جانے پر مجبور ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ کمسن مبشرہ، طالبہ عابدہ قتل کیس کے سلسلہ میں وزیراعلیٰ پنجاب کی جڑانوالہ متوقع آمدکے پیش نظر تیارکیاجانے والاہیلی پیڈ دیکھنے محلہ کے چند بچوں کے ہمراہ گئی جس کے بعد سے اس کاکہیں سے سراغ نہ مل پایا۔
ذرائع کاکہنا ہے کہ لیڈی ڈاکٹرکی طرف سے عمل میں لائے جانے والے مبشرہ کے پوسٹمارٹم میں زیادتی ہونے کے شواہد واضح کرنے کے بجائے حتمی نتائج کافیصلہ فرانزک رپورٹ سے مشروط کردیا گیا، اسی بنا پربعض پولیس افسران اس سے زیادتی کے پہلو کوخارج ازامکان قراردیتے ہوئے دبے الفاظ میں کہتے رہے کہ مبشرہ کسی درندہ صفت شخص کے بجائے کمادکے کھیت میں خونخوارآوارہ کتوں کی درندگی کانشانہ بنی۔
اعلیٰ سطحی احکامات کے پیش نظر آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نوازخان کوبھی اس دوران فیصل آباد آنا پڑا۔ آرپی اوآفس میںمنعقدہ اجلاس میں دونوں ہائی پروفائل کیسز پر ہونے والی پیش رفت کاجائزہ لیتے ہوئے انہوں نے ماتحت افسران کو روایتی اور غیر روایتی اندازمیںتفتیش عمل میں لاتے ہوئے حقائق منظرعام پر لانے کی ہدایات جاری کیں۔ پنجاب پولیس کے سربراہ اس موقع پر جڑانوالہ بھی گئے جہاں دونوں خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں جلد انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی۔
ازخود نوٹس کے جواب میںسپریم کورٹ پیش ہونے پر آئی جی پنجاب ،آرپی او اور سی پی اوفیصل آبادکی جانب سے پوسٹمارٹم اور فرانزک رپورٹ پیش کی گئی ،ورثاکے عدم اطمینان ظاہرکئے جانے پر چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے قبرکشائی اور میڈیکل بورڈکے ذریعے مبشرہ کے دوبارہ پوسٹمارٹم کے احکامات جاری کر دیئے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ قبرکشائی کے بعد عمل میں لائے جانے والے پوسٹمارٹم اوراس کے نتیجہ میںمرتب ہونے والی رپورٹس سے حقائق واضح ہوسکیںگے۔
جی سی یونیورسٹی کی طالبہ کے اغواء، زیادتی اورقتل میں ملوث عناصر کاسراغ لگانے کے لئے فیصل آبادپولیس مختلف زاویوں پر تفتیش کررہی ہے ۔ایسے میںعابدہ کے موبائل فون ڈیٹا سے حاصل ہونے والی معلومات کے پیش نظر جہاں اس کے کلاس فیلوزسے بازپرس کی گئی وہاں مقتولہ طالبہ کوایس ایم ایس کرنے والے افراد سے ہونے والی انٹیروگیشن کی روشنی میں نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر نوجوانوں کی گرفتاری کیلئے بھی مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
یہ امرقابل ذکرہے کہ عابدہ کے پراسرار طور پر لاپتہ ہونے پر لواحقین کی طرف سے مقامی پولیس کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا لیکن پولیس کی طرف سے کیس اندراج تودرکنار بروقت گمشدگی کی رپورٹ بھی درج نہ کی گئی، ایسے میں عابدہ کے جیتے جاگتے سراغ لگانے کی کوششیں کس طرح عمل میں لائی جا سکتی تھیں۔ ڈجکوٹ کی راجباہ سے نعش قبضہ میں لے کر پولیس نے رضاکارسلطان کی مدعیت میں نامعلوم قاتلوں کے خلاف کیس کااندراج کیا۔
ساتھی طالبہ کی ہلاکت اور پولیس کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کے خلاف جی سی یونیورسٹی کے طلباء کئی روز تک سراپا احتجاج بنے رہے۔ حوا کی دونوں بدقسمت بیٹیاں اگردرندہ صفت افرادکی سفاکی کاشکارہوئی ہیں تو فیصل آباد پولیس اوریہاں کے افسران کوسنجدگی سے کام لیتے ہوئے آئندہ سے ایسے واقعات کی روک تھام یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانا چاہئیں تھے لیکن ضلع کے کسی تھانہ کی حدودمیںبھی اس حوالہ سے کوئی غیر معمولی کوشش دیکھنے میں نہیں آسکی ۔