جماعت اسلامی اور تحریک انصاف محبت اور نفرت کا رشتہ ختم ہو رہا ہے
اب محبت اور نفرت کے اس حسین رشتہ کی مدت ختم ہو رہی ہے۔
میرے لیے یہ بات انتہائی پریشانی کا باعث ہے کہ پانچ سال اتنا کامیاب اتحاد چلانے کے بعد تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی علیحدگی ایک برے انداز میں ہو رہی ہے۔ ویسے تو علیحدگی کبھی بھی اچھی نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی دونوں جماعتوں کو شائستگی اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے باقی کے چند دن گزار لینے چاہئیں۔ بیکار کے شہید بننے کی خواہش دونوں کے لیے اچھی نہیں ہے۔
بہر حال یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا کے پی کے کی حکومت قائم کرنے والا اتحاد صرف اور صرف سراج الحق کی شرافت کی وجہ سے ہی پانچ سال چل گیا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر سراج الحق کی جگہ اللہ جنت نصیب کرے قاضی حسین احمد جماعت کے امیر ہوتے تو شاید یہ اتحاد ایک سال بھی نہیں چل سکتا تھا۔ جس قسم کی سولو فلائٹ تحریک انصاف نے کی ہے شاید قاضی حسین احمد کا غصہ اور عدم برداشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
یہ سراج الحق ہی تھے جو سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے پانچ سال گزار گئے۔ ورنہ تحریک انصاف کے ساتھ تو طاہر القادری بھی نہیں چل سکے جنھوں نے ساتھ دھرنا دیا تھا۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر سراج الحق کی جگہ سید منور حسن جماعت اسلامی کے امیر ہوتے تو یہ حکومتی اتحاد کتنے دن چل سکتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سید منور حسن امیر جماعت اسلامی ہوتے تب بھی یہ اتحاد دو سال سے زائد نہیں چل سکتا تھا۔ وہ درویش منش انسان بھی شاید اتنی برداشت کا متحمل نہیں تھا۔
یہ سراج الحق ہی ہیں جو اس گاڑی کو ایک پہیہ پر ہی پانچ سال چلا گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان گلے شکوے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے یہ اتحاد قائم ہوا ہے دونوں جماعتوں نے مل کر کے پی کے کی حکومت قائم کی ہے تب سے گلے شکوے چل رہے ہیں۔ لیکن شروع میں یہ بند دروازوں میں رہے لیکن سب سے پہلے ان کو بند دروازوں سے باہر عمران خان ہی لے کر آئے جب انھوں نے سراج الحق کے خلاف بیان داغ دیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر قاضی حسین احمد امیر جماعت ہوتے تو اس بیان کے بعد ہی حکومت ختم ہوجاتی۔ اور بوریا بستر گول ہو جاتا۔ تاہم سراج الحق نے نہ صرف اس بیان کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموشی بھی رکھی۔ لیکن ان کی شرافت کوئی خاص کام نہیں آئی ہے۔ سراج الحق تو گاندھی جی کے فرمودات پر عمل کر رہے تھے کہ اگر کوئی ایک تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کر دو۔ لیکن یہاں تو دوسرا گال آگے بڑھانے پر دوسرا تھپڑ ہی مل جاتا ہے۔
اسی لیے اس بیان کے بعد تحریک انصاف کی کے پی کے کی حکومت نے اپنی ہی کابینہ کے رکن جس کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا کے خلاف اشتہار دے دیا۔ قاضی حسین کی بات تو چھوڑیں اگر سید منور حسن جیسا درویش منش انسان بھی جماعت اسلامی کا امیر ہوتا تو اس اشتہار کے بعد حکومت سے علیحدہ ہو جاتا۔ نقصان کی کوئی پرواہ نہ کرتا۔ کہتا بس بھئی بس اس سے زیادہ برداشت نہیں ہو سکتی۔
لیکن سراج الحق کی برداشت کی تو داد دینی پڑے گی کہ وہ اس کو بھی برداشت کر گئے۔ تحریک انصا ف والے نجی گفتگو میں بہت احسان جتاتے تھے کہ سراج الحق ان کے ووٹوں کی وجہ سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ ورنہ جماعت اسلامی کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ وہ اپنے امیر کو سینیٹر منتخب کروا سکتی۔ حالانکہ جب آپ ایک اتحاد میں ہوتے ہیں تو لین دین چلتا ہے۔ آپ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ لیکن یہاں تو احسان تھا کہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
تحریک انصاف کا موقف تھا کہ چونکہ سراج الحق ان کے ووٹوں کی مدد سے منتخب ہوئے ہیں اس لیے انھیں تحریک انصاف کی پالیسی کے تا بع رہنا چاہیے۔ وہ جماعت اسلامی کے نہیں ہمارے سینیٹر ہیں۔ حالانکہ جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ آپ نے سراج الحق کے لیے ہمیں جتنے ووٹ دیے ہیں خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی سیٹوں پر اس سے زیادہ ووٹ ہم نے لوٹا دئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی ایک ہی رٹ تھی کہ سراج الحق ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔
وہ اللہ کا شکر ہے کہ حالیہ سینیٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مشتاق احمد خان کو سینیٹ میں امیدوار کھڑا کر دیا تو تحریک انصاف نے اتحادی اور حکومتی حلیف ہونے کے باوجود مشتاق احمد خان کی بھی کسی قسم کی مدد سے انکار کر دیا۔ بلکہ جماعت اسلامی کو پیغام دیا کہ چونکہ ہم نے آپ کی کوئی مدد نہیں کرنی اس لیے آپ مشتاق احمد خان کو بٹھا دیں۔ ایسے ہی بیچارے ہار جائیں گے بڑی بے عزتی ہو گی۔
یہ پہلا موقع تھا کہ سراج الحق نے کوئی امارت دکھائی اور مشتاق احمد خان کو نہ صرف بٹھانے سے انکار کر دیا بلکہ تحریک انصاف کی مدد کے بغیر جتوا کر بھی دکھا دیا۔ شاید اب تحریک انصاف کو احساس ہوگیا ہو کہ تب سراج الحق بھی ان کے مدد کے بغیر جیت سکتے تھے۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل بھی تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ ایک سیاسی چال چلی تھی۔
عمران خان سید منور حسن کو آخری موقع تک یہ اشارے دیتے رہے کہ تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے تیار ہے۔ اس مقصد کے لیے کمیٹیاں بھی بن گئیں۔ لیکن جب جماعت اسلامی نے مولانا فضل الرحمٰن کو متحدہ مجلس عمل کے لیے مکمل مدد نہ دی تو تحریک انصاف بھی جماعت اسلامی کو میدان میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئی۔ سب کمیٹیاں ختم ہو گئیں۔ جماعت اسلامی میں یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف پر اندھے اعتماد کی قیمت سیدمنور حسن نے اپنی امارت سے چکائی۔
لیکن شاید سراج الحق کی ساری شرافت ایک طرف لیکن وہ سید منور حسن والا دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے انتخابات سے قبل ہی متحدہ مجلس عمل دوبارہ بحال کر لی ہے۔ حالانکہ اس وقت تک بھی جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمٰن الگ الگ کشتیوں کے سوار ہیں۔ لیکن آگے اکٹھے چلنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ معجزہ بھی سراج الحق ہی کر سکتے ہیں۔ اگر قاضی حسین احمد ہوتے تو بات اسی نکتہ پر پھنس جاتی کہ پہلے دونوں جماعتیں حکومتی اتحادوں سے الگ ہوں پھر ہی اکٹھے چل سکتی ہیں۔
شاید سید منور حسن بھی اتنی لچک کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تھے لیکن سراج الحق کو علم ہے کہ موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔ اصل ہد ف زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنا ہے۔ باقی باتیں بعد میں کی جائیں گی۔ جب سیٹیں ہی نہیں ہو نگی تو نظریہ بھی دفن ہو جائے گا۔ نظریہ کو زندہ رکھنے کے لیے سیٹوں کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان تعلقات میں خرابی تب پیدا ہوئی جب سراج الحق نے عمران خان کے شدید اصرار کے باوجود دھرنے میں شرکت سے معذرت کر لی۔ لیکن میں اس فلسفہ کو اس لیے نہیں مانتا کہ پاناما میں تو جماعت اسلامی عمران خان کے ساتھ سپریم کورٹ میں کھڑی تھی۔ قدم سے قدم ملا کر شانے سے شانہ ملا کر کھڑی تھی۔ پھر کیا ہوا ۔ اس کے بعد بھی دونوں جماعتیں اکٹھے چلنے کا کوئی راستہ نہیں نکال سکیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی پہلے دن سے تحریک انصاف کے لیے ایک کڑوی گولی تھی لیکن مصیبت یہ تھی کہ اگر تحریک انصاف یہ کڑوی گولی نہ کھاتی تو حکومت ختم ہو جاتی۔ وہ کہا جاتا ہے کہ جان چلی جائے دمڑی نہ جائے۔اس لیے دمڑی بچانے کے چکر میں ہی تحریک انصاف نے بھی جماعت اسلامی کو پانچ سال برداشت کر لیا۔
اب محبت اور نفرت کے اس حسین رشتہ کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ یہ اپنی طبعی موت مر رہا ہے۔ ایسے موقع پر بیان بازی نظر آرہی ہے لیکن یہ بیان بازی ایسی ہی ہے جیسے جان نکلنے سے پہلے نزع کی حالت میں آخری سانسیں نکلتی ہیں۔ باقی سب خیر ہے۔
بہر حال یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا کے پی کے کی حکومت قائم کرنے والا اتحاد صرف اور صرف سراج الحق کی شرافت کی وجہ سے ہی پانچ سال چل گیا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر سراج الحق کی جگہ اللہ جنت نصیب کرے قاضی حسین احمد جماعت کے امیر ہوتے تو شاید یہ اتحاد ایک سال بھی نہیں چل سکتا تھا۔ جس قسم کی سولو فلائٹ تحریک انصاف نے کی ہے شاید قاضی حسین احمد کا غصہ اور عدم برداشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔
یہ سراج الحق ہی تھے جو سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے پانچ سال گزار گئے۔ ورنہ تحریک انصاف کے ساتھ تو طاہر القادری بھی نہیں چل سکے جنھوں نے ساتھ دھرنا دیا تھا۔سوال یہ بھی ہے کہ اگر سراج الحق کی جگہ سید منور حسن جماعت اسلامی کے امیر ہوتے تو یہ حکومتی اتحاد کتنے دن چل سکتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سید منور حسن امیر جماعت اسلامی ہوتے تب بھی یہ اتحاد دو سال سے زائد نہیں چل سکتا تھا۔ وہ درویش منش انسان بھی شاید اتنی برداشت کا متحمل نہیں تھا۔
یہ سراج الحق ہی ہیں جو اس گاڑی کو ایک پہیہ پر ہی پانچ سال چلا گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان گلے شکوے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جب سے یہ اتحاد قائم ہوا ہے دونوں جماعتوں نے مل کر کے پی کے کی حکومت قائم کی ہے تب سے گلے شکوے چل رہے ہیں۔ لیکن شروع میں یہ بند دروازوں میں رہے لیکن سب سے پہلے ان کو بند دروازوں سے باہر عمران خان ہی لے کر آئے جب انھوں نے سراج الحق کے خلاف بیان داغ دیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر قاضی حسین احمد امیر جماعت ہوتے تو اس بیان کے بعد ہی حکومت ختم ہوجاتی۔ اور بوریا بستر گول ہو جاتا۔ تاہم سراج الحق نے نہ صرف اس بیان کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ خاموشی بھی رکھی۔ لیکن ان کی شرافت کوئی خاص کام نہیں آئی ہے۔ سراج الحق تو گاندھی جی کے فرمودات پر عمل کر رہے تھے کہ اگر کوئی ایک تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کر دو۔ لیکن یہاں تو دوسرا گال آگے بڑھانے پر دوسرا تھپڑ ہی مل جاتا ہے۔
اسی لیے اس بیان کے بعد تحریک انصاف کی کے پی کے کی حکومت نے اپنی ہی کابینہ کے رکن جس کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا کے خلاف اشتہار دے دیا۔ قاضی حسین کی بات تو چھوڑیں اگر سید منور حسن جیسا درویش منش انسان بھی جماعت اسلامی کا امیر ہوتا تو اس اشتہار کے بعد حکومت سے علیحدہ ہو جاتا۔ نقصان کی کوئی پرواہ نہ کرتا۔ کہتا بس بھئی بس اس سے زیادہ برداشت نہیں ہو سکتی۔
لیکن سراج الحق کی برداشت کی تو داد دینی پڑے گی کہ وہ اس کو بھی برداشت کر گئے۔ تحریک انصا ف والے نجی گفتگو میں بہت احسان جتاتے تھے کہ سراج الحق ان کے ووٹوں کی وجہ سے سینیٹر منتخب ہوئے ہیں۔ ورنہ جماعت اسلامی کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ وہ اپنے امیر کو سینیٹر منتخب کروا سکتی۔ حالانکہ جب آپ ایک اتحاد میں ہوتے ہیں تو لین دین چلتا ہے۔ آپ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ لیکن یہاں تو احسان تھا کہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
تحریک انصاف کا موقف تھا کہ چونکہ سراج الحق ان کے ووٹوں کی مدد سے منتخب ہوئے ہیں اس لیے انھیں تحریک انصاف کی پالیسی کے تا بع رہنا چاہیے۔ وہ جماعت اسلامی کے نہیں ہمارے سینیٹر ہیں۔ حالانکہ جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ آپ نے سراج الحق کے لیے ہمیں جتنے ووٹ دیے ہیں خواتین اور ٹیکنوکریٹ کی سیٹوں پر اس سے زیادہ ووٹ ہم نے لوٹا دئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کی ایک ہی رٹ تھی کہ سراج الحق ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔
وہ اللہ کا شکر ہے کہ حالیہ سینیٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مشتاق احمد خان کو سینیٹ میں امیدوار کھڑا کر دیا تو تحریک انصاف نے اتحادی اور حکومتی حلیف ہونے کے باوجود مشتاق احمد خان کی بھی کسی قسم کی مدد سے انکار کر دیا۔ بلکہ جماعت اسلامی کو پیغام دیا کہ چونکہ ہم نے آپ کی کوئی مدد نہیں کرنی اس لیے آپ مشتاق احمد خان کو بٹھا دیں۔ ایسے ہی بیچارے ہار جائیں گے بڑی بے عزتی ہو گی۔
یہ پہلا موقع تھا کہ سراج الحق نے کوئی امارت دکھائی اور مشتاق احمد خان کو نہ صرف بٹھانے سے انکار کر دیا بلکہ تحریک انصاف کی مدد کے بغیر جتوا کر بھی دکھا دیا۔ شاید اب تحریک انصاف کو احساس ہوگیا ہو کہ تب سراج الحق بھی ان کے مدد کے بغیر جیت سکتے تھے۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل بھی تحریک انصاف نے جماعت اسلامی کے ساتھ ایک سیاسی چال چلی تھی۔
عمران خان سید منور حسن کو آخری موقع تک یہ اشارے دیتے رہے کہ تحریک انصاف جماعت اسلامی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے تیار ہے۔ اس مقصد کے لیے کمیٹیاں بھی بن گئیں۔ لیکن جب جماعت اسلامی نے مولانا فضل الرحمٰن کو متحدہ مجلس عمل کے لیے مکمل مدد نہ دی تو تحریک انصاف بھی جماعت اسلامی کو میدان میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئی۔ سب کمیٹیاں ختم ہو گئیں۔ جماعت اسلامی میں یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف پر اندھے اعتماد کی قیمت سیدمنور حسن نے اپنی امارت سے چکائی۔
لیکن شاید سراج الحق کی ساری شرافت ایک طرف لیکن وہ سید منور حسن والا دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے انتخابات سے قبل ہی متحدہ مجلس عمل دوبارہ بحال کر لی ہے۔ حالانکہ اس وقت تک بھی جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمٰن الگ الگ کشتیوں کے سوار ہیں۔ لیکن آگے اکٹھے چلنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ یہ معجزہ بھی سراج الحق ہی کر سکتے ہیں۔ اگر قاضی حسین احمد ہوتے تو بات اسی نکتہ پر پھنس جاتی کہ پہلے دونوں جماعتیں حکومتی اتحادوں سے الگ ہوں پھر ہی اکٹھے چل سکتی ہیں۔
شاید سید منور حسن بھی اتنی لچک کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تھے لیکن سراج الحق کو علم ہے کہ موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔ اصل ہد ف زیادہ سے زیادہ سیٹیں جیتنا ہے۔ باقی باتیں بعد میں کی جائیں گی۔ جب سیٹیں ہی نہیں ہو نگی تو نظریہ بھی دفن ہو جائے گا۔ نظریہ کو زندہ رکھنے کے لیے سیٹوں کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان تعلقات میں خرابی تب پیدا ہوئی جب سراج الحق نے عمران خان کے شدید اصرار کے باوجود دھرنے میں شرکت سے معذرت کر لی۔ لیکن میں اس فلسفہ کو اس لیے نہیں مانتا کہ پاناما میں تو جماعت اسلامی عمران خان کے ساتھ سپریم کورٹ میں کھڑی تھی۔ قدم سے قدم ملا کر شانے سے شانہ ملا کر کھڑی تھی۔ پھر کیا ہوا ۔ اس کے بعد بھی دونوں جماعتیں اکٹھے چلنے کا کوئی راستہ نہیں نکال سکیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی پہلے دن سے تحریک انصاف کے لیے ایک کڑوی گولی تھی لیکن مصیبت یہ تھی کہ اگر تحریک انصاف یہ کڑوی گولی نہ کھاتی تو حکومت ختم ہو جاتی۔ وہ کہا جاتا ہے کہ جان چلی جائے دمڑی نہ جائے۔اس لیے دمڑی بچانے کے چکر میں ہی تحریک انصاف نے بھی جماعت اسلامی کو پانچ سال برداشت کر لیا۔
اب محبت اور نفرت کے اس حسین رشتہ کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ یہ اپنی طبعی موت مر رہا ہے۔ ایسے موقع پر بیان بازی نظر آرہی ہے لیکن یہ بیان بازی ایسی ہی ہے جیسے جان نکلنے سے پہلے نزع کی حالت میں آخری سانسیں نکلتی ہیں۔ باقی سب خیر ہے۔