ذکر کچھ اپنی کوتاہیوں کا
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو اپنے وجود، بقا اور سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق تھے۔
ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، جس کے DNA میں ہزاروں برس کی غلامی رچی بسی ہوئی ہے۔ ایسے معاشرے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بجائے ایک آقا کی غلامی سے نکل کر دوسرے آقا کی غلامی کی بیساکھیوں میں عافیت تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔
اس لیے ان کی اجتماعی نفسیات غیر متوازن ہوجاتی ہے، یعنی جہاں جذباتی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں مٹی کے مادھو ثابت ہوتے ہیں۔ جہاں عقل ودانش اور فہم وفراست درکار ہوتی ہے، وہاں جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی بے ہنگم اور بے ربط چیخ و پکار کرتے ہیں کہ سننے والا ان کے دکھ درد کا احساس کرنے کے بجائے تمسخر اڑانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جو فرد یا افراد اپنے دور کی حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے وہی طوق غلامی پہنتے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ کیونکہ ہمارے منصوبہ ساز ''زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد'' کے مصداق آج بھی سردجنگ کی گھپاؤں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ جو عشق کبھی امریکا کے لیے ہوا کرتا تھا، اب چین کی جانب ہوگیا ہے۔ کبھی امریکا نجات دہندہ تھا، آج چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند نظر آرہی ہے۔
کبھی امریکا کے ساتھ غیر ذمے دارانہ تعلقات پر تنقید کرنے والے غدار کہلاتے تھے، آج چین کو غیر ضروری مراعات دینے پر معترض حلقوں کو ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے۔یہ بات روز روشن کی روز اول ہی سے عیاں تھی کہ امریکا پاکستان کی طرف بحالت مجبوری متوجہ ہوا تھا۔ وگرنہ اس کی دلچسپیوں کا محور تو بھارت تھا۔
امریکی منصوبہ ساز سرد جنگ میں بھارت کو اپنا حلیف بنانے کے خواہشمند تھے۔ ان کے خیال میں بھارت کا وسیع جغرافیہ، بحرہند کے دہانے پر موجود ہونا اور جدید صنعتی انفرااسٹرکچر اس کی تزویراتی اہمیت کو بڑھاوا دینے کا باعث ہے۔ جب کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے عزائم کچھ اور تھے، اس لیے انھوں نے امریکا کا حلیف بننے کی پیشکش کو ٹھکرادیا۔ یوں امریکا پاکستان کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوا۔
ہمیں اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کی خواہش تھی کہ سوویت یونین کو گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک پہنچنے اور کمیونزم کے پھیلاؤ کا راستہ روکا جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ پاکستان کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور ہوا۔ یہی وجہ ہے اس نے جتنے بھی دفاعی معاہدے پاکستان کے ساتھ کیے ان میں یہ شرط عائد کی کہ پاکستان ملنے والی عسکری امداد کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ مگر ہمارے منصوبہ سازوں نے ان معاہدوں کو طاق نسیاں کردیا۔ کیونکہ وہ اپنے عوام کی طرح امریکیوں کو بھی بیوقوف سمجھتے تھے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ روزاول ہی سے امریکا اور پاکستان کی خواہشات اور Perceptions ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد رہیں۔ مگر سرد جنگ کے باعث امریکا ہماری کوتاہیوں کو نظر انداز کرتا رہا اور ہم اس گمان میں رہے کہ ہماری حکمت عملیاں کامیاب ہیں۔ حالانکہ اس پورے عرصے کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مختلف اہلکار اور پاکستان میں تعینات سفرا وقتاً فوقتاً پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کرتے رہے۔
رابرٹ اوکلے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ''ہم نے پاکستان سے جن شرائط پر معاہدے کیے، ان پر مکمل عملدرآمد کیا اور جو امداد متعین کی، وہ وقت سے پہلے ادا کردی، مگر پاکستان نے ان شرائط کی پاسداری نہیں کی''۔ انھوں نے مزید کہا کہ ''سفارتی تعلق میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا، بلکہ ممالک کے مفادات انھیں قریب لاتے یا دور کرتے ہیں۔ اس لیے مخلصانہ دوستی نام کی کوئی اصطلاح خارجہ پالیسی میں نہیں پائی جاتی''۔ مگر ہمارے منصوبہ ساز عشق و محبت کی داستانوں میں استعمال ہونے والے استعاروں سے دل بہلاتے رہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو اپنے وجود، بقا اور سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق تھے۔ کشمیر کا الحاق تنازع کی شکل اختیار کرچکا تھا، معیشت زبوں حالی کا شکار تھی، مہاجرین کی آبادکاری بھی نزاعی شکل اختیار کرچکی تھی، اس لیے پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک کے لیے کسی طاقتور ملک کے مضبوط سہارے کی ضرورت لازمی تھی۔ لیکن ذہین اور باوقار قومیں ایسے نازک مراحل اور نامساعد حالات میں دوراندیشی پر مبنی ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہوجائیں اور قومی وقار بھی مجروح نہ ہونے پائے۔ مگر ہمارے یہاں عوام کی سوچ، رہنماؤںکے تصورات اور انگریز سے ورثے میں ملی بیوروکریسی کے عزائم ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی وانتظامی سمت کا نہ پہلے تعین کیا جاسکا اور نہ اب ہورہا ہے۔
لہٰذا آج امریکی اقدامات پر تنقید کرنے کے بجائے ہمارے منصوبہ سازوں کو اخلاقی جرأت کے ساتھ اپنے فیصلوں اور اقدامات کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ دیکھنے کی بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں کیا نقائص اور کمزوریاں ہیں، جو عالمی سطح پر ہمیں مسائل کی دلدل میں پھنسانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مذہبی شدت پسندی کے بارے میں صرف امریکا اور مغربی دنیا ہی میں تشویش نہیں پائی جاتی، بلکہ چین جیسا دوست ملک بھی مسلسل تحفظات کا اظہار کررہا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کے عوام کی ایک واضح اکثریت مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے سخت نالاں ہے۔ جن مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے بارے میں دنیا شکوک وشبہات کا اظہار کررہی ہے، عوام کی بڑی تعداد بھی ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی، مگر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
جس چین پر آج ہم واری نیاری ہیں، وہاں انسانی حقوق کے عالمگیر اصولوں کا کوئی گزر نہیں۔ نہ ہی امریکا اور مغرب کی طرح سول سوسائٹی مضبوط و مستحکم ہے، جو اپنی حکومت کے غلط اقدامات کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوسکے۔ امریکا حلیف ممالک میں صرف ماہرین بھیجتا تھا، جب کہ چین تو کارکن تک بھیج رہا ہے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ایک مذاکرے میں کہا کہ راہداری پر شاید ہمارے لوگوں کو چینی ٹرکوں میں پنکچر لگانے سے زیادہ کوئی کام کرنے کو نہیں مل سکے گا۔ اس پر ایک دوسرے ماہر معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے کہا کہ بھائی پنکچر لگانے والے بھی چینی ہی ہوں گے۔ اس گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات کدھر جارہے ہیں۔ وزیر پورٹس اور شپنگ میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ گوادر پورٹ کی آمدنی کا 91 فیصد حصہ چینی لے جائیں گے، صرف 9 فیصد پاکستان کو ملے گا۔ مگر یہ باتیں منصوبہ سازوں کی سمجھ میں نہیں آرہیں۔
اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اپنی پالیسیوں اور بیانیہ پر نظر ثانی کریں۔ بدلتی دنیا کے چلن کا ادراک کرتے ہوئے ان میں مناسب تبدیلیاں لائیں۔ دوسروں کے نکتہ نظر سے اختلاف اور ان پر تنقید بہت آسان ہوتی ہے، لیکن خود احتسابی اور اپنی سمت درست کرنے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک بغیر اپنے قومی مفادات کی قیمت پر کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرتا۔ کیونکہ سفارتکاری (Diplomacy) میں اخلاص نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس لیے امریکا ہو یا چین، کسی بھی ملک پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے معاملات کو اپنے طور پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے داغ دھبوں کو تکنے کے بجائے اپنے دامن پر نظر ڈالنا چاہیے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اور ممالک ترقی کرتے اور عالمی سطح پر بلند مقام بناتے ہیں، جو خود انحصاری کو اپنا شعار بناتے ہیں۔
اس لیے ان کی اجتماعی نفسیات غیر متوازن ہوجاتی ہے، یعنی جہاں جذباتی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں مٹی کے مادھو ثابت ہوتے ہیں۔ جہاں عقل ودانش اور فہم وفراست درکار ہوتی ہے، وہاں جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی بے ہنگم اور بے ربط چیخ و پکار کرتے ہیں کہ سننے والا ان کے دکھ درد کا احساس کرنے کے بجائے تمسخر اڑانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جو فرد یا افراد اپنے دور کی حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے وہی طوق غلامی پہنتے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ کیونکہ ہمارے منصوبہ ساز ''زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد'' کے مصداق آج بھی سردجنگ کی گھپاؤں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ دنیا کتنی بدل چکی ہے۔ جو عشق کبھی امریکا کے لیے ہوا کرتا تھا، اب چین کی جانب ہوگیا ہے۔ کبھی امریکا نجات دہندہ تھا، آج چین کی دوستی ہمالیہ سے بلند نظر آرہی ہے۔
کبھی امریکا کے ساتھ غیر ذمے دارانہ تعلقات پر تنقید کرنے والے غدار کہلاتے تھے، آج چین کو غیر ضروری مراعات دینے پر معترض حلقوں کو ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے۔یہ بات روز روشن کی روز اول ہی سے عیاں تھی کہ امریکا پاکستان کی طرف بحالت مجبوری متوجہ ہوا تھا۔ وگرنہ اس کی دلچسپیوں کا محور تو بھارت تھا۔
امریکی منصوبہ ساز سرد جنگ میں بھارت کو اپنا حلیف بنانے کے خواہشمند تھے۔ ان کے خیال میں بھارت کا وسیع جغرافیہ، بحرہند کے دہانے پر موجود ہونا اور جدید صنعتی انفرااسٹرکچر اس کی تزویراتی اہمیت کو بڑھاوا دینے کا باعث ہے۔ جب کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے عزائم کچھ اور تھے، اس لیے انھوں نے امریکا کا حلیف بننے کی پیشکش کو ٹھکرادیا۔ یوں امریکا پاکستان کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوا۔
ہمیں اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا کی خواہش تھی کہ سوویت یونین کو گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک پہنچنے اور کمیونزم کے پھیلاؤ کا راستہ روکا جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ پاکستان کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور ہوا۔ یہی وجہ ہے اس نے جتنے بھی دفاعی معاہدے پاکستان کے ساتھ کیے ان میں یہ شرط عائد کی کہ پاکستان ملنے والی عسکری امداد کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ مگر ہمارے منصوبہ سازوں نے ان معاہدوں کو طاق نسیاں کردیا۔ کیونکہ وہ اپنے عوام کی طرح امریکیوں کو بھی بیوقوف سمجھتے تھے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ روزاول ہی سے امریکا اور پاکستان کی خواہشات اور Perceptions ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد رہیں۔ مگر سرد جنگ کے باعث امریکا ہماری کوتاہیوں کو نظر انداز کرتا رہا اور ہم اس گمان میں رہے کہ ہماری حکمت عملیاں کامیاب ہیں۔ حالانکہ اس پورے عرصے کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مختلف اہلکار اور پاکستان میں تعینات سفرا وقتاً فوقتاً پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کرتے رہے۔
رابرٹ اوکلے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ''ہم نے پاکستان سے جن شرائط پر معاہدے کیے، ان پر مکمل عملدرآمد کیا اور جو امداد متعین کی، وہ وقت سے پہلے ادا کردی، مگر پاکستان نے ان شرائط کی پاسداری نہیں کی''۔ انھوں نے مزید کہا کہ ''سفارتی تعلق میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا، بلکہ ممالک کے مفادات انھیں قریب لاتے یا دور کرتے ہیں۔ اس لیے مخلصانہ دوستی نام کی کوئی اصطلاح خارجہ پالیسی میں نہیں پائی جاتی''۔ مگر ہمارے منصوبہ ساز عشق و محبت کی داستانوں میں استعمال ہونے والے استعاروں سے دل بہلاتے رہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو اپنے وجود، بقا اور سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق تھے۔ کشمیر کا الحاق تنازع کی شکل اختیار کرچکا تھا، معیشت زبوں حالی کا شکار تھی، مہاجرین کی آبادکاری بھی نزاعی شکل اختیار کرچکی تھی، اس لیے پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک کے لیے کسی طاقتور ملک کے مضبوط سہارے کی ضرورت لازمی تھی۔ لیکن ذہین اور باوقار قومیں ایسے نازک مراحل اور نامساعد حالات میں دوراندیشی پر مبنی ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہوجائیں اور قومی وقار بھی مجروح نہ ہونے پائے۔ مگر ہمارے یہاں عوام کی سوچ، رہنماؤںکے تصورات اور انگریز سے ورثے میں ملی بیوروکریسی کے عزائم ایک دوسرے سے متصادم رہے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی وانتظامی سمت کا نہ پہلے تعین کیا جاسکا اور نہ اب ہورہا ہے۔
لہٰذا آج امریکی اقدامات پر تنقید کرنے کے بجائے ہمارے منصوبہ سازوں کو اخلاقی جرأت کے ساتھ اپنے فیصلوں اور اقدامات کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی یہ دیکھنے کی بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں کیا نقائص اور کمزوریاں ہیں، جو عالمی سطح پر ہمیں مسائل کی دلدل میں پھنسانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مذہبی شدت پسندی کے بارے میں صرف امریکا اور مغربی دنیا ہی میں تشویش نہیں پائی جاتی، بلکہ چین جیسا دوست ملک بھی مسلسل تحفظات کا اظہار کررہا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کے عوام کی ایک واضح اکثریت مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے سخت نالاں ہے۔ جن مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے بارے میں دنیا شکوک وشبہات کا اظہار کررہی ہے، عوام کی بڑی تعداد بھی ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی، مگر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
جس چین پر آج ہم واری نیاری ہیں، وہاں انسانی حقوق کے عالمگیر اصولوں کا کوئی گزر نہیں۔ نہ ہی امریکا اور مغرب کی طرح سول سوسائٹی مضبوط و مستحکم ہے، جو اپنی حکومت کے غلط اقدامات کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوسکے۔ امریکا حلیف ممالک میں صرف ماہرین بھیجتا تھا، جب کہ چین تو کارکن تک بھیج رہا ہے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ایک مذاکرے میں کہا کہ راہداری پر شاید ہمارے لوگوں کو چینی ٹرکوں میں پنکچر لگانے سے زیادہ کوئی کام کرنے کو نہیں مل سکے گا۔ اس پر ایک دوسرے ماہر معاشیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے کہا کہ بھائی پنکچر لگانے والے بھی چینی ہی ہوں گے۔ اس گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاملات کدھر جارہے ہیں۔ وزیر پورٹس اور شپنگ میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ گوادر پورٹ کی آمدنی کا 91 فیصد حصہ چینی لے جائیں گے، صرف 9 فیصد پاکستان کو ملے گا۔ مگر یہ باتیں منصوبہ سازوں کی سمجھ میں نہیں آرہیں۔
اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ اپنی پالیسیوں اور بیانیہ پر نظر ثانی کریں۔ بدلتی دنیا کے چلن کا ادراک کرتے ہوئے ان میں مناسب تبدیلیاں لائیں۔ دوسروں کے نکتہ نظر سے اختلاف اور ان پر تنقید بہت آسان ہوتی ہے، لیکن خود احتسابی اور اپنی سمت درست کرنے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک بغیر اپنے قومی مفادات کی قیمت پر کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرتا۔ کیونکہ سفارتکاری (Diplomacy) میں اخلاص نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس لیے امریکا ہو یا چین، کسی بھی ملک پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے معاملات کو اپنے طور پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں کے داغ دھبوں کو تکنے کے بجائے اپنے دامن پر نظر ڈالنا چاہیے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اور ممالک ترقی کرتے اور عالمی سطح پر بلند مقام بناتے ہیں، جو خود انحصاری کو اپنا شعار بناتے ہیں۔