طیبہ تشدد کیس سابق جج راجا خرم اور اہلیہ ماہین کی سزا معطل
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت مئی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی
ہائی کورٹ نے طیبہ تشدد کیس میں مجرم قرار دیے گئے سابق ایڈیشنل اینڈ سیشن جج راجا خرم اور ان کی اہلیہ ماہین کی سزا کا فیصلہ معطل کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فیصلے میں بعض قانونی نکات کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا، اس لئے خصوصی ڈویژن بینچ تشکیل دے کر سماعت کی جائے۔ ملزمان کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بنچ نے سماعت کی۔ عدالت نے سزا کے خلاف اپیل کی سماعت مئی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: سابق جج اور اہلیہ نے عدالتی فیصلہ چیلنج کردیا
واضح رہے کہ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو پیش آیا تھا، چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے بطور ٹرائل کورٹ سماعت کر کے دونوں میاں بیوی کو مجرم قرار دیتے ہوئے ایک ایک سال قید اور 50،50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی تاہم انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا اور بعد میں راجا خرم علی خان اور ماہین نے ٹرائل میں ایک ایک سال قید کی سزا کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فیصلے میں بعض قانونی نکات کو مدِ نظر نہیں رکھا گیا، اس لئے خصوصی ڈویژن بینچ تشکیل دے کر سماعت کی جائے۔ ملزمان کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بنچ نے سماعت کی۔ عدالت نے سزا کے خلاف اپیل کی سماعت مئی کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: سابق جج اور اہلیہ نے عدالتی فیصلہ چیلنج کردیا
واضح رہے کہ کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ 27 دسمبر 2016 کو پیش آیا تھا، چند روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے بطور ٹرائل کورٹ سماعت کر کے دونوں میاں بیوی کو مجرم قرار دیتے ہوئے ایک ایک سال قید اور 50،50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی تاہم انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا اور بعد میں راجا خرم علی خان اور ماہین نے ٹرائل میں ایک ایک سال قید کی سزا کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔