کراچی کی ترقی کے اہم اقدامات
الیکٹرک نے صنعتی زونز میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یقین دلایا ہے کہ صوبہ سندھ میں کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان معاملات طے پاگئے ہیں، پیر سے گیس کی مطلوبہ فراہمی شروع کردی جائے گی، کراچی میں اب لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں طلب سے زیادہ بجلی پیدا کی جارہی ہے، کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ بلوں کی 100فیصد ادائیگی سے مشروط ہے، وہ پیرکو گورنر ہاؤس میں کراچی کے بجلی بحران پر وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ آج سے 190ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی شروع کردی جائے گی، انھوں نے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو واجبات کے معاملات15دن میں حل کرنے کی ہدایت بھی کردی ہے ۔
بلاشبہ وزیراعظم کی کراچی آمد اور اپنی مصروفیات کے باوجود کراچی میں بجلی کا بحران ختم کرنے کی ان کی ہدایات کا شہر قائد میں خیر مقدم کیا گیا، وزیراعظم کا یہ استدلال البتہ موضوع بحث بن سکتا ہے کہ بجلی بحران وفاق اور سندھ کے کسی تنازع کا نتیجہ نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ اب شہر میں بجلی بھی ملے گی اور پانی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا کیونکہ پانی کی فراہمی بھی بجلی سے مشروط ہے۔
وزیراعظم نے واضح طور پر کہا کہ کراچی میں جو بل دے گا اسے بجلی بھی ملے گی۔تاہم اہل کراچی وفاقی حکومت سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کے الیکٹرک کی ہوشربا بلنگ اور بجلی کی پیداوار میں دانستہ تساہل کا بھی نوٹس لیتی جب کہ کئی دن تک کراچی میں گیس اور بجلی محکموں کے حکام میں کشیدگی اور تند وتیز بیانات کا سلسلہ فوری طور پر روکا جاسکتا تھا، بحران اور تنازع کی موجودگی کے باعث ہی وزیراعظم کو کراچی آنا پڑا، یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سندھ حکومت اور وفاق کے مابین دیگر ایشوز پر بھی تناؤ موجود ہے ، الزامات ، شکایات اور فنڈز کی عدم فراہمی کے شکوے بڑی شدت سے کیے جاتے رہے ہیں اس لیے ضرورت ایک کثیر جہتی میکنزم اور اشتراک عمل کے ساتھ ساتھ روادارانہ اور جمہوری رویے کے فروغ کی ہے تاکہ اسپورٹس مین اسپرٹ کے تحت کراچی سمیت سندھ کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے تمام منصوبے افہام و تفہیم اور خیر سگالی کے جذبے سے مکمل کیے جائیں ۔
ملک کے سب سے بڑے شہر میںکنڈا سسٹم ایک ناسور ہے، بجلی کا بل ادا نہ کرنے والوں کو قائل کیا جائے کہ وہ قومی تعمیر نو کے لیے بجلی کا بل ادا کرنے کا کلچر ڈیولپ کریں، یہ درست ہے کہ الیکٹرک نجی ادارہ ہے اسے سرکاری تحویل میں لیے جانے کا امکان نہیں مگر اس کی جوابدہی اور مانیٹرنگ بھی ہونی چاہیے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں طلب سے زیادہ بجلی پیدا ہورہی ہے لیکن جس سسٹم میں40 اور 50فیصد بجلی چوری ہورہی ہو وہاں بجلی کی متواترفراہمی ممکن نہیں۔گرین لائن منصوبے میں تاخیر پر انھوں نے یقین دلایا کہ سندھ حکومت بسیں لے آئے ہم منصوبہ مکمل کردیں گے۔سرکلر ریلوے بھی چلنی چاہیے، ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے مابین گیس سپلائی کے واجبات کا تنازع طے پاگیا ہے اور کے الیکٹرک کو130 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی سپلائی شروع کردی گئی ہے ۔
جس کے بعد کے الیکٹرک نے صنعتی زونز میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے مابین گیس کی فراہمی بڑھانے کا فیصلہ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں کیا گیا، کے الیکٹرک کے ترجمان کے مطابق پیر کی شام سے ایس ایس جی سی نے قدرتی گیس کی فراہمی 90ایم ایم سی ایف ڈی سے بڑھاکر 130ایم ایم سی ایف ڈی کردی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ25ارب روپے کے کراچی پیکیج میں سے 8 ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں۔ اس موقعے پر گورنر سندھ محمد زبیر، مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل، وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی بھی موجود تھے۔ قبل ازیں گورنرہاؤس میں وزیراعظم کی زیرصدارت کراچی کے بجلی بحران پر وفاقی کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں انھیں تفصیلی بریفنگ دی گئی، کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی موجود تھے۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا کہ کراچی میں امن کی بحالی، بھتہ خوری اور قتل وغارت کا خاتمہ نواز شریف کی بصیرت کا ثبوت ہے، کراچی شہر کی رونقوںکو بحال کرنا ہے اوراس مقصد کے لیے ہم ہر ایک سے تعاون کے لیے تیار ہے۔وہ گورنر ہاؤس میں میڈیا مالکان اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے ۔انھوں نے اعتراف کیا کہ کراچی میں امن کو بحال کرنے میں پاک افواج اور رینجرزکاکردار قابل تحسین ہے۔ کراچی میں پانی کا کے۔4منصوبہ ، توانائی، سڑکوںاورموٹروے نوازشریف کے منصوبے ہیں جن پر تیزی سے کام جاری ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے کراچی کو امن اور ترقی کا تحفہ دیا، جب حکومت سنبھالی تو کراچی میں بد امنی تھی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے داؤد ڈینٹل کالج کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقعے پر کیا۔
حکومت نے قومی گرڈ میں 10 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی شامل کی ہے جس سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پایا گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے 1700 کلومیٹر موٹرویز بنائیں۔اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ کراچی کی سیاسی ، سماجی اور معاشی صورتحال میں ابتری کا عمل دو چار برس کی بات نہیں ، اس شہر کی شناخت کو نقصان پہنچانے کی ذمے دار بھی جمہوری اور آمرانہ حکومتیں ہیں، ارباب اختیار جب یہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کراچی کو سیاسی اور جمہوری رواداری ، وسیع المشربی اور بندہ نواز شہر کی شہرت حاصل تھی، تو سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اسے شہر بے اماں بنانے والے کون تھے، ظاہر ہے کہ کمیں گاہ کسی غیر کی نہیں تھی بلکہ ملک کے لارجر دین لائف اسٹیک ہولڈرز اور صوبہ کی سیاست دانوں سے کہیں کوتاہی ہوئی ہوگی کہ پر امن شہر لہو میں ڈوب گیا۔
جس شہر کہ منی پاکستان کا نام اور اعزاز ملا ، اسے بھی ناقصان ہنر نے ایک سازش سے تعبیر کیا ، جب کہ کراچی کی سماجی اور معاشی ترقی میں سارے طبقات شریک رہے، کوئی طبقاتی نفرت ، باہمی بغض و عداوت اور فرقہ واریت و عصبیت کا وجود بھی نہ تھا، مائی کولائی کسی جاگیردار اور وڈیرے کی بیٹی نہ تھی ،ایک مائی گیر خاندان کی چشم وچراغ تھی جس نے کراچی میں امن، محبت ویگانگت اور بھائی چارے کی لڑی میں پرو دیا۔ ان بے نام محنت کشوں، بے لوث اور بے غرض سیاسی رہنماؤں ، ماہرین تعمیرات و اقتصادیات اور لولی لنگڑی جو بھی کہیں جمہوری حکومتوں نے کراچی میں ترقی کے پہیے کو رواں رکھا۔پھر نہ جانے شہر کوکس کی نظر لگ گئی؟
بلاشبہ وزیراعظم کی کراچی آمد اور اپنی مصروفیات کے باوجود کراچی میں بجلی کا بحران ختم کرنے کی ان کی ہدایات کا شہر قائد میں خیر مقدم کیا گیا، وزیراعظم کا یہ استدلال البتہ موضوع بحث بن سکتا ہے کہ بجلی بحران وفاق اور سندھ کے کسی تنازع کا نتیجہ نہیں ہے، ان کا کہنا ہے کہ اب شہر میں بجلی بھی ملے گی اور پانی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا کیونکہ پانی کی فراہمی بھی بجلی سے مشروط ہے۔
وزیراعظم نے واضح طور پر کہا کہ کراچی میں جو بل دے گا اسے بجلی بھی ملے گی۔تاہم اہل کراچی وفاقی حکومت سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کے الیکٹرک کی ہوشربا بلنگ اور بجلی کی پیداوار میں دانستہ تساہل کا بھی نوٹس لیتی جب کہ کئی دن تک کراچی میں گیس اور بجلی محکموں کے حکام میں کشیدگی اور تند وتیز بیانات کا سلسلہ فوری طور پر روکا جاسکتا تھا، بحران اور تنازع کی موجودگی کے باعث ہی وزیراعظم کو کراچی آنا پڑا، یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ سندھ حکومت اور وفاق کے مابین دیگر ایشوز پر بھی تناؤ موجود ہے ، الزامات ، شکایات اور فنڈز کی عدم فراہمی کے شکوے بڑی شدت سے کیے جاتے رہے ہیں اس لیے ضرورت ایک کثیر جہتی میکنزم اور اشتراک عمل کے ساتھ ساتھ روادارانہ اور جمہوری رویے کے فروغ کی ہے تاکہ اسپورٹس مین اسپرٹ کے تحت کراچی سمیت سندھ کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے تمام منصوبے افہام و تفہیم اور خیر سگالی کے جذبے سے مکمل کیے جائیں ۔
ملک کے سب سے بڑے شہر میںکنڈا سسٹم ایک ناسور ہے، بجلی کا بل ادا نہ کرنے والوں کو قائل کیا جائے کہ وہ قومی تعمیر نو کے لیے بجلی کا بل ادا کرنے کا کلچر ڈیولپ کریں، یہ درست ہے کہ الیکٹرک نجی ادارہ ہے اسے سرکاری تحویل میں لیے جانے کا امکان نہیں مگر اس کی جوابدہی اور مانیٹرنگ بھی ہونی چاہیے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں طلب سے زیادہ بجلی پیدا ہورہی ہے لیکن جس سسٹم میں40 اور 50فیصد بجلی چوری ہورہی ہو وہاں بجلی کی متواترفراہمی ممکن نہیں۔گرین لائن منصوبے میں تاخیر پر انھوں نے یقین دلایا کہ سندھ حکومت بسیں لے آئے ہم منصوبہ مکمل کردیں گے۔سرکلر ریلوے بھی چلنی چاہیے، ایک اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے مابین گیس سپلائی کے واجبات کا تنازع طے پاگیا ہے اور کے الیکٹرک کو130 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی سپلائی شروع کردی گئی ہے ۔
جس کے بعد کے الیکٹرک نے صنعتی زونز میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے مابین گیس کی فراہمی بڑھانے کا فیصلہ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں کیا گیا، کے الیکٹرک کے ترجمان کے مطابق پیر کی شام سے ایس ایس جی سی نے قدرتی گیس کی فراہمی 90ایم ایم سی ایف ڈی سے بڑھاکر 130ایم ایم سی ایف ڈی کردی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ25ارب روپے کے کراچی پیکیج میں سے 8 ارب روپے جاری کیے جاچکے ہیں۔ اس موقعے پر گورنر سندھ محمد زبیر، مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل، وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی بھی موجود تھے۔ قبل ازیں گورنرہاؤس میں وزیراعظم کی زیرصدارت کراچی کے بجلی بحران پر وفاقی کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں انھیں تفصیلی بریفنگ دی گئی، کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بھی موجود تھے۔
مسلم لیگ(ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا کہ کراچی میں امن کی بحالی، بھتہ خوری اور قتل وغارت کا خاتمہ نواز شریف کی بصیرت کا ثبوت ہے، کراچی شہر کی رونقوںکو بحال کرنا ہے اوراس مقصد کے لیے ہم ہر ایک سے تعاون کے لیے تیار ہے۔وہ گورنر ہاؤس میں میڈیا مالکان اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے ۔انھوں نے اعتراف کیا کہ کراچی میں امن کو بحال کرنے میں پاک افواج اور رینجرزکاکردار قابل تحسین ہے۔ کراچی میں پانی کا کے۔4منصوبہ ، توانائی، سڑکوںاورموٹروے نوازشریف کے منصوبے ہیں جن پر تیزی سے کام جاری ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے کراچی کو امن اور ترقی کا تحفہ دیا، جب حکومت سنبھالی تو کراچی میں بد امنی تھی۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے داؤد ڈینٹل کالج کی نئی عمارت کے افتتاح کے موقعے پر کیا۔
حکومت نے قومی گرڈ میں 10 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی شامل کی ہے جس سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پایا گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے 1700 کلومیٹر موٹرویز بنائیں۔اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ کراچی کی سیاسی ، سماجی اور معاشی صورتحال میں ابتری کا عمل دو چار برس کی بات نہیں ، اس شہر کی شناخت کو نقصان پہنچانے کی ذمے دار بھی جمہوری اور آمرانہ حکومتیں ہیں، ارباب اختیار جب یہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کراچی کو سیاسی اور جمہوری رواداری ، وسیع المشربی اور بندہ نواز شہر کی شہرت حاصل تھی، تو سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر اسے شہر بے اماں بنانے والے کون تھے، ظاہر ہے کہ کمیں گاہ کسی غیر کی نہیں تھی بلکہ ملک کے لارجر دین لائف اسٹیک ہولڈرز اور صوبہ کی سیاست دانوں سے کہیں کوتاہی ہوئی ہوگی کہ پر امن شہر لہو میں ڈوب گیا۔
جس شہر کہ منی پاکستان کا نام اور اعزاز ملا ، اسے بھی ناقصان ہنر نے ایک سازش سے تعبیر کیا ، جب کہ کراچی کی سماجی اور معاشی ترقی میں سارے طبقات شریک رہے، کوئی طبقاتی نفرت ، باہمی بغض و عداوت اور فرقہ واریت و عصبیت کا وجود بھی نہ تھا، مائی کولائی کسی جاگیردار اور وڈیرے کی بیٹی نہ تھی ،ایک مائی گیر خاندان کی چشم وچراغ تھی جس نے کراچی میں امن، محبت ویگانگت اور بھائی چارے کی لڑی میں پرو دیا۔ ان بے نام محنت کشوں، بے لوث اور بے غرض سیاسی رہنماؤں ، ماہرین تعمیرات و اقتصادیات اور لولی لنگڑی جو بھی کہیں جمہوری حکومتوں نے کراچی میں ترقی کے پہیے کو رواں رکھا۔پھر نہ جانے شہر کوکس کی نظر لگ گئی؟