اندھیر نگری چوپٹ راج
حکم ہوا کہ تماش بین مجمع میں سے تلاش کرو سب سے موٹی گردن کس کی ہے، اسے ہی پھانسی دے کر انصاف کا بول بالا کیا جائے
مشہور کہاوت ہے ''اندھیر نگری چوپٹ راج، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاج۔'' اردو زبان میں مستعمل تمام کہاوتیں اور محاورے اپنے پس منظر میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں رکھتے ہیں جن کی وجہ سے یہ کہاوتیں بنتی ہیں۔ اس کہاوت کے پیچھے بھی ایک چھوٹی سی کہانی ہے، وہ کہانی سنانے سے پہلے ذرا اندھیر نگری کے کچھ حالات تو بیان کردوں، کیونکہ وطن عزیز کے معروضی حالات اور اندھیر نگری کے حالات میں غضب کی مماثلت ہے۔
احوال اس نگری کا کچھ یوں ہے۔ وہاں کے راجا جی خود کو عقل کل سمجھتے تھے، انصاف پرور، بہادر اور با اصول ہونے کا بھی گمان رکھتے تھے، وزراء اور مشیران کی ایک فوج ظفر موج بھرتی کر رکھی تھی جن کا سب سے بڑا وظیفہ دن رات راجا جی کی خوشامد کرنا تھا۔ راجا جی نے خود کو قاضی القضاۃ کے عہدے پر بھی فائز کر رھا تھا۔
خوشامدی وزراء اور مشیران نے تعریفیں کر کر کے راجا جی کو مزید بانس پر چڑھا رکھا تھا۔ راجا جی نے سارے راج میں ہر اک شئے کے نرخ ایک جیسے مقرر کر رکھے تھے۔ یعنی ہر شئے ٹکے سیر، اور یوں اپنے تئیں انہوں نے مہنگائی کو قابو کر رکھا تھا۔ پاس پڑوس اور دور دراز کی دیگر ریاستوں میں اندھیر نگری کے بارے میں کئی واقعات بطور لطائف مشہور تھے۔ دیگر راجا اپنی محفلوں میں اندھیر نگری کے راجا کے واقعات خوب مزے لے لے کر دہرایا کرتے تھے۔
راجہ جی اگر کبھی اپنی ذاتی مصروفیات اور داسیوں سے فرصت پاتے (جو ذرا مشکل ہی سے ملتی) اور ان کے کان میں کوئی ایسی بات پڑ جاتی جو انہیں اندھیر نگری کے بارے میں تشویشناک محسوس ہوتی تو فوراً وزراء و مشیران کو بلا کر باز پرس اور تفتیش کرتے، کیونکہ راجہ بے حد نیک اور خدا ترس انسان تھے۔ وزیر اپنی مکھن پالش کی مہارتیں استعمال کر کے انھیں تسلی دیتے کہ حضور! یہ ذرائع ابلاغ کی کارستانی ہے تاکہ عوام کو آپ کے خلاف کریں۔ یہ سب افواہ سازی ہے۔ آپ بالکل فکر مند نہ ہوں، راج میں سب امن و امان ہے، آپ فکر مند نہ ہوں، اپنی خواب گاہ میں حسبِ سابق آرام فرمائیے۔
تو قارئین کرام، اندھیر نگری کے حالات و واقعات تو اتنے دلچسپ اور طویل ہیں کہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، اور ان کے سامنے ہمارے پاکستان میں پیش آنے والے عجیب و غریب حالات و واقعات بھی پھیکے پڑ جائیں گے، مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے مختصر کرتا ہوں کہ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں، اور اب کہانی کی طرف آتا ہوں۔
ایک دفعہ ایک سیلانی گرو اور چیلا گھومتے پھرتے اندھیر نگری آ نکلے۔ جب چیلے کو معلوم پڑا کہ یہاں تو ہر چیز ہی ٹکے سیر ہے، تو وہ بڑا خوش ہوا اور گرو سے کہا کہ گرو جی، بس اب تو یہیں لمبا قیام کریں گے، خوب کھائیں گے پئیں گے۔ گرو ذرا سیانا تھا، بولا، چیلے یہ خطرے کی بات ہے، ایسی جگہ جہاں سب دام برابر ہوں میں نے پہلے نہیں دیکھی، چل یہاں سے نکلتے ہیں، کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔ چیلہ نہ مانا تو اس کی ضد کے آگے گرو بھی مجبور ہوکر وہیں ٹھر گیا۔ چیلا کھانے پینے کا بہت شوقین تھا، خوب کھاتا پیتا اور مزے اڑاتا، کھا کھا کر ڈشکرا ہو گیا۔
راجا جی کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ ایک کوچوان کے گھوڑے کے بدکنے سے گھوڑا گاڑی الٹی اور ایک آدمی دب کر ہلاک ہوگیا۔ راجا نے کوچبان سے کہا کہ تمہیں پھانسی دی جائے گی، پر جیسا راجا ویسی پرجا، وہ بولا، جناب میرا کیا قصور، ایک عورت جس کے پیروں میں پازیب تھے، وہ گھوڑے کے قریب سے گزری تو شرارتاً پیر زور سے چھن چھنائے جس سے گھوڑا بدکا، ذمہ دار تو پھر عورت ہوئی ناں... عورت کو بلایا گیا، اس نے کہا کہ سنار نے پازیب میں چھنچھناہٹ تیز بنائی تھی، میں تو آرام سے ہی چل رہی تھی، سنار ذمہ دار ہے۔ القصہ مختصر سنار کو بلایا، تو اس نے ذمہ داری کسی اور پر گھما کر اپنی جان بچائی۔ یہ سلسلہ کافی لمبا چلا اور بالاآخر ایک فرد بے چارہ ایسا پھنس گیا جس کو کوئی بہانہ نہ مل سکا۔ چنانچہ اس روتے بلکتے شخص کو پھانسی گھاٹ لے جایا گیا۔ جلاد نے پھندا گلے میں ڈلا تو وہ ڈھیلا نکلا، راجا کو بتایا گیا۔
وہ گرو اور چیلا بھی وہاں پھانسی کا تماشا دیکھنے کو کھڑے تھے، تو راجا نے کہا کہ ترتیب وار تمام ملزمان جو تفتیش سے گزرے ہیں سب پر پھندا ڈال کے دیکھا جائے، جس کے بھی فٹ آجائے اسے ہی پھانسی دے دی جائے، اتفاق سے سارے ہی ملزمان پتلی گردن کے تھے چناچہ پھندا کسی کے بھی فٹ نہ آ سکا۔
راجا بڑا حیران ہوا، کچھ سوچ بچار کے بعد حکم جاری کیا کہ یہ جو مجمع تماشا دیکھنے آیا ہوا ہے اس میں سے تلاش کرو کہ سب سے موٹی گردن کس کی ہے، اسے ہی پھانسی دے کر انصاف کا بول بالا کیا جائے۔ چیلہ جو کھا کھا کر سانڈ ہو چکا تھا، وہ زد میں آ گیا اور اس کے گلے میں پھندا بھی فٹ ہوگیا۔ اسے لے جانے لگے تو وہ زور سے چیخا کہ گرو جی بچاؤ، گرو نے غصہ سے کہا، میں نہیں کہتا تھا کہ یہاں سے نکل چل، اب بھگت، وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ گرو کو ترس آ گیا، اس نے راجا سے کہا کہ میرے چیلے کی بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ راجا نے حیران ہوکر اس بات کی وجہ دریافت کی کہ بھئی گرو جی تم کیوں اپنی جان گنوا رہے ہو؟ تو گرو نے جواب دیا کہ راجا جی، میرے گیان دھیان نے حساب کتاب نے مجھے بتایا ہے کہ اس سمے جو پھانسی چڑھے گا، سیدھا سورگ (جنت) میں جائے گا۔ تو میں اب سورگ میں جاکر مزے کیوں نہ کروں۔ راجا نے یہ سن کر کہا کہ یہ بات ہے تو پھر سورگ میں میں جاؤں گا۔ اور یہ کہہ کر پھانسی پر جھول گیا اور گرو و چیلہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ لیے۔
گرو نے تو اپنے چیلے کو اندھیر نگری کے اندھیر سے کسی نہ کسی طرح بچا ہی لیا، پر ہمیں کون بچائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
احوال اس نگری کا کچھ یوں ہے۔ وہاں کے راجا جی خود کو عقل کل سمجھتے تھے، انصاف پرور، بہادر اور با اصول ہونے کا بھی گمان رکھتے تھے، وزراء اور مشیران کی ایک فوج ظفر موج بھرتی کر رکھی تھی جن کا سب سے بڑا وظیفہ دن رات راجا جی کی خوشامد کرنا تھا۔ راجا جی نے خود کو قاضی القضاۃ کے عہدے پر بھی فائز کر رھا تھا۔
خوشامدی وزراء اور مشیران نے تعریفیں کر کر کے راجا جی کو مزید بانس پر چڑھا رکھا تھا۔ راجا جی نے سارے راج میں ہر اک شئے کے نرخ ایک جیسے مقرر کر رکھے تھے۔ یعنی ہر شئے ٹکے سیر، اور یوں اپنے تئیں انہوں نے مہنگائی کو قابو کر رکھا تھا۔ پاس پڑوس اور دور دراز کی دیگر ریاستوں میں اندھیر نگری کے بارے میں کئی واقعات بطور لطائف مشہور تھے۔ دیگر راجا اپنی محفلوں میں اندھیر نگری کے راجا کے واقعات خوب مزے لے لے کر دہرایا کرتے تھے۔
راجہ جی اگر کبھی اپنی ذاتی مصروفیات اور داسیوں سے فرصت پاتے (جو ذرا مشکل ہی سے ملتی) اور ان کے کان میں کوئی ایسی بات پڑ جاتی جو انہیں اندھیر نگری کے بارے میں تشویشناک محسوس ہوتی تو فوراً وزراء و مشیران کو بلا کر باز پرس اور تفتیش کرتے، کیونکہ راجہ بے حد نیک اور خدا ترس انسان تھے۔ وزیر اپنی مکھن پالش کی مہارتیں استعمال کر کے انھیں تسلی دیتے کہ حضور! یہ ذرائع ابلاغ کی کارستانی ہے تاکہ عوام کو آپ کے خلاف کریں۔ یہ سب افواہ سازی ہے۔ آپ بالکل فکر مند نہ ہوں، راج میں سب امن و امان ہے، آپ فکر مند نہ ہوں، اپنی خواب گاہ میں حسبِ سابق آرام فرمائیے۔
تو قارئین کرام، اندھیر نگری کے حالات و واقعات تو اتنے دلچسپ اور طویل ہیں کہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، اور ان کے سامنے ہمارے پاکستان میں پیش آنے والے عجیب و غریب حالات و واقعات بھی پھیکے پڑ جائیں گے، مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے مختصر کرتا ہوں کہ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں، اور اب کہانی کی طرف آتا ہوں۔
ایک دفعہ ایک سیلانی گرو اور چیلا گھومتے پھرتے اندھیر نگری آ نکلے۔ جب چیلے کو معلوم پڑا کہ یہاں تو ہر چیز ہی ٹکے سیر ہے، تو وہ بڑا خوش ہوا اور گرو سے کہا کہ گرو جی، بس اب تو یہیں لمبا قیام کریں گے، خوب کھائیں گے پئیں گے۔ گرو ذرا سیانا تھا، بولا، چیلے یہ خطرے کی بات ہے، ایسی جگہ جہاں سب دام برابر ہوں میں نے پہلے نہیں دیکھی، چل یہاں سے نکلتے ہیں، کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔ چیلہ نہ مانا تو اس کی ضد کے آگے گرو بھی مجبور ہوکر وہیں ٹھر گیا۔ چیلا کھانے پینے کا بہت شوقین تھا، خوب کھاتا پیتا اور مزے اڑاتا، کھا کھا کر ڈشکرا ہو گیا۔
راجا جی کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ ایک کوچوان کے گھوڑے کے بدکنے سے گھوڑا گاڑی الٹی اور ایک آدمی دب کر ہلاک ہوگیا۔ راجا نے کوچبان سے کہا کہ تمہیں پھانسی دی جائے گی، پر جیسا راجا ویسی پرجا، وہ بولا، جناب میرا کیا قصور، ایک عورت جس کے پیروں میں پازیب تھے، وہ گھوڑے کے قریب سے گزری تو شرارتاً پیر زور سے چھن چھنائے جس سے گھوڑا بدکا، ذمہ دار تو پھر عورت ہوئی ناں... عورت کو بلایا گیا، اس نے کہا کہ سنار نے پازیب میں چھنچھناہٹ تیز بنائی تھی، میں تو آرام سے ہی چل رہی تھی، سنار ذمہ دار ہے۔ القصہ مختصر سنار کو بلایا، تو اس نے ذمہ داری کسی اور پر گھما کر اپنی جان بچائی۔ یہ سلسلہ کافی لمبا چلا اور بالاآخر ایک فرد بے چارہ ایسا پھنس گیا جس کو کوئی بہانہ نہ مل سکا۔ چنانچہ اس روتے بلکتے شخص کو پھانسی گھاٹ لے جایا گیا۔ جلاد نے پھندا گلے میں ڈلا تو وہ ڈھیلا نکلا، راجا کو بتایا گیا۔
وہ گرو اور چیلا بھی وہاں پھانسی کا تماشا دیکھنے کو کھڑے تھے، تو راجا نے کہا کہ ترتیب وار تمام ملزمان جو تفتیش سے گزرے ہیں سب پر پھندا ڈال کے دیکھا جائے، جس کے بھی فٹ آجائے اسے ہی پھانسی دے دی جائے، اتفاق سے سارے ہی ملزمان پتلی گردن کے تھے چناچہ پھندا کسی کے بھی فٹ نہ آ سکا۔
راجا بڑا حیران ہوا، کچھ سوچ بچار کے بعد حکم جاری کیا کہ یہ جو مجمع تماشا دیکھنے آیا ہوا ہے اس میں سے تلاش کرو کہ سب سے موٹی گردن کس کی ہے، اسے ہی پھانسی دے کر انصاف کا بول بالا کیا جائے۔ چیلہ جو کھا کھا کر سانڈ ہو چکا تھا، وہ زد میں آ گیا اور اس کے گلے میں پھندا بھی فٹ ہوگیا۔ اسے لے جانے لگے تو وہ زور سے چیخا کہ گرو جی بچاؤ، گرو نے غصہ سے کہا، میں نہیں کہتا تھا کہ یہاں سے نکل چل، اب بھگت، وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ گرو کو ترس آ گیا، اس نے راجا سے کہا کہ میرے چیلے کی بجائے مجھے پھانسی دے دو۔ راجا نے حیران ہوکر اس بات کی وجہ دریافت کی کہ بھئی گرو جی تم کیوں اپنی جان گنوا رہے ہو؟ تو گرو نے جواب دیا کہ راجا جی، میرے گیان دھیان نے حساب کتاب نے مجھے بتایا ہے کہ اس سمے جو پھانسی چڑھے گا، سیدھا سورگ (جنت) میں جائے گا۔ تو میں اب سورگ میں جاکر مزے کیوں نہ کروں۔ راجا نے یہ سن کر کہا کہ یہ بات ہے تو پھر سورگ میں میں جاؤں گا۔ اور یہ کہہ کر پھانسی پر جھول گیا اور گرو و چیلہ سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ لیے۔
گرو نے تو اپنے چیلے کو اندھیر نگری کے اندھیر سے کسی نہ کسی طرح بچا ہی لیا، پر ہمیں کون بچائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔