ٹرانسپیرنسی کا کے ایس ای کمپنی میں ان سائیڈ ٹریڈنگ کاانکشاف
اسٹاک مارکیٹ کی رجسٹرڈکمپنیوں کے ڈائریکٹرزکواپنی کمپنیوں کے کنٹریکٹ دیے گئے
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کی ایک کمپنی جے ایس کیپیٹل لمیٹڈ (جے ایس سی ایل) کے ڈائریکٹر کو42 لاکھ ڈالر فیس کی ادائیگی کے ذریعے ایزگرڈ نائن لمیٹڈ (اے این ایل) کے حصص کی فروخت میں ''ان سائیڈ ٹریڈنگ''کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی بعض رجسٹرڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کو انکی کمپنیوں کی طرف سے مختلف کنٹریکٹ دیے گئے جوان سائیڈ ٹریڈنگ کے زمرے میںآتے ہیں، ایسی سرگرمیاں روکی جانی چاہیئں۔ ٹرانسپرنسی کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی نے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین محمد علی کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ قانون کے تحت کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر کو اس وقت تک کوئی کنٹریکٹ نہیںدیاجاسکتا جب تک کہ وہ بورڈ آف ڈائریکٹرز میںشامل ہو۔
ٹرانسپرنسی کو جے ایس کیپیٹل لمیٹڈ کے ڈائریکٹر کو 42 لاکھ ڈالر فیس کی ادائیگی کے ذریعے2007-08 اور 2013 میں جے ایس سی ایل کی طرف سے ایزگرڈ نائن لمیٹڈ کے حصص کی فروخت میںان سائیڈ ٹریڈنگ کی شکایات موصول ہوئی ہیں ، اس بارے میں خودایس ای سی پی نے اے این ایل کیخلاف 2 اپریل سے13جولائی2007 اور 29 نومبر 2007سے 22 اپریل2008کے دوران انکوائری کی جس میں پایا گیا کہ حصص کی خریدو فروخت میں صریحاً جوڑتوڑ کی گئی ہے، دونوں مواقع پر جے ایس سی ایل نے اے این ایل کے حصص بڑی مقدار میں خریدے اور مارکیٹ کا توازن بگاڑنے کے علاوہ ان حصص میں آفیشل مارکیٹ بھی بنائی۔
ایک منصوبے کے تحت جے ایس سی ایل نے اے این ایل کے 107 ملین حصص (42فیصد) خریدے جن میں سے88ملین (34 فیصد) 2 اپریل سے13جولائی 2007 کے دورانیے میں فروخت کردیے گئے۔ اسی طرح 29 نومبر2007سے 22اپریل 2008 کے درمیان گروپ نے158 ملین حصص خریدے اور 159ملین حصص(کل مارکیٹ کے حجم کا 28 فیصد) فروخت کیے۔ رپورٹ کے مطابق ایس ای سی پی کی اپنی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ٹریڈنگ کرکے حصص کی قیمتیں چڑھانے کیلیے سرکلر ٹریڈنگ کی گئی۔ مجموعی خریداری کا47 فیصد گروپ کے ارکان میں تقسیم کیا گیا ، اسی طرح 51فیصد فروخت کا منافع بھی تقسیم کیا گیا۔
ایس ای سی پی کی رپورٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2اپریل سے 13 جولائی2007 کے دوران اے این ایل کے حصص کے نرخ 22.85روپے سے بڑھا کر53روپے کردیے گئے جبکہ 29 نومبر2007 سے22اپریل2008 کے درمیان شیئر کی قیمت35روپے فی حصص سے تقریباً تین گنا بڑھا کر96 روپے کردی گئی جو ایس ای سی پی آرڈیننس 1969کی خلاف ورزی ہے۔ ایس ای سی پی کی انکوائری رپورٹ میں جے ایس سی ایل کے 20ارکان کے ناموں اور ان کی طرف سے کیے گئے لین دین کی تفصیل موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹرانسپرنسی نے اپنے خط میں چیئرمین ایس ای سی پی سے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ 'ایگری ٹیک' کا مالک کون ہے؟ ایگری ٹیک کے حصص کی خریداری میں ایزگرڈ نائن کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ ماضی میں PACRAنے ایگری ٹیک کی جھوٹی کریڈٹ ریٹنگ کیوں کی جس میں ایگری ٹیک اور ایزگرڈ نائن کو مستحکم مالی حیثیت کا حامل قرار دیا گیا۔کمپنی کو ایکویٹی کی بنیاد پر Redeemable preference کا درجہ کیوں دیا گیا جبکہ ان حصص کی درجہ بندی کا کیس بدستور ایس ای سی پی کے پاس زیرالتوا ہے۔ کمپنی کے خسارے اور موجودہ اثاثوں میں قابل ادائیگی رقوم کے مقابلے میں کمی سے اس ادارے کے معاملات آگے چلانے کی اہلیت مشکوک نظر آتی ہے۔
کمپنی کی فنانشل اسٹیٹمنٹ مستقبل کے متوقع منافع اور رقوم کے بہائو کے تناظر میں تیار کی جاتی رہیں۔ رپورٹ سے انکشاف ہوتا ہے کہ ایگری ٹیک کا حجم 30جون 2012کو18877.9ملین روپے تھا اگر سابق واجب الادا رقوم بھی شامل کر لی جائیں تو یہ مالیت26ملین روپے تک بڑھ جائے گی۔ اس کمپنی نے سوئی گیس بل اور انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی مد میں900ملین روپے بھی ادا کرنے ہیں۔ ان حقائق کو پیش نظر رکھیں تو ایگری ٹیک بھاری مالیاتی خسارے اور واجب الادا رقوم کے حجم میں اضافہ برداشت نہیں کرسکے گی۔
ایگری ٹیک کی طرف سے بی ایم آر پروجیکٹ پر غیرضروری اخراجات بھی ایک الگ سوال ہے اور اس پلانٹ نے ابھی تک ''گارنٹی ٹیسٹ رن'' بھی کامیابی کیساتھ نہیں کیا جس سے پیداوار کے بارے میں سنگین شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں۔ نیشنل بینک کی سربراہی میں ایک کنسورشیم نے 27جون 2012 میں 34 روپے فی حصص کے حساب سے ایگری ٹیک کا کنٹرول سنبھالا حالانکہ اس وقت حصص کی اسٹاک ایکسچینج میں مالیت 17روپے تھی۔ مالیاتی اداروں کے سربراہوں کو اس بات کا پتہ چلانا چاہیے کہ اس مالی خوردبرد میں کون ملوث ہے۔ ایس ای سی پی نے2اپریل 2013میں جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی لمیٹڈ کیخلاف اپنے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر بیٹے علی صدیقی کو مشاورت فیس کی مد میں 42لاکھ ڈالر کی غیرمعمولی ادائیگی کی۔
اسی طرح کمیشن نے علی صدیقی کو ICTSI ماریشس کیساتھ معاہدے کی تیاری کیلیے مشاورت فیس کی مد میں 442.94 ملین روپے ادائیگی کا بھی نوٹس لیا۔ ایس ای سی پی نے جے ایس سی ایل کے سی ای او سلیمان للانی کو کمپنی کے چیئرمین کے بیٹے کو غیرقانونی طور پر رقوم کی ادئیگی پر نوٹس جاری کیا۔جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی PICT میں شیئرہولڈر تھا اور بورڈ میں اس کے2ڈائریکٹر بھی تھے۔ PICT کی ڈیل کا جے ایس سی ایل کو علم تھا، یوں جے ایس سی ایل کے حصص کی فروخت میں اندرونی معلومات کا غلط استعمال کیا گیا۔ جہانگیر صدیقی کے بیٹے کو بغیر وجہ کے42لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔
عادل گیلانی نے لکھا ہے کہ یہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور بادی النظر میں سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کیخلاف ہیں۔ کیونکہ کمیشن نے 2008میں معاملے کی انکوائری کر کے 20 افراد کو موردالزام بھی ٹھہرایا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ قبل ازیں ٹرانسپرنسی نے 8ستمبر 2011 کو بھی ایس ای سی پی کو خط لکھا تھا۔ اگر اس وقت ایکشن لیا جاتا تو یہ غیرقانونی ادائیگی نہ ہوتی۔ لہٰذا ایس ای سی پی اپنے اور جے ایس سی ایل کیخلاف اس شکایت کا جائزہ لے کر قانون کے تحت کارروائی کرے۔ خط کی نقول وزیراعظم ہائوس، چیئرمین نیب، رجسٹرار سپریم کورٹ، آڈیٹر جنرل اور چیئرپرسن مسابقتی کمیشن کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کی بعض رجسٹرڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کو انکی کمپنیوں کی طرف سے مختلف کنٹریکٹ دیے گئے جوان سائیڈ ٹریڈنگ کے زمرے میںآتے ہیں، ایسی سرگرمیاں روکی جانی چاہیئں۔ ٹرانسپرنسی کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی نے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین محمد علی کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ قانون کے تحت کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر کو اس وقت تک کوئی کنٹریکٹ نہیںدیاجاسکتا جب تک کہ وہ بورڈ آف ڈائریکٹرز میںشامل ہو۔
ٹرانسپرنسی کو جے ایس کیپیٹل لمیٹڈ کے ڈائریکٹر کو 42 لاکھ ڈالر فیس کی ادائیگی کے ذریعے2007-08 اور 2013 میں جے ایس سی ایل کی طرف سے ایزگرڈ نائن لمیٹڈ کے حصص کی فروخت میںان سائیڈ ٹریڈنگ کی شکایات موصول ہوئی ہیں ، اس بارے میں خودایس ای سی پی نے اے این ایل کیخلاف 2 اپریل سے13جولائی2007 اور 29 نومبر 2007سے 22 اپریل2008کے دوران انکوائری کی جس میں پایا گیا کہ حصص کی خریدو فروخت میں صریحاً جوڑتوڑ کی گئی ہے، دونوں مواقع پر جے ایس سی ایل نے اے این ایل کے حصص بڑی مقدار میں خریدے اور مارکیٹ کا توازن بگاڑنے کے علاوہ ان حصص میں آفیشل مارکیٹ بھی بنائی۔
ایک منصوبے کے تحت جے ایس سی ایل نے اے این ایل کے 107 ملین حصص (42فیصد) خریدے جن میں سے88ملین (34 فیصد) 2 اپریل سے13جولائی 2007 کے دورانیے میں فروخت کردیے گئے۔ اسی طرح 29 نومبر2007سے 22اپریل 2008 کے درمیان گروپ نے158 ملین حصص خریدے اور 159ملین حصص(کل مارکیٹ کے حجم کا 28 فیصد) فروخت کیے۔ رپورٹ کے مطابق ایس ای سی پی کی اپنی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ٹریڈنگ کرکے حصص کی قیمتیں چڑھانے کیلیے سرکلر ٹریڈنگ کی گئی۔ مجموعی خریداری کا47 فیصد گروپ کے ارکان میں تقسیم کیا گیا ، اسی طرح 51فیصد فروخت کا منافع بھی تقسیم کیا گیا۔
ایس ای سی پی کی رپورٹ سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2اپریل سے 13 جولائی2007 کے دوران اے این ایل کے حصص کے نرخ 22.85روپے سے بڑھا کر53روپے کردیے گئے جبکہ 29 نومبر2007 سے22اپریل2008 کے درمیان شیئر کی قیمت35روپے فی حصص سے تقریباً تین گنا بڑھا کر96 روپے کردی گئی جو ایس ای سی پی آرڈیننس 1969کی خلاف ورزی ہے۔ ایس ای سی پی کی انکوائری رپورٹ میں جے ایس سی ایل کے 20ارکان کے ناموں اور ان کی طرف سے کیے گئے لین دین کی تفصیل موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹرانسپرنسی نے اپنے خط میں چیئرمین ایس ای سی پی سے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ 'ایگری ٹیک' کا مالک کون ہے؟ ایگری ٹیک کے حصص کی خریداری میں ایزگرڈ نائن کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ ماضی میں PACRAنے ایگری ٹیک کی جھوٹی کریڈٹ ریٹنگ کیوں کی جس میں ایگری ٹیک اور ایزگرڈ نائن کو مستحکم مالی حیثیت کا حامل قرار دیا گیا۔کمپنی کو ایکویٹی کی بنیاد پر Redeemable preference کا درجہ کیوں دیا گیا جبکہ ان حصص کی درجہ بندی کا کیس بدستور ایس ای سی پی کے پاس زیرالتوا ہے۔ کمپنی کے خسارے اور موجودہ اثاثوں میں قابل ادائیگی رقوم کے مقابلے میں کمی سے اس ادارے کے معاملات آگے چلانے کی اہلیت مشکوک نظر آتی ہے۔
کمپنی کی فنانشل اسٹیٹمنٹ مستقبل کے متوقع منافع اور رقوم کے بہائو کے تناظر میں تیار کی جاتی رہیں۔ رپورٹ سے انکشاف ہوتا ہے کہ ایگری ٹیک کا حجم 30جون 2012کو18877.9ملین روپے تھا اگر سابق واجب الادا رقوم بھی شامل کر لی جائیں تو یہ مالیت26ملین روپے تک بڑھ جائے گی۔ اس کمپنی نے سوئی گیس بل اور انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی مد میں900ملین روپے بھی ادا کرنے ہیں۔ ان حقائق کو پیش نظر رکھیں تو ایگری ٹیک بھاری مالیاتی خسارے اور واجب الادا رقوم کے حجم میں اضافہ برداشت نہیں کرسکے گی۔
ایگری ٹیک کی طرف سے بی ایم آر پروجیکٹ پر غیرضروری اخراجات بھی ایک الگ سوال ہے اور اس پلانٹ نے ابھی تک ''گارنٹی ٹیسٹ رن'' بھی کامیابی کیساتھ نہیں کیا جس سے پیداوار کے بارے میں سنگین شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں۔ نیشنل بینک کی سربراہی میں ایک کنسورشیم نے 27جون 2012 میں 34 روپے فی حصص کے حساب سے ایگری ٹیک کا کنٹرول سنبھالا حالانکہ اس وقت حصص کی اسٹاک ایکسچینج میں مالیت 17روپے تھی۔ مالیاتی اداروں کے سربراہوں کو اس بات کا پتہ چلانا چاہیے کہ اس مالی خوردبرد میں کون ملوث ہے۔ ایس ای سی پی نے2اپریل 2013میں جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی لمیٹڈ کیخلاف اپنے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر بیٹے علی صدیقی کو مشاورت فیس کی مد میں 42لاکھ ڈالر کی غیرمعمولی ادائیگی کی۔
اسی طرح کمیشن نے علی صدیقی کو ICTSI ماریشس کیساتھ معاہدے کی تیاری کیلیے مشاورت فیس کی مد میں 442.94 ملین روپے ادائیگی کا بھی نوٹس لیا۔ ایس ای سی پی نے جے ایس سی ایل کے سی ای او سلیمان للانی کو کمپنی کے چیئرمین کے بیٹے کو غیرقانونی طور پر رقوم کی ادئیگی پر نوٹس جاری کیا۔جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی PICT میں شیئرہولڈر تھا اور بورڈ میں اس کے2ڈائریکٹر بھی تھے۔ PICT کی ڈیل کا جے ایس سی ایل کو علم تھا، یوں جے ایس سی ایل کے حصص کی فروخت میں اندرونی معلومات کا غلط استعمال کیا گیا۔ جہانگیر صدیقی کے بیٹے کو بغیر وجہ کے42لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔
عادل گیلانی نے لکھا ہے کہ یہ الزامات انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں اور بادی النظر میں سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کیخلاف ہیں۔ کیونکہ کمیشن نے 2008میں معاملے کی انکوائری کر کے 20 افراد کو موردالزام بھی ٹھہرایا تھا لیکن اس کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ قبل ازیں ٹرانسپرنسی نے 8ستمبر 2011 کو بھی ایس ای سی پی کو خط لکھا تھا۔ اگر اس وقت ایکشن لیا جاتا تو یہ غیرقانونی ادائیگی نہ ہوتی۔ لہٰذا ایس ای سی پی اپنے اور جے ایس سی ایل کیخلاف اس شکایت کا جائزہ لے کر قانون کے تحت کارروائی کرے۔ خط کی نقول وزیراعظم ہائوس، چیئرمین نیب، رجسٹرار سپریم کورٹ، آڈیٹر جنرل اور چیئرپرسن مسابقتی کمیشن کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔