بجلی کا بحران کیوں
گیس سے600 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، مگر صرف چار سو میگا واٹ پیدا کی جارہی ہے۔
لاہور:
گزشتہ پیر کو وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں گو کہ کراچی میں بجلی کی پیداوار کے حوالے مختلف شراکت داروں اور ذمے داروں کے درمیان مصالحت کرا کے اس بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا ہے، مگر کیا یہ مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل ہے؟
دوسرے مسئلہ صرف کراچی تک محدود نہیں ، بلکہ بجلی کے بحران نے گزشتہ دو دہائیوں سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ اس لیے اس مسئلے کا جو حل وزیر اعظم نے پیش کیا، وہ وقتی تو ہے ، مستقل نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ نہ تو ملک میں موجود پاور پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں کمی ہے اور نہ وسائل کی کمیابی۔ اصل معاملہ نا اہلی، غیر ذمے داری اور موقع پرستی کا ہے، اگر سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ درست انداز میں وسائل کو استعمال کیا جائے، تو اس بحران پر قابو پایا جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
چونکہ کراچی پورے ملک میں بجلی بحران کے وسیع تر کینوس کا ایک نمونہ ہے۔اس لیے اس شہر کے بحران کو نظیر کے طور پر زیر مطالعہ لاکر پورے ملک میں بجلی کے بحران کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔کراچی شہر کو بجلی کی فراہمی کے لیے برٹش انڈیاکی حکومت نے1913 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن(MASS.) کے نام سے ایک پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی قائم کی تھی، جو مئیر کراچی کے تابع ہوا کرتی تھی۔ اس وقت شہر کی آبادی بمشکل پونے تین لاکھ کے لگ بھگ تھی۔اس لیے 35میگا واٹ بجلی شہر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت بجلی کی سپلائی 52میگاواٹ کے لگ بھگ ہوچکی تھی ، کیونکہ شہر کی آبادی پونے چار لاکھ (1941کی مردم شماری کے مطابق) تھی۔
قیام پاکستان کے بعد شہر پر مہاجرین کا دباؤ بڑھا اور آبادی 10لاکھ کے قریب (1951کی مردم شماری) پہنچ گئی ، مگر بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں ۔ اول،KESC کو حکومت نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی طرح اپنی تحویل میں لے کرنیم سرکاری ادارہ بنا دیا۔ جس کی وجہ سے مئیر کا اختیار ختم ہوگیا۔ دوئم ، شہر کی آبادی میں اضافہ اور نئی بستیوں کے آباد ہونے کے باوجود اس کی سپلائی نظام کو جدید بنانے پر توجہ نہیں دی گئی ۔ تیسرا المیہ یہ ہوا کہ 1959میں جب ایوب خان وفاقی دارالحکومت کراچی سے اٹھا کر اسلام آباد لے گئے، تو کراچی پورٹ ٹرسٹ اور KESCکی آمدنی بھی اپنے ساتھ اسلام آباد لے گئے ۔ جس کی وجہ سے اس کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری اسلام آباد سے ہونے لگی۔یوں کمپنی پر کراچی کے مئیر اور سندھ حکومت کا اختیار ختم ہوگیا۔
جب کومے نے ہنس کی چال چلنے کا فیصلہ کیا اور نجکاری کا فیشن عام ہوا، تو حکومت نے پہلے مرحلے میں ہر اس شعبے اور ادارے کی نجکاری کردی ،جو منفعت بخش تھا۔چنانچہ PTCLکے ساتھ KESC کی بھی نجکاری ہوگئی۔2005 میں امارات کی ایک کمپنیAbraajنے KESCکو خرید کر 2009 میں اس کا نام KE (کراچی الیکٹرک )کر دیا۔اس کمپنی میں سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک طاقتور سیاسی شخصیت بھی حصے دار ہے۔اس لیے اس کے معاملات میں صرف سندھ کی صوبائی حکومت ہی نہیں وفاقی حکومت بھی مداخلت کرنے سے گریز کرتی ہے ، جس کی وجہ سے اس کی من مانیاں جاری ہیں۔
ہمارے ایک دوست برکت راجپوت نے جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، کراچی میں بجلی کی پیداوار اور سپلائی کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھیجے ہیں، جو قارئین کی نذر کرنا چاہیں گے۔ برکت صاحب کی مہیا کردہ معلومات کے مطابق کراچی میں گرمیوں کے موسم میں 2,200میگاواٹ ، جب کہ سردیوں میں 1,600 میگاواٹ بجلی کی طلب ہوتی ہے۔ KEکی بجلی پیدا کرنے کی اپنی استعداد 2,100میگاواٹ ہے۔11سو میگاواٹ بجلی وہ WAPDAسے خریدتی ہے۔ اس طرح کمپنی کے پاس 32 سو میگا واٹ بجلی ہونی چاہیے۔ جو شہر اور اطراف کی طلب سے تقریبا ًایک ہزار واٹ زیادہ ہے، لیکن KE، 21 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے بجائے صرف 400 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہے، کیونکہ کمپنی نے تیل سے چلنے والے دو پلانٹ گزشتہ کئی برسوں سے بند کیے ہوئے ہیں۔
گیس سے600 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، مگر صرف چار سو میگا واٹ پیدا کی جارہی ہے۔ یوں KE کراچی شہر کو عام دنوں میں بھی 1,500 میگا واٹ بجلی کی سپلائی کی جاتی ہے، جو57 فیصد شہریوں کو بلاتعطل، جب کہ 43 فیصد کو 4سے6گھنٹے تعطل کے ساتھ ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کے ای پر سوئی سدرن گیس کمپنی (SSGC)کے82ارب روپے واجب الادا ہیں۔ جس کی وجہ سے گیس کمپنی نے گیس کی سپلائی بند کردی ہے۔ یوں شہر کو 22سو میگا واٹ کے بجائے صرف وہی11سو میگا واٹ بجلی دی جا رہی ہے،جو نیشنل گرڈ سے مل رہی ہے ۔ نتیجتاً بجلی کا بحران پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ وزیر اعظم یا کسی بھی اہم سرکاری شخصیت کی مداخلت سے یہ بحران وقتی طورپر ٹل جاتا ہے، مگر دیرپا اور ٹھوس حل میں حکمران اشرافیہ کے بعض خصوصی مفادات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے یہاں چند سوالات پیدا ہورہے ہیں۔اول، یہ ہے کہ KE اپنی استعداد کے مطابق 21سو میگا واٹ بجلی کیوں پیدا نہیں کررہی؟ اس کے کیا اسباب ہیں، عوام کے سامنے کیوں نہیں لائے جارہے؟ دوئم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اس کمپنی میں کیا Stakes ہیں، جو عوام سے دانستہ پوشیدہ رکھے جارہے ہیں؟ سوئم، KE اور گیس کمپنی کے درمیان رقم کی ادائیگی کے علاوہ دیگر تنازعات منظر عام پر کیوں نہیں آرہے؟
اب ملک میں بجلی کے بحران کی طرف آئیے! پورے ملک میں بجلی کی مجموعی طلب28ہزار میگاواٹ ہے۔ جسے ملک میں لگے پاور پلانٹ پورا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں، مگر حکمران اشرافیہ کی نااہلی، بے بصیرتی اور بے عملی کے سبب بیشتر پلانٹ یا تو بند ہیں یا اپنی استعداد سے کم بجلی پیدا کررہے ہیں، کیونکہ حکومت انھیں قیمت ادا کرنے میں پس و پیش اور تاخیری حربے استعمال کرتی ہے۔اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور منتظمہ کی غیر ذمے دارانہ منصوبہ بندی اور غیر پیداواری شاہانہ اخراجات کی وجہ سے نہ صرف بیرونی قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، بلکہ گردشی قرضے بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں ۔ جو ترقیاتی منصوبوں میں مالیاتی اور انتظامی بے ضابطگیوں کا باعث ہیں ۔ دوئم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے معاملے پرگہرے تنازعات ترقیاتی امور میں رکاوٹ ہیں۔
ماہرین کی رائے میں اگر گلگت بلتستان میں پن بجلی (پانی سے بجلی پیدا کرنے) کے پلانٹ لگائے جائیں ، تو دو لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ جب کہ جیونی (بلوچستان) سے بدین (سندھ) تک سمندری ہوا سے ونڈ مل (Windmill)کے ذریعے اتنی بجلی پیدا ہوسکتی ہے، جو ساحلی علاقوں کے علاوہ قرب جوار کے شہروں کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔اس کے علاوہ شمسی توانائی کے ذریعے سستی بجلی پیدا کرنے کا رجحان پوری دنیا میں عام ہے، جب کہ ہمارے یہاں سال کے365میں سے 350دن کم و بیش سورج چمک کر اپنی کرنوں سے پورے ملک کو منور کر رہا ہوتا ہے۔
اس سے بلاکسی رکاوٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، لہٰذا پھر عرض ہے کہ معاملہ سیاسی بصیرت اور عزم کا ہے۔ حکمران اشرافیہ میں اگر دوراندیشی، فکری وسعت اور عمل کرنے کی جرأت رندانہ ہو، تو پاکستان جیسے قدرتی وسائل سے مالامال ملک میں سستی بجلی پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
گزشتہ پیر کو وزیر اعظم نے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں گو کہ کراچی میں بجلی کی پیداوار کے حوالے مختلف شراکت داروں اور ذمے داروں کے درمیان مصالحت کرا کے اس بحران کو وقتی طور پر ٹال دیا ہے، مگر کیا یہ مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل ہے؟
دوسرے مسئلہ صرف کراچی تک محدود نہیں ، بلکہ بجلی کے بحران نے گزشتہ دو دہائیوں سے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ اس لیے اس مسئلے کا جو حل وزیر اعظم نے پیش کیا، وہ وقتی تو ہے ، مستقل نہیں ۔ دوسری بات یہ کہ نہ تو ملک میں موجود پاور پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں کمی ہے اور نہ وسائل کی کمیابی۔ اصل معاملہ نا اہلی، غیر ذمے داری اور موقع پرستی کا ہے، اگر سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ درست انداز میں وسائل کو استعمال کیا جائے، تو اس بحران پر قابو پایا جانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
چونکہ کراچی پورے ملک میں بجلی بحران کے وسیع تر کینوس کا ایک نمونہ ہے۔اس لیے اس شہر کے بحران کو نظیر کے طور پر زیر مطالعہ لاکر پورے ملک میں بجلی کے بحران کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔کراچی شہر کو بجلی کی فراہمی کے لیے برٹش انڈیاکی حکومت نے1913 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن(MASS.) کے نام سے ایک پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی قائم کی تھی، جو مئیر کراچی کے تابع ہوا کرتی تھی۔ اس وقت شہر کی آبادی بمشکل پونے تین لاکھ کے لگ بھگ تھی۔اس لیے 35میگا واٹ بجلی شہر کی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت بجلی کی سپلائی 52میگاواٹ کے لگ بھگ ہوچکی تھی ، کیونکہ شہر کی آبادی پونے چار لاکھ (1941کی مردم شماری کے مطابق) تھی۔
قیام پاکستان کے بعد شہر پر مہاجرین کا دباؤ بڑھا اور آبادی 10لاکھ کے قریب (1951کی مردم شماری) پہنچ گئی ، مگر بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں ۔ اول،KESC کو حکومت نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی طرح اپنی تحویل میں لے کرنیم سرکاری ادارہ بنا دیا۔ جس کی وجہ سے مئیر کا اختیار ختم ہوگیا۔ دوئم ، شہر کی آبادی میں اضافہ اور نئی بستیوں کے آباد ہونے کے باوجود اس کی سپلائی نظام کو جدید بنانے پر توجہ نہیں دی گئی ۔ تیسرا المیہ یہ ہوا کہ 1959میں جب ایوب خان وفاقی دارالحکومت کراچی سے اٹھا کر اسلام آباد لے گئے، تو کراچی پورٹ ٹرسٹ اور KESCکی آمدنی بھی اپنے ساتھ اسلام آباد لے گئے ۔ جس کی وجہ سے اس کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری اسلام آباد سے ہونے لگی۔یوں کمپنی پر کراچی کے مئیر اور سندھ حکومت کا اختیار ختم ہوگیا۔
جب کومے نے ہنس کی چال چلنے کا فیصلہ کیا اور نجکاری کا فیشن عام ہوا، تو حکومت نے پہلے مرحلے میں ہر اس شعبے اور ادارے کی نجکاری کردی ،جو منفعت بخش تھا۔چنانچہ PTCLکے ساتھ KESC کی بھی نجکاری ہوگئی۔2005 میں امارات کی ایک کمپنیAbraajنے KESCکو خرید کر 2009 میں اس کا نام KE (کراچی الیکٹرک )کر دیا۔اس کمپنی میں سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک طاقتور سیاسی شخصیت بھی حصے دار ہے۔اس لیے اس کے معاملات میں صرف سندھ کی صوبائی حکومت ہی نہیں وفاقی حکومت بھی مداخلت کرنے سے گریز کرتی ہے ، جس کی وجہ سے اس کی من مانیاں جاری ہیں۔
ہمارے ایک دوست برکت راجپوت نے جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں، کراچی میں بجلی کی پیداوار اور سپلائی کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھیجے ہیں، جو قارئین کی نذر کرنا چاہیں گے۔ برکت صاحب کی مہیا کردہ معلومات کے مطابق کراچی میں گرمیوں کے موسم میں 2,200میگاواٹ ، جب کہ سردیوں میں 1,600 میگاواٹ بجلی کی طلب ہوتی ہے۔ KEکی بجلی پیدا کرنے کی اپنی استعداد 2,100میگاواٹ ہے۔11سو میگاواٹ بجلی وہ WAPDAسے خریدتی ہے۔ اس طرح کمپنی کے پاس 32 سو میگا واٹ بجلی ہونی چاہیے۔ جو شہر اور اطراف کی طلب سے تقریبا ًایک ہزار واٹ زیادہ ہے، لیکن KE، 21 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے بجائے صرف 400 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہے، کیونکہ کمپنی نے تیل سے چلنے والے دو پلانٹ گزشتہ کئی برسوں سے بند کیے ہوئے ہیں۔
گیس سے600 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، مگر صرف چار سو میگا واٹ پیدا کی جارہی ہے۔ یوں KE کراچی شہر کو عام دنوں میں بھی 1,500 میگا واٹ بجلی کی سپلائی کی جاتی ہے، جو57 فیصد شہریوں کو بلاتعطل، جب کہ 43 فیصد کو 4سے6گھنٹے تعطل کے ساتھ ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کے ای پر سوئی سدرن گیس کمپنی (SSGC)کے82ارب روپے واجب الادا ہیں۔ جس کی وجہ سے گیس کمپنی نے گیس کی سپلائی بند کردی ہے۔ یوں شہر کو 22سو میگا واٹ کے بجائے صرف وہی11سو میگا واٹ بجلی دی جا رہی ہے،جو نیشنل گرڈ سے مل رہی ہے ۔ نتیجتاً بجلی کا بحران پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ وزیر اعظم یا کسی بھی اہم سرکاری شخصیت کی مداخلت سے یہ بحران وقتی طورپر ٹل جاتا ہے، مگر دیرپا اور ٹھوس حل میں حکمران اشرافیہ کے بعض خصوصی مفادات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے یہاں چند سوالات پیدا ہورہے ہیں۔اول، یہ ہے کہ KE اپنی استعداد کے مطابق 21سو میگا واٹ بجلی کیوں پیدا نہیں کررہی؟ اس کے کیا اسباب ہیں، عوام کے سامنے کیوں نہیں لائے جارہے؟ دوئم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اس کمپنی میں کیا Stakes ہیں، جو عوام سے دانستہ پوشیدہ رکھے جارہے ہیں؟ سوئم، KE اور گیس کمپنی کے درمیان رقم کی ادائیگی کے علاوہ دیگر تنازعات منظر عام پر کیوں نہیں آرہے؟
اب ملک میں بجلی کے بحران کی طرف آئیے! پورے ملک میں بجلی کی مجموعی طلب28ہزار میگاواٹ ہے۔ جسے ملک میں لگے پاور پلانٹ پورا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں، مگر حکمران اشرافیہ کی نااہلی، بے بصیرتی اور بے عملی کے سبب بیشتر پلانٹ یا تو بند ہیں یا اپنی استعداد سے کم بجلی پیدا کررہے ہیں، کیونکہ حکومت انھیں قیمت ادا کرنے میں پس و پیش اور تاخیری حربے استعمال کرتی ہے۔اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور منتظمہ کی غیر ذمے دارانہ منصوبہ بندی اور غیر پیداواری شاہانہ اخراجات کی وجہ سے نہ صرف بیرونی قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، بلکہ گردشی قرضے بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں ۔ جو ترقیاتی منصوبوں میں مالیاتی اور انتظامی بے ضابطگیوں کا باعث ہیں ۔ دوئم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے معاملے پرگہرے تنازعات ترقیاتی امور میں رکاوٹ ہیں۔
ماہرین کی رائے میں اگر گلگت بلتستان میں پن بجلی (پانی سے بجلی پیدا کرنے) کے پلانٹ لگائے جائیں ، تو دو لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ جب کہ جیونی (بلوچستان) سے بدین (سندھ) تک سمندری ہوا سے ونڈ مل (Windmill)کے ذریعے اتنی بجلی پیدا ہوسکتی ہے، جو ساحلی علاقوں کے علاوہ قرب جوار کے شہروں کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔اس کے علاوہ شمسی توانائی کے ذریعے سستی بجلی پیدا کرنے کا رجحان پوری دنیا میں عام ہے، جب کہ ہمارے یہاں سال کے365میں سے 350دن کم و بیش سورج چمک کر اپنی کرنوں سے پورے ملک کو منور کر رہا ہوتا ہے۔
اس سے بلاکسی رکاوٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، لہٰذا پھر عرض ہے کہ معاملہ سیاسی بصیرت اور عزم کا ہے۔ حکمران اشرافیہ میں اگر دوراندیشی، فکری وسعت اور عمل کرنے کی جرأت رندانہ ہو، تو پاکستان جیسے قدرتی وسائل سے مالامال ملک میں سستی بجلی پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔