گفتار تلخ
دنیا بڑی عجیب ہے یارو کس کو کیا کہیں اور کیوں کہیں؟ صحیح ہے نا ہم توکسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
دادا جان نے اپنی جوانی میں اس بڑے گھر میں تمام اقسام کے پودے لگائے۔گھر کے بالکل درمیان میں نیم کا پودا لگایا۔ وقت کے ساتھ رفتہ رفتہ پودے بڑھتے رہے۔ نیم کا پودا بہت بڑا گھنا درخت ہوگیا اس میں پرندوں نے اپنے گھونسلے بھی بنائے۔
دادا جان کا انتقال ہوگیا لیکن ان کی یادیں ان تمام پودوں میں موجود ہیں۔ میں جب پودوں کو دیکھتا دادا جان یاد آجاتے میں اب بہت بوڑھا ہوچکا ہوں، اولادیں ساری جوان شادی شدہ بلکہ ان کے بچے بھی بڑے ہوگئے۔ ایک دن میں نے اپنے بیٹے کو بلایا اس سے میں نے کہا بیٹا ذرا بتانا یہ کیا ہے۔ بیٹا بولا ابا میاں یہ وہی نیم کا درخت ہے جو آپ کے دادا نے لگایا تھا۔
اس گھر میں بلکہ اس نیم کے درخت کے نیچے چار پائی پر لیٹے لیٹے اﷲ کو پیارے ہوگئے اور میرے دادا جان نے بھی اسی گھر میں وفات پائی۔ میں بول رہا تھا ہاں بیٹا اب میرا وقت آگیا ہے بڑھاپا بڑھتا جارہا ہے ایک دن میں بھی چل بسوںگا۔ ارے میں تو بھول گیا بیٹا تم نے بتایا نہیں یہ کیا ہے۔ بیٹا بولا ابا میاں پہلے بتایا یہ نیم کا درخت ہے، اس دفعہ اس کے لہجے میں معمولی سی سختی تھی۔ تیسری بار میں نے پوچھا بیٹا یہ کیا ہے؟ جھلا کر چڑ چڑاتے ہوئے لڑکا غصے میں آیا بولا کیا بات ہے بہت زیادہ بڑھاپا آگیا ہے یاد نہیں رہتا یہ نیم کا درخت ہے۔ کتنی بار آپ کو بتاؤں آپ کے سمجھ میں نہیں آرہا میرا دماغ خالی کردیا۔ میں نے برخوردار سے کہا بیٹے صرف ایک منٹ کی بات ہے۔
میرے پاس بیٹھ جاؤ میں نے بڑے پیار و شفقت سے کہا، لڑکا بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے گالوں پر پیار سے تھپتھپایا مسرت بھرے انداز میں کہا، بیٹا تم چھوٹے تھے اور تمہارے دادا بھی حیات تھے جب تم نے مجھ سے تقریباً 20 سے زیادہ مرتبہ پوچھا ابا یہ کیا ہے اور میں نے کہا بیٹا یہ کوا ہے۔
ایک کوا جو نیم کی ایک شاخ پر کائیں کائیں کررہا تھا شاید اس کا گھونسلا بھی اسی درخت میں تھا۔ تم پوچھتے رہے اور میں پیار بھرے لہجے سے بتاتا رہا بلکہ تمہاری امی گئیں غصہ کرنے لگیں میں نے کہا۔ اسے کچھ نہ کہو بچہ ہے اس کو کیا معلوم وہ ہم سے نہیں پوچھے گا تو پھر کس سے پوچھے گا۔ بیٹا میں نے اس قدر پوچھنے پر ذرا بھی برا نہیں منایا۔ تم نے صرف تین بار بتانے پر غصہ کیا اور جھاڑ پھٹکار کی۔ کہنے لگے سن لیا آپ نے یہ ہے آج کل ان اولادوں کی حالت۔ میں سب کو نہیں بلکہ چند کو ضرور کہوں گا جو اسی طرح ہوں گے۔
میں نے کہا یہ بات تو شروع سے ہے اب بے راہ وری بڑھتی جا رہی ہے ایسے نو دولتیے لڑکے ہیں جن کو اپنے باپ کی دولت اور طاقت بڑی سے بڑی جگہ رسائی پر گھمنڈ ہے۔ جیسے میرے صاحبزادے نے تیسری بار کرخت لہجہ استعمال کیا۔ جب وہ تین دفعہ میں جھنجھلاتے ہوئے غصے میں اگر سخت لہجہ اختیار کرسکتا ہے تو یقینا اگر کوئی بات دوسری بارکی جائے تو ضرور ناراض ہو گا۔ بڑھاپے میں خوف یہ بھی آتا ہے، کیسی تربیت دی جو ناکام ثابت ہوئی جس معاشرے کو انھوں نے اپنی رسم و تہذیب و تمدن تو دورکی بات کسی پر اکتفا نہیں کرتے صاف طور سے کہتے ہیں نیا دور ہے ان پر ان باتوں کو نہ دہرائیں اب یہی کہوں گا تخم تاثیر محبت کا اثر۔ شاید محبت کا اثر ہو تربیت میں تو کوئی کمی نہیں چھوڑی اسکول میں بھی اساتذہ نے اچھی تربیت دی کیا کہہ سکتے ہیں آنے والا دن کیسا ہو گا ۔
میں تم کو کوئٹہ میں مقیم حاجی زرین خان کی بات بتاؤں جناح روڈ پر ان کے بڑے ہوٹل ہیں کافی کمرے ہیں مختلف جگہ سے لوگ آتے ہیں اور کرایہ پر کمرہ میں رہتے ہیں۔ پہلی دفعہ جب میں کوئٹہ گیا تو کسی نے حاجی زرین خان کے نام ایک رقعہ تحریر کر کے دیا۔ میں ان کے ہوٹل گیا۔ رقعہ دکھایا انھوں نے اچھا سلوک کیا اور ایک بڑا وسع شاندار کمرہ دیا اور کرایہ بھی نصف لیا۔ اور بھی بھائی ان کے کوئٹہ میں ہیں۔ دو بھائی۔ لڑکے، بھتیجے یہاں دونوں ہوٹلوں کو دیکھتے ہیں۔
دوسرے بھائی کوئٹہ سے دور گاؤں میں زرعی زمین سنبھال رہے ہیں کثرت سے زیرہ پیدا ہوتا ہے۔ حاجی صاحب سے جب گپ شپ ہوئی تو انھوں نے مجھے ایک بڑی اہم خاص سچ بات بتائی۔ کہنے لگے جس کمرے میں آپ ہیں اس کے برابر والے کمرے میں ایک جوان لڑکا جو میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا وہ اس کمرے میں چند یوم کے لیے رہائش پذیر ہوا کیوں کہ میڈیکل کالج کی چھٹی ہونے سے کالج بند ہو گیا تھا اور ہوسٹل بھی خالی ہو چکا تھا ۔ یہ لڑکا اپنا وقت گزارنے میرے ہوٹل میں آیا میں نے طالب علم جانتے ہوئے اس کو نصف کرایہ پر کمرہ دے دیا۔ ایک دن صبح 10 بجے میں نے دیکھا ایک بوڑھا شخص کپڑے پھٹے ہوئے، جوتے پھٹے ہوئے، ہاتھ میں کچھ لیے چلا آرہا ہے۔
میں ریسیپشن پر بیٹھا تھا وہ میرے پاس آیا اس نے بتایا میرا لڑکا آپ کے ہوٹل میں ہے ڈاکٹری پڑھ رہا ہے میں پہچان گیا۔ میں نے اس کو لڑکے کا کمرہ بتایا جب اس نے کمرے پر جا کر دستک دے کر کھڑا ہوا، لڑکے نے دروازہ کھولا باپ کو دیکھتے ہی بگڑ گیا پشتو زبان میں بہت برا کہا بولا کیوں یہاںآگئے کیا ضرورت تھی آنے کی؟ باپ نے کہا تمہارا کالج بند ہے گاؤں آجاتے اچھا وقت گزرتا تمہاری ماں بہت یاد کرتی ہیں تمہارے لیے کھانا بھیجا ہے بناکر۔ جو ہاتھ میں سامان تھا وہ اس کو بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو اس میں کھانا ہے اور جو تم پسند کرتے ہو وہ بھی تمہاری ماں نے بنایا ہے۔ لڑکے نے دروازے سے ان کو جھڑک کر کہا بس واپس چلے جائیں اور آیندہ کبھی نہ آیئے گا۔
میری بے عزتی ہے کسی کو پتا چلے کہ اس طرح کا تمہارا باپ ہے؟ باپ بولا ٹھیک ہے بیٹا میں تمہاری بے عزتی کرنے نہیں آیا اگر یہ معلوم ہوتا میرے آنے سے تمہاری بے عزتی ہوگی تو میں کبھی نہ آتا۔ لیکن یہ کھانا تو رکھ لو، لڑکے نے کہا مجھے نہیں چاہیے اس کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ حاجی زرین خان نے کہا میں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور سن رہا تھا۔ بڑی شرمندگی سے اس کا باپ میرے سامنے سے گزرا لیکن میرا دل نہ مانا میں آگے گیا میں نے اس سے پشتو میں بات کی۔ یہ ''پشین'' کا رہنے والا تھا۔ اس نے ساری زمین فروخت کیں تاکہ وہ اس لڑکے کو ڈاکٹر بناسکے۔
جب یہ سب کچھ بتایا مجھے بڑا افسوس ہوا اس قدر افسوس کہ ماں جس نے پیدا کیا اس نے اس کے لیے جو کھانا بناکر بھیجا وہ تک نہ لیا۔ ساری بات سن کر آکر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا یہ کیسا لڑکا جس نے اپنے باپ کی ایسی بے عزتی کی جب کہ یہاں تو کوئی دوست یا کوئی اس کا واقف کار نہ تھا۔ حاجی صاحب نے کہا میں یہ بات سیکڑوں لوگوں کو بتاچکا ہوں اب یہ بڑا ڈاکٹر بن چکا ہے اور یہاں جناح روڈ پر اسپیشلسٹ ہے بھاری فیس لیتا ہے بہت مشہور ہے۔ اب دیکھو ایسے بھی لوگ ہیں کس کو کیا کہیں تم اب کی بات کررہے ہو یہ جو بات بتائی ہے اس کو تیس سال ہوگئے اب شاید اس کا باپ دنیا میں نہ ہو لیکن جو اس کا رویہ تھا کسی اولاد کا اپنے باپ کے ساتھ اس طرح بات کرنا وہ بھی تعلیم یافتہ لڑکا یہ نہیں کہ ان پڑھ ہو ہاں یہ ضرور ہے ان کا باپ ضرور ان پڑھ تھا۔
دنیا بڑی عجیب ہے یارو کس کو کیا کہیں اور کیوں کہیں؟ صحیح ہے نا ہم توکسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ہم ان پر اپنی ریت و رواج کو لیے ہوئے جن کو نہیں بھول سکے شاید مرتے دم تک نہ بھول پائیں۔ پہلے جب رشتے کے لیے کسی کے گھر جاتے تھے تو ذات، ذریعہ آمدن، تعلیم، حسب نسب پوچھتے تھے۔ اب یہ سب کچھ ختم ہے یہ دیکھتے ہیں کوٹھی، بنگلہ کہاں کس علاقے میں ہے کتنی کاریں ہیں۔ ماہانہ آمدنی کتنی ہے، خواہ چوری کی ہو اس سے واسطہ نہیں، نہ ہی ذات پوچھتے ہیں اور حسب نسب سے تو کوئی تعلق ہی نہیں بس چمک پر رشتہ طے کردیتے ہیں۔
دادا جان کا انتقال ہوگیا لیکن ان کی یادیں ان تمام پودوں میں موجود ہیں۔ میں جب پودوں کو دیکھتا دادا جان یاد آجاتے میں اب بہت بوڑھا ہوچکا ہوں، اولادیں ساری جوان شادی شدہ بلکہ ان کے بچے بھی بڑے ہوگئے۔ ایک دن میں نے اپنے بیٹے کو بلایا اس سے میں نے کہا بیٹا ذرا بتانا یہ کیا ہے۔ بیٹا بولا ابا میاں یہ وہی نیم کا درخت ہے جو آپ کے دادا نے لگایا تھا۔
اس گھر میں بلکہ اس نیم کے درخت کے نیچے چار پائی پر لیٹے لیٹے اﷲ کو پیارے ہوگئے اور میرے دادا جان نے بھی اسی گھر میں وفات پائی۔ میں بول رہا تھا ہاں بیٹا اب میرا وقت آگیا ہے بڑھاپا بڑھتا جارہا ہے ایک دن میں بھی چل بسوںگا۔ ارے میں تو بھول گیا بیٹا تم نے بتایا نہیں یہ کیا ہے۔ بیٹا بولا ابا میاں پہلے بتایا یہ نیم کا درخت ہے، اس دفعہ اس کے لہجے میں معمولی سی سختی تھی۔ تیسری بار میں نے پوچھا بیٹا یہ کیا ہے؟ جھلا کر چڑ چڑاتے ہوئے لڑکا غصے میں آیا بولا کیا بات ہے بہت زیادہ بڑھاپا آگیا ہے یاد نہیں رہتا یہ نیم کا درخت ہے۔ کتنی بار آپ کو بتاؤں آپ کے سمجھ میں نہیں آرہا میرا دماغ خالی کردیا۔ میں نے برخوردار سے کہا بیٹے صرف ایک منٹ کی بات ہے۔
میرے پاس بیٹھ جاؤ میں نے بڑے پیار و شفقت سے کہا، لڑکا بیٹھ گیا۔ میں نے اس کے گالوں پر پیار سے تھپتھپایا مسرت بھرے انداز میں کہا، بیٹا تم چھوٹے تھے اور تمہارے دادا بھی حیات تھے جب تم نے مجھ سے تقریباً 20 سے زیادہ مرتبہ پوچھا ابا یہ کیا ہے اور میں نے کہا بیٹا یہ کوا ہے۔
ایک کوا جو نیم کی ایک شاخ پر کائیں کائیں کررہا تھا شاید اس کا گھونسلا بھی اسی درخت میں تھا۔ تم پوچھتے رہے اور میں پیار بھرے لہجے سے بتاتا رہا بلکہ تمہاری امی گئیں غصہ کرنے لگیں میں نے کہا۔ اسے کچھ نہ کہو بچہ ہے اس کو کیا معلوم وہ ہم سے نہیں پوچھے گا تو پھر کس سے پوچھے گا۔ بیٹا میں نے اس قدر پوچھنے پر ذرا بھی برا نہیں منایا۔ تم نے صرف تین بار بتانے پر غصہ کیا اور جھاڑ پھٹکار کی۔ کہنے لگے سن لیا آپ نے یہ ہے آج کل ان اولادوں کی حالت۔ میں سب کو نہیں بلکہ چند کو ضرور کہوں گا جو اسی طرح ہوں گے۔
میں نے کہا یہ بات تو شروع سے ہے اب بے راہ وری بڑھتی جا رہی ہے ایسے نو دولتیے لڑکے ہیں جن کو اپنے باپ کی دولت اور طاقت بڑی سے بڑی جگہ رسائی پر گھمنڈ ہے۔ جیسے میرے صاحبزادے نے تیسری بار کرخت لہجہ استعمال کیا۔ جب وہ تین دفعہ میں جھنجھلاتے ہوئے غصے میں اگر سخت لہجہ اختیار کرسکتا ہے تو یقینا اگر کوئی بات دوسری بارکی جائے تو ضرور ناراض ہو گا۔ بڑھاپے میں خوف یہ بھی آتا ہے، کیسی تربیت دی جو ناکام ثابت ہوئی جس معاشرے کو انھوں نے اپنی رسم و تہذیب و تمدن تو دورکی بات کسی پر اکتفا نہیں کرتے صاف طور سے کہتے ہیں نیا دور ہے ان پر ان باتوں کو نہ دہرائیں اب یہی کہوں گا تخم تاثیر محبت کا اثر۔ شاید محبت کا اثر ہو تربیت میں تو کوئی کمی نہیں چھوڑی اسکول میں بھی اساتذہ نے اچھی تربیت دی کیا کہہ سکتے ہیں آنے والا دن کیسا ہو گا ۔
میں تم کو کوئٹہ میں مقیم حاجی زرین خان کی بات بتاؤں جناح روڈ پر ان کے بڑے ہوٹل ہیں کافی کمرے ہیں مختلف جگہ سے لوگ آتے ہیں اور کرایہ پر کمرہ میں رہتے ہیں۔ پہلی دفعہ جب میں کوئٹہ گیا تو کسی نے حاجی زرین خان کے نام ایک رقعہ تحریر کر کے دیا۔ میں ان کے ہوٹل گیا۔ رقعہ دکھایا انھوں نے اچھا سلوک کیا اور ایک بڑا وسع شاندار کمرہ دیا اور کرایہ بھی نصف لیا۔ اور بھی بھائی ان کے کوئٹہ میں ہیں۔ دو بھائی۔ لڑکے، بھتیجے یہاں دونوں ہوٹلوں کو دیکھتے ہیں۔
دوسرے بھائی کوئٹہ سے دور گاؤں میں زرعی زمین سنبھال رہے ہیں کثرت سے زیرہ پیدا ہوتا ہے۔ حاجی صاحب سے جب گپ شپ ہوئی تو انھوں نے مجھے ایک بڑی اہم خاص سچ بات بتائی۔ کہنے لگے جس کمرے میں آپ ہیں اس کے برابر والے کمرے میں ایک جوان لڑکا جو میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا وہ اس کمرے میں چند یوم کے لیے رہائش پذیر ہوا کیوں کہ میڈیکل کالج کی چھٹی ہونے سے کالج بند ہو گیا تھا اور ہوسٹل بھی خالی ہو چکا تھا ۔ یہ لڑکا اپنا وقت گزارنے میرے ہوٹل میں آیا میں نے طالب علم جانتے ہوئے اس کو نصف کرایہ پر کمرہ دے دیا۔ ایک دن صبح 10 بجے میں نے دیکھا ایک بوڑھا شخص کپڑے پھٹے ہوئے، جوتے پھٹے ہوئے، ہاتھ میں کچھ لیے چلا آرہا ہے۔
میں ریسیپشن پر بیٹھا تھا وہ میرے پاس آیا اس نے بتایا میرا لڑکا آپ کے ہوٹل میں ہے ڈاکٹری پڑھ رہا ہے میں پہچان گیا۔ میں نے اس کو لڑکے کا کمرہ بتایا جب اس نے کمرے پر جا کر دستک دے کر کھڑا ہوا، لڑکے نے دروازہ کھولا باپ کو دیکھتے ہی بگڑ گیا پشتو زبان میں بہت برا کہا بولا کیوں یہاںآگئے کیا ضرورت تھی آنے کی؟ باپ نے کہا تمہارا کالج بند ہے گاؤں آجاتے اچھا وقت گزرتا تمہاری ماں بہت یاد کرتی ہیں تمہارے لیے کھانا بھیجا ہے بناکر۔ جو ہاتھ میں سامان تھا وہ اس کو بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو اس میں کھانا ہے اور جو تم پسند کرتے ہو وہ بھی تمہاری ماں نے بنایا ہے۔ لڑکے نے دروازے سے ان کو جھڑک کر کہا بس واپس چلے جائیں اور آیندہ کبھی نہ آیئے گا۔
میری بے عزتی ہے کسی کو پتا چلے کہ اس طرح کا تمہارا باپ ہے؟ باپ بولا ٹھیک ہے بیٹا میں تمہاری بے عزتی کرنے نہیں آیا اگر یہ معلوم ہوتا میرے آنے سے تمہاری بے عزتی ہوگی تو میں کبھی نہ آتا۔ لیکن یہ کھانا تو رکھ لو، لڑکے نے کہا مجھے نہیں چاہیے اس کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ حاجی زرین خان نے کہا میں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور سن رہا تھا۔ بڑی شرمندگی سے اس کا باپ میرے سامنے سے گزرا لیکن میرا دل نہ مانا میں آگے گیا میں نے اس سے پشتو میں بات کی۔ یہ ''پشین'' کا رہنے والا تھا۔ اس نے ساری زمین فروخت کیں تاکہ وہ اس لڑکے کو ڈاکٹر بناسکے۔
جب یہ سب کچھ بتایا مجھے بڑا افسوس ہوا اس قدر افسوس کہ ماں جس نے پیدا کیا اس نے اس کے لیے جو کھانا بناکر بھیجا وہ تک نہ لیا۔ ساری بات سن کر آکر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا یہ کیسا لڑکا جس نے اپنے باپ کی ایسی بے عزتی کی جب کہ یہاں تو کوئی دوست یا کوئی اس کا واقف کار نہ تھا۔ حاجی صاحب نے کہا میں یہ بات سیکڑوں لوگوں کو بتاچکا ہوں اب یہ بڑا ڈاکٹر بن چکا ہے اور یہاں جناح روڈ پر اسپیشلسٹ ہے بھاری فیس لیتا ہے بہت مشہور ہے۔ اب دیکھو ایسے بھی لوگ ہیں کس کو کیا کہیں تم اب کی بات کررہے ہو یہ جو بات بتائی ہے اس کو تیس سال ہوگئے اب شاید اس کا باپ دنیا میں نہ ہو لیکن جو اس کا رویہ تھا کسی اولاد کا اپنے باپ کے ساتھ اس طرح بات کرنا وہ بھی تعلیم یافتہ لڑکا یہ نہیں کہ ان پڑھ ہو ہاں یہ ضرور ہے ان کا باپ ضرور ان پڑھ تھا۔
دنیا بڑی عجیب ہے یارو کس کو کیا کہیں اور کیوں کہیں؟ صحیح ہے نا ہم توکسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ہم ان پر اپنی ریت و رواج کو لیے ہوئے جن کو نہیں بھول سکے شاید مرتے دم تک نہ بھول پائیں۔ پہلے جب رشتے کے لیے کسی کے گھر جاتے تھے تو ذات، ذریعہ آمدن، تعلیم، حسب نسب پوچھتے تھے۔ اب یہ سب کچھ ختم ہے یہ دیکھتے ہیں کوٹھی، بنگلہ کہاں کس علاقے میں ہے کتنی کاریں ہیں۔ ماہانہ آمدنی کتنی ہے، خواہ چوری کی ہو اس سے واسطہ نہیں، نہ ہی ذات پوچھتے ہیں اور حسب نسب سے تو کوئی تعلق ہی نہیں بس چمک پر رشتہ طے کردیتے ہیں۔