ہم اور خنجر برہان پوری
خنجر برہان پوری کو اگر کسی مشاعرے یا ادبی محفل میں نہ بلایا جائے تب بھی اس میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔
ملک کے نوجوان شاعر خنجر برہان پوری ایک تقریب میں کھانے پینے کے بعد بد ہضمی کا شکار ہوئے تو دوستوں نے ادبی دنیا کو ان کے حال سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھنے کے لیے، کھانے کے بعد تقریب میں اوندھے منہ گرنے، قے کرنے، ڈنڈا ڈولی کر کے اٹھانے، چنگچی میں ڈالنے، اسپتال لے جانے، بیڈ پر لٹانے اورانجکشن لگنے تک کے تمام مناظر براہ راست نشر کر دیے۔
مخالفین کی چھاتیوں پر مونگ دلنے اور دل کا غبار ہلکا کرنے کے بعد جب وہ پیٹ کا بار کم کرنے کے لیے بمشکل واش روم کی طرف لپکے تو ڈاکٹر نے بد نامی کے ڈر سے براہ راست نشر یات منقطع کروا دیں کہ وہ خود بھی اپنے اوزاروں اور ٹونٹی stethoscopسمیت ان جذباتی مناظر میں نظر آ رہے تھے۔
خنجر برہان پوری ملک کے ان گنت شاعروں کی طرح اس وہم میں مبتلا ہیں کہ وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ مشہور شاعر ہیں۔ان کے بقول بڑی عمر کے شاعر اُن سے اس لیے جلتے ہیں کہ اُن کی تخلیقات کہیں دو یا تین ماہ کے بعد صرف ایک دفعہ ہی کسی ادبی رسالے کی زینت بنتی ہیں مگرمیری کوئی نہ کوئی تازہ نظم یا غزل نہ صرف روزانہ فیس بک کی زینت بنتی ہے، بلکہ اس پر ''فرینڈز'' کی جانب سے تیس سے لے کر پچاس تک کی تعداد میں ''لائیک'' کے نشانات بھی ثبت ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اشعار پسند کرنے والے زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق نائی، قصائی، حلوائی اور نان بائی سے لے کر زندگی کے ان تمام شعبوں سے ہوتا ہے جن میں فنون لطیفہ کے بجائے پیسے کو عزت دی جاتی ہے، ذرا سوچیے تو اس سے زیادہ ادب پروری اور شعر فہمی کیا ہو سکتی ہے۔ اپنے اشعار موقر ادبی رسائل میں نہ چھپنے کی ایک وجہ وہ بزرگ لکھاریوں کی مدیران سے دوستی اوراپنے کلام میں چھپی فلسفیانہ موشگافیاں بھی قرار دیتے ہیں جوہر کسی کی سمجھ میں مشکل سے ہی آتی ہیں۔
خنجر برہان پوری کو اگر کسی مشاعرے یا ادبی محفل میں نہ بلایا جائے تب بھی اس میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ ان کے بقول کسی ادبی تقریب کا دعوت نامہ نہ بھی ملے تب بھی اس میں شریک ہونا چاہیے تاکہ مخالف شعرا کو غیبت کا موقع نہ مل سکے۔ وسیع القلب اتنے ہیں کہ میرؔ کے بہتر نشتر پڑھے بغیر ہی انھیں بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں، مگر کہتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ میرؔ کے بہتر نشتروں کے بجائے ہمارے ایک دو خنجر ہی سامعین کا جگر چھلنی کر نے کے لیے کافی ہیں۔
عبیداللہ علیم کے اس مصرعے سے بھی انھیں بالکل اتفاق نہیں کہ ''پہلا شاعر میرؔ ہوا تھا اُس کے بعد ہوں میں۔'' اُن کے خیال میں عبید اللہ علیم ہمارے عروج کے زمانے تک زندہ رہتے تو اپنے مجموعے ''چاند چہرہ ستارہ آنکھیں '' سے یہ مصرعہ نکال باہر کرتے۔ کہتے ہیں غالبؔ اس لیے پسند نہیں کہ اسے سمجھنے کے لیے فارسی اور عربی کا لغت حفظ کرنا پڑتی ہے اس کے باوجود' کاو کاو سخت جانی' جیسے الفاظ سر سے گزر جاتے ہیں ۔
خنجر برہان پوری اپنی گوناںگوں مصروفیات کی وجہ سے اگر کسی عام ادبی نشست میں شریک نہ بھی ہو سکیں تو ''سِکہ بند مصنفین'' کی تنقیدی نشستوں میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان نشستوں میں مخالف شعرا کو جس طرح ذلیل کرنے کا موقع ملتا ہے وہ کسی غیر ادبی نشست میں ممکن ہی نہیں۔ وہ فلمی دھنوں پر طبع آزمائی کے ساتھ اساتذہ کے کلام کی پیروڈیاں بنانے کے زیادہ قائل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ زمانہ جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے اگر ہم نے اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ نہ کیا تو ترقی یافتہ اقوام کی گرد کو بھی نہیں چھو پائیں گے جس سے بچنے کے لیے نوجوانوں کو کتابوں کے بجائے یو ٹیوب اور فیس بک سے علم کے موتی جمع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ بچپن کے دنوں میں اپنے نصاب میں شامل
مرا دل لبھاتی ہے میری کتاب
بہت مجھ کو بھاتی ہے میری کتاب
مجھے صاف رہنے کے اچھے اصول
سکھاتی پڑھاتی ہے میری کتاب
جیسی نظموں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نظم کے شاعر احمد حسین خان ہماری رائے سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر نصاب میںایسی فرسودہ نظموں کی کیا اب تو اسکول میں کتابیں پڑھانے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اس کے باوجود وزیرتعلیم ( اگر کوئی ہے تو) یا نصابی کمیٹی مناسب سمجھے تو ہماری اصلاح کے بعد اس نظم کو چھاپنے میں کوئی مضائقہ نہیں جو کچھ یوں ہو گی۔
مرا دل لبھائے مری فیس بک
بہت مجھ کو بھائے مری فیس بک
مجھے فیل ہونے کے سارے اصول
سکھائے پڑھائے مری فیس بُک
خنجر برہان پوری شاعری میں زبان و بیان کی بہتری کے بہت قائل ہیں۔ وہ لالی وڈ کی ہر دوسری فلم کو نہ صرف کئی باردیکھتے ہیں بلکہ کہانی اور گیتوں میں برتی جانے والی علامات، تشبیہات اور استعاروں سے بھی خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ''آپ کو ابّا حضور نے یاد کیا ہے۔'' کے بجائے ''تیرے کو تیرا باپ بُلاتا ہے۔'' زیادہ جامع اور با معنیٰ جملہ ہے۔
نوجوان ہوں یا بوڑھے اگر ان کا تعلق کمپیوٹر اور اس سے جڑے ٹویٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ، ایمو، یو ٹیوب اور فیس بک سے نہیں تو وہ اپنے ہم عصروں سے کئی دہائیاں پیچھے ہیں۔اس لیے کہ کمپیوٹر کے استعمال سے دنیا بھر کی تازہ خبریں، قیمتی معلومات،دوستوں سے رابطے، نایاب اور قیمتی کتابوں کے پی ڈی ایف کے علاوہ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مختلف اقوام میں روز بروز فاصلے کیوں بڑھتے جا رہے ہیں، غربت اتنی تیزی سے کیوں پھیلتی چلی جا رہی ہے، مختلف خطوں میں جنگ کیوں ہو رہی ہے، درختوں کوکٹنے، پانی کو ضایع ہونے اور جانوروں کو دھرتی سے نا پید ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے مگر ہم دوسرے درجے کی نصیحتوں، پروف کی غلطیوں سے بھری اساتذہ کی تحریروں، اپنی بے وضع تصویروں، بے معنیٰ تحریروں اور تیسرے درجے کے اقوال پر لگنے والے Liksکے نشانات کو دیکھنے، گننے اور خوش ہونے سے ہی باہر نہیں نکلتے۔ سچ پوچھیے تو ہم خنجر برہان پوری سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
مخالفین کی چھاتیوں پر مونگ دلنے اور دل کا غبار ہلکا کرنے کے بعد جب وہ پیٹ کا بار کم کرنے کے لیے بمشکل واش روم کی طرف لپکے تو ڈاکٹر نے بد نامی کے ڈر سے براہ راست نشر یات منقطع کروا دیں کہ وہ خود بھی اپنے اوزاروں اور ٹونٹی stethoscopسمیت ان جذباتی مناظر میں نظر آ رہے تھے۔
خنجر برہان پوری ملک کے ان گنت شاعروں کی طرح اس وہم میں مبتلا ہیں کہ وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ مشہور شاعر ہیں۔ان کے بقول بڑی عمر کے شاعر اُن سے اس لیے جلتے ہیں کہ اُن کی تخلیقات کہیں دو یا تین ماہ کے بعد صرف ایک دفعہ ہی کسی ادبی رسالے کی زینت بنتی ہیں مگرمیری کوئی نہ کوئی تازہ نظم یا غزل نہ صرف روزانہ فیس بک کی زینت بنتی ہے، بلکہ اس پر ''فرینڈز'' کی جانب سے تیس سے لے کر پچاس تک کی تعداد میں ''لائیک'' کے نشانات بھی ثبت ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اشعار پسند کرنے والے زیادہ تر نوجوانوں کا تعلق نائی، قصائی، حلوائی اور نان بائی سے لے کر زندگی کے ان تمام شعبوں سے ہوتا ہے جن میں فنون لطیفہ کے بجائے پیسے کو عزت دی جاتی ہے، ذرا سوچیے تو اس سے زیادہ ادب پروری اور شعر فہمی کیا ہو سکتی ہے۔ اپنے اشعار موقر ادبی رسائل میں نہ چھپنے کی ایک وجہ وہ بزرگ لکھاریوں کی مدیران سے دوستی اوراپنے کلام میں چھپی فلسفیانہ موشگافیاں بھی قرار دیتے ہیں جوہر کسی کی سمجھ میں مشکل سے ہی آتی ہیں۔
خنجر برہان پوری کو اگر کسی مشاعرے یا ادبی محفل میں نہ بلایا جائے تب بھی اس میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ ان کے بقول کسی ادبی تقریب کا دعوت نامہ نہ بھی ملے تب بھی اس میں شریک ہونا چاہیے تاکہ مخالف شعرا کو غیبت کا موقع نہ مل سکے۔ وسیع القلب اتنے ہیں کہ میرؔ کے بہتر نشتر پڑھے بغیر ہی انھیں بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں، مگر کہتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ میرؔ کے بہتر نشتروں کے بجائے ہمارے ایک دو خنجر ہی سامعین کا جگر چھلنی کر نے کے لیے کافی ہیں۔
عبیداللہ علیم کے اس مصرعے سے بھی انھیں بالکل اتفاق نہیں کہ ''پہلا شاعر میرؔ ہوا تھا اُس کے بعد ہوں میں۔'' اُن کے خیال میں عبید اللہ علیم ہمارے عروج کے زمانے تک زندہ رہتے تو اپنے مجموعے ''چاند چہرہ ستارہ آنکھیں '' سے یہ مصرعہ نکال باہر کرتے۔ کہتے ہیں غالبؔ اس لیے پسند نہیں کہ اسے سمجھنے کے لیے فارسی اور عربی کا لغت حفظ کرنا پڑتی ہے اس کے باوجود' کاو کاو سخت جانی' جیسے الفاظ سر سے گزر جاتے ہیں ۔
خنجر برہان پوری اپنی گوناںگوں مصروفیات کی وجہ سے اگر کسی عام ادبی نشست میں شریک نہ بھی ہو سکیں تو ''سِکہ بند مصنفین'' کی تنقیدی نشستوں میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان نشستوں میں مخالف شعرا کو جس طرح ذلیل کرنے کا موقع ملتا ہے وہ کسی غیر ادبی نشست میں ممکن ہی نہیں۔ وہ فلمی دھنوں پر طبع آزمائی کے ساتھ اساتذہ کے کلام کی پیروڈیاں بنانے کے زیادہ قائل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ زمانہ جس تیزی سے ترقی کر رہا ہے اگر ہم نے اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کا مظاہرہ نہ کیا تو ترقی یافتہ اقوام کی گرد کو بھی نہیں چھو پائیں گے جس سے بچنے کے لیے نوجوانوں کو کتابوں کے بجائے یو ٹیوب اور فیس بک سے علم کے موتی جمع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ بچپن کے دنوں میں اپنے نصاب میں شامل
مرا دل لبھاتی ہے میری کتاب
بہت مجھ کو بھاتی ہے میری کتاب
مجھے صاف رہنے کے اچھے اصول
سکھاتی پڑھاتی ہے میری کتاب
جیسی نظموں کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نظم کے شاعر احمد حسین خان ہماری رائے سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر نصاب میںایسی فرسودہ نظموں کی کیا اب تو اسکول میں کتابیں پڑھانے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اس کے باوجود وزیرتعلیم ( اگر کوئی ہے تو) یا نصابی کمیٹی مناسب سمجھے تو ہماری اصلاح کے بعد اس نظم کو چھاپنے میں کوئی مضائقہ نہیں جو کچھ یوں ہو گی۔
مرا دل لبھائے مری فیس بک
بہت مجھ کو بھائے مری فیس بک
مجھے فیل ہونے کے سارے اصول
سکھائے پڑھائے مری فیس بُک
خنجر برہان پوری شاعری میں زبان و بیان کی بہتری کے بہت قائل ہیں۔ وہ لالی وڈ کی ہر دوسری فلم کو نہ صرف کئی باردیکھتے ہیں بلکہ کہانی اور گیتوں میں برتی جانے والی علامات، تشبیہات اور استعاروں سے بھی خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ''آپ کو ابّا حضور نے یاد کیا ہے۔'' کے بجائے ''تیرے کو تیرا باپ بُلاتا ہے۔'' زیادہ جامع اور با معنیٰ جملہ ہے۔
نوجوان ہوں یا بوڑھے اگر ان کا تعلق کمپیوٹر اور اس سے جڑے ٹویٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ، ایمو، یو ٹیوب اور فیس بک سے نہیں تو وہ اپنے ہم عصروں سے کئی دہائیاں پیچھے ہیں۔اس لیے کہ کمپیوٹر کے استعمال سے دنیا بھر کی تازہ خبریں، قیمتی معلومات،دوستوں سے رابطے، نایاب اور قیمتی کتابوں کے پی ڈی ایف کے علاوہ ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مختلف اقوام میں روز بروز فاصلے کیوں بڑھتے جا رہے ہیں، غربت اتنی تیزی سے کیوں پھیلتی چلی جا رہی ہے، مختلف خطوں میں جنگ کیوں ہو رہی ہے، درختوں کوکٹنے، پانی کو ضایع ہونے اور جانوروں کو دھرتی سے نا پید ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے مگر ہم دوسرے درجے کی نصیحتوں، پروف کی غلطیوں سے بھری اساتذہ کی تحریروں، اپنی بے وضع تصویروں، بے معنیٰ تحریروں اور تیسرے درجے کے اقوال پر لگنے والے Liksکے نشانات کو دیکھنے، گننے اور خوش ہونے سے ہی باہر نہیں نکلتے۔ سچ پوچھیے تو ہم خنجر برہان پوری سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔