قرآنِ کریم کے قصّوں سے راہ نمائی
’’(اے پیغمبرؐ! ) یہ قصّے ان لوگوں سے بیان کرو تاکہ یہ لوگ غور و فکر کریں۔‘‘
یوں تو قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں بہت سے قصّے اور داستانیں بیان ہوئی ہیں، جن کی تفصیل قصص الانبیاء، بحار الانوار اور کنزالعمال نامی کتب میں پڑھی جاسکتی ہے۔ ان میں بہت سے نبیوں اور رسولوں کے عمدہ قصے اللہ کے کلامِ پاک سے منتخب کرکے تحریر کیے گئے ہیں، جن میں سامانِ نصیحت و فلاح بھی ہے اور بہترین طرزِ ہدایت و راہ نمائی بھی۔
حضرت آیت اللہ محمدی ری شہری اپنی معروف کتاب ''میزان الحکمت'' میں علم و عرفان کا ایک جامع خزینہ مرتّب کرکے گئے ہیں، جس سے اکثر اہلِ علم و دانش اور طالبِ علم سب ہی کسبِ فیض کرتے رہتے ہیں اور اپنی دُعاؤں میں اُنھیں یاد رکھتے ہیں۔ اچھے لوگ ایسے ہی کارہائے نمایاں انجام دیتے رہتے ہیں، جو بعد میں اُن کی پہچان بن جا تے ہیں۔ یہ شناخت انھیں زندہ اور درخشندہ رکھنے کے لیے یقیناً کافی ہوتی ہے۔
'' میزان الحکمت'' جلد8، صفحہ240 پر آیت اللہ محمدی ری شہری کیا خوب رقم طراز ہیں:
سورۂ اعراف، آیت 176میں ارشادِ ربُّ العزت ہے:
''(اے پیغمبرؐ! ) یہ قصّے ان لوگوں سے بیان کرو تاکہ یہ لوگ غور و فکر کریں۔''
سورۂ آلِ عمران، آیت 62 میں یوں ہدایت فرمائی :''یعنی یہ سچی خبریں اور واقعات ہیں۔''
سورۂ قصص، آیت 25 میں یوں ہدایت فرمائی : ''یعنی ان سے اپنے قصّے کو بیان کیا۔''
سورۂ یوسفؑ، آیات3 اور 111میں خالقِ کائنات نے ارشاد فرمایا : ''(اے رسولؐ! ) ہم تم پر یہ قرآن نازل کرکے تم سے ایک نہایت عمدہ قصّہ بیان کرتے ہیں اگرچہ تم اِس سے پہلے (اِس سے) بالکل بے خبر تھے۔ اِس میں شک نہیں کہ ان لوگوں کے قصّوں میں عقل مندوں کے واسطے ( اچھی خاصی ) عبرت ( نصیحت) ہے، یہ ( قرآن) کوئی ایسی بات نہیں ہے جو (خواہ مخواہ) گھڑ لی جائے بل کہ ( جو آسمانی کتابیں) اِس سے پہلے سے موجود ہیں ان کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان داروں کے واسطے (ازسر تا پا) ہدایت و رحمت ہے۔''
سبحان اللہ۔ بہ قول آیت اللہ محمدی ری شہری معلوم ہوا کہ '' قصص'' سے مراد '' قصّہ'' ہی ہے۔ اور ''احسن القصص'' سے مراد احسن اور نہایت عمدہ قصّہ ہے۔'' جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ '' قصص'' مصدر ہے جس کے معنی ہیں'' روایت بیان کرنا۔'' لہٰذا اگر اسمِ مصدر ہو تو حضرت یوسف ؑ کا قصّہ نہایت ہی عمدہ داستان ہوگی، اِس لیے کہ اس میں عبودیت میں توحید کے اِخلاص اور بندے پر خدا کی حکومت کی مثالیں موجود ہیں اور اِس بات کا ذکر ہے کہ اگر بندہ اُس کی محبت کی راہوں پر چلے تو وہ اس کی صحیح معنوں میں تربیت کرتا، اسے ذلّت کے گڑھوں سے نکال کر عزت کی بلندیوں پر فائز فرماتا ہے۔
اسے تاریک کنوؤں اور عذاب و سختیوں کی قید سے نکال کر عزت اور بادشاہت کے تخت پر لا بٹھاتا ہے۔ اگر لفظ '' قصص'' مصدر ہو تو اس کے معنی ہوں گے یوسف علیہ السلام کا قصّہ ایک بہترین کلام، عمدہ ترین واقعہ اور احسن ترین خبر ہے جس میں محبت کے واقعات کو پاکیزہ ترین انداز اور ممکن حد تک عمدہ ترین صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ پس اِس آیت کے معنی جنھیں اللہ سب سے بہتر جانتا ہے، یہ ہوں گے:
'' اے پیغمبرؐ! ہم تم پر یہ قرآن وحی کی صورت میں بھیج کر ایک نہایت عمدہ قصّہ بیان کرتے ہیں اگرچہ تم اس سے پہلے اِس سے بالکل بے خبر تھے۔''
(سورۂ یوسف، آیت3، تفسیر المیزان۔ جلد11، صفحہ 75)
مفسّرِ قرآن حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ نہج البلاغہ، خطبہ 192میں کیا خوب رقم طراز ہیں:
''( اور تم پر لازم ہے کہ) گزشتہ زمانے کے اہلِ ایمان کے وقائع اور حالات میں غور و فکر کرو کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جان کاہ) مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی۔ غور کرو کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا اور خیالات یک سُو تھے۔ اور ( تصویر کا یہ رُخ بھی) دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑگئی، یک جہتی درہم برہم ہوگئی، ان کی باتوں اور دِلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے تو کئی گروہ بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے۔ پس تو ان کی یہ نوبت ہوگئی کہ اللہ نے ان کی عزت و بزرگی کا لباس اُتار لیا، نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں، اور تمہارے درمیان ان کے واقعات حکایاتِ عبرت بن کر رہ گئیں۔''
اِسی طرح خطبہ 110میں باب ِ مدینۃ العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ یوں راہ نمائی فرماتے ہیں:
''پس قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے، اِس میں غور و فکر کرو کہ یہ دِلوں کی بہار ہے۔ اِس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں (کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں) کے لیے شفا ہے۔ اِس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اِس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ بخش ہیں۔''
صمیم ِ قلب سے دُعا ہے کہ اللہ رحمن و رحیم ہمیں اپنے پیارے حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل قرآنِ حکیم سے حتی الامکان استفادہ کرنے کی توفیق کرامت فرمائے اور ہمیں اُس توفیق پر لبّیک کہنے والوں میں قرار دے۔ آمین
حضرت آیت اللہ محمدی ری شہری اپنی معروف کتاب ''میزان الحکمت'' میں علم و عرفان کا ایک جامع خزینہ مرتّب کرکے گئے ہیں، جس سے اکثر اہلِ علم و دانش اور طالبِ علم سب ہی کسبِ فیض کرتے رہتے ہیں اور اپنی دُعاؤں میں اُنھیں یاد رکھتے ہیں۔ اچھے لوگ ایسے ہی کارہائے نمایاں انجام دیتے رہتے ہیں، جو بعد میں اُن کی پہچان بن جا تے ہیں۔ یہ شناخت انھیں زندہ اور درخشندہ رکھنے کے لیے یقیناً کافی ہوتی ہے۔
'' میزان الحکمت'' جلد8، صفحہ240 پر آیت اللہ محمدی ری شہری کیا خوب رقم طراز ہیں:
سورۂ اعراف، آیت 176میں ارشادِ ربُّ العزت ہے:
''(اے پیغمبرؐ! ) یہ قصّے ان لوگوں سے بیان کرو تاکہ یہ لوگ غور و فکر کریں۔''
سورۂ آلِ عمران، آیت 62 میں یوں ہدایت فرمائی :''یعنی یہ سچی خبریں اور واقعات ہیں۔''
سورۂ قصص، آیت 25 میں یوں ہدایت فرمائی : ''یعنی ان سے اپنے قصّے کو بیان کیا۔''
سورۂ یوسفؑ، آیات3 اور 111میں خالقِ کائنات نے ارشاد فرمایا : ''(اے رسولؐ! ) ہم تم پر یہ قرآن نازل کرکے تم سے ایک نہایت عمدہ قصّہ بیان کرتے ہیں اگرچہ تم اِس سے پہلے (اِس سے) بالکل بے خبر تھے۔ اِس میں شک نہیں کہ ان لوگوں کے قصّوں میں عقل مندوں کے واسطے ( اچھی خاصی ) عبرت ( نصیحت) ہے، یہ ( قرآن) کوئی ایسی بات نہیں ہے جو (خواہ مخواہ) گھڑ لی جائے بل کہ ( جو آسمانی کتابیں) اِس سے پہلے سے موجود ہیں ان کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان داروں کے واسطے (ازسر تا پا) ہدایت و رحمت ہے۔''
سبحان اللہ۔ بہ قول آیت اللہ محمدی ری شہری معلوم ہوا کہ '' قصص'' سے مراد '' قصّہ'' ہی ہے۔ اور ''احسن القصص'' سے مراد احسن اور نہایت عمدہ قصّہ ہے۔'' جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ '' قصص'' مصدر ہے جس کے معنی ہیں'' روایت بیان کرنا۔'' لہٰذا اگر اسمِ مصدر ہو تو حضرت یوسف ؑ کا قصّہ نہایت ہی عمدہ داستان ہوگی، اِس لیے کہ اس میں عبودیت میں توحید کے اِخلاص اور بندے پر خدا کی حکومت کی مثالیں موجود ہیں اور اِس بات کا ذکر ہے کہ اگر بندہ اُس کی محبت کی راہوں پر چلے تو وہ اس کی صحیح معنوں میں تربیت کرتا، اسے ذلّت کے گڑھوں سے نکال کر عزت کی بلندیوں پر فائز فرماتا ہے۔
اسے تاریک کنوؤں اور عذاب و سختیوں کی قید سے نکال کر عزت اور بادشاہت کے تخت پر لا بٹھاتا ہے۔ اگر لفظ '' قصص'' مصدر ہو تو اس کے معنی ہوں گے یوسف علیہ السلام کا قصّہ ایک بہترین کلام، عمدہ ترین واقعہ اور احسن ترین خبر ہے جس میں محبت کے واقعات کو پاکیزہ ترین انداز اور ممکن حد تک عمدہ ترین صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ پس اِس آیت کے معنی جنھیں اللہ سب سے بہتر جانتا ہے، یہ ہوں گے:
'' اے پیغمبرؐ! ہم تم پر یہ قرآن وحی کی صورت میں بھیج کر ایک نہایت عمدہ قصّہ بیان کرتے ہیں اگرچہ تم اس سے پہلے اِس سے بالکل بے خبر تھے۔''
(سورۂ یوسف، آیت3، تفسیر المیزان۔ جلد11، صفحہ 75)
مفسّرِ قرآن حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ نہج البلاغہ، خطبہ 192میں کیا خوب رقم طراز ہیں:
''( اور تم پر لازم ہے کہ) گزشتہ زمانے کے اہلِ ایمان کے وقائع اور حالات میں غور و فکر کرو کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جان کاہ) مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی۔ غور کرو کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا اور خیالات یک سُو تھے۔ اور ( تصویر کا یہ رُخ بھی) دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑگئی، یک جہتی درہم برہم ہوگئی، ان کی باتوں اور دِلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے تو کئی گروہ بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے۔ پس تو ان کی یہ نوبت ہوگئی کہ اللہ نے ان کی عزت و بزرگی کا لباس اُتار لیا، نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں، اور تمہارے درمیان ان کے واقعات حکایاتِ عبرت بن کر رہ گئیں۔''
اِسی طرح خطبہ 110میں باب ِ مدینۃ العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ یوں راہ نمائی فرماتے ہیں:
''پس قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے، اِس میں غور و فکر کرو کہ یہ دِلوں کی بہار ہے۔ اِس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں (کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں) کے لیے شفا ہے۔ اِس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اِس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ بخش ہیں۔''
صمیم ِ قلب سے دُعا ہے کہ اللہ رحمن و رحیم ہمیں اپنے پیارے حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل قرآنِ حکیم سے حتی الامکان استفادہ کرنے کی توفیق کرامت فرمائے اور ہمیں اُس توفیق پر لبّیک کہنے والوں میں قرار دے۔ آمین