پہلا گیت الماری میں بیٹھ کرریکارڈ کیا تھا
میرے نغمے امن اور دوستی کا پیغام دیتے ہیں، بوہیما
وہی لوگ ملک وقوم کا نام روشن کرتے ہیں جوزندگی کے مختلف شعبوں میں ایسا انوکھا اورمنفرد کام کریں جس سے ان کے وطن کوایک نئی پہچان ملے۔
اس سلسلے میں زیادہ ترشخصیات کا تعلق کھیل اورفنون لطیفہ سے ہی ہوتا ہے کیوں کہ زندگی کے تمام شعبوںمیں سے یہ دو شعبے ایسے ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کا کھیل پسند کرنے والوں کا تعلق کسی ایک ملک، قوم سے نہیں ہوتا ، اسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنے فن سے منفرد پہچان بنانے والے بھی کسی سرحد کے محتاج نہیں ہوتے۔
ان کا فن سرحدوں کوختم کرتا اورلوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ گلوکاراور میوزیشن اپنے فن کے ذریعے جہاں لوگوں کو انٹرٹین کرتے ہیں وہیں امن، محبت، بھائی چارے کا پیغام بھی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی گلوکاروں میں ایک نام نوجوان نسل کے پسندیدہ ریپ گلوکاربوہیمیا کا بھی ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی ریپ گلوکار بوہیمیا ان دنوں پاکستان کے دورے پرہیں۔
انھیں پاکستان میں میوزک کنسرٹس میں پرفارمنس کے لیے '' گلوریس پروڈکشنز'' کے روح رواں راحیل منہاس اورشیراشاہ نے مدعو کیا ہے۔ واضح رہے کہ بوہیمیا کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، یورپ، بھارت اورمڈل ایسٹ سمیت پاکستان میں بھی ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں پرفارم کریں مگراپنا تعارف کرواتے ہوئے فخریہ طورپر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ان کا اوران کی فیملی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ لاہور میں قیام کے دوران بوہیمیا نے ایکسپریس کوخصوصی انٹرویودیا جوقارئین کی نذرہے۔
بوہیمیا کہتے ہیں کہ میرا پیدائشی نام راجرڈیوڈ ہے لیکن فنی دنیا میں مجھے بوہیمیا کے نام سے جانا اور پکارا جاتا ہے۔ میری پیدائش کراچی میں ہوئی لیکن بچپن پشاورمیں گزرا۔ اسی دوران میوزک سے لگاؤ ہوا اورپھرگیارہ برس کی عمر میں والدین کے ہمراہ امریکا شفٹ ہوگیا۔ بچپن میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہوگیا۔ میں پہلے اردومیں اشعارلکھتا تھا۔
ملکہ ترنم نورجہاں اوربھارتی فلموں کے معروف پلے بیک سنگر محمد رفیع، کشور کمار اور مکیش کے گیتوں سے بہت متاثر تھا لیکن میں نے ریپ میوزک امریکا میں سیکھا۔ ویسے توتمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پائلٹ، ڈاکٹریا انجینئر بنے لیکن میرے والد نے 'غلطی' یہ کی کہ مجھے چھوٹی عمر میں ہی بطور تحفہ ایک' کی بورڈ ' لے دیا۔ اس کو پلے کیا توبہت اچھا لگا۔
اس کے بعد میں نے اپنی والدہ کو کہا کہ مجھے بڑا ' کی بورڈ' چاہیے اورپھر یہ سلسلہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ ایک طرف میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو شاعری کا اندازدے رہا تھا تودوسری جانب ان کی دھنیں بھی کمپوز کررہا تھا۔ مگر کبھی سوچا نہ تھا کہ میری اپنی کوئی پہچان ہوگی۔ کوئی منزل کوئی ٹارگٹ ذہن میں نہیں تھا۔ میوزک سے وابستہ ہونے کی وجہ سے خیال تھا کہ میں بس کسی بینڈ کا 'کی بورڈ پلیئر' بنوں گا۔
البتہ پاکستان کے اسپورٹس سٹارجہانگیرخان اورعمران خان کی شہرت کے چرچے دیکھ کریہ خیال کبھی کبھی ضرور آتا تھا کہ کاش میں بھی ان کی طرح شہرت کی بلندیوں کوچھولوں اورمیری وجہ سے بھی پاکستان کا نام دنیا میں جانا جائے۔ جب میں کیلیفورنیا منتقل ہوا تووہاں کاکلچر اور وہاں کے رہنے والوں سمیت میرے لیے سب کچھ نیا تھا۔ مجھے انگریزی نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے بہت دشواری کا سامنا تھا۔ کچھ دوست بنے اورپھر آہستہ آہستہ وہاں کے کلچر سے آشنائی ہونے لگی۔
میں جس علاقے میں رہتا تھا وہاں زیادہ تر'ریپ میوزک ' کو پسند کیاجاتاتھا۔' ریپ میوزک ' ہپ ہاپ کی ایک صنف ہے اوریہ کوئی مذاق نہیں بلکہ بہت سنجیدہ میوزک ہے۔ مجھے 'کی بورڈ' پلے کرنے کاشوق تھا اوردیکھتے ہی دیکھتے مجھے ریپ میوزک پسندآنے لگا۔ امریکا میں ویسے تو بہت سے معروف ریپر تھے لیکن نذیرالمعروف ناز کا ریپ میوزک مجھے بہت متاثر کرتا تھا۔
اپنی والدہ کی وفات پر میں نے ایک گیت لکھا جس کودوستوں نے سوشل ویب سائٹ پردیا توکچھ وقت گزرنے کے بعد اس کی شہرت برطانیہ تک پہنچ گئی۔ پہلے انٹرویو کے لیے مجھ سے '' بی بی سی'' کی ٹیم نے رابطہ کیا تومیں حیران رہ گیا۔ پھر میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر باقاعدہ اپنا ایک اسٹائل ترتیب دیا اورپھرجو بھی گایا وہ لوگوں کے دلوں میں اترتا چلا گیا۔
میں نے ریپ میوزک میں جوگیت تیارکیے وہ سب کے سب پنجابی زبان میں تھے جومیری پہچان بنے اوردیکھتے ہی دیکھتے مجھے 'کنگ آف پنجابی ریپ ' کا خطاب مل گیا۔ میرا میوزک لوگوں کوصرف انٹرٹین ہی نہیں کرتا بلکہ امن اور دوستی کا پیغام بھی دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ میرے گیت حقیقت کے قریب ترہیں ، شاید اسی لیے لوگ مجھ سے اورمیرے میوزک سے اتنا پیارکرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں بوہیمیا نے بتایا کہ میں نے اپنے کیریئرکا پہلا گیت، جو آج بھی لوگوں کو بہت پسند ہے، کپڑوں کی الماری میں بیٹھ کرریکارڈ کیا تھا اوروہی میری شہرت کا سبب بنا بلکہ 'بی بی سی ' کے میوزک چارٹ پر پہلے پانچ گیتوں میں بھی شامل ہوا۔ جب یہ بات مجھے دوستوں کے ذریعے پتا چلی تو میں حیران رہ گیا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میرے دوست میرا مذاق اڑانے کے لیے سب کچھ کہہ رہے ہیں لیکن جب 'بی بی سی' کی ٹیم نے انٹرویوکے لیے مجھے سے رابطہ کیا تو حقیقت کااندازہ ہوا۔
انھوں نے کہا کہ بالی وڈ سٹار اکشے کمارنے جب میرا میوزک سنا توانہوں نے اپنی فلم 'چاندنی چوک ٹوچائنا' میں نا صرف میرا گیت شامل کیا بلکہ اس گیت کومیرے ساتھ فلم بند بھی کروایا۔ میں بولی وڈ کے لیے بھی کام کررہا ہوں جو آنے والی فلموں میں میرے چاہنے والے سن سکیں گے۔
خاص طورپراکشے کمارمیرے میوزک کو اپنی فلموںمیں شامل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مجھے بولی وڈ سے بہت سی آفرز ہیں لیکن میں اپنی مرضی سے کام کرنا پسند کرتاہوں۔ اس لیے بہت سے پراجیکٹ پرکام کرنے سے معذرت کرلیتا ہوں۔
پاکستان میں اپنے میوزک کنسرٹس کے بارے بوہیمیانے بتایاکہ گلوریس پروڈکشنز نے آٹھ میوزک کنسرٹس کا شیڈول ترتیب دے رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا شولاہور میں الحمراء اوپن ایئر کلچرل کمپلیکس میں ہوا تھا اوراس کے بعد اسلام آباد، ملتان، میر پور، فیصل آباد اوردیگرشہروںمیں بھی پروگرام ہوں گے۔
حسب روایت اس مرتبہ بھی لاہوریوں کی بڑی تعداد میوزک کنسرٹ میں شریک ہوئی تھی جب کہ آئندہ پروگراموںمیں شرکت کے خواہش مندوں کی جانب سے فرمائشی ای میلزموصول ہورہی ہیں۔ پاکستان میں واقعی بہت زندہ دل لوگ ہیں جو تفریح کے لمحات کوبھرپورانداز سے گزارتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان میں تمام شو کام یاب جائیں گے۔
میں ان کنسرٹس میں جہاں اپنے مقبول گیت پیش کروں گا وہیں کچھ نئے گیت بھی پرفارمنس میں شامل ہوں گے جوشرکاء کو پسند آئیں گے۔ انٹرویوکے آخر میں پاکستانیوں کے لیے اپنے پیغام میں بوہیمیا نے کہا کہ ہر پاکستانی اگراپنے اپنے شعبے میں دل لگاکرکام کرے تواس سے مسائل کا خاتمہ ہوگا اور ملک ترقی کی راہ پرگام زن ہوگا۔
اس سلسلے میں زیادہ ترشخصیات کا تعلق کھیل اورفنون لطیفہ سے ہی ہوتا ہے کیوں کہ زندگی کے تمام شعبوںمیں سے یہ دو شعبے ایسے ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کا کھیل پسند کرنے والوں کا تعلق کسی ایک ملک، قوم سے نہیں ہوتا ، اسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنے فن سے منفرد پہچان بنانے والے بھی کسی سرحد کے محتاج نہیں ہوتے۔
ان کا فن سرحدوں کوختم کرتا اورلوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ گلوکاراور میوزیشن اپنے فن کے ذریعے جہاں لوگوں کو انٹرٹین کرتے ہیں وہیں امن، محبت، بھائی چارے کا پیغام بھی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی گلوکاروں میں ایک نام نوجوان نسل کے پسندیدہ ریپ گلوکاربوہیمیا کا بھی ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی ریپ گلوکار بوہیمیا ان دنوں پاکستان کے دورے پرہیں۔
انھیں پاکستان میں میوزک کنسرٹس میں پرفارمنس کے لیے '' گلوریس پروڈکشنز'' کے روح رواں راحیل منہاس اورشیراشاہ نے مدعو کیا ہے۔ واضح رہے کہ بوہیمیا کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، یورپ، بھارت اورمڈل ایسٹ سمیت پاکستان میں بھی ہے۔ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں پرفارم کریں مگراپنا تعارف کرواتے ہوئے فخریہ طورپر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ان کا اوران کی فیملی کا تعلق پاکستان سے ہے۔ لاہور میں قیام کے دوران بوہیمیا نے ایکسپریس کوخصوصی انٹرویودیا جوقارئین کی نذرہے۔
بوہیمیا کہتے ہیں کہ میرا پیدائشی نام راجرڈیوڈ ہے لیکن فنی دنیا میں مجھے بوہیمیا کے نام سے جانا اور پکارا جاتا ہے۔ میری پیدائش کراچی میں ہوئی لیکن بچپن پشاورمیں گزرا۔ اسی دوران میوزک سے لگاؤ ہوا اورپھرگیارہ برس کی عمر میں والدین کے ہمراہ امریکا شفٹ ہوگیا۔ بچپن میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہوگیا۔ میں پہلے اردومیں اشعارلکھتا تھا۔
ملکہ ترنم نورجہاں اوربھارتی فلموں کے معروف پلے بیک سنگر محمد رفیع، کشور کمار اور مکیش کے گیتوں سے بہت متاثر تھا لیکن میں نے ریپ میوزک امریکا میں سیکھا۔ ویسے توتمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پائلٹ، ڈاکٹریا انجینئر بنے لیکن میرے والد نے 'غلطی' یہ کی کہ مجھے چھوٹی عمر میں ہی بطور تحفہ ایک' کی بورڈ ' لے دیا۔ اس کو پلے کیا توبہت اچھا لگا۔
اس کے بعد میں نے اپنی والدہ کو کہا کہ مجھے بڑا ' کی بورڈ' چاہیے اورپھر یہ سلسلہ آگے ہی بڑھتا رہا۔ ایک طرف میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو شاعری کا اندازدے رہا تھا تودوسری جانب ان کی دھنیں بھی کمپوز کررہا تھا۔ مگر کبھی سوچا نہ تھا کہ میری اپنی کوئی پہچان ہوگی۔ کوئی منزل کوئی ٹارگٹ ذہن میں نہیں تھا۔ میوزک سے وابستہ ہونے کی وجہ سے خیال تھا کہ میں بس کسی بینڈ کا 'کی بورڈ پلیئر' بنوں گا۔
البتہ پاکستان کے اسپورٹس سٹارجہانگیرخان اورعمران خان کی شہرت کے چرچے دیکھ کریہ خیال کبھی کبھی ضرور آتا تھا کہ کاش میں بھی ان کی طرح شہرت کی بلندیوں کوچھولوں اورمیری وجہ سے بھی پاکستان کا نام دنیا میں جانا جائے۔ جب میں کیلیفورنیا منتقل ہوا تووہاں کاکلچر اور وہاں کے رہنے والوں سمیت میرے لیے سب کچھ نیا تھا۔ مجھے انگریزی نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے بہت دشواری کا سامنا تھا۔ کچھ دوست بنے اورپھر آہستہ آہستہ وہاں کے کلچر سے آشنائی ہونے لگی۔
میں جس علاقے میں رہتا تھا وہاں زیادہ تر'ریپ میوزک ' کو پسند کیاجاتاتھا۔' ریپ میوزک ' ہپ ہاپ کی ایک صنف ہے اوریہ کوئی مذاق نہیں بلکہ بہت سنجیدہ میوزک ہے۔ مجھے 'کی بورڈ' پلے کرنے کاشوق تھا اوردیکھتے ہی دیکھتے مجھے ریپ میوزک پسندآنے لگا۔ امریکا میں ویسے تو بہت سے معروف ریپر تھے لیکن نذیرالمعروف ناز کا ریپ میوزک مجھے بہت متاثر کرتا تھا۔
اپنی والدہ کی وفات پر میں نے ایک گیت لکھا جس کودوستوں نے سوشل ویب سائٹ پردیا توکچھ وقت گزرنے کے بعد اس کی شہرت برطانیہ تک پہنچ گئی۔ پہلے انٹرویو کے لیے مجھ سے '' بی بی سی'' کی ٹیم نے رابطہ کیا تومیں حیران رہ گیا۔ پھر میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر باقاعدہ اپنا ایک اسٹائل ترتیب دیا اورپھرجو بھی گایا وہ لوگوں کے دلوں میں اترتا چلا گیا۔
میں نے ریپ میوزک میں جوگیت تیارکیے وہ سب کے سب پنجابی زبان میں تھے جومیری پہچان بنے اوردیکھتے ہی دیکھتے مجھے 'کنگ آف پنجابی ریپ ' کا خطاب مل گیا۔ میرا میوزک لوگوں کوصرف انٹرٹین ہی نہیں کرتا بلکہ امن اور دوستی کا پیغام بھی دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ میرے گیت حقیقت کے قریب ترہیں ، شاید اسی لیے لوگ مجھ سے اورمیرے میوزک سے اتنا پیارکرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں بوہیمیا نے بتایا کہ میں نے اپنے کیریئرکا پہلا گیت، جو آج بھی لوگوں کو بہت پسند ہے، کپڑوں کی الماری میں بیٹھ کرریکارڈ کیا تھا اوروہی میری شہرت کا سبب بنا بلکہ 'بی بی سی ' کے میوزک چارٹ پر پہلے پانچ گیتوں میں بھی شامل ہوا۔ جب یہ بات مجھے دوستوں کے ذریعے پتا چلی تو میں حیران رہ گیا۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میرے دوست میرا مذاق اڑانے کے لیے سب کچھ کہہ رہے ہیں لیکن جب 'بی بی سی' کی ٹیم نے انٹرویوکے لیے مجھے سے رابطہ کیا تو حقیقت کااندازہ ہوا۔
انھوں نے کہا کہ بالی وڈ سٹار اکشے کمارنے جب میرا میوزک سنا توانہوں نے اپنی فلم 'چاندنی چوک ٹوچائنا' میں نا صرف میرا گیت شامل کیا بلکہ اس گیت کومیرے ساتھ فلم بند بھی کروایا۔ میں بولی وڈ کے لیے بھی کام کررہا ہوں جو آنے والی فلموں میں میرے چاہنے والے سن سکیں گے۔
خاص طورپراکشے کمارمیرے میوزک کو اپنی فلموںمیں شامل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مجھے بولی وڈ سے بہت سی آفرز ہیں لیکن میں اپنی مرضی سے کام کرنا پسند کرتاہوں۔ اس لیے بہت سے پراجیکٹ پرکام کرنے سے معذرت کرلیتا ہوں۔
پاکستان میں اپنے میوزک کنسرٹس کے بارے بوہیمیانے بتایاکہ گلوریس پروڈکشنز نے آٹھ میوزک کنسرٹس کا شیڈول ترتیب دے رکھا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا شولاہور میں الحمراء اوپن ایئر کلچرل کمپلیکس میں ہوا تھا اوراس کے بعد اسلام آباد، ملتان، میر پور، فیصل آباد اوردیگرشہروںمیں بھی پروگرام ہوں گے۔
حسب روایت اس مرتبہ بھی لاہوریوں کی بڑی تعداد میوزک کنسرٹ میں شریک ہوئی تھی جب کہ آئندہ پروگراموںمیں شرکت کے خواہش مندوں کی جانب سے فرمائشی ای میلزموصول ہورہی ہیں۔ پاکستان میں واقعی بہت زندہ دل لوگ ہیں جو تفریح کے لمحات کوبھرپورانداز سے گزارتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان میں تمام شو کام یاب جائیں گے۔
میں ان کنسرٹس میں جہاں اپنے مقبول گیت پیش کروں گا وہیں کچھ نئے گیت بھی پرفارمنس میں شامل ہوں گے جوشرکاء کو پسند آئیں گے۔ انٹرویوکے آخر میں پاکستانیوں کے لیے اپنے پیغام میں بوہیمیا نے کہا کہ ہر پاکستانی اگراپنے اپنے شعبے میں دل لگاکرکام کرے تواس سے مسائل کا خاتمہ ہوگا اور ملک ترقی کی راہ پرگام زن ہوگا۔