طالبان قیدیوں کی رہائی
افغانستان معاملہ پر مذاکرات کے لیے تذبذب کا شکار ہے۔
KARACHI:
اسلام آباد اور کابل میں تناؤ کے باعث طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرت میں اس وقت تعطل آیا جب کابل نے اسلام آباد پر امن عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ ایک سینئر پاکستانی افسر کے مطابق گزشتہ اجلاس میں تناؤ کم کرنے کی کوشش کی گئی ۔
افغانستان معاملہ پر مذاکرات کے لیے تذبذب کا شکار ہے۔ حقیقت میں کابل اور طالبان کے مابین مفاہمت، مصالحت اور قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ایک امن روڈ میپ سے مشروط ہے جس کا پاکستان ایک کلیدی ریجنل اسٹیک ہولڈر ہے تاہم صدر حامد کرزئی اپنی تمام تر ظاہری خیر سگالی اور ڈپلومیسی کے باوجود اس کوشش میں اپنا وقت برباد کررہے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ ہو الزام پاکستان پر لگادیتے ہیں جب کہ عالمی میڈیا اور خود افغان مبصرین پاکستان کو امن مشن کی تکمیل میں بنیادی کردار کا حامل سمجھتے ہیں جس کی معاونت اور فعال شراکت و رہنمائی کے بغیر خطے میں امن کی کوشش بار آور نہیں ہو سکتی ۔
اگر قیدیوں کی رہائی کا عمل رک گیا ہے تو اس کا سرا افغان حکومت کی ناقص حکمت عملی اور صدر کرزئی کے ایک نکاتی ایجنڈے کی پراسرایت میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کا مقصد جلد سے جلد پاکستانی، گوانتاناموبے اور افغانستان کی بڑی جیل سے طالبان قیدیوں کی رہائی ہے لیکن اس میں بھی بدنیتی شامل نہیں ہونی چاہیے، پاکستان نے تو دو درجن سے زیادہ طالبان قیدی جن میں ہائی پروفائل اسیران بھی تھے رہا کرکے امن کے کاز کو تقویت دی ، ادھرطالبان قیدیوں کی رواں سال کے اوائل میں اجتماعی دعائیہ تصویر بھی اخبارات میں شائع ہوئی تھی جس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ قیدیوں کی دستیابی مذاکرات کی کامیابی کی سمت ایک بریک تھرو ہے مگر الزام تراشی کی زد میں پھر بھی پاکستان ہی آیا، یہ طرز عمل قیام امن کے ہر گزمفاد میں نہیں جائے گا ۔
افغانستان اگر سکیورٹی اور طالبان سے مصالحت کے عجیب مخمصے میں گرفتار ہے تو اس کے اسباب میں ایک تو پاک افغان امن روڈ میپ کے میکنزم کوزمینی حقائق کے پیش نظر سنجیدگی سے بروئے کار لانے میں سست روی ہے جب کہ دوسری جانب امریکا سے مذاکرات اور قطر میں امیر قطر سے صدر کرزئی کی بات چیت کے نتائج تاحال صیغہ راز میں ہیں حالانکہ تجزیہ نگار تھامس ریٹگ کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت ایک بڑی اسٹرٹیجی کا ابتدائیہ ہے تاہم اس کے اہداف اور مقاصد واضح نہیں ہیں۔
جہاں تک قیدیوں کی رہائی کا تعلق ہے ابتدائی طور پر کرزئی انتظامیہ نے رہائی کی حمایت کی مگر بعد ازاں موقف اختیار کیا کہ بعض طالبان رہائی کے بعد دوبارہ اپنے گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں جس کا پاکستان پر الزام لگایا گیا جس کے بعد دونوں ملکوں نے فیصلہ کیا کہ باقاعدہ نظام کے تحت قیدیوں کو رہا کیا جائے اور دونوں ممالک کے وزارت خارجہ کے حکام قیدیوں کی فہرستیں تیار کریں گے۔ فروری میں پاکستان، افغانستان برطانیہ اجلاس کے بعد میکنزم کو آپریشنل کرنے پر اتفاق کیا گیا مگر ابھی تک کوئی اجلاس نہیں ہوسکا اور اس کی وجہ کابل کی طرف سے پاکستان پر الزامات ہیں۔
رابطہ کرنے پر دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے اور ہر قسم کی مدد کو تیار ہے، پاکستان کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہے نہ کوئی شرائط عائد کی گئی ہیں اور ہم ہر معاملہ پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ یاد رہے پاکستان کی طرف سے افغان امن کونسل کی درخواست پر نومبر میں پہلی بار طالبان قیدی رہا کیے گئے اور اب تک مجموعی طور پر 26 قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔ اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت تذبذب کے گرداب سے باہر نکلے، عالمی امن کے وسیع تر تناظر میں افغانستان کوخطہ امن بنانے کی موثر کوششیں جاری رکھی جائیں۔
کسی قسم کا سیٹ بیک ہو تو تمام اسٹیک ہولڈرز ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکا کو افغانستان میں امن ، ترقی واستحکام اور اپنے فوجیوں کے محفوظ انخلا کو 2014 میں یقینی بنانا ہے تو اسے اس کٹھن کام میں پاکستان کی ضرورت پیش آئیگی۔ پاکستان کا کردار اہم ہے ۔ یہ ''ہیملٹ'' کا وہ ڈرامہ ہے جس میں ہیملٹ کو باہر نکالا گیا تو کہانی ختم ہوجائیگی۔ پاکستان کو اپنی ہی غلطی پر بار بار مورد الزام ٹھہرانے کی افغان حکام کو اپنی غیر دانشمندانہ روش پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور یہ بات جتنی امریکیوں،یورپی ممالک اور افغان حکام کی سمجھ میں آجائے اتنا ہی بہتر ہے۔
اس ضمن میں ہماری رائے یہ ہے کہ طالبان کے اثر ورسوخ کو کنٹرول کرنے ،نیٹو فورسز پر حملوں کی شدت کم کرنے کے لیے افغانستان میں معاشی سماجی اور تعلیمی شعبوں میں اصلاحات پر بھی ساتھ ساتھ توجہ دی جائے تو داخلی امن کی جستجو میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ افغانستان میں سلامتی،انفرااسٹرکچر کی مکمل فراہمی اور طالبان سے مفاہمت ایک مشکل ٹاسک ہے جس میں افغان حکام کو پاکستان سمیت پوری دنیا سے معاونت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا پڑیں گے۔
اسلام آباد اور کابل میں تناؤ کے باعث طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرت میں اس وقت تعطل آیا جب کابل نے اسلام آباد پر امن عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام لگایا۔ ایک سینئر پاکستانی افسر کے مطابق گزشتہ اجلاس میں تناؤ کم کرنے کی کوشش کی گئی ۔
افغانستان معاملہ پر مذاکرات کے لیے تذبذب کا شکار ہے۔ حقیقت میں کابل اور طالبان کے مابین مفاہمت، مصالحت اور قیدیوں کی رہائی کا معاملہ ایک امن روڈ میپ سے مشروط ہے جس کا پاکستان ایک کلیدی ریجنل اسٹیک ہولڈر ہے تاہم صدر حامد کرزئی اپنی تمام تر ظاہری خیر سگالی اور ڈپلومیسی کے باوجود اس کوشش میں اپنا وقت برباد کررہے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ ہو الزام پاکستان پر لگادیتے ہیں جب کہ عالمی میڈیا اور خود افغان مبصرین پاکستان کو امن مشن کی تکمیل میں بنیادی کردار کا حامل سمجھتے ہیں جس کی معاونت اور فعال شراکت و رہنمائی کے بغیر خطے میں امن کی کوشش بار آور نہیں ہو سکتی ۔
اگر قیدیوں کی رہائی کا عمل رک گیا ہے تو اس کا سرا افغان حکومت کی ناقص حکمت عملی اور صدر کرزئی کے ایک نکاتی ایجنڈے کی پراسرایت میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کا مقصد جلد سے جلد پاکستانی، گوانتاناموبے اور افغانستان کی بڑی جیل سے طالبان قیدیوں کی رہائی ہے لیکن اس میں بھی بدنیتی شامل نہیں ہونی چاہیے، پاکستان نے تو دو درجن سے زیادہ طالبان قیدی جن میں ہائی پروفائل اسیران بھی تھے رہا کرکے امن کے کاز کو تقویت دی ، ادھرطالبان قیدیوں کی رواں سال کے اوائل میں اجتماعی دعائیہ تصویر بھی اخبارات میں شائع ہوئی تھی جس کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ قیدیوں کی دستیابی مذاکرات کی کامیابی کی سمت ایک بریک تھرو ہے مگر الزام تراشی کی زد میں پھر بھی پاکستان ہی آیا، یہ طرز عمل قیام امن کے ہر گزمفاد میں نہیں جائے گا ۔
افغانستان اگر سکیورٹی اور طالبان سے مصالحت کے عجیب مخمصے میں گرفتار ہے تو اس کے اسباب میں ایک تو پاک افغان امن روڈ میپ کے میکنزم کوزمینی حقائق کے پیش نظر سنجیدگی سے بروئے کار لانے میں سست روی ہے جب کہ دوسری جانب امریکا سے مذاکرات اور قطر میں امیر قطر سے صدر کرزئی کی بات چیت کے نتائج تاحال صیغہ راز میں ہیں حالانکہ تجزیہ نگار تھامس ریٹگ کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت ایک بڑی اسٹرٹیجی کا ابتدائیہ ہے تاہم اس کے اہداف اور مقاصد واضح نہیں ہیں۔
جہاں تک قیدیوں کی رہائی کا تعلق ہے ابتدائی طور پر کرزئی انتظامیہ نے رہائی کی حمایت کی مگر بعد ازاں موقف اختیار کیا کہ بعض طالبان رہائی کے بعد دوبارہ اپنے گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں جس کا پاکستان پر الزام لگایا گیا جس کے بعد دونوں ملکوں نے فیصلہ کیا کہ باقاعدہ نظام کے تحت قیدیوں کو رہا کیا جائے اور دونوں ممالک کے وزارت خارجہ کے حکام قیدیوں کی فہرستیں تیار کریں گے۔ فروری میں پاکستان، افغانستان برطانیہ اجلاس کے بعد میکنزم کو آپریشنل کرنے پر اتفاق کیا گیا مگر ابھی تک کوئی اجلاس نہیں ہوسکا اور اس کی وجہ کابل کی طرف سے پاکستان پر الزامات ہیں۔
رابطہ کرنے پر دفتر خارجہ کے ترجمان اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے اور ہر قسم کی مدد کو تیار ہے، پاکستان کی طرف سے کوئی رکاوٹ ہے نہ کوئی شرائط عائد کی گئی ہیں اور ہم ہر معاملہ پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ یاد رہے پاکستان کی طرف سے افغان امن کونسل کی درخواست پر نومبر میں پہلی بار طالبان قیدی رہا کیے گئے اور اب تک مجموعی طور پر 26 قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔ اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت تذبذب کے گرداب سے باہر نکلے، عالمی امن کے وسیع تر تناظر میں افغانستان کوخطہ امن بنانے کی موثر کوششیں جاری رکھی جائیں۔
کسی قسم کا سیٹ بیک ہو تو تمام اسٹیک ہولڈرز ساتھ مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امریکا کو افغانستان میں امن ، ترقی واستحکام اور اپنے فوجیوں کے محفوظ انخلا کو 2014 میں یقینی بنانا ہے تو اسے اس کٹھن کام میں پاکستان کی ضرورت پیش آئیگی۔ پاکستان کا کردار اہم ہے ۔ یہ ''ہیملٹ'' کا وہ ڈرامہ ہے جس میں ہیملٹ کو باہر نکالا گیا تو کہانی ختم ہوجائیگی۔ پاکستان کو اپنی ہی غلطی پر بار بار مورد الزام ٹھہرانے کی افغان حکام کو اپنی غیر دانشمندانہ روش پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور یہ بات جتنی امریکیوں،یورپی ممالک اور افغان حکام کی سمجھ میں آجائے اتنا ہی بہتر ہے۔
اس ضمن میں ہماری رائے یہ ہے کہ طالبان کے اثر ورسوخ کو کنٹرول کرنے ،نیٹو فورسز پر حملوں کی شدت کم کرنے کے لیے افغانستان میں معاشی سماجی اور تعلیمی شعبوں میں اصلاحات پر بھی ساتھ ساتھ توجہ دی جائے تو داخلی امن کی جستجو میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ افغانستان میں سلامتی،انفرااسٹرکچر کی مکمل فراہمی اور طالبان سے مفاہمت ایک مشکل ٹاسک ہے جس میں افغان حکام کو پاکستان سمیت پوری دنیا سے معاونت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا پڑیں گے۔