عزیز حامد مدنی
قیام پاکستان کے بعد مدنی صاحب کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے براستہ بمبئی بحری سفر کرکے پاکستان آگیا
عزیز حامد مدنی ایک ہفت پہلو اور شش جہت شخصیت کا نام ہے۔ وہ نہ صرف ایک ممتاز براڈ کاسٹر اور عظیم اسکالر بلکہ ایک بے مثل ماہر لسانیات، نقاد، محقق اور مترجم بھی تھے، لیکن شاعری ان کا طرہ امتیاز تھی۔
انھوں نے رائے پور کے ایک مشہور ومعروف علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد ماجد محمد حامد ساقی علامہ شبلی نعمانی کے چہیتے شاگرد اور مولانا محمد علی جوہر کے ہم جماعت تھے۔ رائے پور جو آزادی سے قبل سی پی میں شامل تھا، شروع ہی سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور اب یہ علاقہ مدھیہ پردیش کہلاتا ہے۔ جی ہاں! یہ وہی رائے پور ہے جس نے ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور ادیب رائے پوری جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نہ صرف عزیز حامد مدنی صاحب کے قریبی رشتے دار تھے بلکہ ذاتی طور پر بھی دونوں میں بڑی قربت اور ہم آہنگی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد مدنی صاحب کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے براستہ بمبئی بحری سفر کرکے پاکستان آگیا اور ان کا جہاز 22 فروری 1948 کو کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگیا۔ اس وقت کراچی میں ایک نفسا نفسی کا عالم تھا اور جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہیں آباد ہوگیا۔ چناں چہ کچھ عرصہ برنس روڈ کے گنجان علاقے میں رہائشی اختیار کے بعد مدنی صاحب اپنے خاندان کے ساتھ پیر الٰہی بخش کالونی منتقل ہوگئے اور اپنی آخری سانس تک وہیں رہے۔
مدنی صاحب نے ناگپور یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔اے کیا تھا اور ان کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ وہ سول سروس کا امتحان پاس کریں، لیکن انھوں نے شروع میں Screen Past نامی جریدے کی ادارت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پھر سندھ مسلم کالج میں انگریزی کے لیکچرر ہوگئے۔ پھر کچھ عرصے بعد زیڈ۔اے بخاری صاحب کے کہنے پر ریڈیوپاکستان میں ملازمت کرلی۔ اس وقت ریڈیو پاکستان، پاکستان نیول کالونی کے پاس ایک اسکول کے قریب چند خیموں میں قائم تھا۔مدنی صاحب کو وہاں پہنچنے کے لیے نامساعد حالات میں ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ مگر شروع سے ہی انھیں پیدل چلنا بہت پسند تھا۔ شام کے وقت ایم۔اے جناح روڈ پر واقع زیلنس کافی ہاؤس میں مدنی صاحب کی شہر کے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ بیٹھک جمتی جو اکثر تادیر جاری رہتی۔ ساقی فاروقی نے ان محفلوں کا تذکرہ اپنی کتاب میں بڑے زوروشور کے ساتھ کیا ہے۔
مدنی صاحب ایک وسیع المطالعہ دانشور تھے اور انگریزی کے علاوہ انھیں فرانسیسی ادب سے بھی بڑا گہرا لگاؤ تھا جس تک انھوں نے انگریزی کے ذریعے رسائی حاصل کی تھی۔ جدید فرانسیسی شاعروں کا مطالعہ اور ان کے کلام کا تجزیہ ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انھوں نے بعض منتخب فرانسیسی نظموں کا رواں ترجمہ بھی اردو میں نہایت خوبصورت انداز میں کرکے مترجم کی حیثیت سے اپنی غیرمعمولی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے شیکسپیئر کے ڈراموں کا بھی بہت خوب ترجمہ کیا جس میں اوتھیلو کو بڑا پسند کیا گیا۔
اردو میں شیکسپیئر کا یہ پہلا ترجمہ ہے جو Blank Verse میں کیا گیا۔ اس ترجمے سے اردو شاعری میں ایک نئی شعری لغت اور ایک نئی جمالیاتی فضا کا اضافہ ہوا ہے۔ جدید اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ بھی مدنی صاحب کا ایک بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے جو ولی دکنی سے شروع ہوکر غالب سے ہوتا ہوا اقبال تک فکرو وجدان کے تغیرات کا احاطہ کرتا ہے۔
مدنی صاحب نے اگست 1988 میں اہل علم و فن اور ارباب ذوق سے کھچا کھچ بھرے ہوئے کراچی میں واقع نیپا کے لیکچر ہال میں ''بابائے اردو یادگاری لیکچر'' کے سلسلے کا لیکچر دے کر تمام سامعین و حاضرین کو محظوظ ومبہوت کردیا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے دورانیے کے اس لیکچر میں مدنی صاحب نے فارسی، فرانسیسی، جرمن، انگلش اور امریکی صاحبان فکرونظر کا خوبصورت احاطہ کیا تھا۔
ان کی ایک کتاب بعنوان ''فیض احمد فیض ایک مطالعہ، آج بازار میں پابجولاں چلو'' بھی ان کا ایک بہت بڑا ادبی و تنقیدی کارنامہ ہے۔
مگر مدنی صاحب کا بنیادی حوالہ اور اصل شناخت ان کی شاعری ہے۔ وہ عہد حاضر کے ایک منفرد اور تازہ کار شاعر ہیں۔ 1946 میں رائے پور کے آل انڈیا مشاعرے میں اپنی نظم ''آج کی رات کے بعد'' سنا کر انھوں نے بہت داد سمیٹی تھی۔ یہ وہی تاریخی مشاعرہ تھا جس میں ساحر لدھیانوی نے پہلی مرتبہ اپنی مشہور نظم ''تاج محل''سنائی تھی۔ اختر الایمان بھی اس مشاعرے میں شریک تھے۔ ساحر اور اختر کے ساتھ مدنی صاحب کے ذاتی مراسم تھے۔ مدنی صاحب کا تبادلہ جب ریڈیو پاکستان پشاور ہوا تو ان کی شاعری کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان پشاور ہی علم وادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ ن۔م راشد اسٹیشن ڈائریکٹر تھے اور خاطر غزنوی اور احمد فراز اپنی اپنی شاعری کو نئے رنگ دینے میں مصروف تھے۔
اگرچہ نظم میں بھی عزیز حامد مدنی نے اپنی انفرادیت کے خوب جوہر دکھائے ہیں مگر غزل کے میدان میں تو انھوں نے کمال ہی کر دکھایا ہے۔ معروف و معتبر نقاد شمیم احمد کا کہنا ہے کہ جب تک مدنی کی غزل گوئی کا ذکر نہ کیا جائے تب تک ان کی شاعری کا جائزہ نامکمل رہے گا۔ ان کی غزل نے اردو غزل کو سائنسی عہد تک پہنچادیا ہے جہاں فطرت اور قدرت کا عمل اور حسن کے قدرتی اور فطری عمل سے آمیز ہوجاتا ہے۔
مدنی صاحب کے تین شعری مجموعے ''چشم ِنگراں''، ''دشت ِامکاں'' اور ''نخل ِگماں'' کے عنوان سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں اور زبردست پذیرائی و مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ مدنی صاحب کے ہر شعر پر ان کی انمٹ چھاپ موجود ہے جو انھیں دوسرے تمام شاعروں میں نمایاں کرتے ہیں۔ چند منتخب اشعار سماعت فرمائیں اور داد پر داد دیں۔
فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سبق ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے
جو بتکدے میں تھے وہ صاحبان کشف و کمال
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے
غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے
٭٭
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقہ گردش حال لے گئی
٭٭
اک آدمی سے محبت کے نام پر برسوں
جو گفتگوت تھی وہی بار بار آتی ہے
٭٭
زمزمہ پیرا کوئی خونیں نوا ہوجائے گا
جب بہار آئے گی زخم دل ہرا ہوجائے گا
٭٭
نگاہ ناز سب رمز محبت کہہ گئی آخر
خرد کی پردہ داری کیا کف افسوس ملتی ہے
اور اب مدنی صاحب کے نہاں اور عیاں احساسات و اضطراب کی دل گداز تصویر ان اشعار کی صورت میں دیکھئے۔
موج خوں میں اتر گئی اے جاں
سب ترے خال و خط کی رعنائی
کس سے کہیے کہ ایک تیرے بغیر
کھا گیا دل کو داغ تنہائی
شاعری مدنی صاحب کا اوڑھنا اور بچھونا اور سرمایہ حیات تھی جس نے تادم آخر ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ رحلت سے دو گھنٹے قبل بھی انھوں نے یہ خوبصورت شعر کہے تھے۔
سارے مزاج آشنا بیٹھے رہے بہارکے
تیز ہوا دکھا گئی ہاتھ کئی کٹار کے
خانہ ٔعشق میں ضرور چاہیے کوئی یادگار
پیرہن سفر زدہ رکھ تو دیا اتار کے
سرکار دو عالمؐ سے قلبی لگاؤ کی بنا پر مدنی صاحب نے چند خوبصورت نعتیں بھی کہیں جس کا علم شاید بہت کم لوگوں کو ہوگا۔ حوالے کے طور پر ان کی ایک نعت کے یہ اشعار پیش ہیں:
مرحبا سید والا یہ افق تابی بھی
حرف کا محاق ہوا جاتا ہے محرابی بھی
بزم عالم کی بنا کیا تھی ظہور قدسی
معجز نور ازل عشق کی بے تابی بھی
اور اب ایک اور نعت کے یہ دو اشعار:
فقط تیرے کرم کا منتظر اب رہ گیا ہوں میں
جہاں کی رسم اب ہوتی چلی ہے مردم آزاری
تو اب مولائے یثرب آپ میری رستگیری کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
عزیز حامد مدنی 1981 میں ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور 23 اپریل 1991 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔
انھوں نے رائے پور کے ایک مشہور ومعروف علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد ماجد محمد حامد ساقی علامہ شبلی نعمانی کے چہیتے شاگرد اور مولانا محمد علی جوہر کے ہم جماعت تھے۔ رائے پور جو آزادی سے قبل سی پی میں شامل تھا، شروع ہی سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور اب یہ علاقہ مدھیہ پردیش کہلاتا ہے۔ جی ہاں! یہ وہی رائے پور ہے جس نے ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور ادیب رائے پوری جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نہ صرف عزیز حامد مدنی صاحب کے قریبی رشتے دار تھے بلکہ ذاتی طور پر بھی دونوں میں بڑی قربت اور ہم آہنگی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد مدنی صاحب کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے براستہ بمبئی بحری سفر کرکے پاکستان آگیا اور ان کا جہاز 22 فروری 1948 کو کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوگیا۔ اس وقت کراچی میں ایک نفسا نفسی کا عالم تھا اور جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہیں آباد ہوگیا۔ چناں چہ کچھ عرصہ برنس روڈ کے گنجان علاقے میں رہائشی اختیار کے بعد مدنی صاحب اپنے خاندان کے ساتھ پیر الٰہی بخش کالونی منتقل ہوگئے اور اپنی آخری سانس تک وہیں رہے۔
مدنی صاحب نے ناگپور یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔اے کیا تھا اور ان کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ وہ سول سروس کا امتحان پاس کریں، لیکن انھوں نے شروع میں Screen Past نامی جریدے کی ادارت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پھر سندھ مسلم کالج میں انگریزی کے لیکچرر ہوگئے۔ پھر کچھ عرصے بعد زیڈ۔اے بخاری صاحب کے کہنے پر ریڈیوپاکستان میں ملازمت کرلی۔ اس وقت ریڈیو پاکستان، پاکستان نیول کالونی کے پاس ایک اسکول کے قریب چند خیموں میں قائم تھا۔مدنی صاحب کو وہاں پہنچنے کے لیے نامساعد حالات میں ایک طویل سفر طے کرنا پڑتا تھا۔ مگر شروع سے ہی انھیں پیدل چلنا بہت پسند تھا۔ شام کے وقت ایم۔اے جناح روڈ پر واقع زیلنس کافی ہاؤس میں مدنی صاحب کی شہر کے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ بیٹھک جمتی جو اکثر تادیر جاری رہتی۔ ساقی فاروقی نے ان محفلوں کا تذکرہ اپنی کتاب میں بڑے زوروشور کے ساتھ کیا ہے۔
مدنی صاحب ایک وسیع المطالعہ دانشور تھے اور انگریزی کے علاوہ انھیں فرانسیسی ادب سے بھی بڑا گہرا لگاؤ تھا جس تک انھوں نے انگریزی کے ذریعے رسائی حاصل کی تھی۔ جدید فرانسیسی شاعروں کا مطالعہ اور ان کے کلام کا تجزیہ ان کا پسندیدہ موضوع تھا۔ انھوں نے بعض منتخب فرانسیسی نظموں کا رواں ترجمہ بھی اردو میں نہایت خوبصورت انداز میں کرکے مترجم کی حیثیت سے اپنی غیرمعمولی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے شیکسپیئر کے ڈراموں کا بھی بہت خوب ترجمہ کیا جس میں اوتھیلو کو بڑا پسند کیا گیا۔
اردو میں شیکسپیئر کا یہ پہلا ترجمہ ہے جو Blank Verse میں کیا گیا۔ اس ترجمے سے اردو شاعری میں ایک نئی شعری لغت اور ایک نئی جمالیاتی فضا کا اضافہ ہوا ہے۔ جدید اردو شاعری کا تنقیدی جائزہ بھی مدنی صاحب کا ایک بہت بڑا ادبی کارنامہ ہے جو ولی دکنی سے شروع ہوکر غالب سے ہوتا ہوا اقبال تک فکرو وجدان کے تغیرات کا احاطہ کرتا ہے۔
مدنی صاحب نے اگست 1988 میں اہل علم و فن اور ارباب ذوق سے کھچا کھچ بھرے ہوئے کراچی میں واقع نیپا کے لیکچر ہال میں ''بابائے اردو یادگاری لیکچر'' کے سلسلے کا لیکچر دے کر تمام سامعین و حاضرین کو محظوظ ومبہوت کردیا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے دورانیے کے اس لیکچر میں مدنی صاحب نے فارسی، فرانسیسی، جرمن، انگلش اور امریکی صاحبان فکرونظر کا خوبصورت احاطہ کیا تھا۔
ان کی ایک کتاب بعنوان ''فیض احمد فیض ایک مطالعہ، آج بازار میں پابجولاں چلو'' بھی ان کا ایک بہت بڑا ادبی و تنقیدی کارنامہ ہے۔
مگر مدنی صاحب کا بنیادی حوالہ اور اصل شناخت ان کی شاعری ہے۔ وہ عہد حاضر کے ایک منفرد اور تازہ کار شاعر ہیں۔ 1946 میں رائے پور کے آل انڈیا مشاعرے میں اپنی نظم ''آج کی رات کے بعد'' سنا کر انھوں نے بہت داد سمیٹی تھی۔ یہ وہی تاریخی مشاعرہ تھا جس میں ساحر لدھیانوی نے پہلی مرتبہ اپنی مشہور نظم ''تاج محل''سنائی تھی۔ اختر الایمان بھی اس مشاعرے میں شریک تھے۔ ساحر اور اختر کے ساتھ مدنی صاحب کے ذاتی مراسم تھے۔ مدنی صاحب کا تبادلہ جب ریڈیو پاکستان پشاور ہوا تو ان کی شاعری کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان پشاور ہی علم وادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ ن۔م راشد اسٹیشن ڈائریکٹر تھے اور خاطر غزنوی اور احمد فراز اپنی اپنی شاعری کو نئے رنگ دینے میں مصروف تھے۔
اگرچہ نظم میں بھی عزیز حامد مدنی نے اپنی انفرادیت کے خوب جوہر دکھائے ہیں مگر غزل کے میدان میں تو انھوں نے کمال ہی کر دکھایا ہے۔ معروف و معتبر نقاد شمیم احمد کا کہنا ہے کہ جب تک مدنی کی غزل گوئی کا ذکر نہ کیا جائے تب تک ان کی شاعری کا جائزہ نامکمل رہے گا۔ ان کی غزل نے اردو غزل کو سائنسی عہد تک پہنچادیا ہے جہاں فطرت اور قدرت کا عمل اور حسن کے قدرتی اور فطری عمل سے آمیز ہوجاتا ہے۔
مدنی صاحب کے تین شعری مجموعے ''چشم ِنگراں''، ''دشت ِامکاں'' اور ''نخل ِگماں'' کے عنوان سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں اور زبردست پذیرائی و مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ مدنی صاحب کے ہر شعر پر ان کی انمٹ چھاپ موجود ہے جو انھیں دوسرے تمام شاعروں میں نمایاں کرتے ہیں۔ چند منتخب اشعار سماعت فرمائیں اور داد پر داد دیں۔
فراق سے بھی گئے ہم وصال سے بھی گئے
سبق ہوئے ہیں تو عیش ملال سے بھی گئے
جو بتکدے میں تھے وہ صاحبان کشف و کمال
حرم میں آئے تو کشف و کمال سے بھی گئے
غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں
ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے
٭٭
تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقہ گردش حال لے گئی
٭٭
اک آدمی سے محبت کے نام پر برسوں
جو گفتگوت تھی وہی بار بار آتی ہے
٭٭
زمزمہ پیرا کوئی خونیں نوا ہوجائے گا
جب بہار آئے گی زخم دل ہرا ہوجائے گا
٭٭
نگاہ ناز سب رمز محبت کہہ گئی آخر
خرد کی پردہ داری کیا کف افسوس ملتی ہے
اور اب مدنی صاحب کے نہاں اور عیاں احساسات و اضطراب کی دل گداز تصویر ان اشعار کی صورت میں دیکھئے۔
موج خوں میں اتر گئی اے جاں
سب ترے خال و خط کی رعنائی
کس سے کہیے کہ ایک تیرے بغیر
کھا گیا دل کو داغ تنہائی
شاعری مدنی صاحب کا اوڑھنا اور بچھونا اور سرمایہ حیات تھی جس نے تادم آخر ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ رحلت سے دو گھنٹے قبل بھی انھوں نے یہ خوبصورت شعر کہے تھے۔
سارے مزاج آشنا بیٹھے رہے بہارکے
تیز ہوا دکھا گئی ہاتھ کئی کٹار کے
خانہ ٔعشق میں ضرور چاہیے کوئی یادگار
پیرہن سفر زدہ رکھ تو دیا اتار کے
سرکار دو عالمؐ سے قلبی لگاؤ کی بنا پر مدنی صاحب نے چند خوبصورت نعتیں بھی کہیں جس کا علم شاید بہت کم لوگوں کو ہوگا۔ حوالے کے طور پر ان کی ایک نعت کے یہ اشعار پیش ہیں:
مرحبا سید والا یہ افق تابی بھی
حرف کا محاق ہوا جاتا ہے محرابی بھی
بزم عالم کی بنا کیا تھی ظہور قدسی
معجز نور ازل عشق کی بے تابی بھی
اور اب ایک اور نعت کے یہ دو اشعار:
فقط تیرے کرم کا منتظر اب رہ گیا ہوں میں
جہاں کی رسم اب ہوتی چلی ہے مردم آزاری
تو اب مولائے یثرب آپ میری رستگیری کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری
عزیز حامد مدنی 1981 میں ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور 23 اپریل 1991 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔