جانچ پڑتال ہوگئی

ٹیکسٹائل کا دیہاڑی دار مزدور 5000 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتا ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

گزشتہ دنوں تقریباً 24 ہزار سے زاید کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہوا ،سندھ میں صوبائی الیکشن کمیشن نے 27 ہزار کی رپورٹ پیش کی ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن افضل خان نے اعلان کیا کہ امیدوار کے انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد بھی اگر دھوکا دہی کے ثبوت ملے تو ان کے نتائج کالعدم ہوسکتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ انتخابات میں ایسے لوگوں کو حصہ لینا اور منتخب ہونا چاہیے جو ایماندار ہوں اور دھوکا دہی نہ کی ہو یا آئندہ نہ کریں۔ مگر اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے یہ ایک دیوانے کا خواب ہے۔ اس لیے کہ ریاست دولت مندوں کی محافظ اور جبر کا ادارہ ہے۔ اس کے تمام ستون اس کی رکھوالی اور بجاآوری کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ داری نظام کی کوئی برائی نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اس دنیا کے 3 امیرترین انسان 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں اور دوسری طرف روزانہ بھوک سے 50 ہزار انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

دنیا میں ہر سال 8 ارب ڈالر کے اسلحے کا بیوپار ہوتا ہے۔ ایک جانب پاکستان کا ایک شخص ہر ماہ 8 کروڑ 20 لاکھ روپے کماتا (لوٹتا) ہے تو دوسری جانب 1132 بچے بھوک سے روز مرجاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال 4 لاکھ 20 ہزار بچے 5 سال کی کم عمری میں ہی جان سے جاتے رہتے ہیں، زچگی کے دوران ہر سال 30 ہزار خواتین مرجاتی ہیں۔ قومی اسمبلی کا سابق امیر ترین رکن اے نور عالم جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ، ان کے پاس 32 ارب روپے کے اثاثے ہیں تو حلقہ این اے 258 ملیر کے قومی اسمبلی کے امیدوار ریاض حسین لونڈ بلوچ ایڈووکیٹ جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ان کا اثاثہ بینک میں 9000 روپے اور 10 لاکھ کا مکان جس میں وہ رہتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ وہ سوشلسٹ نظریات کے ہیں۔ ٹیکسٹائل کا دیہاڑی دار مزدور 5000 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتا ہے۔ ایک جانب 300 مزدور بلدیہ ٹاؤن میں آگ میں جھلس کر مرجاتے ہیں اور اس پر کوئی حکومت یا صدارت کسی بھی قاتل کو سزا نہیں دیتی ۔ بعض افرادکے یہ اعتراف کرنے کے باوجود کہ انھوں نے کروڑوں روپے آئی جے آئی (دائیں بازو) کو جتوانے کے لیے بینک سے لے کر بٹوائے یہ ایک کھلم کھلی بڑی کرپشن ہے لیکن رقم بانٹنے اور حاصل کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا اور نہ کوئی سزا ہوئی۔

جب کہ ایسے لوگوں کو جیل بھیجا جارہا ہے اور کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے ہیں جنھوں نے نسبتاً محدود کرپشن کی ہے۔ بینکوں سے اربوں روپے قرض لے کر معاف کروانے والے نہ صرف دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ معزز رہنما بھی ہیں۔ قرض لے کر معاف کروانے والوں میں بڑے نام شامل ہیں۔ سابق وزیر اعظم کے رینٹل پاور کیس کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی مسترد کردیے گئے ہیں۔ پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا جاتا ہے۔ ہر چندکہ ان پر غداری کے مقدمات ہیں، مگر ابھی تک کوئی سزا نہیں ہوئی، اس کے باوجود ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جاتے ہیں۔

اس خوشی میں ایک مذہبی و سیاسی جماعت مٹھائیاں تقسیم کرتی ہے جب کہ یہی جماعت جنرل ضیاء الحق کے لیے ''مرد مومن حق ، ضیاء الحق ضیاء الحق'' کے نعرے لگاتی تھی۔ایک شوگرملز میں چار مزدور جھلس کر جاں بحق ہونے پر نوٹس لینے والے ادارے خاموش ہیں۔ سب نہ سہی مگر چند ریٹرننگ افسران بے شمار چیزوں کے متعلق لاعلم ہوں گے۔ انھیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ فیجی اور سورینام کہاں ہیں اور یہاں کی آبادی کتنی ہے اور کون سی زبان بولی جاتی ہے۔


سوالات ایسے کیے گئے کہ جیسے کسی اسلامی فرقے کے مدرسے میں داخلہ لینے کے لیے کوئی طالب علم آیا ہو۔ کسی سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ آپ انتخاب کیوں لڑنا چاہتے ہیں، اسمبلی میں جاکر کیا کریں گے، مہنگائی پر اور بے روزگاری پر کیسے قابو پائیں گے، آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے قرضے لیں گے یا نہیں، قومی اخراجات میں کمی کریں گے یا بڑھا دیں گے، تعلیم اور صحت کا بجٹ 0.8 اور 0.4 فیصد سے بڑھا کر کتنا کرنے کی کوشش کریں گے، آپ اپنی تنخواہ ختم کریں گے یا اضافہ کروائیں گے؟ ایک مزدور کی کم ازکم تنخواہ کتنی ہوگی؟ یہ نوکر شاہی ایسے سوالات کر نہیں سکتے اس لیے کہ یہ خود سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہیں۔

درحقیقت اس ملک کی باگ ڈور کی حکمرانی اور لوٹ مار وردی بے وردی والی نوکر شاہی سب سے زیادہ کرتی ہے۔ ریٹرننگ افسروں نے یہ نہیں بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں کتنے فیصد مزدور اور کسان ہیں، یا ہیں بھی کہ نہیں؟ جو اس ملک کی آبادی کے 70 فیصد ہیں۔ دنیا میں اسلحے کی پیداوار اور تجارت میں پاکستان کا 11 واں نمبر ہے جب کہ تعلیم میں 132 واں اور صحت میں134 واں ہے۔ دنیا کے کل خریدے جانے والے اسلحوں میں سے پاکستان 5 فیصد خریدتا ہے۔ جن میں چین سے 42 فیصد، امریکا سے 36 فیصد اور سوئیڈن سے 5 فیصد۔

ہمارا فوجی بجٹ 510 ارب روپے اور صحت پر فی آدمی 20پیسے، ہمارے سفید دھن کا گروتھ ریٹ 1.6 فیصد جب کہ کالے دھن کا گروتھ ریٹ 9 فیصد ہے۔ یعنی ہمارے ملک کے باروزگار لوگوں کے 10 میں سے 9 ناجائز روزگار حاصل کرتے ہیں۔ اس لوٹ مار میں معیشت کی تنزلی تو ہوسکتی ہے لیکن بڑھوتری نہیں۔ اس سنگین صورت حال میں کوئی بھی جماعت عوام کی بھلائی کرنا تو درکنار سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس وقت پاکستان کے سب سے امیر ترین انسان جو سیاستدان بھی ہیں، پھر یہ کیونکر عوام کی بھلائی کرسکتے ہیں؟ جہاں بجٹ کا 76 فیصد کالا دھن ہو وہاں ریاست ختم تو ہوسکتی ہے مگر کرپشن نہیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ عام شہری اور محنت کشوں کا ایسا انقلاب برپا ہو جو تمام ذرائع پیداوار کو اپنے ماتحت کرلے۔ ساری پیداوار کو سارے لوگوں کی اجتماعی ملکیت قرار دے۔ کوئی ارب پتی رہے اور نہ کوئی بھوکا مرے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں سیکڑوں کی محنتوں پہ ایک نہ پلے۔ خودکار انجمنیں اپنی کارہائے زندگی خود انجام دیں۔ یہی راستہ ہے جو عوام کی قسمت کو بدلنے اور جنت نظیر دنیا کی تشکیل کرسکتا ہے۔ جہاں تک سرمایہ دارانہ پارٹیوں کا تعلق ہے خواہ وہ قومی، جمہوری، نسلی، مذہبی یا فرقہ وارانہ کیوں نہ ہوں یہ عوام کو مصیبتیں تو دے سکتی ہیں کوئی خوشی نہیں دے سکتیں۔ انھیں صرف جلسوں میں رقم خرچ کرنے اور آغا حشر جیسے ڈرامے والی تقریر کرنے آتی ہے اور جھوٹے وعدے کرنے آتے ہیں۔ اس پر حبیب جالب نے خوب کہا ہے کہ:

آٹا مہنگا بکے، کیے جاؤ تقریر
خون بہتا رہے، کیے جاؤ تقریر
کوئی سنے یا نہ سنے، بس کیے جاؤ تقریر
Load Next Story