کچھ لوگ میرے شہر کے

کوئی بارات اس کی دکان کے آگے سے گذرتی تو کسی کے کہے بغیر اٹھ کر ڈھول کی تھاپ پر ناچنا شروع کردیتا۔

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا، اسے گرم دودھ کی کڑھائی میں بڑی سائزکا فولادی چمچہ (کڑچھی) چلاتے اور پھر اس سے ماوا اور برفی بنا کر بیچتے دیکھا۔ شاہی بازار کے بھاون شاہ چؤک میں اس کی دکان پہلے پولیس تھانے کو جانے والی گلی کے نکڑ پر ہوا کرتی تھی۔ پرائمری اسکول کے آخری چوتھے درجے میں آکر جب ہمیں ایک آنہ جیب خرچ ملنا شروع ہوا تو ہم کبھی کبھی اس سے ماوا لے کرکھایا کرتے تھے،کھاتے کیا تھے اس سے لگا کر اپنی انگلی ہی چاٹتے رہتے تھے۔

ہتھیلی کے سائزکے چھوٹے چوکورکاغذ پر رکھ کر وہ ایک آنے کا جو تھوڑا سا ماوا دیا کرتا تھا وہ بمشکل چائے کے چمچ جتنا ہوتا ہوگا جسے فوراً کھا کر ختم کرنے کو دل نہیں مانتا تھا اس لیے ماوا لگی انگلی چاٹ کر دیر تک اس کا مزہ لیا کرتے تھے ۔

ویسے وہ ہوتا اتنا عمدہ تھا کہ بار بارکھانے کو جی چاہے۔ پانچ چھ سیر (کلو) دودھ پکا پکا کر وہ جو سیر بھر ماوا تیا ر کرتا، شام کو دکان بندکرنے تک سارا بک جاتا تھا ۔ اس کے دوسرے دن کا آغاز پھر کڑھائی میں کڑچھی گھمانے سے ہوتا۔ بعد میں اس نے سامنے والی دکان لے لی تھی جو میروں کے کوٹ کی طرف جانے والی گلی کے نکڑ پر تھی۔ ادھیڑ عمر کا یہ پستہ قامت شخص لیکھو ماوے والا کے نام سے مشہور تھا، کچھ لوگ اسے ماسٹر لیکھوکہہ کر بھی بلاتے تھے، سنا تھا پہلے کبھی وہ اسکول ماسٹر رہ چکا تھا۔

کوئی بارات اس کی دکان کے آگے سے گذرتی تو کسی کے کہے بغیر اٹھ کر ڈھول کی تھاپ پر ناچنا شروع کردیتا اور دلہے پر سے وارکر ہوا میں اچھالے ہوئے کچھ سکے جھپٹ لیا کرتا۔ اس کا گھر اسی گلی کے وسط میں لچھی مہتی کے گھرکے عین سامنے تھا جس میں وہ اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ گرمیوں کے دن ہو ں یا کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہو، علی الصبح سپارہ پڑھنے مسجد جاتے ہوئے ہم اسے اپنے گھرکے باہر چبوترے پر مٹکے کے یخ ٹھنڈے پانی سے نہاتے دیکھا کرتے ،جو اس کا روزکا معمول تھا۔

کوٹ کی طرف سے گلی کے شروع میں رئیس میر محمد کی اوطاق کے سامنے مستری غفور اور ماسٹر دھنی بخش کے گھروں کے بالمقابل بھگڑے ماء ْ (بھگڑے کی ماں) کا گھر تھا جس کے صحن اور کمروں میں جا بجا اچارکی برنیاں اور مٹکے رکھے ہوتے تھے۔ پستہ قدکی جھکی ہوئی کمر والی یہ بڑھیا پیاز اورگاجرکا پانی والا کھٹا اچار بنا کر بیچا کرتی تھی۔ ایک ہاتھ میں کنجھے کا خالی پیالہ اور دوسرے ہاتھ میں اکنی یا دونی کا سکہ پکڑے بچے اس کے گھر کے باہر قطار لگائے کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے۔

بچپن میں ہم بھی کئی بار اس قطار میں لگے تھے، چائے کی پتیلی کے سائزکا بڑا پیالہ دوآنے میں لبا لب بھرکے ملتا جوگھر بھر کے ایک وقت کے کھانے کے لیے کافی ہوتا تھا، اچار پیاز کا ہوتا تو چار ٹکڑے کیے ہوئے پیازکی ایک بڑی گانٹھ اورگاجرکا ہوتا تو انگلی کی سائزکی آٹھ دس پھانکوں کے ساتھ پیالہ بھر کے رائی کے دانوں والا کھٹاپانی ملتا جو گھر تک آتے آتے ہم آدھا راستے میں ہی پی جایا کرتے۔ بھگڑے ماء کا بیٹا کبھی کپاس تو کبھی اجناس کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا، بیچارے کا سر سفید ہوگیا تھا پر شادی نہیں ہوئی تھی اورکنوارہ تھا۔


بڑھاپے میں قسمت جاگی تو بھگڑے ماء ْ اڈیرو لعل سے بیٹے کے لیے پندرہ سولہ سال کی نہایت خوبصورت دلہن ڈھونڈ لائی جو بعد میں ہر وقت دروازے میں کھڑی لڑکوں کو اشارے کیا کرتی تھی۔ اس نے ساس سے اچار بنانا اور بیچنا چھڑوا دیا کہ اسے بہوکی نگرانی ہی سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ ایک دو بار اس نے ابا اور ڈاکٹر ابراہیم سے شکایت کرکے ہماری اور اقبال کی پٹائی بھی کروائی تھی۔لیکن ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' کے مصداق ان کی گلی کا چکر لگانے والوں میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہا اور یہ سلسلہ پہلے بھگڑے ماء ْ اور پھر خود بھگڑے کے مرنے تک جاری رہا جب لڑکی کے گھر والے آکر اسے ساتھ لے گئے۔وہ کیا گئی گلی اور محلہ ہی اجڑ گیا۔

ان دونوں (لیکھو اور بھگڑے ماء ْ) سے کہیں مختلف و منفرد ہمارے ہم جماعت قیمت کی دادی تھی جس کا ایک بیٹا پولیس میں ہیڈ محرر تو دوسرا پان سگریٹ کا کھوکھا چلاتا تھا۔ قیمت کے باپ کی پوسٹنگ حیدرآباد میں تھی اور اس کا شاذونادر ہی گھر آنا ہوتا تھا۔ دونوں بھائی جب تک ادھیڑ عمر کے نہیں ہوگئے ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔

قیمت کی دادی اپنی بہوئیں لائی تو پتہ نہیں کہاں سے تھی، لیکن اس میں شک نہیں کہ چھانٹ کے لائی تھی۔ دونوں بہنیں جوان اور خوبصورت تو تھیں ہی، جب اپنی ساس کے ساتھ بن ٹھن کر تعارفی دورے پر نکلتیں تو سب کی توجہ ان کی طرف مبذول ہوجاتی کیونکہ وہاں کے دیہاتی ماحول میں عورتوں کا اس طرح بے حجاب نکلنا نئی بات تھی۔ پھر ایک دن دونوں بہنوں نے گھر میں مٹی کا تیل چھڑک کر خود سوزی کرلی، شہر پر کئی روز تک سوگ کی سی کیفیت طاری رہی، ہر کوئی دکھی نظر آتا تھا۔ خدا جانے افواہ تھی یا حقیقت، انھوں نے قیمت کے چچا کی بے وفائی سے دلبرداشتہ ہوکر یہ اقدام کیا تھا جس کے ایک بھنگن سے ناجائز تعلقات تھے۔

خیر ان کا ذکر یوں ہی درمیان میں آ گیا، ہم آپ کو قیمت کی دادی سے ملوانا چاہ رہے تھے، اگرچہ اس زمانے میں بھی گاؤں دیہات کے بچوں کو چیچک کے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے تھے لیکن کبھی کبھار اچانک یہ بیماری کسی وبا کی طرح پھوٹ پڑتی تھی اور زیادہ تر بچے ہی اس کی زد میں آتے تھے۔ وہاں چیچک کو ماتا کہتے تھے، اگر کسی کھاتے پیتے آدمی کے گھر میں کسی بچے کو چیچک نکلتی تو وہ لوگ اس کاعلاج کرانے کے بجائے قیمت کی دادی کو بْلا بھیجتے جو گراموفون اور نسوانی آواز میں گائے ہوئے بھجن کا ریکارڈ لے کر پہنچتی اور مریض بچے کے سرہانے بیٹھ کر اسے وہ بھجن سنواتی۔ اس کا کہنا تھا کہ بھجن سن کر ماتا اس گھر سے چلی جاتی ہے۔ قیمت کے بقول اس کی دادی اس کام سے ٹھیک ٹھاک کما لیتی تھی، جب کبھی اس کو دادی کے پیسے چرانے کا موقع ملتا، وہ ہمیں منگھا رام کے جیبی بسکٹ کھلانا نہیں بھولتا تھا۔

ایسر داس بھی ٹنڈوغلام علی کی ہندو برادری کا ایک فرد تھا جس کا گھر سیٹھ پنجو مل کی ماڑی سے متصل تھا، لالہ غفور پٹھان کے ہوٹل کے بالمقابل مٹھائی کے کھوکھے کے ساتھ اس کی دکان ہوا کرتی تھی، دکان کیا تھی شاید بچا کھچا سامان ختم کرنے کے لیے کھولی اور بند کی جاتی تھی، سارا دن بیٹھا مکھیاں مار رہا ہوتا تھا۔ ایک دن اس نے منہ چھپا کر جاتے ہوئے ایک شخص کو، جو مضافاتی گاؤں کا رہائشی تھا، آواز دیکر بلایا اور ادھار لیے ہوئے سامان کے پیسے طلب کیے۔

اس نے ایسر کی منت سماجت کی اور وعدہ کیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اس کا قرضہ چکا دے گا، وہ شور نہ مچائے اور اس کی عزت کا کچھ خیال کرے لیکن ایسر پر اس کا الٹا اثر ہوا اور اس نے شور مچا مچا کر اچھا خاصا مجمع جمع کرلیا۔ اب اس آدمی کی جو بے عزتی ہونی تھی وہ تو ہوگئی، بپھر کر بولا اب میں ایک پیسہ بھی نہیں دوں گا تم سے جو ہوسکے کرلو۔ ایسر کی شامت آئی ہوئی تھی سو اس نے ہاتھ بڑھاکر اس کا گریبان پکڑ لیا، جواب میں اس آدمی نے بھی لپک کر وہ ڈنڈا اٹھا لیا جس سے ایسر اپنی پالتو بلیوں کو بھگایا کرتا تھا اور لگا ایسر کو بے تحاشا پیٹنے۔ اس کی دلدوز چیخیں اور بچاؤ بچاؤ کی صدائیں سن کر پاس پڑوس کے دکاندار بھاگ کر مدد کو پہنچے اور اس کو مزید پٹنے سے بچایا۔ اس کا مارکھانے کے بعد کراہتے ہوئے یہ کہنا میں آج تک نہیں بھولا کہ ''تم لوگ نہ چھڑاتے تو میں اسے ٹھیک کر دیتا ۔''
Load Next Story