معین اختر اور پی ٹی وی
معین اختر کی داستانِ حیات ایک طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اپنی جیون کتھا بھی ہے۔
KARACHI:
شوبِز کی دنیا میں یہ بات محاورے کی طرح مشہور ہے کہ شہرت کی چوٹی پر پہنچ جانا تو آسان ہے، لیکن وہاں ٹِکے رہنا بہت مشکل ہے کیوں کہ شہرت و مقبولیت ایک ہرجائی محبوبہ کی طرح کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔
معین اختر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس ہرجائی محبوبہ کو رام کر چکے تھے اور سن ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں کام یابی کا جو تاج معین اختر کے سَر پر سجا دیا گیا تھا اسے معین اختر نے آخری لمحے تک گِرنے نہیں دیا۔
معین اختر کی داستانِ حیات ایک طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اپنی جیون کتھا بھی ہے۔ دونوں ایک ساتھ منظرِ عام پر آئے۔ دونوں نے اکٹھے مقبولیت اور شہرت کا سفر کیا اور دونوں کا نام دنیا بھر میں آباد پاکستانیوں تک ایک ساتھ پہنچا اور پھر میڈیا کے بدلتے ہوئے عالمی منظر نے جو نئے چیلنج پیش کیے، ان سے بھی دونوں ایک ساتھ نبرد آزما ہوئے۔
نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہے۔ یہ سبق معین اختر نے اپنے کیریر کی ابتدا ہی میں سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ نقالی کے فن میں ید طولٰی حاصل کرنے کے باوجود اس نے خود کو اس مہارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر اداکاری کے تخلیقی جوہر تک رسائی حاصل کی۔
مختلف ڈراموں میں منچلے نوجوان سے لے کر ایک سنکی بڈھے تک کے جو کردار انھوں نے ادا کیے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ معین اختر کا فن ایک نقّال کی محدود چار دیواری توڑ کر فن کے وسیع و عریض میدان میں آنکلا ہے اور اس میدان میں مِس روزی کا کردار ایک ایسا چیلنج ثابت ہوا جسے قبول کر کے معین اختر نے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں سے بھی داد وصول کر لی۔
معین اختر نے مشرقِ وسطیٰ میں کئی شو منعقد کیے اور برِصغیر کے سب سے بڑے ادا کار دلیپ کمار تک کو اپنا فین بنا لیا۔
ایک شو میں دلیپ کمار کے اسٹیج پر آنے سے پہلے معین اختر نے مائیکرو فون منہ کے بالکل قریب لا کر دلیپ کمار کی آواز میں ان کی ایک فلم کے مکالمے بولنے شروع کر دیے۔ حاضرین تو خیر حیران ہوئے ہی، خود دلیپ کمار بھی ششدر رہ گئے اور پھر دونوں کی دوستی کا ایسا آغاز ہوا جو آخر تک جاری رہا۔
اردو معین کی اپنی زبان تھی، لیکن بنگالی، سندھی، میمنی اور گجراتی سے انھوں نے محض فن کارانہ ضروریات کے تحت شناسائی پیدا کی اور ان زبانوں کے لہجے اور تلفظ پر ایسا عبور حاصل کیا کہ اہلِ زبان کو بھی انگشت بدنداں کر دیا۔ بعد میں انھوں نے پشتو اور پنجابی کے لہجوں پر بھی کام کیا اور جب جب موقع ملا اِن لہجوں میں بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ بھی کیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے بلیک اینڈ وہائٹ زمانے سے لے کر آج کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک معین اختر ہر دور میں ٹی وی کے ساتھ رہے اور اگر آج ان کے تمام کام کو زمانی ترتیب میں مدّون کیا جائے تو خود پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک تاریخ تیار ہو جائے گی۔
(عارف وقار کی تحریر سے چند سطور)
شوبِز کی دنیا میں یہ بات محاورے کی طرح مشہور ہے کہ شہرت کی چوٹی پر پہنچ جانا تو آسان ہے، لیکن وہاں ٹِکے رہنا بہت مشکل ہے کیوں کہ شہرت و مقبولیت ایک ہرجائی محبوبہ کی طرح کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتی۔
معین اختر کے بارے میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اس ہرجائی محبوبہ کو رام کر چکے تھے اور سن ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں کام یابی کا جو تاج معین اختر کے سَر پر سجا دیا گیا تھا اسے معین اختر نے آخری لمحے تک گِرنے نہیں دیا۔
معین اختر کی داستانِ حیات ایک طرح سے پاکستان ٹیلی ویژن کی اپنی جیون کتھا بھی ہے۔ دونوں ایک ساتھ منظرِ عام پر آئے۔ دونوں نے اکٹھے مقبولیت اور شہرت کا سفر کیا اور دونوں کا نام دنیا بھر میں آباد پاکستانیوں تک ایک ساتھ پہنچا اور پھر میڈیا کے بدلتے ہوئے عالمی منظر نے جو نئے چیلنج پیش کیے، ان سے بھی دونوں ایک ساتھ نبرد آزما ہوئے۔
نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہے۔ یہ سبق معین اختر نے اپنے کیریر کی ابتدا ہی میں سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ نقالی کے فن میں ید طولٰی حاصل کرنے کے باوجود اس نے خود کو اس مہارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر اداکاری کے تخلیقی جوہر تک رسائی حاصل کی۔
مختلف ڈراموں میں منچلے نوجوان سے لے کر ایک سنکی بڈھے تک کے جو کردار انھوں نے ادا کیے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ معین اختر کا فن ایک نقّال کی محدود چار دیواری توڑ کر فن کے وسیع و عریض میدان میں آنکلا ہے اور اس میدان میں مِس روزی کا کردار ایک ایسا چیلنج ثابت ہوا جسے قبول کر کے معین اختر نے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں سے بھی داد وصول کر لی۔
معین اختر نے مشرقِ وسطیٰ میں کئی شو منعقد کیے اور برِصغیر کے سب سے بڑے ادا کار دلیپ کمار تک کو اپنا فین بنا لیا۔
ایک شو میں دلیپ کمار کے اسٹیج پر آنے سے پہلے معین اختر نے مائیکرو فون منہ کے بالکل قریب لا کر دلیپ کمار کی آواز میں ان کی ایک فلم کے مکالمے بولنے شروع کر دیے۔ حاضرین تو خیر حیران ہوئے ہی، خود دلیپ کمار بھی ششدر رہ گئے اور پھر دونوں کی دوستی کا ایسا آغاز ہوا جو آخر تک جاری رہا۔
اردو معین کی اپنی زبان تھی، لیکن بنگالی، سندھی، میمنی اور گجراتی سے انھوں نے محض فن کارانہ ضروریات کے تحت شناسائی پیدا کی اور ان زبانوں کے لہجے اور تلفظ پر ایسا عبور حاصل کیا کہ اہلِ زبان کو بھی انگشت بدنداں کر دیا۔ بعد میں انھوں نے پشتو اور پنجابی کے لہجوں پر بھی کام کیا اور جب جب موقع ملا اِن لہجوں میں بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ بھی کیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے بلیک اینڈ وہائٹ زمانے سے لے کر آج کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک معین اختر ہر دور میں ٹی وی کے ساتھ رہے اور اگر آج ان کے تمام کام کو زمانی ترتیب میں مدّون کیا جائے تو خود پاکستان ٹیلی ویژن کی ایک تاریخ تیار ہو جائے گی۔
(عارف وقار کی تحریر سے چند سطور)