بانی مزدور تحریک‘ مرزا محمد ابراہیم
وہ مزدوروں کے لیڈر تھے، ان کے استاد تھے، ان کے اتحادی اور ان کے ساتھی تھے۔
KARACHI:
برصغیر اور پاکستان میں مزدورتحریک کے بانی معروف ترقی پسند سیاسی ومزدور رہنما مرزا محمد ابراہیم کی 11 اگست 2012 کو تیرہویں (13) برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 11 اگست 1999 کو اپنے آبائی گائوں کالا گجراں جہلم میں بیماری اور 94 برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ہمیں مرزا ابراہیم زیادہ یاد آرہے ہیں۔ آج کے دور میں پاکستان ریلوے سمیت کئی قومی، عوامی اوراہم ادارے تباہی کی جانب رواں ہیں جن میں اسٹیل ملز اور ریلوے سمیت دیگر اداروں میں کرپشن، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور تنزلی جاری ہے۔
گو کہ ملک میں ایک جمہوری حکومت موجود ہے۔ انتظامیہ،حکومت،عدلیہ اور میڈیا میں بڑا شور و غوغا ہے۔ عوام بھوک، غربت، جہالت، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کو بنے ہوئے 65 برس ہوگئے ہیں اور ہم ابھی تک مکمل آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، ورلڈ بینک، IMF اور WTO کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آئے دن ڈرون حملے کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول بن گیا ہے۔ تو دوسری جانب نیٹو سپلائی کا رونا ہے۔ عدالتوں میں این آر او کیس، توہینِ عدالت کیس، سوئس حکومت کو خط لکھنے جیسے کرپشن کیسز شامل ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر کے 18 کروڑ عوام پریشان ہیں۔
مرزا محمد ابراہیم 1905 میں جہلم کے قریب کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا عبداﷲ بیگ ایک چھوٹے اور بے زمین کسان تھے۔ ان کے ایک بڑے بھائی مرزا اﷲ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار ''روشنی'' نکالتے تھے۔ اس ملک کے دوسرے غریب انسانوں کی طرح مرزا صاحب بھی والدین کی خواہش کے باوجود ابتدائی تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے۔ مرزا ابراہیم نے جوانی میں قدم رکھتے ہی 1920-21 میں خلافتِ تحریک میں حصّہ لینا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا۔ بعد میں بھٹہ مزدور کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ 1925 میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوگئے۔
1920 میں محکمۂ ریلوے میں یونین بن چکی تھی۔ 1930 میں ان کا تبادلہ جہلم ورکشاپ سے لاہور مغل پورہ ہائوس میں ہوگیا، جہاں انھوں نے 1931 میں یونین میں حصّہ لینا شروع کردیا۔ اس وقت ریلوے میں این ڈبلیو آر یونین مضبوط تھی، جس کے صدر ایک انگریز جے پی ملر تھے جب کہ جنرل سیکریٹری ایم اے خان تھے۔ مرزا صاحب مغل پورہ کے صدر مقرر ہوئے۔ 1917 میں چونکہ روس میں انقلاب آگیا تھا جس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی ہوا۔ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑی، جس کے پہلے جنرل سیکریٹری پورن چند جوشی تھے۔ اسی دوران مرزا ابراہیم کا رابطہ ایک طالب علم کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا اور وہ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لیبرونگ کے انچارج بن گئے۔
اسی زمانے میں ''ریلوے مین فیڈریشن'' کی بنیاد پڑی، جس کے مرکزی سینئر نائب صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوئے جب کہ صدر وی وی گری منتخب ہوئے جو بعد میں بھارت کے صدر بھی رہے۔ جنرل سیکریٹری ایس اے ڈانگے تھے۔ تقسیم سے ایک سال قبل یکم مئی 1946 کو ہندوستان بھر کے ریلوے کے مزدوروں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چھانٹیوں کے خلاف مکمل ہڑتال کردی، جس کی قیادت مرزا محمد ابراہیم کررہے تھے۔ تقسیم کے فوری بعد مرزا محمد ابراہیم کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔
آزاد پاکستان میں یہ ان کی پہلی گرفتاری تھی۔ بعد میں وہ 17 مرتبہ جیل گئے۔ 6 مرتبہ قلعہ لاہور میں نظربند رہے۔ پاکستان میں جب وہ 1951 میں جیل میں تھے تو حکومت نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا اعلان کردیا۔ مرزا صاحب کو جیل سے کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی طرف سے امیدوار نامزد کردیا۔ ان کے مقابلے میں برسر اقتدار پارٹی مسلم لیگ کے امیدوار احمد سعید کرمانی تھے۔ مرزا صاحب یہ الیکشن جیت گئے، اعلان بھی ہوگیا مگر بعد میں دوسرے نمبر پر آنے والے سرکاری امیدوار کو جتادیا گیا۔ مرزا ابراہیم کے 2500 ووٹ رد کردیے گئے اور یوں پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔
پاکستان میں پہلی ٹریڈ یونین فیڈریشن یعنی پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے پہلے صدر مرزا محمد ابراہیم مقرر ہوئے جب کہ نائب صدر فیض احمد فیض، آفس سیکریٹری ایرک اسپرین، جوائنٹ سیکریٹری فضل الٰہی قربان اور سندھ کے صدر سوبھوگیان چندانی مقرر ہوئے۔ چونکہ مرزا ابراہیم کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا اس لیے وہ سجاد ظہیر کے اچھے دوست تھے۔ ان کے ساتھ برصغیر کی قابل اعتماد اورنامور شخصیات نے کام کیا۔
مرزا محمد ابراہیم ایک عظیم انسان تھے،جنھوں نے ہمیشہ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور علاقے سے بالاتر ہو کر اس ملک کے مزدوروں کا سربلند رکھا۔ مزدوروں کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ ان کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش نے عالمی شہرت حاصل کی۔ وہ مزدوروں کے بڑے دانشور کہلائے، جس کے سامنے بڑے بڑے علماء اور دانشور خاموش رہتے تھے، حالانکہ انھوں نے باقاعدہ اسکول یا مدرسے سے تعلیم حاصل نہ کی تھی۔ انھوں نے اپنے اخلاق اورکردار سے ملک کے محکوم، مظلوم اور محروم انسانوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔ مرزا صاحب چاہتے تو حکمرانوں سے مراعات حاصل کرسکتے تھے۔ انھیں بار بار اس کی پیشکش بھی کی گئی مگر کوئی بھی حکمراں انھیں خرید نہ سکا۔
وہ مزدوروں کے لیڈر تھے، ان کے استاد تھے، ان کے اتحادی اور ان کے ساتھی تھے۔ انھوں نے ملک کے غریب عوام کی طرح زندگی بسر کی، ان ہی کی طرح اپنا علاج کرایا، نہ لندن گئے نہ روس، نہ بڑا اسپتال نہ بڑے ڈاکٹر' انھوں نے کسی سے ہار نہ مانی، بالآخر موت کے ہاتھوں شکست کھا گئے اور لاکھوں محنت کشوں کو اپنی شفقت سے محروم کر گئے۔
برصغیر اور پاکستان میں مزدورتحریک کے بانی معروف ترقی پسند سیاسی ومزدور رہنما مرزا محمد ابراہیم کی 11 اگست 2012 کو تیرہویں (13) برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 11 اگست 1999 کو اپنے آبائی گائوں کالا گجراں جہلم میں بیماری اور 94 برس کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ہمیں مرزا ابراہیم زیادہ یاد آرہے ہیں۔ آج کے دور میں پاکستان ریلوے سمیت کئی قومی، عوامی اوراہم ادارے تباہی کی جانب رواں ہیں جن میں اسٹیل ملز اور ریلوے سمیت دیگر اداروں میں کرپشن، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور تنزلی جاری ہے۔
گو کہ ملک میں ایک جمہوری حکومت موجود ہے۔ انتظامیہ،حکومت،عدلیہ اور میڈیا میں بڑا شور و غوغا ہے۔ عوام بھوک، غربت، جہالت، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کو بنے ہوئے 65 برس ہوگئے ہیں اور ہم ابھی تک مکمل آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، ورلڈ بینک، IMF اور WTO کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آئے دن ڈرون حملے کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول بن گیا ہے۔ تو دوسری جانب نیٹو سپلائی کا رونا ہے۔ عدالتوں میں این آر او کیس، توہینِ عدالت کیس، سوئس حکومت کو خط لکھنے جیسے کرپشن کیسز شامل ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر کے 18 کروڑ عوام پریشان ہیں۔
مرزا محمد ابراہیم 1905 میں جہلم کے قریب کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا عبداﷲ بیگ ایک چھوٹے اور بے زمین کسان تھے۔ ان کے ایک بڑے بھائی مرزا اﷲ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار ''روشنی'' نکالتے تھے۔ اس ملک کے دوسرے غریب انسانوں کی طرح مرزا صاحب بھی والدین کی خواہش کے باوجود ابتدائی تعلیم سے آگے نہ پڑھ سکے۔ مرزا ابراہیم نے جوانی میں قدم رکھتے ہی 1920-21 میں خلافتِ تحریک میں حصّہ لینا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا۔ بعد میں بھٹہ مزدور کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ 1925 میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوگئے۔
1920 میں محکمۂ ریلوے میں یونین بن چکی تھی۔ 1930 میں ان کا تبادلہ جہلم ورکشاپ سے لاہور مغل پورہ ہائوس میں ہوگیا، جہاں انھوں نے 1931 میں یونین میں حصّہ لینا شروع کردیا۔ اس وقت ریلوے میں این ڈبلیو آر یونین مضبوط تھی، جس کے صدر ایک انگریز جے پی ملر تھے جب کہ جنرل سیکریٹری ایم اے خان تھے۔ مرزا صاحب مغل پورہ کے صدر مقرر ہوئے۔ 1917 میں چونکہ روس میں انقلاب آگیا تھا جس کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی ہوا۔ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑی، جس کے پہلے جنرل سیکریٹری پورن چند جوشی تھے۔ اسی دوران مرزا ابراہیم کا رابطہ ایک طالب علم کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہوگیا اور وہ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لیبرونگ کے انچارج بن گئے۔
اسی زمانے میں ''ریلوے مین فیڈریشن'' کی بنیاد پڑی، جس کے مرکزی سینئر نائب صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوئے جب کہ صدر وی وی گری منتخب ہوئے جو بعد میں بھارت کے صدر بھی رہے۔ جنرل سیکریٹری ایس اے ڈانگے تھے۔ تقسیم سے ایک سال قبل یکم مئی 1946 کو ہندوستان بھر کے ریلوے کے مزدوروں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چھانٹیوں کے خلاف مکمل ہڑتال کردی، جس کی قیادت مرزا محمد ابراہیم کررہے تھے۔ تقسیم کے فوری بعد مرزا محمد ابراہیم کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔
آزاد پاکستان میں یہ ان کی پہلی گرفتاری تھی۔ بعد میں وہ 17 مرتبہ جیل گئے۔ 6 مرتبہ قلعہ لاہور میں نظربند رہے۔ پاکستان میں جب وہ 1951 میں جیل میں تھے تو حکومت نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا اعلان کردیا۔ مرزا صاحب کو جیل سے کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی طرف سے امیدوار نامزد کردیا۔ ان کے مقابلے میں برسر اقتدار پارٹی مسلم لیگ کے امیدوار احمد سعید کرمانی تھے۔ مرزا صاحب یہ الیکشن جیت گئے، اعلان بھی ہوگیا مگر بعد میں دوسرے نمبر پر آنے والے سرکاری امیدوار کو جتادیا گیا۔ مرزا ابراہیم کے 2500 ووٹ رد کردیے گئے اور یوں پہلی مرتبہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔
پاکستان میں پہلی ٹریڈ یونین فیڈریشن یعنی پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے پہلے صدر مرزا محمد ابراہیم مقرر ہوئے جب کہ نائب صدر فیض احمد فیض، آفس سیکریٹری ایرک اسپرین، جوائنٹ سیکریٹری فضل الٰہی قربان اور سندھ کے صدر سوبھوگیان چندانی مقرر ہوئے۔ چونکہ مرزا ابراہیم کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا اس لیے وہ سجاد ظہیر کے اچھے دوست تھے۔ ان کے ساتھ برصغیر کی قابل اعتماد اورنامور شخصیات نے کام کیا۔
مرزا محمد ابراہیم ایک عظیم انسان تھے،جنھوں نے ہمیشہ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور علاقے سے بالاتر ہو کر اس ملک کے مزدوروں کا سربلند رکھا۔ مزدوروں کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ ان کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش نے عالمی شہرت حاصل کی۔ وہ مزدوروں کے بڑے دانشور کہلائے، جس کے سامنے بڑے بڑے علماء اور دانشور خاموش رہتے تھے، حالانکہ انھوں نے باقاعدہ اسکول یا مدرسے سے تعلیم حاصل نہ کی تھی۔ انھوں نے اپنے اخلاق اورکردار سے ملک کے محکوم، مظلوم اور محروم انسانوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔ مرزا صاحب چاہتے تو حکمرانوں سے مراعات حاصل کرسکتے تھے۔ انھیں بار بار اس کی پیشکش بھی کی گئی مگر کوئی بھی حکمراں انھیں خرید نہ سکا۔
وہ مزدوروں کے لیڈر تھے، ان کے استاد تھے، ان کے اتحادی اور ان کے ساتھی تھے۔ انھوں نے ملک کے غریب عوام کی طرح زندگی بسر کی، ان ہی کی طرح اپنا علاج کرایا، نہ لندن گئے نہ روس، نہ بڑا اسپتال نہ بڑے ڈاکٹر' انھوں نے کسی سے ہار نہ مانی، بالآخر موت کے ہاتھوں شکست کھا گئے اور لاکھوں محنت کشوں کو اپنی شفقت سے محروم کر گئے۔