پنجاب کی 56 کمپنیز کے سربراہان کو اضافی تنخواہ واپس کرنے کا حکم
پنجاب میں اربوں روپے خرچ کردیئے لیکن صاف پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملی، چیف جسٹس
PESHAWAR:
چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب کی 56 کمپنیوں کے سربراہان کو اضافی تنخواہ واپس کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی کو استعمال کرنے نہیں دیں گے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے پنجاب کی 56 کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: چیف جسٹس پاکستان کا لاہورمینٹل اسپتال کا دورہ
ڈی جی نیب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے کمپنیوں کے معاملے پر تعاون نہیں کیا، 56 کمپنیوں میں سے تاحال 17 کا ریکارڈ نہیں ملا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فکر نہ کریں نیب کو سارا ریکارڈ ملے گا، چیف جسٹس نے 17 کمپنیوں کا ریکارڈ 3 روز میں نیب کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: عدلیہ کو ہی صاف نہ کیا تو دوسروں کے متعلق کیسے اقدامات اٹھاؤں
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کمپنیاں بنا کر اپنوں کو نوازا گیا، اربوں روپےخرچ کردیئے لیکن صاف پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملی، عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی کو استعمال کرنے نہیں دیں گے، چیف سیکرٹری صاحب! کاش آپ بھی کسی کمپنی کےسربراہ ہوتے، آپ کو بھی لاکھوں روپے تنخواہ ملتی، تمام سربراہ سول سرونٹ رولز کے تحت تنخواہ وصول کریں گے، چیف جسٹس نے 56 کمپنیوں کے سربراہوں کو اضافی تنخواہیں واپس کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں عمل درآمد کی رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب کی 56 کمپنیوں کے سربراہان کو اضافی تنخواہ واپس کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی کو استعمال کرنے نہیں دیں گے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے پنجاب کی 56 کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: چیف جسٹس پاکستان کا لاہورمینٹل اسپتال کا دورہ
ڈی جی نیب نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے کمپنیوں کے معاملے پر تعاون نہیں کیا، 56 کمپنیوں میں سے تاحال 17 کا ریکارڈ نہیں ملا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فکر نہ کریں نیب کو سارا ریکارڈ ملے گا، چیف جسٹس نے 17 کمپنیوں کا ریکارڈ 3 روز میں نیب کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: عدلیہ کو ہی صاف نہ کیا تو دوسروں کے متعلق کیسے اقدامات اٹھاؤں
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کمپنیاں بنا کر اپنوں کو نوازا گیا، اربوں روپےخرچ کردیئے لیکن صاف پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملی، عوام کے ٹیکس کا پیسہ کسی کو استعمال کرنے نہیں دیں گے، چیف سیکرٹری صاحب! کاش آپ بھی کسی کمپنی کےسربراہ ہوتے، آپ کو بھی لاکھوں روپے تنخواہ ملتی، تمام سربراہ سول سرونٹ رولز کے تحت تنخواہ وصول کریں گے، چیف جسٹس نے 56 کمپنیوں کے سربراہوں کو اضافی تنخواہیں واپس کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں عمل درآمد کی رپورٹ طلب کرلی۔