وفاقی بجٹ برائے 201819ء

وفاقی کابینہ نے مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی۔

وفاقی کابینہ نے مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی۔ فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 2018-19ء کے لیے 59 کھرب 32 ارب 50 کروڑ روپے پر مبنی حجم کا بجٹ پیش کر دیا ہے، جو پچھلے مالی سال کے بجٹ کے حجم سے 16.2 فیصد زائد ہے، آئندہ مالی سال کے بجٹ کے دوران وسائل کا تخمینہ 4917.2 ارب روپے جب کہ خالص محاصل کا تخمینہ 3070.4 ارب روپے لگایا ہے جو پچھلے سال کے بجٹ کے مقابلے میں 4.9 زیادہ ہے، دفاعی بجٹ 999 سے بڑھا کر 1110کر دیا گیا، بجٹ میں صوبوںکا حصہ 2590.1 ارب روپے رکھا گیا ہے جو پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 8.1 فیصد زیادہ ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران مجموعی اخراجات کا تخمینہ 5932.5 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سے جاری اخراجات 4780.4 ارب جب کہ ترقیاتی اخراجات 1152.1 ارب روپے ہوں گے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے 1620 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، کراچی کے لیے 25 ارب روپے کا خصوصی پیکیج ہوگا، نان فائلرز کے خلاف گھیرا تنگ جب کہ صوبوں کا حصہ 2590.1 ارب روپے مقرر کیے گئے، بے نظیر سپورٹ اسکیم کے لیے 125 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو بڑی چھوٹ دی گئی ہے۔ وفاقی کابینہ نے مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی۔ جمعہ کو اسپیکر قومی اسمبلی سر دار ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ مالی سال 2018-19 کے بجٹ میں سول وفوج کی تنخواہوں میں10 فیصد اضافہ، کتابوں، پولٹری مصنوعات، کھاد سستی، جب کہ سگریٹ، سیمنٹ، کپڑے مہنگے کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔

بجٹ تقریر کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ بجٹ کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، اس کے بغیر حکومت نظم و نسق نہیں چلاسکتی۔ بجٹ عوام کی امنگوں کا عکاس ہے، مئی 2013ء میں حکومت آئی اور معیشت کی بہتری کے لیے پروگرام دیا، پانچ سال میں سخت محنت کی، مشکل فیصلے کیے، پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے اورآج ملک دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت ہے۔

وفاقی کابینہ کے اراکین نے حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے آیندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کو عوام دوست اور کاروبار دوست و متوازن بجٹ قرار دیا ہے، جب کہ اپوزیشن رہنماؤں نے بجٹ کو مسترد کر دیا، قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے آخری ایام میں پورے سال کا بجٹ پیش کرنے اور غیر منتخب مشیر کو وزیر خزانہ بناکر ان سے بجٹ پیش کرانے کے خلاف شدید احتجاج کیا، بجٹ نامنظور، شیم شیم، گو مفتاح گو، ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے اور ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔

جمعہ کو وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غیر منتخب شخص کی جانب سے وفاقی بجٹ پیش کرنے سے پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے، حکومت کے پاس منتخب وزیر مملکت رانا افضل تھے تو پھر باہر سے بندہ لانے کی کیا ضرورت تھی، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کا پورے سال کا بجٹ پیش کرنا قبل از انتخابات دھاندلی ہے، شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف زرداری نے کہا ہے کہ بجٹ پر تبصرہ بے معنی ہے، اس بجٹ کی قانونی اور سیاسی حیثیت نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم میرظفر جمالی نے کہا ہے کہ بجٹ میں عوام کے لیے محض طفل تسلیاں ہیں۔ ایم کیوایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی کے مطابق موجودہ حکومت نے پورے سال کا بجٹ پیش کر کے نئی جمہوری حکومت کے حق پہ شب خون مارا ہے، وفاقی بجٹ پر تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے کہا کہ حکومت نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں ڈبو دیا۔ شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری نے حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے بجٹ کو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا قرار دیا۔

میڈیا کے مطابق سرکاری ملازمین اور اساتذہ نے وفاقی بجٹ مسترد کر دیا، کسانوں کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا جب کہ ملک بھر کی تاجربرادی نے ملاجلا ردعمل دیا ہے، کلرکوںکی نمایندہ تنظیم آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنماؤں نے مشترکہ طور پر وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کردہ بجٹ برائے سال 2018-19ء مسترد کرتے ہوئے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔

مرکزی صدر کسان بورڈ پاکستان نے اپنے ردعمل میں شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ زرعی مداخل، زرعی ادویات، بجلی پر کوئی سبسڈی نہیں دی گئی، جب تک حکمران زراعت کو اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر نہیں رکھیں گے اس وقت تک ملکی معیشت میں کبھی بہتری نہیں آ سکتی۔ بعض ماہرین معاشیات نے کہا کہ بہترین بجٹ پیش کیا گیا، تاہم صحت و تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے، کچھ نے کہا کہ بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ 2018-19ء کے لیے ملک کے دفاعی بجٹ میں 180 ارب روپے سے زائد کا اضافہ کیا گیا ہے، وفاقی حکومت نے بجٹ میں فوجی آپریشن سے متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے 90 ارب روپے جب کہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے پروگرام کے لیے 10 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔ یہ تجویز بلاشبہ ملکی سالمیت اور دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقوں میں بحالی کے لیے بروقت معاونت ہے۔ ایوان میں اپوزیشن کے اعتراضات اور احتجاج کا جواب بھی دیا گیا، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ آئین کے مطابق پیش کیا گیا۔


کراچی کی تاجر و صنعتکار برادری نے وفاقی بجٹ کو متوازن اور عوام دوست قرار دیا ہے تاہم تاجروں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ بجٹ کا اعلان کرنے والی بجٹ میں اعلان کردہ مراعات پر عمل درآمد کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔

فیڈریشن ہاؤس کراچی میں بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے صدر غضنفر بلور نے کہا کہ بجٹ متوازن اور ترقی کے لیے معاون ہے، لاہور چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے عہدیداروں نے بجٹ میں کالاباغ ڈیم کی گنجائش نہ رکھنے پر اعتراض کیا، تاہم انھوں نے کہا کہ بجٹ سے عوام کو فائدہ پہنچے گا، ود ہولڈنگ ٹیکس کم کرنے، 3 سال میں ایک مرتبہ ادارے کا آڈٹ کرنے کی بات خوش آیند ہے، ایمنسٹی اسکیم کا بزنس میں فائدہ ہو گا۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور بزنس مین گروپ کے چیئرمین نے کہاکہ موجودہ حکومت کے چھٹے بجٹ میں پہلی مرتبہ انکم ٹیکس افسران کے صوابدیدی اختیارات ختم کیے گئے ہیں، دیرآید درست آید، فیصلہ خوش آیند ہے۔ کراچی چیمبر کے صدر نے کہا کہ ڈی سیلینیشن پلانٹ سے کراچی میں پانی کے مسائل بڑی حد تک حل ہوجائیں گے تاہم برآمدی شعبے کے زیرالتوا اربوں روپے کے ریفنڈ 12 ماہ میں ماہوار بنیادوں پرجاری کرنے کا اعلان تشویشناک ہے۔

آئندہ مالی سال 2018-19ء کا مجموعی طور پر 20 کھرب 43 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ پیش کردیا گیا، ترقیاتی بجٹ میں صوبوں کے لیے 10 کھرب 13 ارب روپے جب کہ وفاق کے لیے 10 کھرب 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی وفاقی بجٹ کے حجم کے اعداد وشمار سے متعلق تضادات برقرار رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکی سیاسی صورتحال جس تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے اور حکومت کو بجٹ سازی کے معاملہ میں اپوزیشن کے جن مطالبات کا سامنا ہے جس میں چار ماہ کے لیے بجٹ پر اصرار شامل ہے، وہ منطق اور زمینی حقائق اور ملکی معاشی سیاق وسباق میں حکومت لیے بڑا چیلنج تھا، کوئی حکومت اتنی قلیل مدت کے لیے کیسے بجٹ مرتب کرسکتی ہے، جب کہ ٹیکسز و محصولات سمیت دیگر اہم انتظامی، ترقیاتی اور مالی فیصلے اپنی حساسیت اور بین الاقوامی مضمرات و مشکلات کے حوالہ سے سالانہ بجٹ کی آئینی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں۔

بہرحال اپوزیشن نے صائب حکمت عملی کے تحت بجٹ سیشن کو مکمل سبوتاژ کرنے سے گریز کرکے اچھی مثال قائم کی، یوں بھی آیندہ الیکشن میں تھوڑا عرصہ رہ گیا ہے، جو مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے منشور پر مبنی سیاسی اور انتخابی وارم اپ میں مثبت طریقے سے گزرنا چاہیے، اصولاً ہونا یہ چاہیے کہ ملکی معیشت کے معاملہ پر تمام اسٹیک ہولڈرز میانہ روی اختیار کریں۔

معاشی اہداف اہم ہوتے ہیں، بجٹ الہ دین کا چراغ کبھی نہیں رہا، اس کے رگڑنے سے کسی بھی دور حکومت میں عام آدمی کی زندگی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ مہنگائی، بیروزگاری، پسماندگی، بیماری، عدم مساوات اور میرٹ کی زمین بوسی کی روایات جوں کی توں ہیں، لہٰذا پورا ملک طرز حکمرانی کے تناظر میں سوالیہ نشان نہ بنا رہے، آگے بڑھنا چاہیے، سیاست الزام تراشی اور کردار کشی نہیں کچھ اور بھی ہے۔

سیاست دان اور تمام ریاستی ادارے جسم اور روح کے رشتے میںبندھے ہوئے ہیں، اہل اقتدار اور حزب اختلاف کو باہمی کشیدگی سے ہٹ کر یہ دیکھنا چاہیے کہ پڑوسی ملک چین ملکی صورتحال کی سنگینی کے باوجود ہماری مدد کے لیے کس قدر بے تاب ہے، وہ آیندہ مالی سال کے وفاقی پی ایس ڈی میں شامل ترقیاتی منصوبوں کے لیے 13 ارب 29 کروڑ 47 لاکھ 38 ہزار روپے قرضہ فراہم کرے گا جو رواں مالی سال کے دوران فراہم کردہ قرضوں کے مقابلے میں تقریباً 2 ارب روپے زیادہ ہے۔

اس مقصد کے لیے وہ آئندہ مالی سال کے دوران گوادر میں تازہ پانی کی فراہمی اور سپلائی کے لیے 20 کروڑ روپے، کراس بارڈر آپٹیکل فائبر کیبل سسٹم کے لیے 42 کروڑ 50 لاکھ روپے، ریلوے ایم ایل ون کی اپگریڈیشن کے لیے 4 ارب روپے، گوادر پورٹ ایسٹ بے پر ایکسپریس وے کے لیے 5 ارب 83 کروڑ 52 لاکھ 60 ہزار روپے، گوادر میں اسمارٹ انوائرمنٹل اور سینی ٹیشن سسٹم کے لیے 5 کروڑ روپے، گوادر میں 50 بستروں کے اسپتال کو اپ گریڈ کرکے 300 بیڈ کرنے کے لیے 10 کروڑ روپے، پاکستان ملٹی مشن سیٹلائٹ کے لیے 85 کروڑ روپے، پاکستان اسپیس سینٹر اسلام آباد و کراچی کے لیے 70 کروڑ جب کہ پاکستان ریموٹ سنسنگ سیٹلائٹ کے لیے ایک ارب 11 کروڑ 62 لاکھ 81 ہزار روپے قرضہ فراہم کرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ بجٹ شماریاتی گورکھ دھندہ ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس بجٹ نے غربت و بہیمانہ جرائم کے شعلوں میں پلٹے محب وطن پاکستانی کے آنسو پونچھے، اسے عزت کی روٹی دلائی۔ امید کی جانی چاہیے کہ عام آدمی بجٹ کا مرکزی کردار بنے۔
Load Next Story