پاکستان میں عربی زبان
پاکستان ان دنوں عربی اور اردو زبان کا ایک مرقع ملک تھا جہاں آپ کو بعض عرب ملکوں کے زبان کے ماہر بھی مل سکتے تھے۔
زندگی گھومتے گھامتے اور سیر سپاٹوں میں گزر گئی اور نہ صرف یہ کہ کئی آبادیاں طرح طرح کے لوگ اور کئی شہروں کی سیر کی بلکہ کئی جگہوں پر طویل قیام بھی کیا اور کئی ماہ تک وہاں ڈیرے بھی ڈالے۔ میری تعلیم ہی ایسی تھی کہ اس میں ایک جگہ قرار نہیں تھا اور مختلف تعلیمی اداروں میں دن رات گزرتے رہے تھے۔
میں نے اپنے نیک مزاج اور اسلام پسند سر پرست بڑے بھائی کی نگرانی اور ان کی صوابدید کے مطابق دینی علوم سے تعلیم شروع کی۔ اس دوران تعلیمی ادارے بدلتے رہے اور میں بھی بستہ بغل میں لے کر قدم بقدم ان اداروں میں گھومتا رہا۔ ہر قسم اور نمونے کی تعلیم حاصل کی اور تعلیم کا فیض حاصل کرتا رہا اس طرح میں نے اگرچہ کہیں جم کر کسی تعلیمی ادارے میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی لیکن تعلیم کا کوئی شعبہ بھی ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیا اور ہر شعبے سے جو قسمت میں تھا وہ حاصل کر لیا۔
عربی زبان سے لے کر انگریزی تک اگرچہ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی لیکن تعلیم میں کوئی کمی بھی نہیں آنے دی اور ہر گوشے اور مکتب میں علم کے حصول میں لگا رہا۔ اس طرح میں 'باقاعدہ' پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن تعلیم کے فیض کا کوئی شعبہ ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیا یوں اگرچہ میں نے تعلیم و تعمل کے کسی شعبے سے محرومی نہیں دیکھی لیکن کئی شعبے بس نظروں سے ہی گزر گئے اور ادھ موئی سی روشنی چھوڑ گئے۔
میں رئیس گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے ہر بزرگ کی پسند کی تعلیم کا زور مجھ پر چلتا تھا اور سبھی مجھے اپنی پسند کی تعلیم دلوانا چاہتے تھے اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ میں کئی تعلیمی شعبوں میں بقول ایک دوست کے منہ ماری کرتا رہا لیکن ہر شعبہ ادھورا ہی رہا اور میں کسی شعبے میں تعلیم مکمل نہ کر سکا مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں کسی شعبے میں 'فیل' بھی نہیں ہوا اور پاس ہوتا رہا۔
اس تعلیمی انتشار یعنی تعلیم کا پھیلاؤ ایک دلچسپ تجربہ ضرور تھا لیکن یہ تعلیم ایک سیر سپاٹے کی طرح تھی جس میں تعلیم کے گونا گوں رنگینیاں تو موجود تھیں لیکن تعلیم کا کوئی شعبہ مکمل نہیں۔ میرے عزیز سب کے سب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہے یا کسی جدید تعلیمی ادارے میں داخل کر ا دیے گئے لیکن اس تعلیمی رونق کا مجھے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ میں تعلیم کے کئی شعبوں میں شدھ بدھ پیدا کرنے لگا اور ایک وسیع حلقہ پیدا ہو گیا جس نے میری تعلیم کی وسعت اور ہمہ گیری میں مجھے بہت فائدہ دیا اور میں بعض دوستوں کے مزاحی قسم کے تبصروں کا نشانہ بھی بنتا رہا اور مجھے ایسے استاد بھی ملے جن کی برکت سے میں جی بھر کر فیض یاب ہوا۔
ایک استاد محترم مولانا مسعود عالم ندوی تھے جو ندوہ کی روائتی تعلیم کے علاوہ جدید تعلیم کے استاد بھی مانے جاتے تھے میری زبان میں لکنت تھی انھوں نے مجھے اپنی دعاؤں کا مرکز بنا لیا اور کہا کہ میری زبان کی لکنت میری اور تحریری تعلیمی زندگی میں قدرت کی طرف سے معاون ہو گی اور میں کبھی زبان کی لکنت کو محسوس نہیں کروں گا۔ یہ ایک معمول بن جائے گی۔
چنانچہ یہی ہوا کہ میں اپنی لکنت کو تو محسوس نہیں کرتا تھا اور زبان کی فروانی عام لوگوں کی طرح جاری رہتی تھی۔ استاد محترم مولانا مسعود عالم ندوی دمہ کے مریض تھے اور پاکستان میں آنے کے بعد اپنے لیے مناسب آب و ہوا کے کسی شہر کی تلاش میں رہتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ شہر بہ شہر گھومتے رہتے تھے۔ وہ بھارت کے پیدائشی تھے اس لیے پاکستان میں مناسب آب و ہوا کے شہر کی تلاش میں انھیں کچھ دقت ہوئی لیکن ان کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں شامل لوگوں نے ان کی مدد کی اور وہ پہلے گوجرانوالہ اور پھر راولپنڈی میں مقیم ہو گئے۔
جہاں کی آب و ہوا ان کے لیے مناسب تھی۔ بہر کیف عربی زبان میں عربوں کی طرح فاضل یہ عالم پاکستان جیسے اجنبی ملک میں مقیم ہو گئے اور گوجرانوالہ اور راولپنڈی کے شہروں کی آب و ہوا ان کو راس آ گئی اور ان کے ساتھ ان کے شاگردوں کو بھی جو ان شہروں میں مقیم ہو گئے اور وقتاً فوقتاً آنے والے عربوں سے عربی زبان کا فیض حاصل کرتے رہے۔ ان کی زبان دانی کی شہرت دور دور تک تھی اور عرب ان کی زبان کو بہت پسند کرتے تھے اس طرح زبان کی حد تک پاکستان اور عرب دنیا کا ایک انوکھا ملاپ دیکھنے میں آیا جو میرے خیال میں غیر معمولی تھا اور مولانا ندوی کی صحت اور عمر تک چلتا رہا۔
عربی زبان کے کتنے ہی لکھنے اور لکھانے والے اس دور میں پیدا ہوئے ۔ پاکستان ان دنوں عربی اور اردو زبان کا ایک مرقع ملک تھا جہاں آپ کو بعض عرب ملکوں کے زبان کے ماہر بھی مل سکتے تھے۔ لاہور سے عربی زبان اور ادب کا ایک رسالہ بھی شائع ہوتا تھا جس کا نام ہی 'رسالہ' تھا وہ بغداد اور لاہور سے بیک وقت شائع ہوتا تھا اور ہم پاکستانیوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کئی عرب اپنی دولت مند زبان کو سیکھنے اور اس میں مہارت کے لیے ایک غیر عرب ملک پاکستان آتے تھے اور یہاں موجود اساتذہ سے بہت کچھ حاصل کرتے تھے۔
ہم پاکستانی طلبہ باہر سے آنے والے طلبہ سے بہت کچھ حاصل کر لیتے تھے ان کی وجہ سے میرے کئی ساتھی عربی دان بن گئے اور قاہرہ سے شائع ہونے والے ایک ادبی ہفت روزہ 'الرسالہ' میں ٹوٹی پھوٹی عربی زبان میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ اس طرح تاریخ میں عربی زبان کو بھی پاکستان میں عملاً پذیرائی ملنے لگی بلکہ اس زبان کے بعض اساتذہ تو عرب شہرت کے لوگ تھے جن کی تحریر کو عرب بھی سند مان کر پڑھتے تھے۔
پاکستان میں خالص عربی زبان کا پہلا ادبی جریدہ تھا جو 'الرسالہ' کے نام سے عرب دنیا کے ادبی حلقوں میں پڑھا جاتا تھا۔ عرب اساتذہ اور طلبہ خوش ہوتے تھے کہ ان کی زبان ایک غیر عرب ملک میں بھی پڑھی جا رہی ہے اور اس کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔
میں نے اپنے نیک مزاج اور اسلام پسند سر پرست بڑے بھائی کی نگرانی اور ان کی صوابدید کے مطابق دینی علوم سے تعلیم شروع کی۔ اس دوران تعلیمی ادارے بدلتے رہے اور میں بھی بستہ بغل میں لے کر قدم بقدم ان اداروں میں گھومتا رہا۔ ہر قسم اور نمونے کی تعلیم حاصل کی اور تعلیم کا فیض حاصل کرتا رہا اس طرح میں نے اگرچہ کہیں جم کر کسی تعلیمی ادارے میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی لیکن تعلیم کا کوئی شعبہ بھی ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیا اور ہر شعبے سے جو قسمت میں تھا وہ حاصل کر لیا۔
عربی زبان سے لے کر انگریزی تک اگرچہ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی لیکن تعلیم میں کوئی کمی بھی نہیں آنے دی اور ہر گوشے اور مکتب میں علم کے حصول میں لگا رہا۔ اس طرح میں 'باقاعدہ' پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن تعلیم کے فیض کا کوئی شعبہ ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیا یوں اگرچہ میں نے تعلیم و تعمل کے کسی شعبے سے محرومی نہیں دیکھی لیکن کئی شعبے بس نظروں سے ہی گزر گئے اور ادھ موئی سی روشنی چھوڑ گئے۔
میں رئیس گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے ہر بزرگ کی پسند کی تعلیم کا زور مجھ پر چلتا تھا اور سبھی مجھے اپنی پسند کی تعلیم دلوانا چاہتے تھے اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ میں کئی تعلیمی شعبوں میں بقول ایک دوست کے منہ ماری کرتا رہا لیکن ہر شعبہ ادھورا ہی رہا اور میں کسی شعبے میں تعلیم مکمل نہ کر سکا مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں کسی شعبے میں 'فیل' بھی نہیں ہوا اور پاس ہوتا رہا۔
اس تعلیمی انتشار یعنی تعلیم کا پھیلاؤ ایک دلچسپ تجربہ ضرور تھا لیکن یہ تعلیم ایک سیر سپاٹے کی طرح تھی جس میں تعلیم کے گونا گوں رنگینیاں تو موجود تھیں لیکن تعلیم کا کوئی شعبہ مکمل نہیں۔ میرے عزیز سب کے سب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم رہے یا کسی جدید تعلیمی ادارے میں داخل کر ا دیے گئے لیکن اس تعلیمی رونق کا مجھے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ میں تعلیم کے کئی شعبوں میں شدھ بدھ پیدا کرنے لگا اور ایک وسیع حلقہ پیدا ہو گیا جس نے میری تعلیم کی وسعت اور ہمہ گیری میں مجھے بہت فائدہ دیا اور میں بعض دوستوں کے مزاحی قسم کے تبصروں کا نشانہ بھی بنتا رہا اور مجھے ایسے استاد بھی ملے جن کی برکت سے میں جی بھر کر فیض یاب ہوا۔
ایک استاد محترم مولانا مسعود عالم ندوی تھے جو ندوہ کی روائتی تعلیم کے علاوہ جدید تعلیم کے استاد بھی مانے جاتے تھے میری زبان میں لکنت تھی انھوں نے مجھے اپنی دعاؤں کا مرکز بنا لیا اور کہا کہ میری زبان کی لکنت میری اور تحریری تعلیمی زندگی میں قدرت کی طرف سے معاون ہو گی اور میں کبھی زبان کی لکنت کو محسوس نہیں کروں گا۔ یہ ایک معمول بن جائے گی۔
چنانچہ یہی ہوا کہ میں اپنی لکنت کو تو محسوس نہیں کرتا تھا اور زبان کی فروانی عام لوگوں کی طرح جاری رہتی تھی۔ استاد محترم مولانا مسعود عالم ندوی دمہ کے مریض تھے اور پاکستان میں آنے کے بعد اپنے لیے مناسب آب و ہوا کے کسی شہر کی تلاش میں رہتے تھے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم لوگ بھی ان کے ساتھ شہر بہ شہر گھومتے رہتے تھے۔ وہ بھارت کے پیدائشی تھے اس لیے پاکستان میں مناسب آب و ہوا کے شہر کی تلاش میں انھیں کچھ دقت ہوئی لیکن ان کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں شامل لوگوں نے ان کی مدد کی اور وہ پہلے گوجرانوالہ اور پھر راولپنڈی میں مقیم ہو گئے۔
جہاں کی آب و ہوا ان کے لیے مناسب تھی۔ بہر کیف عربی زبان میں عربوں کی طرح فاضل یہ عالم پاکستان جیسے اجنبی ملک میں مقیم ہو گئے اور گوجرانوالہ اور راولپنڈی کے شہروں کی آب و ہوا ان کو راس آ گئی اور ان کے ساتھ ان کے شاگردوں کو بھی جو ان شہروں میں مقیم ہو گئے اور وقتاً فوقتاً آنے والے عربوں سے عربی زبان کا فیض حاصل کرتے رہے۔ ان کی زبان دانی کی شہرت دور دور تک تھی اور عرب ان کی زبان کو بہت پسند کرتے تھے اس طرح زبان کی حد تک پاکستان اور عرب دنیا کا ایک انوکھا ملاپ دیکھنے میں آیا جو میرے خیال میں غیر معمولی تھا اور مولانا ندوی کی صحت اور عمر تک چلتا رہا۔
عربی زبان کے کتنے ہی لکھنے اور لکھانے والے اس دور میں پیدا ہوئے ۔ پاکستان ان دنوں عربی اور اردو زبان کا ایک مرقع ملک تھا جہاں آپ کو بعض عرب ملکوں کے زبان کے ماہر بھی مل سکتے تھے۔ لاہور سے عربی زبان اور ادب کا ایک رسالہ بھی شائع ہوتا تھا جس کا نام ہی 'رسالہ' تھا وہ بغداد اور لاہور سے بیک وقت شائع ہوتا تھا اور ہم پاکستانیوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ کئی عرب اپنی دولت مند زبان کو سیکھنے اور اس میں مہارت کے لیے ایک غیر عرب ملک پاکستان آتے تھے اور یہاں موجود اساتذہ سے بہت کچھ حاصل کرتے تھے۔
ہم پاکستانی طلبہ باہر سے آنے والے طلبہ سے بہت کچھ حاصل کر لیتے تھے ان کی وجہ سے میرے کئی ساتھی عربی دان بن گئے اور قاہرہ سے شائع ہونے والے ایک ادبی ہفت روزہ 'الرسالہ' میں ٹوٹی پھوٹی عربی زبان میں مضامین بھی لکھتے رہے۔ اس طرح تاریخ میں عربی زبان کو بھی پاکستان میں عملاً پذیرائی ملنے لگی بلکہ اس زبان کے بعض اساتذہ تو عرب شہرت کے لوگ تھے جن کی تحریر کو عرب بھی سند مان کر پڑھتے تھے۔
پاکستان میں خالص عربی زبان کا پہلا ادبی جریدہ تھا جو 'الرسالہ' کے نام سے عرب دنیا کے ادبی حلقوں میں پڑھا جاتا تھا۔ عرب اساتذہ اور طلبہ خوش ہوتے تھے کہ ان کی زبان ایک غیر عرب ملک میں بھی پڑھی جا رہی ہے اور اس کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔