بجٹ 201819۔۔۔ کچھ منہگا کچھ سستا

نئی حکومت بجٹ پر من و عن عمل کرے گی؟

وفاقی وزیرخزانہ کے مطابق آئندہ بجٹ میں عوام کو ٹیکسوں کی مد میں 91 ارب 17کروڑ روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنا چھٹا اور آخری بجٹ گزشتہ سے پیوستہ روز پیش کردیا۔

59 کھرب 32 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا بجٹ پیش کرنے کی ذمے داری مفتاح اسماعیل نے نبھائی جنھیں اس مقصد کے لیے ہنگامی طور پر وزارت خزانہ کا قلم دان سونپا گیا تھا۔ قبل ازیں وہ مشیرخزانہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔

ایک عام تأثر یہ تھا کہ حکومت دو ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے بجٹ میں انھیں زیادہ سے زیادہ ریلیف مہیا کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس تأثر کو مفتاح اسماعیل کے گذشتہ دنوں دیے گئے اس بیان سے بھی تقویت ملی تھی کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، تاہم پانچ ہزار سے زائد درآمدی اشیاء پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے، جب کہ متعدد پر کمی کی گئی ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ کے مطابق آئندہ بجٹ میں عوام کو ٹیکسوں کی مد میں 91 ارب 17کروڑ روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔

بجٹ پیش کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے روایتی انداز میں کہا کہ مسلم لیگ نے جب اقتدار سنبھالا تو معیشت تباہی کے دہانے پر اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، ملک میں دہشت گردی کی لہر اور بجلی کا بحران تھا، نواز شریف کی قیادت میں سخت محنت کے بعد آج صورت حال بدل چکی ہے۔

واضح رہے کہ بجٹ ایسی صورت حال میں پیش کیا گیا ہے جب موجودہ حکومت کے خاتمے میں محض چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ اس بنیاد پر حزب اختلاف کا مؤقف تھا کہ حکومت کے پاس وہ بجٹ پیش کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں جس پر عمل درآمد نومنتخب حکومت کرے گی۔ عام خیال ہے کہ مسلم لیگ ن نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی حکومت کی مدت پوری ہونے سے محض چند روز قبل بجٹ پیش کیا ہے۔ اس بجٹ سے مسلم لیگ ن کو کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہوتا ہے یا نہیں، یہ آئندہ انتخابات کے بعد واضح ہوجائے گا، فی الحال قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے بجٹ برائے مالی سال 2018-19ء کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

بجٹ کا حجم ، صوبوں کا حصہ اور جی ڈی پی

آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم 59 کھرب32 ارب 50 کروڑ روپے ہے۔ گذشتہ مالی سال کا بجٹ 51کھرب 3 ارب روپے پر مشتمل تھا۔ اس طرح مالی سال 2018-19ء کا بجٹ بہ لحاظ حجم گذشتہ مالی سال کے بجٹ سے 16.2 فی صد زائد ہے۔ بجٹ میں صوبوں کا حصہ 25کھرب 90 ارب 10 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے لیے حکومت نے جی ڈی پی یعنی معاشی ترقی کا ہدف 6.2 فی صد رکھا ہے۔ پچھلے مالی سال میں یہ ہدف 6 فی صد مقرر کیا گیا تھا مگر جی ڈی پی کی شرح 5.8 فی صد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے پانچ مالی سال میں ملکی معیشت کبھی مقررہ ہدف کو نہیں چُھوسکی، تاہم ہر آنے والے مالی سال کے لیے ہدف پہلے سے زیادہ مقرر کیا جاتا رہا ہے۔ بہرحال یہ ضرور ہے کہ اعدادوشمار کی روشنی میں معیشت مسلسل بلندی کی جانب گام زن رہی ہے۔ آئندہ مال سال کے لیے بھی جی ڈی پی کا ہدف 0.2 فی صد زیادہ رکھا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر آئندہ حکومت کے لیے معاشی ترقی کا ہدف یہ مقرر کیا گیا ہے۔

ترقیاتی بجٹ

وفاقی وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر کے دوران دعویٰ کیا کہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ترقیاتی اخراجات میں 230 فی صد اضافہ ہوا اور مالیاتی 5.5 فی صد تک محدود رکھا گیا۔ گذشتہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ کے لیے 12کھرب 75 ارب 80کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔ اس رقم میں سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 10 کھرب روپے مختص کیے گئے تھے۔ آئندہ مالی سال میں ترقیاتی اخراجات کے لیے 10 کھرب 67 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے ساڑھے سات کھرب روپے رکھے گئے ہیں۔ یوں آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی اخراجات میں دو کھرب روپے کی کمی کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے گذشتہ سال کے مالی بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں 37 فی صد اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا گیا تھا کہ توانائی اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں کو پی ایس ڈی پی بجٹ کا 67 فی صد حصہ حاصل ہوگا، جس کے لیے 411 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔

ٹیکس وصولیوں کا ہدف

ایف بی آر نے آیندہ مالی سال کے لیے ٹیکسوں کی مد میں 44 کھرب 35 ارب روپے وصولی کا ہدف رکھا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے گذشتہ چار سال میں سے صرف ایک بار ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کیا جاسکا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے بھی ٹیکس وصولیوں کے ہدف کے حصول میں ناکامی کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ رواں مالی سال کے لیے ٹیکسوں کی مد حاصل ہونے والی آمدنی کا ہدف 43 کھرب 30 ارب روپے رکھا گیا تھا۔

وزیراعظم کی جانب سے تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس کی جس چھوٹ کا ٹیکس ایمنٹسی اسکیم میں اعلان گیا تھا اسے بھی بجٹ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے تحت اب 12 لاکھ روپے سالانہ تک آمدن ٹیکس فری ہو گی۔

دفاعی بجٹ

آئندہ مالی سال کے لیے ملک کے دفاعی بجٹ میں 1کھرب 80روپے سے زائد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس مد میں 11 کھرب روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے۔ اس طرح گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں آئندہ مالی سال کے لیے دفاعی بجٹ میں 19.4 اضافہ کیا گیا ہے۔ مالی سال 2017-18ء میں دفاعی بجٹ کا حجم 9 کھرب 20 ارب روپے تھا۔

تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ

آئندہ مالی سال میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فی صد اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جب کہ ہائوس رینٹ الائونس میں بھی 50 فی صد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر10ہزار روپے کردی گئی ہے۔ 75 سال کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لیے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح فیملی پنشن کو بھی 4500 روپے سے بڑھا کر 7500 روپے کیا جارہا ہے۔ ان تمام تجاویز کا مجموعی تخمینہ 70 ارب روپے کے قریب ہے۔

تعلیم و صحت

تعلیم و صحت معاشرے کے اہم ترین شعبے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں انھیں ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ حکم راں طبقے کی اولادیں اندرون و بیرون ملک اعلیٰ ترین نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتی ہیں، اور علاج کے لیے بھی ان کی ترجیح مغربی ممالک کے اسپتال ہوتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں، پاکستان میں ایک بھی ایسا اسپتال تعمیر نہیں کرسکی جہاں خود اس کے لیڈر، جن کے دلوں میں عوام کے درد کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے، نزلہ زکام کا بھی علاج کرواسکیں، اور ایک بھی ایسا اسکول نہیں بناسکی جہاں اس کے راہ نما اپنے بچوں کو تعلیم دلانا پسند کرسکیں۔ بہرحال آئندہ مالی سال کے لیے تعلیم کی مد میں 7 ارب روپے کا اضافہ کرتے ہوئے 97 ارب 42 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزارت تعلیم و فنی تربیت کے ترقیاتی اخراجات کے لیے 4 ارب 33 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔


آئندہ مالی سال کے دوران وزارت صحت کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 30 ارب 73 کروڑ 44 لاکھ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس رقم میں سے20 جاری منصوبوں کے لیے 12 ارب 43 کروڑ 89 لاکھ روپے جب کہ 36 نئے منصوبوں کے لیے 18 ارب 29 کروڑ 55 لاکھ روپے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔ بجٹ میں بنیادی صحت کے لیے 37 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، علاوہ ازیں کینسر کی تمام ادویات پر کسٹم ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز کی گئی ہے۔

زراعت

زراعت کو پاکستانی معیشت میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ معیشت براہ راست اور بالواسطہ طور پر زرعی شعبے ہی پر انحصار کرتی ہے۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے

وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گذشتہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے جن مراعات کا اعلان کیا گیا تھا آئندہ مالی سال میں بھی انھیں جاری رکھا جائے گا۔ ان مراعات میں زرعی قرضوں پر سود میں کمی، زرعی آلات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ، سورج مکھی اور کینولا کے بیج کی درآمد پر خاتمے جیسے اقدامات شامل تھے۔ علاوہ ازیں تمام کھادوں پر جنرل سیلز ٹیکس کی یکساں شرح کا نفاذ کیا گیا ہے اور کھاد پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔ کھاد پر دو فی صد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے جب کہ ابتداً تین فی صد کی تجویز تھی۔ زرعی مشینری پر جی ایس ٹی کی شرح کو موجودہ سات فی صد سے گھٹاکر پانچ فی صد کرنے کی تجویز ہے۔ ڈیری اور لائیو اسٹاک کے لیے ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

وفاقی وزیرخزانہ کے مطابق حکومت 5 ارب روپے سے ایگریکلچر سپورٹ فنڈ قائم کر رہی ہے یہ فنڈ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے پودوں اور بیج کی جدید اقسام پر کی جانے والی تحقیق اور ترقی کے لیے مالی معاونت فراہم کرے گا۔ اس فنڈ کا انتظام وزارت خزانہ اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی جانب سے کیا جائے گا۔

حکومت نے زرعی ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے اس کے علاوہ ایک اور 5 ارب روپے کا فنڈ قائم کرنے کی تجویز کی ہے۔ یہ فنڈ بھی وزارت خزانہ اور منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام ہوگا۔

ریلوے

آئندہ بجٹ میں پاکستان ریلوے کے ترقیاتی بجٹ کی مد میں 40 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس رقم میں سے 29جاری منصوبوں کے لیے27 ارب 75 کروڑ 39 لاکھ روپے جب کہ 10 نئے منصوبوں کے لیے 12 ارب 24 کروڑ 60 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔

برآمدات

حکومت کو توقع ہے کہ رواں مالی سال کے دوران برآمدات مقررہ ہدف 23 ارب ڈالر سے زیادہ رہیں گی۔ برآمدات کی مد میں رواں مالی سال کے اختتام تک 24.9 ارب ڈالر حاصل ہونے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ اسی خوش گمانی میں حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے برآمداتی ہدف 28 ارب ڈالر مقرر کیا ہے۔

کراچی کے لیے خصوصی پیکیج

مالی سال 2018-19ء میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت کراچی کے لیے 25 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے اس کے علاوہ گرین لائن بس کراچی منصوبے کے لیے 8 ارب 80 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کراچی پیکیج کے تحت شہر کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری، سماجی شعبوں کی سہولتوں کے علاوہ سڑکوں پلوں کی تعمیر اور فائراسٹیشن کے منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے۔

صنعت کار اور تاجر برادری شکوک کا شکار، سرکاری ملازمین نے بجٹ مسترد کردیا

روزنامہ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق سرکاری ملازمین اور اساتذہ نے وفاقی بجٹ مسترد کردیا۔ کسانوں کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا جب کہ تاجر برادری نے ملاجلاردعمل دیا ہے۔ کلرکوں کی نمائندہ تنظیم آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن کے راہ نما چوہدری افضل، صدر ایپکا پنجاب سلطان مجددی، صدر لاہور چوہدری عبدالشکور، جنرل سیکریٹری لاہور ملک ممتاز کھوکھر اور ندیم چغتائی نے مشترکہ طور پر بجٹ مسترد کرتے ہوئے تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ایڈہاک الائونسز کو بنیادی تنخواہوں میں ضم نہیںکیا گیا، منہگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں 10فی صد اضافہ ناکافی ہے، میڈیکل الائونس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، موجودہ میڈیکل الائونس سے صرف ایک ہی فرد کا علاج ممکن ہے جب کہ دوائوں کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کنوینس الائونس میں بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10فی صد اضافہ ناکافی ہے۔

سلطان مجددی نے مزید کہا کہ ملک بھر کے 22لاکھ کلرکس وسرکاری ملازمین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ بجٹ 2018-19ء پر نظر ثانی کی جائے اور تمام ایڈہاک ریلیف الائونسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرکے پے اسکیل پر نظرثانی کی جائے، تنخواہوں میں 20 فی صد اضافہ کیا جائے اور یوٹیلٹی الائونس بلاتفریق تمام ملازمین کو رد کردیا جائے۔

سرکاری اسکولوں کے اساتذہ نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اپنے وعدوں کے برعکس بجٹ دے کر اساتذہ پر منہگائی کا بم گرایا ہے اس کی گونج آئندہ عام انتخابات میں موجودہ حکومت کو باقاعدہ محسوس کرائی جائے گی۔ بجٹ میں اساتذہ کی تنخواہوں میں10فی صد اضافہ کیا گیا ہے جس کو اساتذہ کمیونٹی مسترد کرتی ہے۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے راہ نمائوں رانالیاقت علی، سجاد اکبر کاظمی نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے وعدہ کیا گیا تھا کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کا ہائوس رینٹ موجودہ پے اسکیل کے مطابق ہوگا،2016-17 کا ایڈہاک ریلیف پے اسکیل میں ضم ہوگا جب کہ تنخواہوں میں20 فی صد اضافہ کیا جائے گا، انھی شرائط کی بنیاد پر اساتذہ نے پنجاب بھر میں جاری احتجاجی مہم ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حکومتی مشینری منحرف ہوئی جس پر اساتذہ کمیونٹی میں اضطراب پایا جاتا ہے۔

دوسری طرف تاجر برادری نے وفاقی بجٹ کو متوازن اور عوام دوست قرار دیا ہے۔ تاہم ان میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ بجٹ کا اعلان کرنے والی حکمراں جماعت کو بجٹ میں اعلان کردہ مراعات پر عمل درآمد کا موقع مل سکے گا یا آئندہ منتخب حکومت بجٹ میں تجویزکردہ اقدامات پر پانی پھیر دے گی۔ بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایف پی سی سی آئی کے صدر غضنفر بلور نے کہا کہ بجٹ متوازن اور ترقی کے لیے معاون ہے۔

بجٹ میں زراعت کے شعبے کو ریلیف دیا گیا جب کہ صحت تعلیم اور پینے کے پانی کے منصوبوں کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، اسی طرح ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی کے لیے دوستانہ طرز عمل اختیار کرنے کے اقدامات قابل تعریف ہیں۔ حکومت نے بجٹ اقدامات سے آئندہ انتخابات کے لیے فوائد اٹھانے کی کوشش کی ہے تاہم اگر ان کی جگہ کوئی بھی جماعت ہوتی وہ ایسا ہی بجٹ پیش کرتی۔ ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر مظہر علی ناصر نے کہا کہ بجٹ میں صنعتی ترقی کے لیے اقدامات کی وضاحت باقی ہے۔ بجٹ میں ایف پی سی سی آئی کی بہت سی تجاویز شامل کی گئی ہیں۔

تاجرو صنعت کاروں نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کو سیاسی و انتخابی بجٹ قرار دیتے ہوئے یکم جولائی سے اعلان کردہ بجٹ اقدامات پر عمل درآمد پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا ہے۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے کہا کہ موجودہ حکومت کے چھٹے بجٹ میں پہلی مرتبہ انکم ٹیکس افسران کے صوابدیدی اختیارات ختم کیے گئے ہیں، دیرآید درست آید کے مصداق یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔

ودہولڈنگ ٹیکس میں نان فائلرز کو دیا گیا ریلیف ناقابل فہم ہے، اس کا بوجھ ٹیکس دینے والوں کو برداشت کرنا پڑے گا، الیکشن کی وجہ سے بجٹ میں مجموعی طور پر ریلیف دیا گیا ہے لیکن نئی حکومت بجٹ میں کیا تبدیلیاں کرتی ہے یہ دیکھنا ہوگا، حکومت کا چھٹا بجٹ اسحٰق ڈار کے فیصلوں کے برعکس ہے۔ بی ایم جی گروپ کے وائس چیئرمین ہارون فاروقی نے کہا کہ یکم جولائی کو حکومت کسی اور کے ہاتھ میں ہوگی لیکن پورے سال کا بجٹ ن لیگ کی حکومت نے د ے دیا، یہ امر مشکوک ہے کہ نئی حکومت اعلان کردہ بجٹ اقدامات پر من و عن عمل کرے گی۔
Load Next Story