میانمار نے او آئی سی کو فرقہ ورانہ بدامنی کے خلاف تحقیقات کی دعوت دیدی
پوری ریاست میں جون کے اوائل سے، پولیس اور آرمی کی بھاری نفری کے باوجود، ایمرجسنسی کی صورتحال نظر آتی ہے۔
میانمار نے بااثر اسلامک باڈی،او آئی سی کو ہونے حالیہ ہونے والے فرقہ ورانہ بدامنی کے خلاف دعوت دی ہے، سرکاری ذرائع نے بتایا، کہ وہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھائے۔
میانمار میں روز بڑھتے ہوئے خراب حالات کی بنا پر، صدر تھین سین نے او آئی سی کو آمد کی دعوت دی ہے، تاکہ حالات کو مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔
انھوں نے کہا "وہ امید رکھتے ہیں کہ او آئی سی کے سیکرٹری رکھائن میں حقیقت کا مشاہدہ کرسکیں گے"۔ میانمار کی نئی روشنی نے یہ الفاظ کہے"دونوں اطراف ہزاروں بے گھر افراد کو چھت اور خوراک فراہم کی جارہی ہے"۔
تھین سین نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب ترکی کے وزیر خارجہ نے جھگڑا زدہ رکھائن ریاست کے لیے امداد کی پیش کش کی۔
انہوں نے یہ بھی اپیل کی ہے "ترکی کے وزیر میانمار میں حقائق کی وضاحت کریں"، او آئی سی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا.
او آئی سی کے سربراہ ایکملے دین احسانگلو نے وہاں ہونے والے قتل عام، جبر اور نسلی صفائی کے خلاف مشن بھیجنے کی تجویز پیش کی، اور اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لیے مصر اور سعودی عرب کو معاملے کی چھان بین کے لیے بلا یا ہے۔
لڑائی کے آغاز میں مغربی رکھائن میں جون کے دوران ہی دونوں طرف کے تقریبا 80 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، سرکاری ذرائع کے مطابق
بدھ مت کے پیروکار اور مسلمانوں کے درمیان اس لڑائی میں، اتوار کو کئی ہلاک ہونے والوں کو چھوڑدیا گیا، جس سے علاقے کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے الزام لگایا،"فوت شدگان کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن جمعہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے" دونوں اطراف سے 77 افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں".
اس بڑھتی ہوئی خونریزی نے صدر تھین سین کے بہت سے اقدامات پر پانی پھیڑ دیا ہے، جس میں کئی سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور اپوزیشن لیڈر آنگ سان سو کے پارلیمنٹ کے الیکشن بھی شامل ہیں۔
میانمار حکومت نے اقوام متحدہ کے مسلمانوں پر کریک ڈاؤن کے خدشات، اور رکھائن میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے بدسلوکی کے الزامات کو رد کر دیا ہے۔
پوری ریاست میں جون کے اوائل سے، پولیس اور آرمی کی بھاری نفری کے باوجود، ایمرجسنسی کی صورتحال نظر آتی ہے۔
نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے میانمار فورسز پر روہنگیا میں فائرنگ کرنے، اورعصمت دری کا الزام عائد کیا ہے۔
صدیوں پر محیط اس امتیازی سلوک نے روہنگیا کو مکمل لاقونیت کی طرف دھکیل دیا ہے، اور اب یونائٹد نیشن کی طرف سے اسے اقلیتوں کی غیر محفوظ جگہ کے طور پر دیکھاجا رہا ہے۔
اس تمام صورتحال سے تنگ آکر بہت سے لوگ رکیٹی کشتی کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میانمار میں روز بڑھتے ہوئے خراب حالات کی بنا پر، صدر تھین سین نے او آئی سی کو آمد کی دعوت دی ہے، تاکہ حالات کو مزید تباہی سے بچایا جاسکے۔
انھوں نے کہا "وہ امید رکھتے ہیں کہ او آئی سی کے سیکرٹری رکھائن میں حقیقت کا مشاہدہ کرسکیں گے"۔ میانمار کی نئی روشنی نے یہ الفاظ کہے"دونوں اطراف ہزاروں بے گھر افراد کو چھت اور خوراک فراہم کی جارہی ہے"۔
تھین سین نے یہ الفاظ اس وقت کہے جب ترکی کے وزیر خارجہ نے جھگڑا زدہ رکھائن ریاست کے لیے امداد کی پیش کش کی۔
انہوں نے یہ بھی اپیل کی ہے "ترکی کے وزیر میانمار میں حقائق کی وضاحت کریں"، او آئی سی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا.
او آئی سی کے سربراہ ایکملے دین احسانگلو نے وہاں ہونے والے قتل عام، جبر اور نسلی صفائی کے خلاف مشن بھیجنے کی تجویز پیش کی، اور اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لیے مصر اور سعودی عرب کو معاملے کی چھان بین کے لیے بلا یا ہے۔
لڑائی کے آغاز میں مغربی رکھائن میں جون کے دوران ہی دونوں طرف کے تقریبا 80 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، سرکاری ذرائع کے مطابق
بدھ مت کے پیروکار اور مسلمانوں کے درمیان اس لڑائی میں، اتوار کو کئی ہلاک ہونے والوں کو چھوڑدیا گیا، جس سے علاقے کی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے الزام لگایا،"فوت شدگان کی تعداد بہت زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن جمعہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے" دونوں اطراف سے 77 افراد اب تک جاں بحق ہوچکے ہیں".
اس بڑھتی ہوئی خونریزی نے صدر تھین سین کے بہت سے اقدامات پر پانی پھیڑ دیا ہے، جس میں کئی سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور اپوزیشن لیڈر آنگ سان سو کے پارلیمنٹ کے الیکشن بھی شامل ہیں۔
میانمار حکومت نے اقوام متحدہ کے مسلمانوں پر کریک ڈاؤن کے خدشات، اور رکھائن میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے بدسلوکی کے الزامات کو رد کر دیا ہے۔
پوری ریاست میں جون کے اوائل سے، پولیس اور آرمی کی بھاری نفری کے باوجود، ایمرجسنسی کی صورتحال نظر آتی ہے۔
نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے میانمار فورسز پر روہنگیا میں فائرنگ کرنے، اورعصمت دری کا الزام عائد کیا ہے۔
صدیوں پر محیط اس امتیازی سلوک نے روہنگیا کو مکمل لاقونیت کی طرف دھکیل دیا ہے، اور اب یونائٹد نیشن کی طرف سے اسے اقلیتوں کی غیر محفوظ جگہ کے طور پر دیکھاجا رہا ہے۔
اس تمام صورتحال سے تنگ آکر بہت سے لوگ رکیٹی کشتی کے ذریعے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔