شمالی اور جنوبی کوریا کی قیادت کی تاریخ ساز ملاقات

اس سارے منظرنامے میں شمالی کوریا کی سخت گیر قیادت نے زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔

اس سارے منظرنامے میں شمالی کوریا کی سخت گیر قیادت نے زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ فوٹو : گیٹی امیجز

ISLAMABAD:
شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں کی دونوں ملکوں کے درمیان غیر فوجی علاقے میں ہونے والی تاریخی ملاقات نے ''نیوکلیئر فلیش پوانٹ'' کے خطرے کو وقتی طور پر ٹال دیا ہے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے سربراہوں کی غیر فوجی علاقے میں تاریخی ملاقات کے بعد جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے مل کر کام کر نے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے اس موقعے کو امن کے لیے نئے دور کا آغاز قرار دیا۔ جس مقام پر یہ ملاقات ہوئی وہ دونوں ملکوں کی سرحد پر غیر فوجی علاقہ ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان اپنے نو رکنی وفد کے ساتھ شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان سے ملے۔خطے کو جوہری ہتھیاروں کو کیسے پاک کیا جائے گا اس حوالے سے تفصیلات واضح نہیں ہیں تاہم یہ اعلان شمالی کوریا کی جانب سے کئی ماہ سے جاری جنگی بیانات کے بعد سامنے آیا ہے۔

دونوں رہنماؤں کی جانب سے مشترکہ بیان میں جن دیگر امور پر اتفاق کیا گیا ان میں 'جارحانہ سرگرمیوں' کا خاتمہ۔ پروپیگنڈہ نشریات بند کرتے ہوئے دونوں ممالک کو تقسیم کرنے والے 'غیر فوجی علاقے' کی 'امن کے علاقے' میں تبدیلی۔ خطے میں فوجی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اسلحے میں کمی۔ سہ فریقی مذاکرات میں امریکا اور چین کی شمولیت کی کوششیں۔ جنگ کے بعد تقسیم ہونے والے خاندانوں کے ملاپ کا انعقاد۔ ریل کے ذریعے دونوں ممالک کو جوڑنا اور ریل کے نیٹ ورک کی بہتری۔ رواں برس ایشیائی کھیلوں کے علاوہ کھیلوں کے دیگر مقابلوں میں مشترکہ شمولیت۔


اس ملاقات کو مغربی پریس 'اکیسویں صدی کا سب سے اہم سیاسی جوا' قرار دے رہا ہے۔جنوبی کوریا نے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے پروپیگنڈا نشریات بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔اس سے قبل شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے اپنے ملک کے کسی سربراہ کی جانب سے 1953ء کے بعد جنوبی کوریا کے پہلے دورے کے موقعے پر دو طرفہ تعلقات کی 'نئی تاریخ' رقم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

کم جونگ ان جمعے کی صبح سنہ 1953ء کی کورین جنگ کے اختتام کے بعد سرحد پار کر کے جنوبی کوریا میں داخل ہونے والے پہلے حکمران ہیں۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے سربراہوں نے جس انداز اور پروٹوکول میں ملاقات کی ہے' وہ بہت سے اشارے دے رہی ہے' دونوں ملکوں کی قیادت نے شاید ادراک کر لیا ہے کہ اب وہ زیادہ دیر تک عوام کو ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھ سکتے۔

اس سارے منظرنامے میں شمالی کوریا کی سخت گیر قیادت نے زیادہ سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور ایٹمی ہتھیاروں کے تنازع پر امریکا اور نیٹو سے الجھنے کے بجائے امن کا راستہ اختیار کیا' آنے والے دنوں میں مغربی و مشرقی جرمنی کے ادغام کی طرح شمالی و جنوبی کوریا بھی ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی مثال قائم کر سکتے ہیں۔

 
Load Next Story