باسی کہانی مگر تازہ
گورے گئے اور کالے آئے تو قانون اور انصاف بڑے مصروف ہوگئے۔ زمینداروں نے اپنی اپنی عدالتیں قائم کرلیں۔
اپنے اسپتالوں کا حال دیکھا ہے؟ یہ سوال اٹھانے والا چوہدری فضل دین کا چھوٹا بیٹا چوہدری شیراز تھا۔ چوہدری فضل دین پر اللہ کا بڑا فضل و کرم تھا۔ اللہ و حاکموں کے سامنے پرکھوں کا سر جھکا رہا، یوں اللہ اور حاکم دونوں خوش رہے، رقبہ بھی محفوظ رہا۔ رقبہ کیا تھا! بس پانچ مربے۔ بعد میں ''کالے انگریز'' آئے تو چوہدری فضل دین کو مزید سر جھکانا پڑ گیا۔ گورے قانون اور انصاف کے تھوڑے بہت مانڈوں (ماننے والے) تھے، مگر یہ کالے!!! یہ تو قانون اور انصاف جانتے ہی نہیں تھے۔
گورے کے زمانے میں بہو بیٹیاں زیورات سے لدی پھندی گھومتی پھرتی تھیں۔ مجال ہے کوئی نظر بھر کر دیکھ لے۔ سنتری کی نیکر کے پچھواڑے ایک دو فٹ کا رول لٹکا ہوتا تھا۔ بس یہی واحد ہتھیار تھا جو سرکار کی جانب سے پولیس کے سپاہیوں کو دیا جاتا تھا۔ مگر دو فٹ لکڑی کا یہ ٹکڑا قانون کی مضبوطی سے بنا ہوا تھا۔ سنتری جی کو قانون پکڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، اور قانون کمر کے پچھواڑے بندھا لٹکتا رہتا، سنتری جی چلتے تو جھولتا رہتا۔
گورے گئے اور کالے آئے تو قانون اور انصاف بڑے مصروف ہوگئے۔ زمینداروں نے اپنی اپنی عدالتیں قائم کرلیں۔ اپنی اپنی جیلیں بنالیں، اپنے اپنے قانون بنائے، اپنے اپنے انصاف بنا لیے۔ دکھاوے کی عدالتیں بھی ذاتی عدالتوں کے آگے بے بس، خاموش قانون کتابوں میں بند۔
کتابیں۔۔۔۔ الماریوں میں بند
بے گناہ جیلوں میں بند
چیخیں، سسکیاں، آنسو، آہیں، حویلیوں کی مضبوط فصیلوں میں بند
حکم ہے اور حکم قانون ہوتا ہے۔ رعایا کی جوان ہوتی بیٹی پر ''پہلا حق'' حویلی والوں کا ہے۔
مولوی مسجد میں بند
قرآن جزدانوں میں بند
اللہ سب سے بڑا ہے۔ پانچ وقت اللہ اکبر کی صدا سنائی دیتی ہے۔
صدا سننے والے سوچ میں پڑ جاتے ہیں
کیا واقعی ایسا ہے!!!
چوہدری فضل دین کے بیرونی معالج بتا چکے تھے کہ آخری وقت قریب ہے۔ باہر کی دوائیں بھی ختم ہونے والی تھیں۔ چوہدری کے بچے چاہتے تھے کہ ان کا باپ آخری سانس بیرون میں لے۔ آخری ہچکی ''باہر'' لے۔
چوہدری فضل دین نے تینوں بیٹوں کو بلایا اور کہا ''جیل کے سارے قیدی چھوڑ دو۔''
چوہدری فراز، چوہدری انداز، چوہدری شیراز نے باپ کے حکم پر سارے قیدی چھوڑ دیے۔ جاگیر کے قیدی بیمار چوہدری فضل دین کی قدم بوسی کرتے گئے اور ہاتھ باندھے دعائیں دیتے گھروں کو جاتے گئے۔ تینوں بیٹے قہر بھری نظروں سے قیدیوں کو دیکھ رہے تھے۔
بڑے بیٹے چوہدری فراز نے جاگیر کے منشی سے کہا ''ان سب کا حساب کردو اور ان کی ''حفاظت'' کا ''بندوبست'' بھی۔''
چوہدری فراز منشی کو ہدایات دے کر باپ کی طرف پلٹا
''ابا جی! اب خوش ہو! سارے قیدی چھوڑ دیے۔''
ہاں، ٹھیک ہے۔ چوہدری فضل نے مختصر جواب پر اکتفا کیا کیونکہ وہ جانتا تھا ادھر میری آنکھیں بند ہوئیں، ادھر قیدی پھر قید میں۔ قیدی بھی جانتے تھے کہ ان کی رہائی عارضی ہے۔ وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ ساری جاگیر ہی ان کے لیے جیل ہے۔
قیدی اپنے کچے گھروں میں آچکے تھے، ان کے لیے کچھ بھی نیا نہیں تھا جو دن رات وہاں قید خانے میں تھے، وہی بھیانک دن رات یہاں گھر میں تھے۔ چوہدریوں کے کارندے قیدیوں کی کڑی نگرانی پر مامور تھے۔ قیدیوں نے بھاگ کر کہاں جانا تھا اگر کبھی کوئی باغی قیدی چھپتا چھپاتا شہر بھی آجاتا تو چند دنوں میں چوہدریوں کے کارندے اسے شہر میں ڈھونڈ نکالتے اور اسے پکڑ کر جاگیر لے آتے۔ جاگیر کے جہازی دروازے میں داخل ہوتے ہی مفرور قیدی بے ہوش ہو جاتا۔ جہازی دروازہ کیا تھا ہیبت و بربریت کا پرچار تھا۔ اشتہار تھا۔ رنگین ستونوں پر کھڑے دروازے پر کندا تھا ''جاگیر چوہدریاں'' اور ستونوں پر پرکھوں کے نام معہ رنگین تصاویر۔ ڈیرے پر لے کر رعایا کے سامنے مفرور کی چھترول ہوتی، ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے جاتے الٹا لٹکا کر مارا جاتا اور گاؤں والوں کو ظلم کا یہ تماشا زبردستی اس لیے دکھایا جاتا کہ اس مفرور کے انجام سے سب کو عبرت ملے اور سر اٹھانے کا رعایا کو خیال تک نہ آئے۔
خوب ٹھیک ٹھاک لہو لہان کرکے مفرور کو چارپائی پر ڈال دیا جاتا، پھر ظلم کے ڈرامے کا ڈراپ سین آجاتا۔ بڑے چوہدری صاحب آتے اور مفرور کا انجام دیکھ کر کارندوں کو حکم دیتے۔
''بس بھئی بس! بہت ہوگئی! اس کے دوا دارو کا انتظام کرو۔'' پھر رعایا کی طرف مڑتے ''دیکھ لیا قانون توڑنے کا انجام!''
چوہدری اور گاؤں والے ڈیرے سے رخصت ہوجاتے۔ پندرہ بیس دن بعد مفرور کے ایک پاؤں میں بیڑی ڈال کر لمبی زنجیر کے ساتھ کھیتوں میں چھوڑ دیا جاتا، زنجیر ایک کھونٹے سے باندھ دی جاتی۔ مفرور کی کہانی ختم۔
بیمار چوہدری فضل دین کے ٹکٹ اور ویزا آگئے تھے۔ دو دن بعد بیمار چوہدری کو لندن روانہ ہونا تھا، جہاں ان کے بیرونی معالج ان کے منتظر تھے، مگر چوہدری فضل دین اپنے بیٹوں سے مسلسل یہی کہہ رہے تھے ''میرے بچو! میرا باپ بھی بیرون میں مرا تھا، میرا دادا بھی باہر ہی مرا تھا، مگر اب اس وراثت کو ختم کردو، مجھے پتا ہے میرے ڈاکٹر کہہ چکے ہیں کہ آخری وقت قریب ہے، کہانی مک گئی اے، اب مجھے اپنے گھر میں مرنے دو۔''
''ابا جی! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم بغیر علاج آپ کو اللہ کے سپرد کردیں۔''
یہ چوہدری فضل دین کا بڑا بیٹا چوہدری فراز بول رہا تھا، اور اس کے دونوں چھوٹے بھائی چوہدری انداز، چوہدری شیراز بڑے بھائی کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ بیمار چوہدری فضل دین پھر بولا ''میرے بیٹو! میری بات مان لو، میں اب چند دنوں کا مہمان ہوں، مجھے باہر مت بھیجو۔''
''ابا جی! ہمارے خاندان کا ایک بڑا نام ہے، مقام ہے، میں ممبر قومی اسمبلی ہوں۔ یہ دونوں چھوٹے صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں، سیاست میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ باپ کو گھر میں مار دیا۔''
یہ چوہدری فراز تھا جو باپ کو قائل کر رہا تھا۔
آج بیمار چوہدری فضل دین لندن روانہ ہو رہا تھا، ان کے ساتھ دو ملازم بھی جا رہے تھے، بیٹے اسمبلیوں میں مصروف تھے۔
سات دن بعد وہی ایئرپورٹ تھا، جہاں سے بیمار چوہدری فضل دین لندن گیا تھا، آج چوہدری فضل دین تابوت میں بند اپنے باپ دادا کی طرح واپس آرہا تھا، اپنی جاگیر میں ''باغ جنت'' قبرستان میں اس کی قبر تیار تھی۔
گورے کے زمانے میں بہو بیٹیاں زیورات سے لدی پھندی گھومتی پھرتی تھیں۔ مجال ہے کوئی نظر بھر کر دیکھ لے۔ سنتری کی نیکر کے پچھواڑے ایک دو فٹ کا رول لٹکا ہوتا تھا۔ بس یہی واحد ہتھیار تھا جو سرکار کی جانب سے پولیس کے سپاہیوں کو دیا جاتا تھا۔ مگر دو فٹ لکڑی کا یہ ٹکڑا قانون کی مضبوطی سے بنا ہوا تھا۔ سنتری جی کو قانون پکڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، اور قانون کمر کے پچھواڑے بندھا لٹکتا رہتا، سنتری جی چلتے تو جھولتا رہتا۔
گورے گئے اور کالے آئے تو قانون اور انصاف بڑے مصروف ہوگئے۔ زمینداروں نے اپنی اپنی عدالتیں قائم کرلیں۔ اپنی اپنی جیلیں بنالیں، اپنے اپنے قانون بنائے، اپنے اپنے انصاف بنا لیے۔ دکھاوے کی عدالتیں بھی ذاتی عدالتوں کے آگے بے بس، خاموش قانون کتابوں میں بند۔
کتابیں۔۔۔۔ الماریوں میں بند
بے گناہ جیلوں میں بند
چیخیں، سسکیاں، آنسو، آہیں، حویلیوں کی مضبوط فصیلوں میں بند
حکم ہے اور حکم قانون ہوتا ہے۔ رعایا کی جوان ہوتی بیٹی پر ''پہلا حق'' حویلی والوں کا ہے۔
مولوی مسجد میں بند
قرآن جزدانوں میں بند
اللہ سب سے بڑا ہے۔ پانچ وقت اللہ اکبر کی صدا سنائی دیتی ہے۔
صدا سننے والے سوچ میں پڑ جاتے ہیں
کیا واقعی ایسا ہے!!!
چوہدری فضل دین کے بیرونی معالج بتا چکے تھے کہ آخری وقت قریب ہے۔ باہر کی دوائیں بھی ختم ہونے والی تھیں۔ چوہدری کے بچے چاہتے تھے کہ ان کا باپ آخری سانس بیرون میں لے۔ آخری ہچکی ''باہر'' لے۔
چوہدری فضل دین نے تینوں بیٹوں کو بلایا اور کہا ''جیل کے سارے قیدی چھوڑ دو۔''
چوہدری فراز، چوہدری انداز، چوہدری شیراز نے باپ کے حکم پر سارے قیدی چھوڑ دیے۔ جاگیر کے قیدی بیمار چوہدری فضل دین کی قدم بوسی کرتے گئے اور ہاتھ باندھے دعائیں دیتے گھروں کو جاتے گئے۔ تینوں بیٹے قہر بھری نظروں سے قیدیوں کو دیکھ رہے تھے۔
بڑے بیٹے چوہدری فراز نے جاگیر کے منشی سے کہا ''ان سب کا حساب کردو اور ان کی ''حفاظت'' کا ''بندوبست'' بھی۔''
چوہدری فراز منشی کو ہدایات دے کر باپ کی طرف پلٹا
''ابا جی! اب خوش ہو! سارے قیدی چھوڑ دیے۔''
ہاں، ٹھیک ہے۔ چوہدری فضل نے مختصر جواب پر اکتفا کیا کیونکہ وہ جانتا تھا ادھر میری آنکھیں بند ہوئیں، ادھر قیدی پھر قید میں۔ قیدی بھی جانتے تھے کہ ان کی رہائی عارضی ہے۔ وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ ساری جاگیر ہی ان کے لیے جیل ہے۔
قیدی اپنے کچے گھروں میں آچکے تھے، ان کے لیے کچھ بھی نیا نہیں تھا جو دن رات وہاں قید خانے میں تھے، وہی بھیانک دن رات یہاں گھر میں تھے۔ چوہدریوں کے کارندے قیدیوں کی کڑی نگرانی پر مامور تھے۔ قیدیوں نے بھاگ کر کہاں جانا تھا اگر کبھی کوئی باغی قیدی چھپتا چھپاتا شہر بھی آجاتا تو چند دنوں میں چوہدریوں کے کارندے اسے شہر میں ڈھونڈ نکالتے اور اسے پکڑ کر جاگیر لے آتے۔ جاگیر کے جہازی دروازے میں داخل ہوتے ہی مفرور قیدی بے ہوش ہو جاتا۔ جہازی دروازہ کیا تھا ہیبت و بربریت کا پرچار تھا۔ اشتہار تھا۔ رنگین ستونوں پر کھڑے دروازے پر کندا تھا ''جاگیر چوہدریاں'' اور ستونوں پر پرکھوں کے نام معہ رنگین تصاویر۔ ڈیرے پر لے کر رعایا کے سامنے مفرور کی چھترول ہوتی، ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے جاتے الٹا لٹکا کر مارا جاتا اور گاؤں والوں کو ظلم کا یہ تماشا زبردستی اس لیے دکھایا جاتا کہ اس مفرور کے انجام سے سب کو عبرت ملے اور سر اٹھانے کا رعایا کو خیال تک نہ آئے۔
خوب ٹھیک ٹھاک لہو لہان کرکے مفرور کو چارپائی پر ڈال دیا جاتا، پھر ظلم کے ڈرامے کا ڈراپ سین آجاتا۔ بڑے چوہدری صاحب آتے اور مفرور کا انجام دیکھ کر کارندوں کو حکم دیتے۔
''بس بھئی بس! بہت ہوگئی! اس کے دوا دارو کا انتظام کرو۔'' پھر رعایا کی طرف مڑتے ''دیکھ لیا قانون توڑنے کا انجام!''
چوہدری اور گاؤں والے ڈیرے سے رخصت ہوجاتے۔ پندرہ بیس دن بعد مفرور کے ایک پاؤں میں بیڑی ڈال کر لمبی زنجیر کے ساتھ کھیتوں میں چھوڑ دیا جاتا، زنجیر ایک کھونٹے سے باندھ دی جاتی۔ مفرور کی کہانی ختم۔
بیمار چوہدری فضل دین کے ٹکٹ اور ویزا آگئے تھے۔ دو دن بعد بیمار چوہدری کو لندن روانہ ہونا تھا، جہاں ان کے بیرونی معالج ان کے منتظر تھے، مگر چوہدری فضل دین اپنے بیٹوں سے مسلسل یہی کہہ رہے تھے ''میرے بچو! میرا باپ بھی بیرون میں مرا تھا، میرا دادا بھی باہر ہی مرا تھا، مگر اب اس وراثت کو ختم کردو، مجھے پتا ہے میرے ڈاکٹر کہہ چکے ہیں کہ آخری وقت قریب ہے، کہانی مک گئی اے، اب مجھے اپنے گھر میں مرنے دو۔''
''ابا جی! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم بغیر علاج آپ کو اللہ کے سپرد کردیں۔''
یہ چوہدری فضل دین کا بڑا بیٹا چوہدری فراز بول رہا تھا، اور اس کے دونوں چھوٹے بھائی چوہدری انداز، چوہدری شیراز بڑے بھائی کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے۔ بیمار چوہدری فضل دین پھر بولا ''میرے بیٹو! میری بات مان لو، میں اب چند دنوں کا مہمان ہوں، مجھے باہر مت بھیجو۔''
''ابا جی! ہمارے خاندان کا ایک بڑا نام ہے، مقام ہے، میں ممبر قومی اسمبلی ہوں۔ یہ دونوں چھوٹے صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں، سیاست میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ باپ کو گھر میں مار دیا۔''
یہ چوہدری فراز تھا جو باپ کو قائل کر رہا تھا۔
آج بیمار چوہدری فضل دین لندن روانہ ہو رہا تھا، ان کے ساتھ دو ملازم بھی جا رہے تھے، بیٹے اسمبلیوں میں مصروف تھے۔
سات دن بعد وہی ایئرپورٹ تھا، جہاں سے بیمار چوہدری فضل دین لندن گیا تھا، آج چوہدری فضل دین تابوت میں بند اپنے باپ دادا کی طرح واپس آرہا تھا، اپنی جاگیر میں ''باغ جنت'' قبرستان میں اس کی قبر تیار تھی۔