پان دان قدیم تہذیب سے جڑی روایت
پان دان میں رکھنے کے لیے پان کے لوازمات انتہائی نفاست اور صفائی سے تیار کیے جاتے تھے۔
ISLAMABAD:
قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔کچھ چیزیں ہماری گھریلو تہذیب اور ثقافت کا لازمی حصہ ہوا کرتی تھیں جن کے بغیر ہمارے گھر نامکمل تصور کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر چلمن، سلفچی، لوٹا اور پان دان وغیرہ۔ مگر آج کی نسل تو ان کے ناموں تک سے واقف نہیں، استعمال تو کیا ہی کوئی جانے گا، نئی نسل پان کی تو شوقین ہے، کیوں کہ یہ بازار میں بہ آسانی دست یاب ہے۔
گھروں میں تو اب پان دان خال خال ہی نظر آتا ہے، مگر ان لوازمات کے بغیر جو کبھی اس کا خاصہ ہوا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں پان دان کو ہمارے گھروں میں بہت اہمیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ امرا کے گھروں میں چاندی کے پان دان استعمال ہوتے تھے۔ جسامت میں وزنی اور بڑے ہوتے تھے۔ متوسط طبقے میں تانبے کے پان دان استعمال ہوتے تھے جن کو باقاعدگی سے قلعی کروا کر چمک دار رکھا جاتا تھا۔
یہ عموما گھروں کی دادی یا نانی اماں کی مسہری یا چوکی کے قریب تپائی پر رکھے جاتے تھے، کیوںکہ پان بنانے کی ذمے داری انہی کی ہوتی تھی۔ پان دان کو اوپر سے سجانے کے لیے شوخ رنگوں کے کپڑے سے خوان پوش بنایا جاتا تھا۔ اس پر گوٹا کناری کا خوب صورت کام کیا جاتا تھا۔
پان دان میں رکھنے کے لیے پان کے لوازمات انتہائی نفاست اور صفائی سے تیار کیے جاتے تھے۔ سونف، دھنیے کی گری، پسا ہوا کھوپرا، گل قند، الائچی، لونگ، چونا،کتھا، باریک کٹی ہوئی چھالیہ، مختلف خوشبوؤں کے تمباکو گھر کا بنا ہوا گٹکا اور ملیٹھی وغیرہ سلیقے سے الگ الگ چھوٹے سے برتن میں رکھے جاتے تھے جنہیں کلیاں کہتے تھے۔ چھالیہ کاٹنے کے لیے سروتا پان دان کا لازمی جزو ہوتا تھا۔
اس زمانے میں فریج تو ہوتا نہیں تھا، اس لیے پان کو دن بھر تازہ رکھنے کے لیے انہیں دھوکر ململ کے گیلے کپڑے میں لپیٹ کر پان دان کے اندر رکھا جاتا تھا۔گھر کے افراد تو تمام دن ہی پان سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے خصوصاً کھانے کے بعد تو پان کھانا لازمی تھا۔ مہمان آجائیں تو جب تک پان پیش نہ کیا تو سمجھیں کہ تواضع کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔کھانے کا وقت نہ ہوا تو مہمان کو چائے کے ساتھ پان پیش کر دیا۔ لیجیے ہو گئی تواضع۔ تقریبات میں کھانے کے ساتھ پان کا انتظام پورے لوازمات کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ مختلف عمروں کے حضرات اور خواتین کے لیے ان کی پسند اور ذوق کے مطابق پان تیار کیے جاتے تھے۔
پان کے صرف لوازمات کا ہی خیال نہیں رکھا جاتا تھا، بلکہ پان کی پیک تھوکنے کا بھی باقاعدہ بندوبست کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے خاص طور پر بڑے بڑے اگال دان تیار کیے جاتے تھے۔ ان کی بھی صفائی کا خاص رکھا جاتا تھا۔ صبح اور شام کے وقت انہیں خالی کر کے دھویا جاتا تھا۔ اگال دان بھی باقاعدہ قلعی کروا کر چمک دار رکھے جاتے تھے۔
پان دان صرف پان کے شوق تک محدود نہ تھا، بلکہ گھروں کی بڑی بوڑھیاں اس سے چھوٹے موٹے علاج بھی کرلیا کرتی تھیں۔گھر میں کسی کو کھانسی ہوئی تو لیجیے صاحب ملیٹھیوالا پان، دو تین پان کھائے اور کھانسی ختم۔کسی کے دانت میں درد ہوا، دادی اماں نے جھٹ پان دان سے لونگ نکال کر دی اور دانت میں رکھوا دی۔ مل گیا آرام۔ کسی کو کیڑے نے کاٹ لیا تو دادی اماں نے پان دان سے چونا نکال کر زخم پر لگا دیا، ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔
اکثر گھروں میں بڑے سائز کے پان دان استعمال ہوتے تھے جن کی کلیوں کے نیچے کے حصے میں کافی جگہ ہوتی تھی جسے تجوری کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ عموماً دادی اماں اس میں گھر کی چابیوں کا گچھا، کچھ رقم اور چھوٹا موٹا زیور رکھ لیا کرتی تھیں۔ اس طرح یہ چیزیں گھر کے ملازموں کی نظر سے بچی رہتی تھیں۔
پان اور پان دان کی ہماری تہذیب و ثقافت میں کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو اس کے سسرال والوں سے لڑکی کو شادی کے بعد ملنے والا جیب خرچ مقرر کروا کر اس کا باقاعدہ اندراج نکاح نامے میں کروایا جاتا تھا جسے پان دان کا خرچہ کہا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک جاری رہا، مگر اب متروک ہو چکا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھی روایت تھی۔
نئی نسل کو تو اس کا علم بھی نہیں ہے اور پرانی نسل بھی اسے بھول چکی ہے۔ جہیز میں دینے کے لیے چاندی کے بڑے پان دان خصوصی طور پر تیار کرواے جاتے تھے۔ان کے لیے خوان پوش بھی شادی کی مناسبت سے کام دار ہوتے تھے۔ جدید طرز زندگی نے پان کھانے کا شوق تو ختم نہیں کیا، لیکن ہمارے گھروں سے پان دان کی خوب صورت روایت ضرور ختم کر دی ہے۔ شوقین افراد کو اس روایت کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔کچھ چیزیں ہماری گھریلو تہذیب اور ثقافت کا لازمی حصہ ہوا کرتی تھیں جن کے بغیر ہمارے گھر نامکمل تصور کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر چلمن، سلفچی، لوٹا اور پان دان وغیرہ۔ مگر آج کی نسل تو ان کے ناموں تک سے واقف نہیں، استعمال تو کیا ہی کوئی جانے گا، نئی نسل پان کی تو شوقین ہے، کیوں کہ یہ بازار میں بہ آسانی دست یاب ہے۔
گھروں میں تو اب پان دان خال خال ہی نظر آتا ہے، مگر ان لوازمات کے بغیر جو کبھی اس کا خاصہ ہوا کرتے تھے۔ ایک زمانے میں پان دان کو ہمارے گھروں میں بہت اہمیت حاصل ہوا کرتی تھی۔ امرا کے گھروں میں چاندی کے پان دان استعمال ہوتے تھے۔ جسامت میں وزنی اور بڑے ہوتے تھے۔ متوسط طبقے میں تانبے کے پان دان استعمال ہوتے تھے جن کو باقاعدگی سے قلعی کروا کر چمک دار رکھا جاتا تھا۔
یہ عموما گھروں کی دادی یا نانی اماں کی مسہری یا چوکی کے قریب تپائی پر رکھے جاتے تھے، کیوںکہ پان بنانے کی ذمے داری انہی کی ہوتی تھی۔ پان دان کو اوپر سے سجانے کے لیے شوخ رنگوں کے کپڑے سے خوان پوش بنایا جاتا تھا۔ اس پر گوٹا کناری کا خوب صورت کام کیا جاتا تھا۔
پان دان میں رکھنے کے لیے پان کے لوازمات انتہائی نفاست اور صفائی سے تیار کیے جاتے تھے۔ سونف، دھنیے کی گری، پسا ہوا کھوپرا، گل قند، الائچی، لونگ، چونا،کتھا، باریک کٹی ہوئی چھالیہ، مختلف خوشبوؤں کے تمباکو گھر کا بنا ہوا گٹکا اور ملیٹھی وغیرہ سلیقے سے الگ الگ چھوٹے سے برتن میں رکھے جاتے تھے جنہیں کلیاں کہتے تھے۔ چھالیہ کاٹنے کے لیے سروتا پان دان کا لازمی جزو ہوتا تھا۔
اس زمانے میں فریج تو ہوتا نہیں تھا، اس لیے پان کو دن بھر تازہ رکھنے کے لیے انہیں دھوکر ململ کے گیلے کپڑے میں لپیٹ کر پان دان کے اندر رکھا جاتا تھا۔گھر کے افراد تو تمام دن ہی پان سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے خصوصاً کھانے کے بعد تو پان کھانا لازمی تھا۔ مہمان آجائیں تو جب تک پان پیش نہ کیا تو سمجھیں کہ تواضع کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔کھانے کا وقت نہ ہوا تو مہمان کو چائے کے ساتھ پان پیش کر دیا۔ لیجیے ہو گئی تواضع۔ تقریبات میں کھانے کے ساتھ پان کا انتظام پورے لوازمات کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ مختلف عمروں کے حضرات اور خواتین کے لیے ان کی پسند اور ذوق کے مطابق پان تیار کیے جاتے تھے۔
پان کے صرف لوازمات کا ہی خیال نہیں رکھا جاتا تھا، بلکہ پان کی پیک تھوکنے کا بھی باقاعدہ بندوبست کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے خاص طور پر بڑے بڑے اگال دان تیار کیے جاتے تھے۔ ان کی بھی صفائی کا خاص رکھا جاتا تھا۔ صبح اور شام کے وقت انہیں خالی کر کے دھویا جاتا تھا۔ اگال دان بھی باقاعدہ قلعی کروا کر چمک دار رکھے جاتے تھے۔
پان دان صرف پان کے شوق تک محدود نہ تھا، بلکہ گھروں کی بڑی بوڑھیاں اس سے چھوٹے موٹے علاج بھی کرلیا کرتی تھیں۔گھر میں کسی کو کھانسی ہوئی تو لیجیے صاحب ملیٹھیوالا پان، دو تین پان کھائے اور کھانسی ختم۔کسی کے دانت میں درد ہوا، دادی اماں نے جھٹ پان دان سے لونگ نکال کر دی اور دانت میں رکھوا دی۔ مل گیا آرام۔ کسی کو کیڑے نے کاٹ لیا تو دادی اماں نے پان دان سے چونا نکال کر زخم پر لگا دیا، ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔
اکثر گھروں میں بڑے سائز کے پان دان استعمال ہوتے تھے جن کی کلیوں کے نیچے کے حصے میں کافی جگہ ہوتی تھی جسے تجوری کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ عموماً دادی اماں اس میں گھر کی چابیوں کا گچھا، کچھ رقم اور چھوٹا موٹا زیور رکھ لیا کرتی تھیں۔ اس طرح یہ چیزیں گھر کے ملازموں کی نظر سے بچی رہتی تھیں۔
پان اور پان دان کی ہماری تہذیب و ثقافت میں کیا اہمیت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی تھی تو اس کے سسرال والوں سے لڑکی کو شادی کے بعد ملنے والا جیب خرچ مقرر کروا کر اس کا باقاعدہ اندراج نکاح نامے میں کروایا جاتا تھا جسے پان دان کا خرچہ کہا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک جاری رہا، مگر اب متروک ہو چکا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھی روایت تھی۔
نئی نسل کو تو اس کا علم بھی نہیں ہے اور پرانی نسل بھی اسے بھول چکی ہے۔ جہیز میں دینے کے لیے چاندی کے بڑے پان دان خصوصی طور پر تیار کرواے جاتے تھے۔ان کے لیے خوان پوش بھی شادی کی مناسبت سے کام دار ہوتے تھے۔ جدید طرز زندگی نے پان کھانے کا شوق تو ختم نہیں کیا، لیکن ہمارے گھروں سے پان دان کی خوب صورت روایت ضرور ختم کر دی ہے۔ شوقین افراد کو اس روایت کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔