کراچی بدامنی کیس پیپلزپارٹی لیاری میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرست ہےپولیس
آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز سندھ گرفتاری کے بعد رہا کئے گئے71 ملزمان کو کل تک دوبارہ حراست لے،سپریم کورٹ کا حکم
کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے موقع پر لیاری کے ایک تھانے کے ایس ایچ او نے بیان دیا ہے کہ پیپلز پارٹی علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کررہی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران پولیس نے عدالت میں نوگوایریاز کے خاتمے سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے 106 تھانوں میں سے 99 میں نوگو ایریاز ختم ہوگئے ہیں تاہم ملیر، سہراب گوٹھ، چاکیواڑہ، کلاکوٹ، بغدادی اور کلری سمیت سات تھانوں میں نوگوایریاز اب بھی قائم ہیں ۔ جس پر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں ایک بھی نوگوایریا نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران لیاری کے ایک ایس ایچ او نے بیان دیا کہ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کو مکینوں کی پشت پناہی حاصل ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی ان کی حمایتی ہے۔ اردو بولنے والے اور بلوچ ایک دوسرے کے علاقے میں نہیں جا سکتے اس لیے یہ علاقے نو گو ایریا بن جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او کا بیان پیپلزپارٹی کے خلاف بیان حلفی ہے۔ ہم نے پن پوائنٹ کردیا ہے کہ سب کچھ سیاسی طور پر ہورہا ہے۔ آئی جی وضاحت کریں کراچی میں امن کیوں نہیں ہو رہا اور ریاستی رٹ کہاں ہے، پولیس سیاسی لوگوں پرہاتھ کیوں نہیں ڈالتی، ان کا کہنا تھا کہ آنکھیں بند کرنے سے معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے، ایکسپریس ٹریبیون نے کراچی میں نوگوایریازکی خبر اور نقشہ دیا، آئی جی چاہیں توشام تک ایسے علاقے ختم ہوسکتے ہیں۔
سماعت کے دوران رینجرز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لیاری میں آپریشن کے وقت بچے اور خواتین سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں ،کارروائی کی تو لال مسجد آپریشن کا نام دیا جائے گا۔ مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران رینجرز نے سیکڑوں ملزمان کو پکڑکر پولیس کے حوالے کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رینجرز کو ایف آئی آر کٹوانی چاہیے تھی ،لگتا ہے پولیس نے ان کو پچھلے دروازے سے نکال دیا ہو گا۔نو گو ایریاز ختم کرنے کے عدالتی حکم کی تعمیل نہیں ہوئی۔ پولیس کی رپورٹ بظاہر درست دکھائی نہیں دیتی۔ جو ملزم 115قتل کی وارداتوں میں مطلوب تھا اس کے خلاف ناقص کیس بنایا۔ پولیس نے 132کیسوں میں مطلوب ملزم کے خلاف 353کا مقدمہ درج کیا۔ رپورٹ کو اگر درست مان لیا جائے تو کراچی کے حالات میں 95فیصد بہتری آنی چاہیے تھی جو کہیں سے بھی نظر نہیں آتی۔
سندھ رینجرز کے وکیل نے کہا کہ 1992 کے کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران کو مار دیا گیا،جس پت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر پولیس کو اتنا ہی خوف ہے تو استعفے دیں اور گھر چلے جائیں، ان سے بہتر لوگ آ جائیں گے اور کام کریں گے۔ قبرستان ان لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو کاپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کسی نےکراچی بدامنی عملدرآمد کیس کا عدالتی فیصلے کو پڑھا تک نہیں، ملزم کےمنہ پر کپڑا ڈال کر کہا جاتا ہے کہ 145 قتل کرنے والا ملزم پکڑ لیا۔ملزم پر ایف آئی آر قتل کے بجائے کسی اور مقدمے کی کرا دی جاتی ہے۔ منیراحمدانجم نے115 قتل کرنےکااعتراف کیا،اس پرقتل کاایک بھی مقدمہ نہیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ دی تھی کہ ان ملزمان کا سیاسی وابستگیاں ہیں۔
سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز سندھ کو گرفتاری کے بعد رہا کئے گئے 71 ملزمان کو کل تک دوبارہ حراست میں لینے اور جن ملزمان کے چالان داخل ہو چکے ہیں، ان کے خلاف 7 دن میں کارروائی کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے دوران پولیس نے عدالت میں نوگوایریاز کے خاتمے سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے 106 تھانوں میں سے 99 میں نوگو ایریاز ختم ہوگئے ہیں تاہم ملیر، سہراب گوٹھ، چاکیواڑہ، کلاکوٹ، بغدادی اور کلری سمیت سات تھانوں میں نوگوایریاز اب بھی قائم ہیں ۔ جس پر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں ایک بھی نوگوایریا نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران لیاری کے ایک ایس ایچ او نے بیان دیا کہ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کو مکینوں کی پشت پناہی حاصل ہے جبکہ پیپلز پارٹی بھی ان کی حمایتی ہے۔ اردو بولنے والے اور بلوچ ایک دوسرے کے علاقے میں نہیں جا سکتے اس لیے یہ علاقے نو گو ایریا بن جاتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او کا بیان پیپلزپارٹی کے خلاف بیان حلفی ہے۔ ہم نے پن پوائنٹ کردیا ہے کہ سب کچھ سیاسی طور پر ہورہا ہے۔ آئی جی وضاحت کریں کراچی میں امن کیوں نہیں ہو رہا اور ریاستی رٹ کہاں ہے، پولیس سیاسی لوگوں پرہاتھ کیوں نہیں ڈالتی، ان کا کہنا تھا کہ آنکھیں بند کرنے سے معاملات ٹھیک نہیں ہوسکتے، ایکسپریس ٹریبیون نے کراچی میں نوگوایریازکی خبر اور نقشہ دیا، آئی جی چاہیں توشام تک ایسے علاقے ختم ہوسکتے ہیں۔
سماعت کے دوران رینجرز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لیاری میں آپریشن کے وقت بچے اور خواتین سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں ،کارروائی کی تو لال مسجد آپریشن کا نام دیا جائے گا۔ مختلف علاقوں میں آپریشن کے دوران رینجرز نے سیکڑوں ملزمان کو پکڑکر پولیس کے حوالے کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رینجرز کو ایف آئی آر کٹوانی چاہیے تھی ،لگتا ہے پولیس نے ان کو پچھلے دروازے سے نکال دیا ہو گا۔نو گو ایریاز ختم کرنے کے عدالتی حکم کی تعمیل نہیں ہوئی۔ پولیس کی رپورٹ بظاہر درست دکھائی نہیں دیتی۔ جو ملزم 115قتل کی وارداتوں میں مطلوب تھا اس کے خلاف ناقص کیس بنایا۔ پولیس نے 132کیسوں میں مطلوب ملزم کے خلاف 353کا مقدمہ درج کیا۔ رپورٹ کو اگر درست مان لیا جائے تو کراچی کے حالات میں 95فیصد بہتری آنی چاہیے تھی جو کہیں سے بھی نظر نہیں آتی۔
سندھ رینجرز کے وکیل نے کہا کہ 1992 کے کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران کو مار دیا گیا،جس پت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر پولیس کو اتنا ہی خوف ہے تو استعفے دیں اور گھر چلے جائیں، ان سے بہتر لوگ آ جائیں گے اور کام کریں گے۔ قبرستان ان لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو کاپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کسی نےکراچی بدامنی عملدرآمد کیس کا عدالتی فیصلے کو پڑھا تک نہیں، ملزم کےمنہ پر کپڑا ڈال کر کہا جاتا ہے کہ 145 قتل کرنے والا ملزم پکڑ لیا۔ملزم پر ایف آئی آر قتل کے بجائے کسی اور مقدمے کی کرا دی جاتی ہے۔ منیراحمدانجم نے115 قتل کرنےکااعتراف کیا،اس پرقتل کاایک بھی مقدمہ نہیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ دی تھی کہ ان ملزمان کا سیاسی وابستگیاں ہیں۔
سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز سندھ کو گرفتاری کے بعد رہا کئے گئے 71 ملزمان کو کل تک دوبارہ حراست میں لینے اور جن ملزمان کے چالان داخل ہو چکے ہیں، ان کے خلاف 7 دن میں کارروائی کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔