جو چھٹی گھر میں فاقے لائے وہ چھٹی ہی کیا
لیبرڈے پر مزدور مزدوری کرتا نظر آتا ہے، جو غریب چھٹی پر ہو اس کا ایک دن کا راشن، خرچہ اور دیہاڑی و آمدن چھن جاتی ہے
آج کی تحریر ان موروں کے نام جو ٹیڑھے آنگن پر ناچتے ہیں۔ بات پڑوسی ملک میں واقع تاج محل کی کی جائے یا دبئی کے برج خلیفہ کی، بادشاہی مسجد سے لے کر شاہ فیصل مسجد کی، آپ کو ان کے فن کا معترف ہونا پڑے گا۔ یہ مور دن بھر دھوپ، چھاؤں، گرمی سردی میں ناچ ناچتے ہیں اور شام کو گھر پہنچتے ہی اپنے ہاتھ پاؤں دیکھ کر دل ہی دل میں خود کو کوستے ہیں۔ یہ وہی مور ہے جو بنجراور ویران زمین پر شاندار گھر، بنگلے اور دفاتر بنانے میں یدِ طولی رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ فنِ معمار ی کے یہ فنکار کسی بیمہ پالیسی کا حصہ نہیں ہوتے۔ دورانِ فن کاری اگر زخمی ہو جائیں تو اسے کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ غیر معمولی چوٹیں اور زخموں کو معمولی تصور کیا جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ شاید یہ کسی یونین کا حصہ بھی نہیں ہوتے۔ پتھروں میں جان ڈال کر انسانوں کو آباد کرنے کی مہارت ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مختلف قسم کے پتھروں کو ا س مہارت سے استعمال کرنا کہ بعد از استعمال اِن میں فرق نہ کیا جاسکے، اس کا سہرا بھی انہی کو جاتا ہے۔
ویسے تو مزدوری (لیبر) ایک وسیع اصطلاح ہے لیکن معاشیات کی رو سے دیکھا جائے تو کوئی بھی ایسا ذہنی و جسمانی کام جو کسی معاوضے کے عوض کیا جارہا ہو مزدوری کہلاتا ہے۔ جب سے ہوش سنھبالا ہے، ناچنے کے بعد مور کو ہمیشہ روتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ گویا نہ ساون سوکھے نہ بھادوں ہرے، یا یو ں کہہ لیجیے (ہر شب شبِ برات ہے ہر روز روزِعید۔)
یکم مئی پر سینکڑوں لوگ لکھتے ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تحریر یکم مئی کو چھپتی۔ چونکہ موصوف طبیعت کے ذرا زیادہ ہی سست پائے گئے ہیں، لہذا یہاں پر بھی سستی کام کے آڑے آگئی۔ غلطی کو معاف کیجیے گا، عالمی دن برائے مزدور پر عام تعطیل ہونے کی وجہ سے خلافِ معمول ذرا دیر سے جاگا۔ ظاہر ہے چھٹی کے دن کون جلدی جاگتا ہے۔ کچھ سامان خریدنے کی غرض سے دوکان تک جانا پڑا۔ راستے میں کچھ مزدور اپنے کام میں مگن دکھائی دیے جیسے انہیں چھٹی سے غرض ہی نا ہو۔ جب انہیں غرض نہیں تھی تو مجھے بھی نا ہوئی، لیکن جناب بسا اوقات جہاں بظاہر غرض نہیں ہوتی وہاں حقیقتاََ غرض ہوتی ہے۔
یکم مئی کیوں منایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شکاگو میں مزدوروں پر کیے جانے والے مظالم کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے (365) تین سو پینسٹھ دنوں میں سے مزدور کا ایک ہی دن کیوں۔ جس طرح مدرز ڈے، فادرز ڈے، ٹیچرز ڈے، ویلنٹائن ڈے اور پتہ نہیں کون کون سا ڈے۔ جب ایک کام آپ سال کے تقریباََ (345) تین سو پینتالیس دن کرتے ہیں پھر اس کام کے لیے ایک دن کیوں مختص کیا جاتا ہے۔ مجھے ایک دن مختص کرنے پر اختلاف ہے۔ مجھے زمانے اور اس کی ان روایات سے شدید اختلاف ہے۔ بات اختلاف تک محدود نہیں، میرا بس چلے تو شاید میں اُن لوگوں کو اُلٹا لٹکادوں جن لوگوں نے پورے سال، پوری عمر کی محنت کو منانے کےلیے صرف ایک ہی دن مقرر کر رکھا ہے۔
میرے نزدیک جو والدین مرتے دم تک آپ کی پرورش میں کوئی لمحہ پیچھے نہیں ہوتے، ان کے لیے ایک دن کیوں۔ محنت برسوں کی اوردن ایک۔ یہ ایسا ہے جیسے ایک کمہار کو برتن بنانے میں پچیس (25) برس کا عرصہ لگ جائے اور پچیس سال بعد صرف ایک دن استعمال کی اجازت ہو۔ پچیس سالہ محنت کے بعد اسے ایک دن کےلیے یہ اعزاز دیا جائے کہ وہ بہترین کمہار ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک طالبِ علم سولہ سال کا عرصہ کتابو ں میں سر کھپائے، اور سولہ سالوں کے بعد ایک دن کے لیے پڑھا لکھا تصور کیا جائے۔ جیسے ساٹھ سال تک ایک طبیب مریضوں کا علاج کرے اور پھر ایک دن کے لیے اسے بہترین طبیب کا درجہ دیا جائے۔ جانے کب لوگ ان گھسی پٹی باتوں میں سے باہر نکلیں گے۔
طبیب تین سو پینسٹھ دن تک طبیب ہی ہے اور ہر دن طبیب کا ہی ہے۔ والدین تاعمر والدین ہی ہیں، وہ تبدیل نہیں ہوسکتے۔ کمہار تا حیات کمہار ہی رہے گا۔ یہ فن اس کی شناخت ہے اور وہ اس فن کا مالک۔ یومِ مزدور پر مزدور کے علاوہ تقریباََ پوری قوم ہی (Labor Day) منا رہی ہوتی ہے، عام تعطیل ہوتی ہے، لیکن حیرت کی بات یہ تعطیل وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا مزدور اور مزدوری سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں۔
یومِ مزدور پر مزدور مزدوری کرتا نظر آتا ہے اور جو غریب چھٹی پر ہے اس کا ایک دن کا راشن، خرچہ نیز ایک دن کی آمدن چھن جاتی ہے۔ یکم مئی ایسی چھٹی ہے جس سے مزدور کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرکار تعطیل کرتی ہے، لیکن سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر مزدور کی چھٹی ہے تو افسران کیوں چھٹی پر ہوتے ہیں۔ یا تو ایسا ہو کہ ہر ادارے میں یکم مئی کو مزدور افسر کی جگہ بیٹھ کر حکم چلائے اور افسر حکم کی تعمیل کرے۔ گزارش یہ ہے کہ جس چھٹی کی وجہ سے مزدور کی دیہاڑی نہ لگے وہ چھٹی کس کام کی۔ جوچھٹی گھر میں فاقے لائے وہ چھٹی ہی کیا۔
میری نظر میں یومِ مزدور کو ختم کردینا چاہیے کیونکہ چھٹی کی وجہ سے مزدور اپنی مزدوری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یومِ مزدور پر مزدور کا اپنی اجرت سے محروم رہ جانا پریشان کن ہے۔ جو قومیں اپنے مزدور کو بنیادی حقوق نہیں دے سکتیں وہ چھٹی کرنے کا جواز نہیں رکھتیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس حوالے سے یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ فنِ معمار ی کے یہ فنکار کسی بیمہ پالیسی کا حصہ نہیں ہوتے۔ دورانِ فن کاری اگر زخمی ہو جائیں تو اسے کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ غیر معمولی چوٹیں اور زخموں کو معمولی تصور کیا جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ شاید یہ کسی یونین کا حصہ بھی نہیں ہوتے۔ پتھروں میں جان ڈال کر انسانوں کو آباد کرنے کی مہارت ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ مختلف قسم کے پتھروں کو ا س مہارت سے استعمال کرنا کہ بعد از استعمال اِن میں فرق نہ کیا جاسکے، اس کا سہرا بھی انہی کو جاتا ہے۔
ویسے تو مزدوری (لیبر) ایک وسیع اصطلاح ہے لیکن معاشیات کی رو سے دیکھا جائے تو کوئی بھی ایسا ذہنی و جسمانی کام جو کسی معاوضے کے عوض کیا جارہا ہو مزدوری کہلاتا ہے۔ جب سے ہوش سنھبالا ہے، ناچنے کے بعد مور کو ہمیشہ روتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ گویا نہ ساون سوکھے نہ بھادوں ہرے، یا یو ں کہہ لیجیے (ہر شب شبِ برات ہے ہر روز روزِعید۔)
یکم مئی پر سینکڑوں لوگ لکھتے ہوں گے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ تحریر یکم مئی کو چھپتی۔ چونکہ موصوف طبیعت کے ذرا زیادہ ہی سست پائے گئے ہیں، لہذا یہاں پر بھی سستی کام کے آڑے آگئی۔ غلطی کو معاف کیجیے گا، عالمی دن برائے مزدور پر عام تعطیل ہونے کی وجہ سے خلافِ معمول ذرا دیر سے جاگا۔ ظاہر ہے چھٹی کے دن کون جلدی جاگتا ہے۔ کچھ سامان خریدنے کی غرض سے دوکان تک جانا پڑا۔ راستے میں کچھ مزدور اپنے کام میں مگن دکھائی دیے جیسے انہیں چھٹی سے غرض ہی نا ہو۔ جب انہیں غرض نہیں تھی تو مجھے بھی نا ہوئی، لیکن جناب بسا اوقات جہاں بظاہر غرض نہیں ہوتی وہاں حقیقتاََ غرض ہوتی ہے۔
یکم مئی کیوں منایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شکاگو میں مزدوروں پر کیے جانے والے مظالم کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ حیرت کی بات ہے (365) تین سو پینسٹھ دنوں میں سے مزدور کا ایک ہی دن کیوں۔ جس طرح مدرز ڈے، فادرز ڈے، ٹیچرز ڈے، ویلنٹائن ڈے اور پتہ نہیں کون کون سا ڈے۔ جب ایک کام آپ سال کے تقریباََ (345) تین سو پینتالیس دن کرتے ہیں پھر اس کام کے لیے ایک دن کیوں مختص کیا جاتا ہے۔ مجھے ایک دن مختص کرنے پر اختلاف ہے۔ مجھے زمانے اور اس کی ان روایات سے شدید اختلاف ہے۔ بات اختلاف تک محدود نہیں، میرا بس چلے تو شاید میں اُن لوگوں کو اُلٹا لٹکادوں جن لوگوں نے پورے سال، پوری عمر کی محنت کو منانے کےلیے صرف ایک ہی دن مقرر کر رکھا ہے۔
میرے نزدیک جو والدین مرتے دم تک آپ کی پرورش میں کوئی لمحہ پیچھے نہیں ہوتے، ان کے لیے ایک دن کیوں۔ محنت برسوں کی اوردن ایک۔ یہ ایسا ہے جیسے ایک کمہار کو برتن بنانے میں پچیس (25) برس کا عرصہ لگ جائے اور پچیس سال بعد صرف ایک دن استعمال کی اجازت ہو۔ پچیس سالہ محنت کے بعد اسے ایک دن کےلیے یہ اعزاز دیا جائے کہ وہ بہترین کمہار ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک طالبِ علم سولہ سال کا عرصہ کتابو ں میں سر کھپائے، اور سولہ سالوں کے بعد ایک دن کے لیے پڑھا لکھا تصور کیا جائے۔ جیسے ساٹھ سال تک ایک طبیب مریضوں کا علاج کرے اور پھر ایک دن کے لیے اسے بہترین طبیب کا درجہ دیا جائے۔ جانے کب لوگ ان گھسی پٹی باتوں میں سے باہر نکلیں گے۔
طبیب تین سو پینسٹھ دن تک طبیب ہی ہے اور ہر دن طبیب کا ہی ہے۔ والدین تاعمر والدین ہی ہیں، وہ تبدیل نہیں ہوسکتے۔ کمہار تا حیات کمہار ہی رہے گا۔ یہ فن اس کی شناخت ہے اور وہ اس فن کا مالک۔ یومِ مزدور پر مزدور کے علاوہ تقریباََ پوری قوم ہی (Labor Day) منا رہی ہوتی ہے، عام تعطیل ہوتی ہے، لیکن حیرت کی بات یہ تعطیل وہ لوگ کر رہے ہیں جن کا مزدور اور مزدوری سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں۔
یومِ مزدور پر مزدور مزدوری کرتا نظر آتا ہے اور جو غریب چھٹی پر ہے اس کا ایک دن کا راشن، خرچہ نیز ایک دن کی آمدن چھن جاتی ہے۔ یکم مئی ایسی چھٹی ہے جس سے مزدور کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرکار تعطیل کرتی ہے، لیکن سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر مزدور کی چھٹی ہے تو افسران کیوں چھٹی پر ہوتے ہیں۔ یا تو ایسا ہو کہ ہر ادارے میں یکم مئی کو مزدور افسر کی جگہ بیٹھ کر حکم چلائے اور افسر حکم کی تعمیل کرے۔ گزارش یہ ہے کہ جس چھٹی کی وجہ سے مزدور کی دیہاڑی نہ لگے وہ چھٹی کس کام کی۔ جوچھٹی گھر میں فاقے لائے وہ چھٹی ہی کیا۔
میری نظر میں یومِ مزدور کو ختم کردینا چاہیے کیونکہ چھٹی کی وجہ سے مزدور اپنی مزدوری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ یومِ مزدور پر مزدور کا اپنی اجرت سے محروم رہ جانا پریشان کن ہے۔ جو قومیں اپنے مزدور کو بنیادی حقوق نہیں دے سکتیں وہ چھٹی کرنے کا جواز نہیں رکھتیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔