محو حیرت ہوں
یہ آپ کے نام پر آپ کے ووٹ سے آپ کا استحصال کر رہے ہیں یہ کیا تھے کیا ہوگئے اور آپ کیا تھے کیا ہوگئے۔
طوائف الملوکی پڑھا تو تھا مگر دیکھا اپنے ملک عزیز میں، یعنی ملک کا وزیر خزانہ دوسرے ملک میں آرام کر رہا ہے اس کو رخصت تنخواہ کے ساتھ شاید دی جا رہی ہے۔
بجٹ بغیر وزیر خزانہ کے مشیر نے تیار کردیا تو وزیر خزانہ کی کیا ضرورت ہے، اس قدر بیمار ہیں کہ اشتہاری ہوکر سینیٹ کا الیکشن لڑ لیا۔ اعتراض ہوا تو جواب داخل کیا کہ اشتہاری ہونے سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے ۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی یہی کہتی کرتی ہیں ان کو تو ''خرچہ'' مل جاتا ہے۔بعض وفاقی وزیر دودھ شہد کے دھلے بن رہے ہیں حالانکہ اقامہ زدہ ہیں شاید اور باری آسکتی ہے ان کی بھی۔ ایک مریضہ کو قومی اسمبلی کا الیکشن باہر زیر علاج رہتے ہوئے لڑوایا گیا، اور یہ ہے بدقسمت عوام اور اس کے ووٹ کی عزت۔
شہباز شریف بقول مولابخش صاحب چانڈیو اپنی بڑی ٹوپی غلامی کی یادگار HAT کے ساتھ کراچی آئے نیو متحدہ اور کراچی میں ایسے گروپ سے ملے جس نے ٹرانسپورٹ سے لے کر کراچی کی پہاڑیوں تک پہ قبضہ کر رکھا ہے اور کراچی کو نیویارک بنانے کی ''بڑ'' لگا کر چلے گئے۔ نواز شریف کی سیٹ تو انھیں حاصل نہیں ہوسکی،سیاست کرنے کا موقع مل گیا ، فیصلے سب نواز شریف کر رہے ہیں ۔
لیگی خواتین اپنا کام کر رہی ہیں ، سرکاری خواتین کا اپنے کام پر دھیان نہیں ہے ، ریڈیو کے ملازمین سڑکوں پر آنے والے ہیں۔ پنشن کے بقایا جات میڈیکل بل کروڑوں روپے ملازمین کے واجب الادا ہیں حکومت تماشائی ، لوگ پریشان ہیں پروگرام کرکے دو دو ماہ تک ادائیگی نہیں۔ پیسہ ہے نہیں اور نئے نئے اسٹیشن اور چینلز کھولے جا رہے ہیں۔ادارے کو کباڑ خانہ بنا دیا ہے بس دن رات حکومتی پارٹی قیادت کا راگ الاپا جاتا ہے ۔ ریڈیو میں پروگرام اصل چیز اور شعبہ پروگرام اصل ہے باقی شعبے اس کی مدد کے لیے ہیں یہ دنیا بھر کا اصول ہے ۔
نواز شریف کے میدان سے ہٹتے ہی سعد رفیق، خواجہ آصف، احسن اقبال اور بہت سے دوسروں کے مزے آگئے مگر سپریم کورٹ کا تیر کمان ان کی ناک میں ہے۔ اب وزیر اعظم بھی تلاشی دیتے ہیں اور عہدے کا لطف لے رہے ہیں، شیخ رشید کی LNG کی درخواست کا پتا نہیں کیا ہوا۔
بعض خواتین نے مسلم لیگ (ن) کی ناکامی پر مہر لگا دی ہے، خاندانی سیاست کا بھانڈا چوراہے پر پھوٹ چکا ہے اور عوام سمجھ گئے ہیں کہ انھوں نے غلط روٹ دے کر ان کو یہ موقع دیا کہ یہ ملک کے بجائے اپنی خدمت کریں اپنے خاندان کو دولت میں نہلادیں اور عوام سوکھی روٹی کھا کر گزارا کریں۔ جادو کا زور ٹوٹ چکا ہے اور عوام بیدار ہوگئے ہیں انھیں حقیقت کا علم دیر سے سہی ہوگیا ہے۔
اس ملک سے خاندانی سیاسی تجارت کا جنازہ نکالنا ہوگا اور عوام کی حکومت کو قائم کرنا ہوگا۔ ملک میں نوکری کے بھی کچھ قواعد و قانون ہیں سیاست کے کیوں نہیں،حکمران طبقے کے سیاسی وارثوں کے پاس کیا قابلیت ہے کیوں یہ عوام کے حقوق کے مالک بننا چاہتے ہیں تاکہ بزرگوں کی طرح قوم کو لوٹ سکیں؟ کیوں اچھے لوگ آگے نہیں آنے دیے جاتے۔
ندیم افضل چن ایک معتبر نام ہے، سیاست کار پنجاب میں پی پی کے صرف دو معتبر نام تھے اب ایک رہ گیا قمرالزمان کائرہ۔ چن کا پی پی کو خدا حافظ کہنا پنجاب میں پی پی کے زوال کی آخری سے پہلی نشانی ہے اور سچ ہے۔ گیلانی تو اپنے حصے کا شہد پہلے ہی کھاچکے، ملک کی پرواہ نہ کی ملازم وزیر اعظم رہے اور خط نہیں لکھا زندگی بھر کی پریشانی مول لے لی۔ آصف زرداری یہی کام لینا چاہتے تھے ان سے لے لیا، دوسرا وزیر اعظم دوسرے کام کرکے پھنس گیا پیشیاں بھگت رہا ہے۔
زرداری وزارت عظمیٰ پر دانت لگائے بیٹھے ہیں، چاہتے ہیں ایک ریکارڈ قائم کر جاؤں جو بھٹو کے خاندان کو بھی نہیں ملا اور سیاسی اسلحہ بھی بھٹو کا ہی استعمال کروں بہت بڑے کھلاڑی ہیں زرداری ۔ بلوچستان میں کیا ہوا (ن) لیگ، نواز شریف فوبیا میں رہی اور وہاں تختہ ہوگیا۔ سینیٹ میں بھی انتخاب ہوا، کون بکا کس نے خریدا وہ الگ کہانی ہے ۔
خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ چیف جسٹس کے ایک سوال کا بھی جواب نہ دے سکا، یہ پاس ادب نہیں تھا، نااہلی تھی ،مولانا پھر ایک حصار بناکر نئے فوائد کے چکر میں ہیں، اچکزئی اور اسفند یار ولی اب تک خیرخواہ بنے ہیں جب بلوچستان میں نیب باقاعدہ کام شروع کرے گا تو اچکزئی کی بھی باری آجائے گی، لاحاصل کا کیا ذکرکریں جو غلط آدمی کی حمایت کرے وہ خود غلط ہوتا ہے یہ ایک طے شدہ اصول ہے پسند کی وزارت حاصل ہے اب تک جب یہ لکھا جا رہا ہے حق نمک تو ادا کرنا ہی ہے۔
2018ء میں اگر الیکشن ہوں تو عوام کو ووٹ کسی بھی بنیاد پر ضایع نہیں کرنے چاہئیں غلط لوگوں کو ووٹ دینا ضایع کرنا ہے اور لوگوں کو اپنے ووٹ کی خود عزت کرنی چاہیے اور خاندانی تجارتی سیاستدانوں کو ووٹ نہ دے کر سیاسی آزادی حاصل کرنا چاہیے۔ یہ آپ کے نام پر آپ کے ووٹ سے آپ کا استحصال کر رہے ہیں یہ کیا تھے کیا ہوگئے اور آپ کیا تھے کیا ہوگئے۔
آپ کو غلام اور مقروض کردیا ان سب نے مل کر اور آپ کو کچھ ملا بھی نہیں، بھارت سے دوستی ان سب کا مطمع نظر ہے، تجارت کرنا اور کمانا چاہتے ہیں، ملک میں بھی تجارت اور وسائل پر ان کا ناجائز قبضہ ہے ایک بار ان کو جواب دے دو اور اپنے ووٹ کا درست استعمال کرکے ان کو اپنی طاقت بتا دو۔ ان کے فریب میں نہ آؤ۔ یہ اپنا اور اپنی اولاد کا بھلا چاہتے ہیں تمہیں اور تمہاری اولاد کو غلام رکھنا چاہتے ہیں:
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
بجٹ بغیر وزیر خزانہ کے مشیر نے تیار کردیا تو وزیر خزانہ کی کیا ضرورت ہے، اس قدر بیمار ہیں کہ اشتہاری ہوکر سینیٹ کا الیکشن لڑ لیا۔ اعتراض ہوا تو جواب داخل کیا کہ اشتہاری ہونے سے بنیادی حقوق ختم نہیں ہوتے ۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی یہی کہتی کرتی ہیں ان کو تو ''خرچہ'' مل جاتا ہے۔بعض وفاقی وزیر دودھ شہد کے دھلے بن رہے ہیں حالانکہ اقامہ زدہ ہیں شاید اور باری آسکتی ہے ان کی بھی۔ ایک مریضہ کو قومی اسمبلی کا الیکشن باہر زیر علاج رہتے ہوئے لڑوایا گیا، اور یہ ہے بدقسمت عوام اور اس کے ووٹ کی عزت۔
شہباز شریف بقول مولابخش صاحب چانڈیو اپنی بڑی ٹوپی غلامی کی یادگار HAT کے ساتھ کراچی آئے نیو متحدہ اور کراچی میں ایسے گروپ سے ملے جس نے ٹرانسپورٹ سے لے کر کراچی کی پہاڑیوں تک پہ قبضہ کر رکھا ہے اور کراچی کو نیویارک بنانے کی ''بڑ'' لگا کر چلے گئے۔ نواز شریف کی سیٹ تو انھیں حاصل نہیں ہوسکی،سیاست کرنے کا موقع مل گیا ، فیصلے سب نواز شریف کر رہے ہیں ۔
لیگی خواتین اپنا کام کر رہی ہیں ، سرکاری خواتین کا اپنے کام پر دھیان نہیں ہے ، ریڈیو کے ملازمین سڑکوں پر آنے والے ہیں۔ پنشن کے بقایا جات میڈیکل بل کروڑوں روپے ملازمین کے واجب الادا ہیں حکومت تماشائی ، لوگ پریشان ہیں پروگرام کرکے دو دو ماہ تک ادائیگی نہیں۔ پیسہ ہے نہیں اور نئے نئے اسٹیشن اور چینلز کھولے جا رہے ہیں۔ادارے کو کباڑ خانہ بنا دیا ہے بس دن رات حکومتی پارٹی قیادت کا راگ الاپا جاتا ہے ۔ ریڈیو میں پروگرام اصل چیز اور شعبہ پروگرام اصل ہے باقی شعبے اس کی مدد کے لیے ہیں یہ دنیا بھر کا اصول ہے ۔
نواز شریف کے میدان سے ہٹتے ہی سعد رفیق، خواجہ آصف، احسن اقبال اور بہت سے دوسروں کے مزے آگئے مگر سپریم کورٹ کا تیر کمان ان کی ناک میں ہے۔ اب وزیر اعظم بھی تلاشی دیتے ہیں اور عہدے کا لطف لے رہے ہیں، شیخ رشید کی LNG کی درخواست کا پتا نہیں کیا ہوا۔
بعض خواتین نے مسلم لیگ (ن) کی ناکامی پر مہر لگا دی ہے، خاندانی سیاست کا بھانڈا چوراہے پر پھوٹ چکا ہے اور عوام سمجھ گئے ہیں کہ انھوں نے غلط روٹ دے کر ان کو یہ موقع دیا کہ یہ ملک کے بجائے اپنی خدمت کریں اپنے خاندان کو دولت میں نہلادیں اور عوام سوکھی روٹی کھا کر گزارا کریں۔ جادو کا زور ٹوٹ چکا ہے اور عوام بیدار ہوگئے ہیں انھیں حقیقت کا علم دیر سے سہی ہوگیا ہے۔
اس ملک سے خاندانی سیاسی تجارت کا جنازہ نکالنا ہوگا اور عوام کی حکومت کو قائم کرنا ہوگا۔ ملک میں نوکری کے بھی کچھ قواعد و قانون ہیں سیاست کے کیوں نہیں،حکمران طبقے کے سیاسی وارثوں کے پاس کیا قابلیت ہے کیوں یہ عوام کے حقوق کے مالک بننا چاہتے ہیں تاکہ بزرگوں کی طرح قوم کو لوٹ سکیں؟ کیوں اچھے لوگ آگے نہیں آنے دیے جاتے۔
ندیم افضل چن ایک معتبر نام ہے، سیاست کار پنجاب میں پی پی کے صرف دو معتبر نام تھے اب ایک رہ گیا قمرالزمان کائرہ۔ چن کا پی پی کو خدا حافظ کہنا پنجاب میں پی پی کے زوال کی آخری سے پہلی نشانی ہے اور سچ ہے۔ گیلانی تو اپنے حصے کا شہد پہلے ہی کھاچکے، ملک کی پرواہ نہ کی ملازم وزیر اعظم رہے اور خط نہیں لکھا زندگی بھر کی پریشانی مول لے لی۔ آصف زرداری یہی کام لینا چاہتے تھے ان سے لے لیا، دوسرا وزیر اعظم دوسرے کام کرکے پھنس گیا پیشیاں بھگت رہا ہے۔
زرداری وزارت عظمیٰ پر دانت لگائے بیٹھے ہیں، چاہتے ہیں ایک ریکارڈ قائم کر جاؤں جو بھٹو کے خاندان کو بھی نہیں ملا اور سیاسی اسلحہ بھی بھٹو کا ہی استعمال کروں بہت بڑے کھلاڑی ہیں زرداری ۔ بلوچستان میں کیا ہوا (ن) لیگ، نواز شریف فوبیا میں رہی اور وہاں تختہ ہوگیا۔ سینیٹ میں بھی انتخاب ہوا، کون بکا کس نے خریدا وہ الگ کہانی ہے ۔
خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ چیف جسٹس کے ایک سوال کا بھی جواب نہ دے سکا، یہ پاس ادب نہیں تھا، نااہلی تھی ،مولانا پھر ایک حصار بناکر نئے فوائد کے چکر میں ہیں، اچکزئی اور اسفند یار ولی اب تک خیرخواہ بنے ہیں جب بلوچستان میں نیب باقاعدہ کام شروع کرے گا تو اچکزئی کی بھی باری آجائے گی، لاحاصل کا کیا ذکرکریں جو غلط آدمی کی حمایت کرے وہ خود غلط ہوتا ہے یہ ایک طے شدہ اصول ہے پسند کی وزارت حاصل ہے اب تک جب یہ لکھا جا رہا ہے حق نمک تو ادا کرنا ہی ہے۔
2018ء میں اگر الیکشن ہوں تو عوام کو ووٹ کسی بھی بنیاد پر ضایع نہیں کرنے چاہئیں غلط لوگوں کو ووٹ دینا ضایع کرنا ہے اور لوگوں کو اپنے ووٹ کی خود عزت کرنی چاہیے اور خاندانی تجارتی سیاستدانوں کو ووٹ نہ دے کر سیاسی آزادی حاصل کرنا چاہیے۔ یہ آپ کے نام پر آپ کے ووٹ سے آپ کا استحصال کر رہے ہیں یہ کیا تھے کیا ہوگئے اور آپ کیا تھے کیا ہوگئے۔
آپ کو غلام اور مقروض کردیا ان سب نے مل کر اور آپ کو کچھ ملا بھی نہیں، بھارت سے دوستی ان سب کا مطمع نظر ہے، تجارت کرنا اور کمانا چاہتے ہیں، ملک میں بھی تجارت اور وسائل پر ان کا ناجائز قبضہ ہے ایک بار ان کو جواب دے دو اور اپنے ووٹ کا درست استعمال کرکے ان کو اپنی طاقت بتا دو۔ ان کے فریب میں نہ آؤ۔ یہ اپنا اور اپنی اولاد کا بھلا چاہتے ہیں تمہیں اور تمہاری اولاد کو غلام رکھنا چاہتے ہیں:
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا