کارخانے ہیں کہ اذیت گاہیں

پاکستانی مزدور اپنے حقوق سے محروم ہیں۔

ادارے بے توقیر اور بے اختیار ہوتے جا رہے ہیں۔فوٹو : فائل

یکم مئی بنیادی طور پر سرمایہ داری کے عفریت کے خلاف مزدور جدوجہد کی علامت ہے۔

تاریخی طور پر یکم مئی 1886محنت کشوں کا نہ پہلا معرکہ اور نہ آخری مزاحمت تھی۔ صدیوں پر محیط جدوجہد میں مظلوم ومحکوم طبقات غلام داری اور جاگیرداری کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ چکے اور اب ظلم کے آخری قلعے یعنی سرمایہ داری پر مسلسل حملہ آور ہیں۔ اس جنگ میں مزدور کبھی وقتی پسپائی پر مجبور اور کبھی جزوی طور پر فتح یاب ہوا۔

سرمایہ داری مختلف حیلوں بہانوں سے ایک فیصلہ کن جنگ کو ٹالنے میں کسی حد تک کام یاب رہی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جہاں نسلِ انسانی غربت، بیماری، بے روزگاری جیسے موذی سماجی امراض کا شکار ہوئی وہیں قتل وغارت، جنگیں اور ہجرتیں اس کا مقدر ٹھہریں اور یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

سرمائے کے مقابل انسانی محنت نے زندگی کے ہر میدان میں ترقی کے وہ مدارج طے کیے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن خود زندگی کو رعنائیاں بخشنے والی قوت یعنی مزدور طبقہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے ناآشنا اور اپنی تخلیق کردہ حسین دنیا سے بے گانگی کا شکار ہے ۔ یہی سرمایہ داری کی اصل بدصورتی ہے کہ اس کا تخلیق کار اپنے حقیقی حصے سے محروم ہے۔

سرمایہ داری نے اس سے اس کی توقیر کے ساتھ ساتھ معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق چھین لیے ہیں۔ سرمایہ داری کے اس کھوکھلے پن کا اظہار دنیا کے ہر خطے میں نظر آتا ہے۔ پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ آزادی کی آٹھویں دہائی میں داخل ہونے کے باوجود ملک میں بسنے والے بیس کروڑ سے زاید انسان زندگی کی بنیادی سہولیات یہاں تک کے پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات کو نفع کی بھینٹ چڑھا کر عام محنت کش کی دسترس سے باہر کر دیا گیا ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ ، گورنر، چیف جسٹس جب تک نوٹس نہ لے چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی حل نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظام اپنی بنیاد میں ہی بوسیدہ اور کھوکھلا ہوچکا ہے اور اس کے اوپر کی عمارت خود اپنے بوجھ سے گری جا رہی ہے۔ اس کا اظہار ہمیں ملک میں جاری معاشی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کی شکل میں نظر آ رہا ہے ۔

ادارے بے توقیر اور بے اختیار ہوتے جا رہے ہیں۔ طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے، طاقت ور کے لیے قانون، آئین اور سماجی قدریں پاؤں کی دھول ہیں۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سرمائے کو جنم دینے والی کارگاہیں اذیت گاہوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اس میں قوتِ متحرکہ یعنی کہ مزدور قرون وسطیٰ کے غلاموں سے ابتر اوقات کار اور حالات کار کا شکار ہیں، جب کہ اس میں تبدیلی یا بہتری کے تمام امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

ساڑھے چھے کروڑ سے زاید لیبر فورس کھیتوں، کھلیانوں سے لے کر فیکٹریوں، کارخانوں میں شب وروز محنت کی چکی میں پس کر دولت کے انبار لگا رہی ہے، لیکن اپنے ایسے تمام حقوق سے محروم ہیں جو کہ صدیوں پرانے نوآبادیاتی نظام میں وضع کیے گئے قوانین کے تحت حاصل تھے۔ آزادی کے بعد کے برسوں میں قوانین میں خفیف سی بہتری ضرور ہوئی مگر ان پر عمل درآمد سے مسلسل روگردانی صنعت کاروں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔

پاکستان کے غیر منظم شعبے کی بات ہی کیا جو کہ 70 فی صد سے زاید ورک فورس پر مشتمل ہے اور مکمل طور پر لیبر قوانین کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ ان میں خصوصاً زرعی مزدور، گھر مزدور عورتیں اور گھریلو ملازمین جیسے کروڑوں محنت کش شامل ہیں، جن کے لیے لیبر قوانین آج بھی اجنبی اور شجر ممنوعہ ہیں۔ حکومتیں ان کے حقوق کے تحفظ کی باتیں تو کرتی ہیں لیکن اس پر ٹھوس اور عملی اقدامات آج بھی ناپید ہیں، جب کہ بقیہ مُنظّم شعبہ جس کے لیے قوانین میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے بدترین صورت حال کا شکار ہے۔

اس شعبے میں کام کرنے والے 95 فی صد مزدور تحریری تقررناموں جیسے بنیادی اور اولین حق سے محروم ہیں جس کی وجہ سے انھیں جب چاہے کام سے برخاست کردیا جاتا ہے اور وہ قانونی چارہ جوئی کے لیے ضروری شناخت اور ادارے سے تعلق کو ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہی صورت حال سیکوریٹی اور پنشن کے اداروں سے متعلق ہے جہاں مزدوروں کی کل تعداد کا صرف 5 فی صد رجسٹرڈ ہے۔ حالاںکہ لیبر قوانین کی رو سے کسی بھی کام پر رکھے گئے مزدور کو ان اداروں سے رجسٹرڈ کرنا ضروری اور لازم ہے، لیکن مالکان اور ان اداروں کے اہل کاروں کی ملی بھگت سے مزدور اور ان کے خاندان کے افراد صحت کی سہولت کے ساتھ ساتھ بڑھاپے کی پینشن سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

اس دگرگوں صورت حال کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ سوشل سیکیوریٹی کے ادارے میں پورے صوبے سے رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد 6لاکھ کے قریب ہے، جب کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کے سات صنعتی زونز میں سے صرف ایک یعنی کورنگی انڈسٹریل ایریا میں مزدوروں کی تعداد 17لاکھ سے زاید ہے۔ حکومت کی جانب سے غیرہنرمند مزدور کے لیے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ 15000روپے ماہانہ ہے جو کہ آج کی ہوش ربا منہگائی میں انتہائی قلیل ہے۔


لیکن یہ بھی 90 فی صد سے زاید اداروں میں ملازمین کو میسر نہیں۔ اس پر افتاد یہ کہ غیرہنرمند مزدور کے لیے مقررہ تنخواہ کی کیٹیگری میں نیم ہنرمند اور ہنرمند مزدور کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے جو کہ قانون کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔ اوقات کار جو کہ آٹھ گھنٹے روزانہ ہیں اور لازم ہفتہ وار چھٹی بھی قانون میں درج ہے لیکن ان پر شاذ ونادر ہی عمل ہوتا ہے۔ مزدوروں کی اکثریت 12سے14گھنٹے کام کرتی ہے اور ہفتہ وار چھٹی خال خال ہی ہوتی ہے۔

اسی طرح محنت کش عورتوں کی منظم اور غیرمنظم شعبے میں شمولیت تیزی سے ہو رہی ہے۔ سرمایہ داروں کے لیے بچوں سے سستی محنت پر بڑھتی ہوئی بازپرس اور تنقید کے بعد محنت کش عورتیں سستی محنت کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ہیں۔ غیرمنظم شعبے کی تو بات ہی کیا کہ منظم شعبے خصوصاً ٹیکسٹائل گارمنٹس میں عورتوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ انھیں یکساں کام کے لیے مرد مزدوروں کی نسبت کم اجرت دی جاتی ہے جب کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔

فیکٹریوں، کارخانوں کے ساتھ ساتھ اب دیگر اداروں میں بھی ٹھیکے داری نظام مختلف ناموں سے مکمل طور پر رائج ہو چکا ہے اور اس کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ صادر کر چکی ہے، لیکن اس ظالمانہ نظام کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی، جب کہ صنعت کاروں کے نمائندے اس بدترین نظام کو قانونی شکل دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یونین سازی اور اجتماعی سوداکاری، جو کہ ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے ملک کے 98 فی صد مزدور اس بنیادی حق سے محروم ہیں۔ یونین سازی کو شجرممنوعہ بنادیا گیا ہے اور اس کے لیے خفیف سی بھی کوشش کرنے والے مزدور کو مالکان عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔

سرمایہ دار اور صنعت کار خود تو اپنی تنظیمیں بناتے ہیں اور انھیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال بھی کرتے ہیں، لیکن مزدوروں کو اپنے اس حق سے محروم رکھنے کے لیے کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز نہیں کرتے۔ اس غیرآئینی طرزعمل میں مقامی لیبر ڈپارٹمنٹ اور خصوصی طور پر ''نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن'' (NIRC) کے اہل کار صنعت کاروں کے معاون ومددگار بنے ہوئے ہیں۔ حقیقی یونین کی تشکیل اور اس کی رجسٹریشن کا عمل بھی تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔

مالکان، صوبائی لیبر ڈپارٹمنٹ اور NIRCکے مجرمانہ گٹھ جوڑ نے مزدوروں کے تنظیم سازی کے بنیادی حق کو سلب کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ عجوبہ اس ملک میں ہی رو پذیر ہو سکتا ہے کہ NIRCمیں 80فی صد یونینز کی رجسٹریشن مالکان خود کرواتے ہیں، تاکہ حقیقی یونین سازی کے عمل کو روکا جا سکے۔ حقیقی یونین سازی کے عمل کو مصنوعی طریقے سے ختم کرنے کے نتیجے میں پلانٹ کی سطح پر مزدوروں کے حقوق اور ان کی زندگیوں کا تحفظ ناممکن ہو کر رہ گیا ہے۔

اسی وجہ سے فیکٹریوں، کارخانوں میں بے دخلیاں روز کا معمول ہے۔ وہ بلدیہ فیکٹری کا الم ناک سانحہ ہو یا کہ شپ بریکنگ میں آگ میں جھلس کر شہید ہونے والے مزدوروں کا واقعہ، یہ سب کچھ مزدوروں کو منظم ہونے کے حق سے محروم رکھنے کا براہِ راست شاخسانہ ہے۔ مزدوروں کو نہ صرف یونین سازی کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے بلکہ حقوق کے لیے اٹھنے والی انفرادی یا اجتماعی آواز کو دبانے کے لیے کارگاہوں میں عمومی طور پر سیکیوریٹی اداروں کے ریٹائرڈ افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے جو کہ اپنے سابقہ اداروں سے تعلق کا خوف دلا کر مزدوروں کی آواز کو دباتے ہیں۔ اس صورت حال نے فیکٹریوں، کارخانوں کو ایسے جدید بندی خانوں میں تبدیل کردیا ہے جن کی عمارتیں تو خوب صورتی اور فنِ تعمیر میں ثانی نہیں رکھتیں، لیکن ان میں موجود انسانی جانیں جانوروں سے بھی بدتر سلوک سے دوچار ہیں۔

دوسری جانب مقامی صنعت کاروں نے بین الاقوامی کمپنیوں اور برانڈز سے مجرمانہ اتحاد کیا ہوا ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر سستی محنت سے خوب منافع کمایا جارہا ہے۔ خصوصاً ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی صنعت جو کہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے وہاں مزدور بدترین استحصال کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی برانڈز یورپ اور امریکا کے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایسے نام نہاد معاہدوں کو پیش کرتے ہیں جن میں عہد کیا جاتا ہے کہ وہ جہاں سے اپنی مصنوعات بنوائیں گے وہاں بین الاقوامی اور مقامی لیبر قوانین کی عمل داری کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے، لیکن ان ''گلوبل فریم ورک ایگریمنٹس'' کے باوجود ان کو مال سپلائی کرنے والی فیکٹریوں، کارخانوں میں مزدور کے اوقات کار اور حالات کار میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ برانڈز کو سب سے زیادہ فکر وقت پر ترسیل اور اس کی کوالٹی کی ہوتی ہے، جب کہ مزدوروں سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک سے مجرمانہ پہلو تہی کی جاتی ہے۔

ایک وقت تھا جب فیکٹریوں، کارخانوں میں عموماً کینٹین ہوا کرتی تھی، فیکٹری کے ساتھ رہائشی کالونی ضروری تھی لیکن آج یہ سب کچھ قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ بے ہنگم مزدور بستیاں امیروں کو شہروں میں پھیلی چیچک محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن ان کے مفادات کی ترجمان ریاست مزدوروں کو پانی، بجلی، گیس، سڑکیں مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ ٹرانسپورٹ کے نام پر ہر روز محنت کش انسانوں کو جانوروں کی طرح ٹھونس کر بستیوں سے کارخانوں اور کارخانوں سے بستیوں کی جانب دھکیلا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اکیسویں صدی میں ہو رہا ہے۔

یہ ترقی ِ معکوس ہے۔ مزدور خود سے روا رکھے جانے والے بدترین سلوک کے خلاف مزاحمت پر آمادہ ہو رہا ہے اور اس نے خود کو منظم کرنے کے لیے راستے تلاشے ہیں۔ جب قانون میں دیے گئے طریقۂ کار سے انصاف ناممکن بنادیا جائے تو پھر مزاحمت ہی آخری راستہ رہ جاتی ہے۔ یہی راستہ اب اختیار کیا جا رہا ہے۔ وہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والا مزدور ہو یا کہ PIA یا اسٹیل ملز جیسے پبلک ادارے کے ملازمین، اپنے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں۔

گو پاکستان نے بین الاقوامی ادارہ محنت (ILO)کے36 سے زاید کنونشنز کی توثیق کی ہے اور GSP+کے تحت ملنے والی خصوصی مراعات کے تحت انسانی اور مزدور حقوق کی پاس داری کا عہد کیا ہے، لیکن عملی طور پر پاکستان کا شمار آج بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جو ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے لیے خطرناک اور دشوار ترین ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب بھی کوئی مزدور تنظیم یا اس کا نمائندہ مزدور حقوق کی پاس داری کی بات کرتا ہے تو اس کے خلاف حب الوطنی کے خطرناک ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے ملک اور صنعتی ترقی کا دشمن قرار دے کر خوف کا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے۔

اس ساری صورت حال کا تدارک مروجہ سیاسی ومعاشی نظام میں ناممکن ہے جہاں قوانین عملاً متروک اور متعلقہ ادارے اور تمام سیاسی جماعتیں مزدوروں کے خلاف سرمائے کی دہشت گردی کا سدباب کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔ تو پھر مزدور طبقے کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ سرمائے کے عفریت کے خلاف خود اپنی معاشی وسیاسی تحریک منظم کرے جو کہ محنت کشوں کے انقلابی فلسفے سے لیس ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مزدور طبقے کو اگر فیکٹریوں، کارخانوں، کارگاہوں میں منظم ہونے میں رکاوٹیں ہیں تو وہ خود کو بستیوں کی سطح پر منظم کرے اور اپنی ٹریڈ یونین کے ساتھ ساتھ خود اپنی سیاسی جماعت بنانے کی جانب بڑھے، جس کا منشا ومقصد جبر پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اور مزدور کسان اور محنت کش عوام کا راج ہو جو کہ شکاگو کے شہدا ء کا بھی مقصدِعظیم تھا۔
Load Next Story