مزدور تحریک عالمی سطح پر
غالباً پوری دنیا میں مزدور تنظیموں اور اور ٹریڈ یونین تحریک کی صورت حال حوصلہ افزاء نہیں۔
ہر سال کی طرح اِمسال بھی یکم مئی کا دن آیا ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں محنت کش عوام شکاگو کے اُن شہداء کو کہ جو1886میں 8گھنٹہ یومیہ اوقاتِ کار مقرر کروانے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلے، ریاست کے جبر کا سامنا کیا، سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے، کم از کم دس مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جب کہ مزدوروں کو منظم اور اُن کی آواز بلند کرنے کے جرم میں سیکڑوں مزدور راہ نماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ اُن میں سے مشہور راہ نما اسپائس، فیلڈین، پارسنز، ایڈولف، فشر، جارج اور اینجل کو موت کی سزا دی گئی اور اُنہیں11نومبر 1887میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔
پاکستان میں مزدور تحریک کے ستر سال جدوجہد، قربانیوں، آزمائشوں، محرومیوں اور کام یابیوں پر بھی مشتمل ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ آج پاکستان میں ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک انحطاط کا شکار ہے۔ ملازمتوں کے ٹھیکے داری نظام، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم اور آؤٹ سورسنگ کے نظام نے ٹریڈ یونینز کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
سروس سیکٹر کے اداروں بالخصوص پرائیوٹائزڈ کمرشیل بینکس کہ جہاں پرائیوٹائزیشن سے قبل ملازمین کی کُل تعداد کا تقریباً 75فی صد کسی بھی بینک کی یونین کے ممبر ہوتے تھے اب یہ شرح گھٹ کر صرف 10فی صد رہ گئی ہے۔ بڑے بڑے کمرشیل بینکس میں ٹریڈ یونین کے لئے کام کرنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔
انہیں کام کرنے سے روکا جارہا ہے، عہدے داران کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں، اُنہیں دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ ٹریڈ یونین تحریک کے جانے پہچانے راہ نما ناصر منصور کے بقول پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک ڈایالیسس پر ہے جب کہ راقم الحروف کے خیال میں خاص طور پر بینکنگ انڈسٹری میں یہ تحریک بدقسمتی سے بسترِمرگ پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس صورت حال کی تبدیلی کے لیے جدوجہد بہرکیف جاری ہے اور ہمیں یقین ہے کہ طویل سیاہ رات بہت زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے گی کیوںکہ اُجالے کا راستہ آج تک کوئی روک نہیں سکا ۔
ہم دنیا کے دیگر ممالک میں مزدور تحریک پر بھی نظر ڈالیں تو صورت حال حوصلہ افزا کسی طور نظر نہیں آتی۔ ریاستِ ہائے متحدہ امریکا میں 1983 میں 17.7ملین کی تعداد یونین کی ممبر ہوتی تھی جب کہ 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر 14.6ملین رہ گئی ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں یونین کی ممبر شپ 60 فی صد سے بھی نیچے گرگئی۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں 19ویں صدی کے وسط میں امریکا میں ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا تھا وہاں بھی پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ٹریڈ یونین کی ممبرشپ دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔ امریکا میں ٹریڈیونینز ریاستوں اور وفاقی سطح پر سیاست اور انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور ہم خیال تنظیموں کے اشتراک سے سیاسی، سماجی اور صحت کے مسائل جیسی سرگرمیوں میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکا میں ٹریڈ یونین ایجوکیشن کے باضابطہ ادارے قائم ہیں۔ اس ضمن میں کارنل یونیورسٹی پوری دنیا میں سب سے زیادہ لیبر ایجوکیشن کے حوالہ سے قیادتی کردار ادا کرنے والے ادارہ کے طور پر معروف ہے۔
برطانیہ جمہوریت اور ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک کے حوالہ سے دنیا بھر میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اُس ملک کے مزدوروں اور تنظیموں نے دو صدیوں کی طویل جدوجہد کے بعد موجودہ حقوق حاصل کیے۔
یاد رہے کہ 18ویں صدی میں برطانیہ میں ہڑتال کرنے کی سزا 3 ماہ کی قید یا 2 ماہ کی قید بامشقت ہوا کرتی تھی۔ 1888 اور 1918 کے دوران ٹریڈ یونینز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں مزدوروں نے اپنے حقوق تسلیم کرنے والے کے لیے کام یاب ہڑتالیں بھی کیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی حکومت نے کوئلہ، گیس اور بجلی کی صنعتوں کو قومیالیا۔ 1950 کی دہائی میں زبردست صنعتی ترقی ہوئی، خواتین کی ملازمتوں میں شمولیت میں اضافہ ہوا اور اسی دوران ٹریڈ یونینز نے بڑی کام یابیاں حاصل کیں، جن میں خواتین کے لیے مساوی تنخواہ کا حق بھی حاصل ہے۔
1980 اور 1990 کی دہائیاں ٹریڈ یونین تحریک کے لیے برطانیہ میں چیلینجز کے ادوار تھیں۔ بے روزگاری کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ممبرشپ میں زبردست کمی واقع ہوئی۔ کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت نے قومی ملکیتی صنعتوں ریلویز، گیس اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں کی نجکاری کردی، جس کی وجہ سے ٹریڈ یونینز کی قوت میں مزید ضعف پیدا ہوا۔ وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی حکومت نے 1979 اور 1990کے دوران قانون سازی کے ذریعہ ٹریڈ یونینز کو شدید طور پر کم زور کردیا۔
ہمارے ہم سائے ملک بھارت میں گو کہ مزدور تحریک کی تاریخ پرانی ہے لیکن اس کے باوجود یونین سازی زیادہ تر فارمل سیکٹر میں ہوتی ہے اور چھوٹی صنعتوں اور ان فارمل سیکٹر میں ٹریڈ یونین نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت میں قومی ملکیتی اداروں میں ٹریڈ یونینز مضبوط ہیں اور 90 فی صد اداروں میں مزدور تنظیمیں قائم ہیں، جب کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونینز انتہائی محدود ہیں اور اُن کی ممبرشپ بھی کم ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 1990 میں بھارت کی ٹوٹل لیبر فورس کا صرف 2 فی صد حصہ یونینز کا ممبر تھا۔ بھارت میں بھی یونینز کی ممبر شپ میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں صنعتوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور بین الاقوامی ٹرینڈز شامل ہیں۔
پاکستان اور 3 دیگر ممالک کی طرح ٹریڈ یونین صورت حال کا سرسری جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر پوری دنیا میں نہیں تو کم ازکم ان ممالک میں محنت کشوں کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں۔
اگر اس مشہور مقولے کو بنیاد بنایا جائے کہ ''دیگ میں سے چند چاول چکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاتا ہے'' تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالباً پوری دنیا میں مزدور تنظیموں اور اور ٹریڈ یونین تحریک کی صورت حال حوصلہ افزاء نہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور ایشیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک، کہ جہاں جمہوریتیں مضبوط ہیں، وہاں محنت کشوں کو اُن کے حقوق اور ملازمتوں کے حوالے سے بہتر تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد شعبہ محنت مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں صوبہ سندھ کی حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک شدید انحطاط سے دو چار ہونے کے باوجود حالات سے نبردآزما ہے۔ ٹریڈ یونینز اپنے اپنے اداروں میں اور مشترکہ طور پر بھی محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ ملک میں جمہوریت جڑیں پکڑ رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ٹریڈ یونینز کے حالات میں بھی بہتری پیدا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے مزدور تنظیموں کو سیاسی جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے جب کہ عوام دوست اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ مزدور تحریک کے کارکنوں کو اپنے پلیٹ فارم سے منتخب ایوانوں کا حصہ بنائیں تاکہ محنت کش طبقے کی آواز زیادہ مؤثر طور پر ایوان میں پہنچے اور اُن کے احساسِ محرومی میں بھی کمی واقع ہو۔
دنیا بھر میں کروڑوں محنت کش عوام شکاگو کے اُن شہداء کو کہ جو1886میں 8گھنٹہ یومیہ اوقاتِ کار مقرر کروانے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلے، ریاست کے جبر کا سامنا کیا، سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے، کم از کم دس مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جب کہ مزدوروں کو منظم اور اُن کی آواز بلند کرنے کے جرم میں سیکڑوں مزدور راہ نماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ اُن میں سے مشہور راہ نما اسپائس، فیلڈین، پارسنز، ایڈولف، فشر، جارج اور اینجل کو موت کی سزا دی گئی اور اُنہیں11نومبر 1887میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔
پاکستان میں مزدور تحریک کے ستر سال جدوجہد، قربانیوں، آزمائشوں، محرومیوں اور کام یابیوں پر بھی مشتمل ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ آج پاکستان میں ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک انحطاط کا شکار ہے۔ ملازمتوں کے ٹھیکے داری نظام، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم اور آؤٹ سورسنگ کے نظام نے ٹریڈ یونینز کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
سروس سیکٹر کے اداروں بالخصوص پرائیوٹائزڈ کمرشیل بینکس کہ جہاں پرائیوٹائزیشن سے قبل ملازمین کی کُل تعداد کا تقریباً 75فی صد کسی بھی بینک کی یونین کے ممبر ہوتے تھے اب یہ شرح گھٹ کر صرف 10فی صد رہ گئی ہے۔ بڑے بڑے کمرشیل بینکس میں ٹریڈ یونین کے لئے کام کرنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔
انہیں کام کرنے سے روکا جارہا ہے، عہدے داران کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں، اُنہیں دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ ٹریڈ یونین تحریک کے جانے پہچانے راہ نما ناصر منصور کے بقول پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک ڈایالیسس پر ہے جب کہ راقم الحروف کے خیال میں خاص طور پر بینکنگ انڈسٹری میں یہ تحریک بدقسمتی سے بسترِمرگ پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس صورت حال کی تبدیلی کے لیے جدوجہد بہرکیف جاری ہے اور ہمیں یقین ہے کہ طویل سیاہ رات بہت زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے گی کیوںکہ اُجالے کا راستہ آج تک کوئی روک نہیں سکا ۔
ہم دنیا کے دیگر ممالک میں مزدور تحریک پر بھی نظر ڈالیں تو صورت حال حوصلہ افزا کسی طور نظر نہیں آتی۔ ریاستِ ہائے متحدہ امریکا میں 1983 میں 17.7ملین کی تعداد یونین کی ممبر ہوتی تھی جب کہ 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر 14.6ملین رہ گئی ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں یونین کی ممبر شپ 60 فی صد سے بھی نیچے گرگئی۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں 19ویں صدی کے وسط میں امریکا میں ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا تھا وہاں بھی پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ٹریڈ یونین کی ممبرشپ دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔ امریکا میں ٹریڈیونینز ریاستوں اور وفاقی سطح پر سیاست اور انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور ہم خیال تنظیموں کے اشتراک سے سیاسی، سماجی اور صحت کے مسائل جیسی سرگرمیوں میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکا میں ٹریڈ یونین ایجوکیشن کے باضابطہ ادارے قائم ہیں۔ اس ضمن میں کارنل یونیورسٹی پوری دنیا میں سب سے زیادہ لیبر ایجوکیشن کے حوالہ سے قیادتی کردار ادا کرنے والے ادارہ کے طور پر معروف ہے۔
برطانیہ جمہوریت اور ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک کے حوالہ سے دنیا بھر میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اُس ملک کے مزدوروں اور تنظیموں نے دو صدیوں کی طویل جدوجہد کے بعد موجودہ حقوق حاصل کیے۔
یاد رہے کہ 18ویں صدی میں برطانیہ میں ہڑتال کرنے کی سزا 3 ماہ کی قید یا 2 ماہ کی قید بامشقت ہوا کرتی تھی۔ 1888 اور 1918 کے دوران ٹریڈ یونینز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں مزدوروں نے اپنے حقوق تسلیم کرنے والے کے لیے کام یاب ہڑتالیں بھی کیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی حکومت نے کوئلہ، گیس اور بجلی کی صنعتوں کو قومیالیا۔ 1950 کی دہائی میں زبردست صنعتی ترقی ہوئی، خواتین کی ملازمتوں میں شمولیت میں اضافہ ہوا اور اسی دوران ٹریڈ یونینز نے بڑی کام یابیاں حاصل کیں، جن میں خواتین کے لیے مساوی تنخواہ کا حق بھی حاصل ہے۔
1980 اور 1990 کی دہائیاں ٹریڈ یونین تحریک کے لیے برطانیہ میں چیلینجز کے ادوار تھیں۔ بے روزگاری کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ممبرشپ میں زبردست کمی واقع ہوئی۔ کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت نے قومی ملکیتی صنعتوں ریلویز، گیس اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں کی نجکاری کردی، جس کی وجہ سے ٹریڈ یونینز کی قوت میں مزید ضعف پیدا ہوا۔ وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی حکومت نے 1979 اور 1990کے دوران قانون سازی کے ذریعہ ٹریڈ یونینز کو شدید طور پر کم زور کردیا۔
ہمارے ہم سائے ملک بھارت میں گو کہ مزدور تحریک کی تاریخ پرانی ہے لیکن اس کے باوجود یونین سازی زیادہ تر فارمل سیکٹر میں ہوتی ہے اور چھوٹی صنعتوں اور ان فارمل سیکٹر میں ٹریڈ یونین نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت میں قومی ملکیتی اداروں میں ٹریڈ یونینز مضبوط ہیں اور 90 فی صد اداروں میں مزدور تنظیمیں قائم ہیں، جب کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونینز انتہائی محدود ہیں اور اُن کی ممبرشپ بھی کم ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 1990 میں بھارت کی ٹوٹل لیبر فورس کا صرف 2 فی صد حصہ یونینز کا ممبر تھا۔ بھارت میں بھی یونینز کی ممبر شپ میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں صنعتوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور بین الاقوامی ٹرینڈز شامل ہیں۔
پاکستان اور 3 دیگر ممالک کی طرح ٹریڈ یونین صورت حال کا سرسری جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر پوری دنیا میں نہیں تو کم ازکم ان ممالک میں محنت کشوں کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں۔
اگر اس مشہور مقولے کو بنیاد بنایا جائے کہ ''دیگ میں سے چند چاول چکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاتا ہے'' تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالباً پوری دنیا میں مزدور تنظیموں اور اور ٹریڈ یونین تحریک کی صورت حال حوصلہ افزاء نہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور ایشیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک، کہ جہاں جمہوریتیں مضبوط ہیں، وہاں محنت کشوں کو اُن کے حقوق اور ملازمتوں کے حوالے سے بہتر تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد شعبہ محنت مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں صوبہ سندھ کی حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک شدید انحطاط سے دو چار ہونے کے باوجود حالات سے نبردآزما ہے۔ ٹریڈ یونینز اپنے اپنے اداروں میں اور مشترکہ طور پر بھی محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ ملک میں جمہوریت جڑیں پکڑ رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ٹریڈ یونینز کے حالات میں بھی بہتری پیدا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے مزدور تنظیموں کو سیاسی جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے جب کہ عوام دوست اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ مزدور تحریک کے کارکنوں کو اپنے پلیٹ فارم سے منتخب ایوانوں کا حصہ بنائیں تاکہ محنت کش طبقے کی آواز زیادہ مؤثر طور پر ایوان میں پہنچے اور اُن کے احساسِ محرومی میں بھی کمی واقع ہو۔