سیاسی جماعتوں کو طالبان کی دھمکیاں حقیقت کا روپ دھارنے لگیں
تمام تیاریوں کے باوجود جس خدشہ کا اظہار کیاجارہا ہے وہ انتخابات کا التوا ہے۔
انتخابی گہماگہمی شروع ہونے سے قبل ہی یہ توقع کی جارہی تھی کہ حکمران جماعتوں کے لیے انتخابی مہم چلانا آسان نہیں ہوگا۔
کیونکہ جن پارٹیوں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے کھلی دھمکیاں دی گئیں ان میں اے این پی اور پیپلزپارٹی دونوں شامل ہیں اور گزشتہ چند دنوں کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کو جس طریقہ سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے یہ دھمکیاں حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آگئی ہیں ۔
خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی نے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھالے پانچ سال جن حالات میں حکومت کی اور اے این پی کو جو انسانی نقصان اٹھانا پڑا ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات بڑی واضح تھی کہ اے این پی کے لیے دیگر پارٹیوں کی نسبت انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگی،اس لیے یہ توقع کی جارہی تھی کہ ممکنہ طور پر الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی جانب سے اے این پی کے قائدین اور امیدواروں کو سکیورٹی بھی زیادہ فراہم کی جائے گی۔
تاکہ وہ دیگر امیدواروں کے ہم پلہ ہوکر اپنی انتخابی مہم چلاسکیں تاہم ایسا نہیں ہوسکا اور نہ صرف یہ کہ اے این پی کے رہنمائوں کو حاصل سکیورٹی یا تو واپس لے لی گئی ہے یا پھر کم کردی گئی ہے بلکہ اے این پی کے سنٹرل سیکرٹریٹ باچاخان مرکز سے بھی سکیورٹی ہٹا دی گئی ہے تاہم اس اقدام کی وجہ ایک پولیس افسر کی مخاصمت بھی بتائی جاتی ہے جسے اے این پی کے دور حکومت میں اہم عہدہ سے ہٹادیا گیا تھا۔
مذکورہ صورت حال کی وجہ سے اے این پی کی مرکزی اور صوبائی قیادت احتجاج کرتے ہوئے میدان میں آگئی ہے جس میں اے این پی کے رہنمائوں اور امیدواروں کو بھرپور سکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیاجارہا ہے، تاہم اے این پی کو جو مشکلات درپیش ہیں ان کے حوالے سے یہ اندازے لگائے جارہے تھے کہ اے این پی ممکنہ طور پر الیکشن کے بائیکاٹ کی دھمکی دے گی۔
تاہم سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ الیکشن کے بائیکاٹ کا بڑا واضح مطلب میدان کسی دوسرے کے لیے کھلا چھوڑ دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر جماعتوں نے اس کے بعد کسی بھی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا، اس لیے اے این پی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے میدان دیگر جماعتوں کے لیے کھلا چھوڑ دے گی کسی بھی طور مصدقہ بات نہیں تھی اور یہ بات اب اے این پی کی قیادت نے واضح بھی کردی ہے۔
جس کے ساتھ ہی انہوں نے سکیورٹی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے بال الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے کور ٹ میں پھینک دی ہے جو اس اعتبار سے یقینی طور پر ان کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا کہ اگر انتخابی مہم اور الیکشن کے موقع پر کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہوجاتا ہے جس سے پورا منظر نامہ ہی تبدیل ہوجائے تو یہ نہایت ہی خطرناک ہوگا جس سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن اور نگرانوں کو صرف اے این پی نہیں بلکہ دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور ایسے امیدواروں جو ماضی میں عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر رہے ہیں کو خصوصی سکیورٹی فراہم کرنی چاہیے جو سب کے مفاد میں ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے اے این پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی یہ توقعات کے عین مطابق تھی کیونکہ اے این پی اور پیپلزپارٹی دونوں جانب سے اس امکان کو ظاہر کیاجارہا تھا کہ الیکشن کے حوالے سے کسی بھی لمحے دونوں پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سلسلے میں بات چیت شروع ہوسکتی ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں میں کسی نہ کسی سطح پر یہ سوچ موجود تھی ۔
تاہم اس کام میں بہت زیادہ تاخیر کردی گئی کیونکہ اب دیگر پارٹیوں کی طرح یہ دونوں پارٹیاں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کرچکی ہیں اور اعلان کردہ امیدواروں کو میدان سے واپس کرنا پارٹی کے اندر گروپنگ اور اختلافات پیدا کرنے کے مترادف ہے، یہی وجہ ہے کہ اے این پی سے بھی پہلے خود پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور ورکروں نے اس بات کی مخالفت کردی اور ان کی جانب سے پارٹی قیادت پر واضح کیا گیا کہ اگر ایسی کوئی ایڈجسٹمنٹ ہوئی تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا کیونکہ جیالوں کے لیے یہ ناممکن ہوگا کہ وہ اپنے امیدواروں کی بجائے اے این پی کے امیدواروں کی حمایت کریں اور ایسا ہی ردعمل اے این پی کی جانب سے بھی سامنے آیا ۔
جس کی قیادت نے پیپلزپارٹی کی اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے اور جواز یہی پیش کیا گیا ہے کہ '' اب اس معاملہ میں بہت تاخیر ہوگئی ہے، یہ کام اگر کرنے کی خواہش تھی تو پہلے کیا جاتا کیونکہ اب اے این پی اپنے امیدواروں کو مقابلے سے دستبردار نہیں کراسکتی ''،دونوں پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ایسا رویہ اپنانے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر پارٹیوں کی بھی آپس میں نہ تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اتحاد بنا ہے جسے یہ دونوں پارٹیاں اپنے لیے خطرہ سمجھیں۔
اگر جے یو آئی (ف)اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جاتی اور اسی طرح تحریک انصاف اور جماعت اسلامی قدم ملا کر چلنے پر متفق ہوجاتیں تو پھر پیپلزپارٹی اور اے این پی لامحالہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو نقصان ہوتا، تاہم موجودہ حالات میں چونکہ ہر پارٹی اپنے زور پر میدان میں اتررہی ہے اس لیے ہر ایک پارٹی نے جیت اور ہار اپنی ہی مقبولیت اور پارٹی منشور پر حاصل کرنی ہے جس کی وجہ سے ہر پارٹی صرف اور صرف اپنی انتخابی مہم پر ہی پوری توجہ مرکوز رکھنا چاہتی ہے ۔
چونکہ ہر سیاسی پارٹی اپنے طور پر انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اس لیے تمام سیاسی پارٹیوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ وہ الیکشن سے قبل اپنی پارٹی کے سربراہ کو ایک مرتبہ پشاور یاصوبہ کے کسی بھی حصہ میں لاکر بڑا جلسہ کرائے تاکہ اس کی انتخابی مہم میں تیزی آسکے اور اس مقصد کے لیے ہر پارٹی نے اپنی سطح پر تیاری اور منصوبہ بندی بھی کررکھی ہے تاہم صوبہ میں امن وامان کی جو صورت حال ہے اس کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ کوئی بھی پارٹی کوئی بڑا جلسہ کرسکے اور تمام پارٹیاں جس انداز اور طریقہ سے اپنی مہم کو چلارہی ہیں اسی طریقہ سے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
تاہم اگر کسی ایک پارٹی نے ان حالات میں بڑا جلسہ کرلیا تو اس کے بعد دیگر پارٹیاں بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے جلسوں کا انعقاد کریں گی۔ ان تمام تیاریوں کے باوجود جس خدشہ کا اظہار کیاجارہا ہے وہ انتخابات کا التواء ہے ،جو حیران کن ہے کیونکہ انتخابی عمل کا بڑا حصہ مکمل ہوچکا ہے اور اب صرف امیدواروں کی فائنل لسٹ جاری ہونے کے بعد بیس،اکیس دن انتخابی مہم چلنی اور پولنگ ہونی ہے لیکن اس کے باوجود بے یقینی کی کیفیت موجود ہے جس کے خاتمے کے لیے اگر ایک جانب سیاسی پارٹیوں کو اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانا ہوگی تو دوسری جانب الیکشن کمیشن اور نگرانوں کو بھی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ عوام میں پائی جانے والی یہ بے یقینی ختم ہوسکے کیونکہ ایسا ہونے سے ہی حقیقی معنوں میں الیکشن کا ماحول بن پائے گا اور جب حقیقی معنوں میں الیکشن کا ماحول بنے گا تو اس سے بہت سے خطرات خود بخود ٹلنا شروع ہوجائیں گے۔
موجودہ حالات میں الیکشن کے حوالے سے سب اہم اور بنیادی کام سیکورٹی انتظامات ہیں اور ان انتظامات ہی کے حوالے سے نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ پشاور ہائی کورٹ بھی یہ احکامات جاری کرچکی ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی جو پلاٹونز مرکز اور دیگر صوبوں کے پاس خدمات انجام دے رہی ہیں ان کو فوری طور پر خیبرپختونخوا کے حوالے کیاجائے تاکہ ایف سی اہلکاروں کی تقرری کرتے ہوئے سکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی جاسکے اور خصوصی طور پر ان علاقوں میں جو قبائلی علاقہ جات سے متصل ہیں۔
کیونکہ ایف سی کی تخلیق کا مقصد بھی یہی تھا کہ قبائلی اور بندوبستی علاقوں کی سرحدوں کو محفوظ بنایاجائے تاکہ مشکلات اور مسائل کو روکا جائے، تاہم آج خیبرپختونخوا امن وامن کے حوالے سے جن مشکلات کا شکار ہے اور پھر خصوصی طور پر قبائلی علاقوں کی جانب سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجود مرکز اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہا کہ وہ ایف سی کی پلاٹونز کی خدمات خیبرپختونخوا کو واپس کرے جو یقینی طور پر تشویش کی بات ہے اوراس تشویش کا خاتمہ کوئی اور نہیں بلکہ وزارت داخلہ اور مرکزی حکومت ہی کرسکتے ہیں۔
کیونکہ جن پارٹیوں کو عسکریت پسندوں کی جانب سے کھلی دھمکیاں دی گئیں ان میں اے این پی اور پیپلزپارٹی دونوں شامل ہیں اور گزشتہ چند دنوں کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کو جس طریقہ سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس سے یہ دھمکیاں حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آگئی ہیں ۔
خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی نے ڈرائیونگ سیٹ کو سنبھالے پانچ سال جن حالات میں حکومت کی اور اے این پی کو جو انسانی نقصان اٹھانا پڑا ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات بڑی واضح تھی کہ اے این پی کے لیے دیگر پارٹیوں کی نسبت انتخابی مہم چلانا مشکل ہوگی،اس لیے یہ توقع کی جارہی تھی کہ ممکنہ طور پر الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی جانب سے اے این پی کے قائدین اور امیدواروں کو سکیورٹی بھی زیادہ فراہم کی جائے گی۔
تاکہ وہ دیگر امیدواروں کے ہم پلہ ہوکر اپنی انتخابی مہم چلاسکیں تاہم ایسا نہیں ہوسکا اور نہ صرف یہ کہ اے این پی کے رہنمائوں کو حاصل سکیورٹی یا تو واپس لے لی گئی ہے یا پھر کم کردی گئی ہے بلکہ اے این پی کے سنٹرل سیکرٹریٹ باچاخان مرکز سے بھی سکیورٹی ہٹا دی گئی ہے تاہم اس اقدام کی وجہ ایک پولیس افسر کی مخاصمت بھی بتائی جاتی ہے جسے اے این پی کے دور حکومت میں اہم عہدہ سے ہٹادیا گیا تھا۔
مذکورہ صورت حال کی وجہ سے اے این پی کی مرکزی اور صوبائی قیادت احتجاج کرتے ہوئے میدان میں آگئی ہے جس میں اے این پی کے رہنمائوں اور امیدواروں کو بھرپور سکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیاجارہا ہے، تاہم اے این پی کو جو مشکلات درپیش ہیں ان کے حوالے سے یہ اندازے لگائے جارہے تھے کہ اے این پی ممکنہ طور پر الیکشن کے بائیکاٹ کی دھمکی دے گی۔
تاہم سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ الیکشن کے بائیکاٹ کا بڑا واضح مطلب میدان کسی دوسرے کے لیے کھلا چھوڑ دینا ہے، یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے علاوہ دیگر جماعتوں نے اس کے بعد کسی بھی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا، اس لیے اے این پی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے میدان دیگر جماعتوں کے لیے کھلا چھوڑ دے گی کسی بھی طور مصدقہ بات نہیں تھی اور یہ بات اب اے این پی کی قیادت نے واضح بھی کردی ہے۔
جس کے ساتھ ہی انہوں نے سکیورٹی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے بال الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے کور ٹ میں پھینک دی ہے جو اس اعتبار سے یقینی طور پر ان کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا کہ اگر انتخابی مہم اور الیکشن کے موقع پر کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہوجاتا ہے جس سے پورا منظر نامہ ہی تبدیل ہوجائے تو یہ نہایت ہی خطرناک ہوگا جس سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن اور نگرانوں کو صرف اے این پی نہیں بلکہ دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں اور ایسے امیدواروں جو ماضی میں عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر رہے ہیں کو خصوصی سکیورٹی فراہم کرنی چاہیے جو سب کے مفاد میں ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے اے این پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جس خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی یہ توقعات کے عین مطابق تھی کیونکہ اے این پی اور پیپلزپارٹی دونوں جانب سے اس امکان کو ظاہر کیاجارہا تھا کہ الیکشن کے حوالے سے کسی بھی لمحے دونوں پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سلسلے میں بات چیت شروع ہوسکتی ہے کیونکہ دونوں پارٹیوں میں کسی نہ کسی سطح پر یہ سوچ موجود تھی ۔
تاہم اس کام میں بہت زیادہ تاخیر کردی گئی کیونکہ اب دیگر پارٹیوں کی طرح یہ دونوں پارٹیاں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کرچکی ہیں اور اعلان کردہ امیدواروں کو میدان سے واپس کرنا پارٹی کے اندر گروپنگ اور اختلافات پیدا کرنے کے مترادف ہے، یہی وجہ ہے کہ اے این پی سے بھی پہلے خود پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور ورکروں نے اس بات کی مخالفت کردی اور ان کی جانب سے پارٹی قیادت پر واضح کیا گیا کہ اگر ایسی کوئی ایڈجسٹمنٹ ہوئی تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا کیونکہ جیالوں کے لیے یہ ناممکن ہوگا کہ وہ اپنے امیدواروں کی بجائے اے این پی کے امیدواروں کی حمایت کریں اور ایسا ہی ردعمل اے این پی کی جانب سے بھی سامنے آیا ۔
جس کی قیادت نے پیپلزپارٹی کی اس پیشکش کو مسترد کردیا ہے اور جواز یہی پیش کیا گیا ہے کہ '' اب اس معاملہ میں بہت تاخیر ہوگئی ہے، یہ کام اگر کرنے کی خواہش تھی تو پہلے کیا جاتا کیونکہ اب اے این پی اپنے امیدواروں کو مقابلے سے دستبردار نہیں کراسکتی ''،دونوں پارٹیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ایسا رویہ اپنانے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر پارٹیوں کی بھی آپس میں نہ تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اتحاد بنا ہے جسے یہ دونوں پارٹیاں اپنے لیے خطرہ سمجھیں۔
اگر جے یو آئی (ف)اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جاتی اور اسی طرح تحریک انصاف اور جماعت اسلامی قدم ملا کر چلنے پر متفق ہوجاتیں تو پھر پیپلزپارٹی اور اے این پی لامحالہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کو نقصان ہوتا، تاہم موجودہ حالات میں چونکہ ہر پارٹی اپنے زور پر میدان میں اتررہی ہے اس لیے ہر ایک پارٹی نے جیت اور ہار اپنی ہی مقبولیت اور پارٹی منشور پر حاصل کرنی ہے جس کی وجہ سے ہر پارٹی صرف اور صرف اپنی انتخابی مہم پر ہی پوری توجہ مرکوز رکھنا چاہتی ہے ۔
چونکہ ہر سیاسی پارٹی اپنے طور پر انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہے اس لیے تمام سیاسی پارٹیوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ وہ الیکشن سے قبل اپنی پارٹی کے سربراہ کو ایک مرتبہ پشاور یاصوبہ کے کسی بھی حصہ میں لاکر بڑا جلسہ کرائے تاکہ اس کی انتخابی مہم میں تیزی آسکے اور اس مقصد کے لیے ہر پارٹی نے اپنی سطح پر تیاری اور منصوبہ بندی بھی کررکھی ہے تاہم صوبہ میں امن وامان کی جو صورت حال ہے اس کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ کوئی بھی پارٹی کوئی بڑا جلسہ کرسکے اور تمام پارٹیاں جس انداز اور طریقہ سے اپنی مہم کو چلارہی ہیں اسی طریقہ سے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
تاہم اگر کسی ایک پارٹی نے ان حالات میں بڑا جلسہ کرلیا تو اس کے بعد دیگر پارٹیاں بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے جلسوں کا انعقاد کریں گی۔ ان تمام تیاریوں کے باوجود جس خدشہ کا اظہار کیاجارہا ہے وہ انتخابات کا التواء ہے ،جو حیران کن ہے کیونکہ انتخابی عمل کا بڑا حصہ مکمل ہوچکا ہے اور اب صرف امیدواروں کی فائنل لسٹ جاری ہونے کے بعد بیس،اکیس دن انتخابی مہم چلنی اور پولنگ ہونی ہے لیکن اس کے باوجود بے یقینی کی کیفیت موجود ہے جس کے خاتمے کے لیے اگر ایک جانب سیاسی پارٹیوں کو اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانا ہوگی تو دوسری جانب الیکشن کمیشن اور نگرانوں کو بھی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ عوام میں پائی جانے والی یہ بے یقینی ختم ہوسکے کیونکہ ایسا ہونے سے ہی حقیقی معنوں میں الیکشن کا ماحول بن پائے گا اور جب حقیقی معنوں میں الیکشن کا ماحول بنے گا تو اس سے بہت سے خطرات خود بخود ٹلنا شروع ہوجائیں گے۔
موجودہ حالات میں الیکشن کے حوالے سے سب اہم اور بنیادی کام سیکورٹی انتظامات ہیں اور ان انتظامات ہی کے حوالے سے نہ صرف صوبائی حکومت بلکہ پشاور ہائی کورٹ بھی یہ احکامات جاری کرچکی ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی جو پلاٹونز مرکز اور دیگر صوبوں کے پاس خدمات انجام دے رہی ہیں ان کو فوری طور پر خیبرپختونخوا کے حوالے کیاجائے تاکہ ایف سی اہلکاروں کی تقرری کرتے ہوئے سکیورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی جاسکے اور خصوصی طور پر ان علاقوں میں جو قبائلی علاقہ جات سے متصل ہیں۔
کیونکہ ایف سی کی تخلیق کا مقصد بھی یہی تھا کہ قبائلی اور بندوبستی علاقوں کی سرحدوں کو محفوظ بنایاجائے تاکہ مشکلات اور مسائل کو روکا جائے، تاہم آج خیبرپختونخوا امن وامن کے حوالے سے جن مشکلات کا شکار ہے اور پھر خصوصی طور پر قبائلی علاقوں کی جانب سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجود مرکز اس سلسلے میں اپنا کردار ادا نہیں کررہا کہ وہ ایف سی کی پلاٹونز کی خدمات خیبرپختونخوا کو واپس کرے جو یقینی طور پر تشویش کی بات ہے اوراس تشویش کا خاتمہ کوئی اور نہیں بلکہ وزارت داخلہ اور مرکزی حکومت ہی کرسکتے ہیں۔