امریکا میں میراتھن دوڑ کے دوران دھماکے
امریکی صدر بارک اوباما نے فوری طور پر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فی الفور تحقیقات کرنے کا حکم دیدیا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا کی داخلی سیکیورٹی کے حوالے سے فول پروف انتظامات کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور واقعی وہاں ایک طویل عرصے تک تخریب کاری یا دہشت گردی کا کوئی واقعہ رو نما نہ ہو سکا تاہم اگلے روز امریکا میں ہونے والے ایک بین الاقوامی میراتھن ریس کے دوران بم دھماکوں کی آوازوں نے سخت ترین سیکیورٹی انتظامات کی قلعی کھول دی۔
تفصیلات کے مطابق امریکی شہر بوسٹن میں میراتھن دوڑ کے دوران یکے بعد دیگرے ہونے والے دو دھماکوں میں ابتدائی اطلاع کے مطابق 4 افراد ہلاک جب کہ تین درجن سے زائد زخمی ہو گئے جن میں دوڑ میں حصہ لینے والوں کے علاوہ تماشائیوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے فوری طور پر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فی الفور تحقیقات کرنے کا حکم دیدیا ہے جب کہ نیویارک، واشنگٹن، لاس اینجلس اور بعض دیگر حساس امریکی شہروں میں بھی حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
یہ دھماکے امریکا میں ہونے والی قدیم ترین میراتھن دوڑ، جسے عرف عام نے بوسٹن میراتھن کہا جاتا ہے، کے اختتام پذیر ہونے کے بعد ہوئے جن کی آواز دور دور تک سنی گئی۔یہ دھماکہ کسی دہشت گرد گروپ نے کیا یا اس میں کوئی مقامی گروہ ملوث ہے، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ امریکا کی حکومت نے ابھی تک کسی پر اس کی ذمے داری نہیں ڈالی اور نہ کسی گروپ نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان دھماکوں کے لیے مورد الزام کس کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ آیا ان کا الزام بھی القاعدہ پر لگایا جائے گا یا ذمے دار کوئی امریکی شہری نکلے گا۔
تفصیلات کے مطابق امریکی شہر بوسٹن میں میراتھن دوڑ کے دوران یکے بعد دیگرے ہونے والے دو دھماکوں میں ابتدائی اطلاع کے مطابق 4 افراد ہلاک جب کہ تین درجن سے زائد زخمی ہو گئے جن میں دوڑ میں حصہ لینے والوں کے علاوہ تماشائیوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے فوری طور پر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فی الفور تحقیقات کرنے کا حکم دیدیا ہے جب کہ نیویارک، واشنگٹن، لاس اینجلس اور بعض دیگر حساس امریکی شہروں میں بھی حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
یہ دھماکے امریکا میں ہونے والی قدیم ترین میراتھن دوڑ، جسے عرف عام نے بوسٹن میراتھن کہا جاتا ہے، کے اختتام پذیر ہونے کے بعد ہوئے جن کی آواز دور دور تک سنی گئی۔یہ دھماکہ کسی دہشت گرد گروپ نے کیا یا اس میں کوئی مقامی گروہ ملوث ہے، اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ امریکا کی حکومت نے ابھی تک کسی پر اس کی ذمے داری نہیں ڈالی اور نہ کسی گروپ نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان دھماکوں کے لیے مورد الزام کس کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ آیا ان کا الزام بھی القاعدہ پر لگایا جائے گا یا ذمے دار کوئی امریکی شہری نکلے گا۔