رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

پھر دو مہینے تک انھوں نے ڈاکٹر سے کوئی رابطہ نہ کیا تو فیملی ڈاکٹر کو تشویش ہوئی۔

s_nayyar55@yahoo.com

ایک صاحب کو سانس کی بیماری لاحق ہو گئی۔ ہر ہفتہ، دس دن بعد جب اس بیماری کے ان پر مسلسل اٹیک ہونے لگے تو انھوں نے اپنے فیملی ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مختلف ٹیسٹ کروائے اور بغور اپنے مریض کا معائنہ کرنے کے بعد ''شراب'' کو بطور دوا تجویز کر دیا۔ دوا کا نام سن کر وہ صاحب مارے حیرت و خوف کے اچھل پڑے اور بولے ''لاحول ولاقوۃ، ڈاکٹر صاحب میں پکا مسلمان ہوں، وضع قطع مسلمانوں جیسی ہے، پابند صوم و صلوٰۃ بھی ہوں، یوں سمجھیں کہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 پر پورا اترتا ہوں یعنی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا اہل ہوں، میرے گھر والے، دوست احباب، رشتے دار اور محلے والوں نے اگر مجھے یہ ''دوا'' استعمال کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میری عزت خاک میں مل جائے گی۔

لوگ شرابی کہیں گے ، میں نے آج تک اس حرام شے کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور آپ اسے پینے کا مشورہ دے رہے ہیں، کوئی اور دوا تجویز کریں۔'' ڈاکٹر صاحب نے حتمی طور پر اپنا فیصلہ سنا دیا کہ ''اس مرض کا علاج صرف الکوحل ہی ہے، اور آپ بلاوجہ پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ میں نے یہ کب کہا کہ اس دوا کو سرعام استعمال کرتے پھریں اور روزانہ استعمال کریں۔ دیکھیں، جب بھی آپ پر اس مرض کا حملہ ہو تو شیو کرنے کی غرض سے غسل خانے میں چلے جائیں اور شراب کی ایک دو چسکیاں، شیو کے بہانے لگا کر باہر آ جائیں۔ اس طرح بھابی کو بھی پتہ نہیں چلے گا کہ آپ نے شراب پی ہے اور آپ کا علاج بھی ہو جائے گا۔'' وہ صاحب یہ نسخہ لے کر گھر واپس آ گئے۔

پھر دو مہینے تک انھوں نے ڈاکٹر سے کوئی رابطہ نہ کیا تو فیملی ڈاکٹر کو تشویش ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کے گھر فون کیا، ان کی بیگم نے فون اٹھایا تو ڈاکٹر صاحب نے علیک سلیک کے بعد ان کے شوہر کی خیریت دریافت کی۔ ان کی بیگم نے ڈاکٹر کو بتایا کہ ''آج کل ان کی طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے۔ بڑے ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، لیکن لگتا ہے کہ کچھ ذہنی فتور میں مبتلا ہو چکے ہیں یا پھر انھیں کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔'' ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ''آپ نے اس کا اندازہ کیوں کر لگایا؟'' بیگم صاحبہ بولیں ''دن میں تین تین دفعہ شیو بنانے لگے تھے اور پچھلے دو ہفتوں سے تو ہر گھنٹے کے بعد شیو کرنے لگے ہیں۔''

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ نشہ شراب کا ہو، دولت کا یا اختیار کا، ایک مرتبہ منہ کو لگ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب اس شخص کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا جو ان کے نشے سے آج تک محروم ہی رہا ہو۔ اسی لیے تو ایک شرابی نے اپنے دوست کے اس سوال پر کہ ''یار تم کیوں شراب پر اپنی دولت ضایع کرتے ہو آخر تمہیں اس کو پینے سے کیا ملتا ہے؟'' سرد آہ بھر کر جواب دیا تھا ''ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں۔''

غالباً یہی معصوم سا سوال عوام کی اکثریت کے لبوں پر مچل رہا ہے کہ آخر سابق حکمران سرکاری سیکیورٹی اور پروٹوکول چھوڑتے کیوں نہیں؟ سابقہ یا موجودہ حکمران عوام کو بھلا یہ بات کیسے سمجھا سکتے ہیں کہ یہ سرکاری پروٹوکول یا سیکیورٹی کیوں نہیں چھوڑی جا سکتی؟ اور اگر سمجھائیں بھی تو عوام کی سمجھ میں بھلا یہ بات کیسے آ سکتی ہے؟ کیونکہ انھیں کیا معلوم کہ سیکیورٹی کس چڑیا کا نام ہے؟ عوام کو ہمارے حکمرانوں نے پروٹوکول تو چھوڑیں، صرف سیکیورٹی ہی فراہم کی ہوتی تو آج انھیں سمجھانا بھی آسان ہوتا کہ اپنی سیکیورٹی پر وہ عوام کا کثیر پیسہ کیوں لٹا رہے ہیں؟ میڈیا نے تو بلاوجہ اودھم مچا رکھا ہے کہ سابق حکمران، بلٹ پروف گاڑیاں اور سیکیورٹی کا عملہ واپس نہیں کر رہے ہیں۔


جس پر عوام کا سرمایہ بلا وجہ ضایع ہو رہا ہے۔ میڈیا والوں سے کوئی پوچھے ''بھائی جب سابقہ حکمران حاضر سروس تھے، تب بھی تو ان کے پروٹوکول اور سیکیورٹی پر عوام کا ہی پیسہ خرچ ہوتا تھا۔ سیکیورٹی اور پروٹوکول تو ایک طرف، عوام بے چارے تو ان کی ٹوتھ پیسٹ اور ٹشو پیپرز کا خرچ بھی اٹھاتے تھے، جیسا کہ اب نگراں حکمرانوں کا اٹھا رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ سابقہ حکمرانوں کو عوام نے ووٹ اسی لیے دے کر اپنا حاکم بنایا تھا کہ عوام کی اپنی جان و مال کے تحفظ کو یہ ووٹ لینے والے حکمران یقینی بنائیں گے۔ لیکن ان سابقہ حکمرانوں نے عوام کے خرچ پر اپنی سیکیورٹی تو یقینی بنا لی، لیکن کیا پچھلے پانچ برس میں عوام کی جان و مال کو بھی تحفظ ملا؟ جسے مہیا کرنا ان حکمرانوں کا اولین فریضہ تھا۔

عوام روز مرتے رہے، جو بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ سے بچ جاتے وہ بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے ہاتھوں زندہ درگور ہوتے رہے، روز جیتے اور روز مرتے رہے۔ یعنی اس طرح جیے کہ عوام کا جینا دیکھ کر بے اختیار ہونٹوں پر یہ فلمی ڈائیلاگ مچل جاتا کہ ''یہ جینا بھی کوئی جینا ہے للو''۔ جب عوام نے پانچ برس تک للو کی طرح جینا قبول کر لیا اور کچھ نہیں بولے تو یہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کیوں ''چاچا خواہ مخواہ'' بن رہے ہیں؟ مدعی سست اور گواہ چست والی صورتحال ہے۔ حکمرانوں کی سیکیورٹی پر جن کا مال خرچ ہوا اور ہو رہا ہے وہ تو اپنے مال کی اس ڈکیتی کی ایف آئی آر درج کروانے پر بھی تیار نہیں ہیں اور میڈیا نے مہم چلا رکھی ہے کہ عوام کا مال واپس کرو۔

ادھر عوام کا یہ حال ہے، وہ نعرے لگا لگا کر بے حال ہو رہے ہیں کہ ''زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے'' اور ''میاں دے نعرے وجن گے''۔ قائم علی شاہ صاحب کو اگر تاحیات سیکیورٹی مل گئی ہے تو میڈیا کو کیا اعتراض ہے؟ اس سیکیورٹی کے اخراجات میڈیا دے رہا ہے یا عوام؟ شاید ان کی طویل عمری کا راز ہی اس سرکاری پروٹوکول اور سیکیورٹی میں پوشیدہ ہے۔ یہاں مجھے بادشاہ کا وہ چمچہ وزیر بڑی شدت سے یاد آتا ہے، جو عوام کو اس شرط پر قرضہ دیا کرتا تھا کہ ''قرض کی واپسی اس دن ہو گی، جس دن بادشاہ مر جائے گا'' وزیر کے حاسدین نے جا کر بادشاہ سے جڑ دیا کہ ''آپ کی موت کے دن کو قرض کی واپسی کا دن مقرر کر کے عوام پر خزانہ لٹائے دے رہا ہے آپ کا یہ چہیتا وزیر۔'' بادشاہ نے وزیر کو بلا کر باز پرس کی تو جواب سن کر حاسدین کے منہ لٹک گئے اور بادشاہ سلامت کِھل اٹھے۔

اس چمچے نے بادشاہ کو بتایا ''سرکار اس طرح ملک کے لاکھوں عوام روز آپ کی درازی عمر کے لیے دعا کرتے ہیں۔ نہ آپ مریں گے اور نہ ہی قرضہ واپس کرنا پڑے گا۔'' اس ملک کے عوام تو بغیر قرضہ لیے ہی اپنے ان حکمرانوں کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔ لیکن میڈیا کو کون سمجھائے؟ اب تو دن ہی کتنے رہ گئے ہیں انتخابات میں؟ آج سیکیورٹی اور پروٹوکول واپس لے لیا اور عوام نے گیارہ مئی کو دوبارہ یہ سب کچھ انھی لوگوں کو واپس دلوا دیا تو میڈیا کیا کرے گا؟ اور اگر کسی اور حاکم کا انتخاب کر لیا تو آنے والے سب سے پہلے اسی پروٹوکول پر حملہ آور ہوں گے اور خود چھین لیں گے۔ نہیں چھینیں گے تو اپنے لیے کیا رکھیں گے؟ لہٰذا یہ عوام اور سابقہ حکمرانوں کا معاملہ، میڈیا عوام پر ہی چھوڑ دے۔ سابقہ حکمران از خود تو اس سے دستبردار ہونے سے رہے۔ کیونکہ بقول غالب

گو ہاتھ میں جنبش نہیں، آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
Load Next Story