پہچان

ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ادارہ فوج سب سے طاقتور عامل ہے۔

mjgoher@yahoo.com

LONDON:
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جمہوریت پسند ملکوں میں کاروبار سلطنت چلانے کے لیے آئین ایک مستند اور مقدس دستاویز ہوتی ہے، تمام ریاستی ادارے آئین میں متعین کردہ دائرہ کار کے مطابق اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی جمہوریت کو استحکام نہ مل سکا، عوامی نمایندگی کے رہنما ادارے شکست و ریخت کا شکار ہوتے رہے، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود ریاستی اداروں کے درمیان ایک دوسرے پر آئینی برتری ثابت کرنے کی سرد جنگ جاری رہی۔

جس طرح کسی معاشرے میں مختلف نظریات کے حامل طبقے اور گروہ دوسروں پر حاوی ہونے کے لیے اپنے نظریے اور فلسفے کی سچائی پر ڈٹ جاتے ہیں اور ہر حال میں اپنی بات منوانے اور اپنی سوچ کو لوگوں پر مسلط کرنے کے لیے انتہا تک چلے جاتے ہیں ایسے مظاہر ہم پاکستان میں بھی گزشتہ کئی سال سے دیکھ رہے ہیں کہ لوگوں کو ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکار بھی مذہبی جنونیوں سے محفوظ نہیں، بعض ایسے واقعات بھی وقوع پذیر ہوئے کہ محض الزامات کی بنیاد پر بپھرے ہوئے عوام نے بے دردی سے لوگوں کو قتل کر دیا اور ریاستی کل پرزے ایسے واقعات سے نمٹنے میں قطعی ناکام ثابت ہوئے۔ بعینہ طاقت کا یہ نشہ بعض ''عالی دماغوں'' میں بھی بھرا رہا اور ریاستی اداروں کے درمیان آئینی اختیارات کے استعمال کے سوالات سے ایک دوسرے کے خلاف سرد جنگ کی سی کیفیت موجود رہی ہے۔

ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ادارہ فوج سب سے طاقتور عامل ہے جس کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی ایک نہایت سنجیدہ، بردبار اور پیشہ وارانہ فرائض تک محدود رہنے والے سپاہی ہیں۔ انھوں نے فوج کو سیاسی آلودگیوں سے بچائے رکھا ورنہ آج صورت حال مختلف ہوتی۔ اس حوالے سے ہمارا ماضی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے، جمہوریت پر شب خون مارنے والے آمروں نے آئین توڑنا اپنا فرض منصبی سمجھا، آئین میں ترامیم کرنا اپنا حق گردانا، سیاسی انتقام میں ایک مدبر سیاستدان کو پھانسی چڑھانا اپنے ''ریاستی انصاف'' کا تقاضا جانا، اس پر مستزاد عدلیہ کا کردار رہا جس نے ہر آمر وقت کو ''نظریہ ضرورت'' کی چھتری تلے پناہ دی جس سے ان کے حوصلے اور بلند ہوئے، عسکری حکمرانوں کے عاقبت نااندیش اقدامات کے باعث ملک دو لخت ہوا اور گوناگوں مسائل اس کے پاؤں کی زنجیر بن گئے۔

مارچ 2007ء میں عدلیہ نے کروٹ لی اور ''نظریہ ضرورت'' کا لبادہ اتار پھینکا، آج چہار دانگ ''آزاد عدلیہ'' کا ڈنکا بج رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ اپنے آئینی اختیارات کا پوری قوت سے استعمال کر رہی ہے اور کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں، لوگوں کو عدلیہ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں تاہم عدلیہ آزادی تحریک کے ''ہیروز'' چوہدری اعتزاز احسن، عاصمہ جہانگیر، علی احمد کرد و دیگر پس پردہ چلے گئے کیوں؟ اس سوال کا جواب ان کے بیانات میں ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

جس جنرل کے خلاف عدلیہ نے ''آزادی'' کا نعرہ بلند کیا تھا اتفاق دیکھیے کہ اسی جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ عدالت عظمیٰ کے روبرو ایک ''ٹیسٹ کیس'' بن گیا کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جنرل کے خلاف غداری کے مقدمے کی عدالت عظمیٰ میں سماعت ہو رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اپنے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے اور ججز کو ہٹانے کا فیصلہ درست تھا۔ ان کے وکیل احمد رضا قصوری جنرل مشرف کے موقف کا دفاع کرنے کے لیے بہت سے نکتوں کو ملا کر کیس کا دائرہ کر سکتے ہیں۔


ملک کے فہمیدہ حلقوں میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک جانب تو جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالت عظمیٰ میں غداری کا مقدمہ زیرسماعت ہے، دوسری جانب اسی عدالت نے جنرل صاحب کو نہ صرف سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے اور انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دے دی ہے بلکہ انھیں دوران سماعت عدالت میں حاضری سے بھی مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی کی بات ہے جب 18 کروڑ عوام نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی حکم کے حوالے سے حکومت و عدلیہ کے درمیان تناؤ اور اعصاب شکن طویل عدالتی کارروائی کا نظارہ دیکھا۔

عدالتی حکم کی تعمیل میں منتخب وزرائے اعظم سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوتے رہے، ایک وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کے جرم میں سزاوار ٹھہراتے ہوئے ایوان وزیر اعظم سے رخصت کر دیا گیا جب کہ دوسرے وزیر اعظم نے خط لکھ دیا تو بھی سوئس حکام نے صدر کے خلاف مقدمات دوبارہ نہ کھولے۔ منتخب وزیر اعظم کی عدالت میں پیشیاں اور جنرل مشرف کو حاضری سے استثنیٰ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ صدر زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ عدالتی حکم پر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کا عدالت میں پیش ہونا اور سابق آمر جنرل پرویز مشرف کا پیش نہ ہونا دہرا معیار ہے۔

دراصل ہمارا معاشرہ عوام اور خواص دو واضح طبقات میں تقسیم ہو چکا ہے اور ہر دو طبقے کے لوگوں کے لیے علیحدہ علیحدہ معیارات ہیں نتیجتاً عام لوگوں میں مایوسی اور بددلی کا پھیلنا ناقابل فہم نہیں، جب بات نکلتی ہے تو پھر دور تلک جاتی ہے اور جب حوالہ کسی معروف اور بڑی شخصیت کا ہو تو کیس عام لوگوں کے درمیان موضوع گفتگو بن جاتا ہے۔ گزشتہ شب اپنے دوست کے ہمراہ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھا تھا ساتھ والی ٹیبل پر چار لوگ بھی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ان کا موضوع سخن تازہ سیاسی صورت حال، جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ اور اس سے جڑی جزئیات تھا، بات بڑھتے بڑھتے میمو گیٹ اسکینڈل تک جا پہنچی۔

ہم دونوں دوست ان کی بحث دلچسپی سے سن رہے تھے حاصل گفتگو یہ تھا کہ میمو گیٹ اسکینڈل ایک شخص منصور اعجاز کے دعوؤں پر قائم ہے جو قابل بھروسہ ہونے کے معیار پر پورا نہیں اترتا، اسے ذاتی طور پر پیش ہونے سے استثنیٰ دے دیا گیا جب کہ حسین حقانی پر لازم ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہوں حالانکہ وہ اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے باعث آنے سے معذرت کر چکے ہیں۔ محض منصور اعجاز کے دعوؤں کی بنیاد پر حسین حقانی کے خلاف مقدمہ قائم نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ کمیشن بنانے کا راستہ اختیار کیا گیا اور ایف آئی آر کے اندراج کی ہدایت نہیں کی گئی۔

عدالت کے اصرار کے بعد اگر حسین حقانی کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا گیا تو وہ امریکی حکومت سے غیر معینہ مدت تک وہاں قیام کرنے کی اجازت حاصل کر سکتے ہیں جب کہ عدالت عظمیٰ حسین حقانی پر توہین عدالت کے الزام اور میمو کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے سکتی ہے، تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا غیرملکی حکام (جہاں سابق سفیر اب مقیم ہیں) کی جانب سے عدالتی حکم کی تعمیل کرانا ممکن ہو گی؟ قصہ کوتاہ یہ کہ انصاف کے تقاضے بلاتفریق سب کے لیے یکساں ہونے چاہئیں اور انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، یہی آزاد عدلیہ کی ''پہچان'' ہے۔
Load Next Story