بلاول اپنے نانا کی روایات برقرار نہ رکھ سکا

عوام امید کر رہے تھے کہ بلاول کوٹا سسٹم کے خاتمے کا اعلان کرے گا، لیاقت آباد آنے پر تحفہ دے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا

بلاول بھٹو زرداری فرزند کراچی ہیں تو ان کو بطور فرزند عوام کے بیچ میں ہونا ہوگا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ستر کی دہائی میں قائد عوام، سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں مشہور سپر مارکیٹ کا افتتاح کرنے آئے تھے جو حادثاتی طور پر جل جانے والی دکانوں کی جگہ پر بنا کر دی گئی تھی۔ اس موقعے پر لیاقت آباد کے ایک جوتا ساز نے اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے جوتے قائد عوام کو بطور تحفہ پیش کیے۔ اسی مقام پر بھٹو صاحب نے پاکستان کا سب سے پہلا اور مقبول ترین سیاسی نعرہ ''روٹی کپڑا اور مکان'' لگایا؛ اور ایک ایسا نعرہ دیا جو آج تک پیپلز پارٹی کےلیے ووٹ کے حصول کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

1974 کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان سب سے منفرد اور ہر دلعزیز ثابت ہوا۔ یہ نعرہ بہت مہارت سے تخلیق کیا گیا تھا جسے عوام کی بالکل بنیادی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا۔

اس بات کو 44 سال گزرچکے مگر آج بھی وہی نعرہ پیپلز پارٹی کےلیے اہم سلوگن ہےاور پہلے ہی کی طرح دلوں میں زندہ ہے۔ مگر اس بار بلاول نے کراچی کی عوام کو مایوس کیا۔ عوام امید کر رہے تھے کہ بلاول کوٹا سسٹم کے خاتمے کا اعلان کرے گا اور اردو بولنے والے سندھیوں کو کچھ خاص دے گا، 44 سال بعد لیاقت آباد آنے پر تحفہ دے گا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلاول، نانا کے نقش قدم پر چلتےہوئے لیاقت آباد تک تو آگئے مگر اسٹیج سے نیچے نہ اترے اور نہ ہی نانا جیسی کوئی چیز لیاقت آباد والوں کو دی نہ لی۔

یہ ایک روایتی پاور شو تھا جو پی پی نے اپنا ہوم ورک پورا نہ ہونے کی وجہ سے فلاپ کردیا۔ اس جلسے میں لیاقت آباد کے بسنے والوں نے ہی شرکت نہیں کی تو تحفے تحائف تو دور کی بات ہے۔ دوران رپورٹنگ میری 100 سے زیادہ لوگوں سے بات ہوئی جو دکانیں بند کرکے فٹ پاتھ پر بیٹھے تھے۔ ان سب کا یہی کہنا تھا کہ اس جلسے میں ہمارے لیےکچھ نیا نہیں، تو ہم کیوں جائیں۔

دوران گفتگو معلوم ہوا کہ لیاقت آباد کے عوام سے پیپلز پارٹی کے کسی بھی رہنما نے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی ان کے مسائل جاننے کی کوشش کی گئی۔ لیاقت آباد کے عوام کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ زرداری صاحب آرہے ہیں یا نہیں۔ بات چیت سے احساس ہوا کہ عوام اور رہنماؤں میں ذہنی مطابقت نہیں یا عوام انہیں قبول نہیں کرنا چاہتے کیونکہ جلسے سے پہلے ہی پی پی کے خلاف علاقے میں وال چاکنگ اور بینرز آویزاں کردیئے گئے تھے۔ علاقہ مکینوں سے با ت کرتے ہوئے اس طرح کے جملے سامنے آتے تھے: ''پی پی کا تحفہ، نہ بجلی نہ پانی اور یہ کچرے کے ڈھیر، اور پی پی والے مہاجروں کے قاتل۔'' عوام کا کہنا تھا کہ پی پی جو خرچہ جلسے پر کررہی ہے وہی خرچہ ہمارے پانی و صفائی کے مسائل حل کرنے پر کردیتی تو شاید ہمیں اچھا لگتا۔

جلسے کی وجہ سے ٹنکی گراؤنڈ کے اطراف سے کچرا و گندگی صاف کیا گیا تھا مگر یہ تو پہلے بھی ہوچکا ہے کہ جو بھی لیڈر یا دختر و پسر حاکم کا امکانِ آمد ہوا تو شہر سے کچرا ایسے غائب جیسے کوئی چور چپل بغل میں لیے دوڑ لگاتا ہے۔ مگر اس کے بعد جمعدار اور صفائی کرنے والے اس طرح بھول جاتے ہیں گویا کوئی بے وفا محبوبہ اپنے سچے عاشق کو بھول جاتی ہے۔ اگر یہ کام بغیر جلسے کے کرلیا جاتا تو شاید عوام کا دل جیتنے میں بلاول کامیاب ہوجاتے۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی، بلاول نے جن علاقوں میں رکنیت سازی مہم کے کیمپ لگائے تھے، وہاں پر صفائی مہم شروع کروا کر ایمرجنسی نافذ کروادیں اور خود لوگوں سے جاکر ملیں جس طرح اندرون سندھ میں عوام کے درمیان میں ہوتے ہیں۔ پھر دیکھیں کراچی والے کیسے بلاول کو خوش آمدید کہتے ہیں۔


بلاول بھٹو زرداری فرزند کراچی ہیں تو ان کو بطور فرزند عوام کے بیچ میں ہونا ہوگا۔ بھٹو عوامی لیڈر تھا اور عوامی لیڈر بننے کےلیے عوام کے درمیان جانا پڑتا ہے۔ لیاقت آباد کے جلسے کا یہ حال تھا کہ بلاول کے آنے کے بعد صحافیوں کو بھی پنڈال میں آنے نہیں دیا گیا اور مقامی رہنما دوران جلسہ خوف کا شکار رہے۔ ایک لیڈر بھی عوام اور میڈیا کے درمیان موجود نہیں تھا۔ تمام مقامی رہنما بلند و بالا اسٹیج پر سے عوام کو ہاتھ ہلاتے رہے۔ جلسوں کا مزہ تب آتا ہے جب عوام اپنے گھروں کی چھتوں اور دیواروں پر بیٹھ کر تالیاں بجاتے ہیں مگر یہاں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔

دوسری جانب جلسہ گاہ سے میلوں دور صحافیوں کو اپنی گاڑیاں کھڑی کرنا پڑیں۔ جلسہ گاہ تلک پہنچنے میں میڈیا کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا جو خوش آئند بات ہر گز نہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس بار پیپلز پارٹی کوریج نہیں چاہتی تھی حالانکہ بلاول ہاؤس سے میڈٰیا کے پاسز جاری کیے گئے تھے مگر پھر بھی بلاول کی آمد کے بعد بہت سے صحافیوں کو کارڈ ہونے کے باوجود میڈٰیا گیلری کی طرف نہیں جانے دیا گیا۔ ہم بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں کیونکہ ہم باہر عوام سے بات چیت کر رہے تھے، اس لیے ہم نے سوچا کہ بلاول کی آمد کے بعد میڈیا گیلری کی طرف جائیں گے مگر مجال ہے جو خوف میں مبتلا اہلکاروں نے ایک سنی ہو۔ بہرحال ہمارا کام تو باہر کھڑے ہو کر بھی ہورہا تھا۔ بس ہم نے اپنی رپورٹ بنا ہی لی۔

بقول پی پی رہنماؤں کے ''الطاف حسین کا چیپٹر کلوز ہوچکا ہے'' تو بلاول کی پوری تقریر صرف بانی ایم کیوایم پر کیوں تھی؟ اس کا مطلب الطاف حسین اب بھی کراچی میں موجود ہے۔ اب پی پی قیادت کی جانب سے سیاسی قیادت خصوصاً سابق وزیراعظم نوازشریف، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی چیئرمین کو تنقید کا نشانہ بنانا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی جمہوری جماعت آنے والے سیاسی حالات اور انتخابات میں اپنے سیاسی فلسفے، اپنی سیاسی تاریخ اور سب سے بڑے عوامی نعرے ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کے بجائے اب محض اپنی حریف سیاسی شخصیات کو ہدف بنائے گی۔

بلاول کی تقریر میں ایک بات تو سمجھ میں نہیں آئی کہ بلاول کونسے مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں جو ان سے چھینا گیا؟ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی کو ہم نیویارک جیسا بنائیں گے۔ تو کیا اس وقت سندھ میں ان کی حکومت نہیں؟ یا کراچی سندھ کا حصہ نہیں؟ بقول ان کے، ہماری پارٹی سے مینڈیٹ چھینا گیا پھر بھی ہم کام کرتے رہے۔ نہ جانے وہ کونسے کام کی بات کررہے تھے؟ چیف جسٹس کے حکم کے باوجود سندھ حکومت کچرا اٹھوانے میں مخلص نظر نہیں آئی۔

بلاول کی تقریروں میں ابھی تک پختگی نہیں آئی۔ لاہور میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 49 ویں یوم تاسیس کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وہ ملک کے اگلے وزیراعظم بننے والے ہیں؛ جبکہ ابھی 19 اپريل 2018 کو بی بی سی نیوز کے پروگرام 'ہارڈ ٹاک' میں اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بننے کی خواہش نہیں۔ اگر بلاول اسی طرح اپنی کہی ہوئی باتیں بھولتے رہے تو لوگ میاں صاحب کی طرح ان کی باتوں کو بھی سنجیدہ لینا چھوڑ دیں گے۔ دوسری بار بلاول کراچی میں جہاں بھی جلسہ کریں، ایک دن پہلے عوام کے درمیان جائیں کیونکہ کراچی کے عوام بھی بلاول کے بازو پر امام ضامن باندھنا چاہتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر پیار کرنا چاہتے ہیں۔ بلاول اپنے سب مقامی رہنماؤں کو عوام کے درمیان بھیجیں، بغیر سیکیورٹی کے، جس طرح چیف جسٹس صاحب نے حکم جاری کیا ہے کہ جو افسران موت سے ڈرتے ہیں وہ نوکری چھوڑ دیں۔ بالکل اسی طرح جو سیاست دان عوام کے درمیان آنے سے ڈرتے ہیں، وہ سیاست چھوڑ دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story