اقتدار اور میاں صاحب
میاں صاحب ارب پتی تھے اور ہیں لیکن وہ لاہور کے فٹ پاتھ سے اٹھ کر اقتدار میں پہنچے تھے
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف اس وقت اپنے سیاسی کیریئر کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں،وہ اپنے سیاسی سفر میں شروع سے ہی کامیابیوں سے سرفراز ہوتے آئے ہیں۔سیاسی خوش قسمتی ان کے دوازے پر مسلسل دستک دیتی رہی ہے اور وہ اس دستک پر اقتدار کے دروازے کو کھول کر اپنے کامیاب سیاسی سفر کو جاری رکھے ہوئے تھے کہ ایک بار پھر اقتدار کا یہ دروازہ ان پر بند کر دیا گیا لیکن اس بار وہ اقتدار سے اس طرح سے باہر نہیں نکالے گئے جیسے پہلے دو دفعہ ان کی دو تہائی جمہوری حکومت کو ختم کیاگیا تھا ۔
جس میں دوسری دفعہ تو وہ تخت اقتدار سے اتارے جانے کے بعد تختہ دار تک جانے سے بال بال بچے اور ان کے سعودی دوست ان کو اپنے ہاں مہمان بنا کر لیے گئے جہاں پر ایک اور شاہی زندگی ان کی منتظر تھی لیکن وہ شاہی زندگی کے باوجود پابند سلاسل تھے اور جب تک وہ سعودی عرب میں مقیم رہے سنہری جال میںایک قیدی پرندے کی طرح پھڑپھڑاتے ہی رہے اور ان کی اُڑان مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات تک ہی محدود رہی۔ یہ بھی ان کی خوش قسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ وہ ا پنی زندگی کے چند سال مقدس ترین مقامات میں گزار کر بالآخر لندن جا کر پناہ گزین ہوئے جہاں بیٹھ کر وہ ملک کی خدمت کے لیے بے چین رہے، اس دوران انھوں نے ایک بار ملک میں واپسی کی کوشش بھی کی جو کہ پرویز مشرف نے ناکام بناد ی اور ان کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے سعودی عرب بھجوا دیا گیا۔
میاں محمد نواز شریف کو میں نے پہلی بار ان کے ایمپریس روڈ والے دفتر میں دیکھا ۔ اس کے بعد جب ان کی سیاست شروع ہوئی تو اس اخبار نویس کا ان سے بار بار رابطہ ہوا ۔ ان کے ساتھ میرا وہ تعلق کبھی نہیں پیدا ہوا جو ایسے مقتدر اور مخیر لوگوں کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے یا بڑی محنت کے ساتھ قائم کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود میں ان کی یکطرفہ مہربانیوں کا شمار نہیں کر سکتا ،ان کی آنکھوں میں مجھے وہ حیا آج بھی نظر آتی ہے جو شروع دن سے میں نے دیکھی ہے اور اس حیا کو ان کی بے پناہ دولت اور شاید دوتہائی اکثریت والا بے مثل اقتدار بھی میلا نہ کر سکا، ان کی حیا کا یہ جوہر انھیں کہاں سے ملا یہ مجھے معلوم نہیں لیکن ایسے وصف قدرت کا عطیہ ہوتے ہیں کسی کی نصیحت سے پیدا نہیں ہوتے ۔
میاں صاحب ارب پتی تھے اور ہیں لیکن وہ لاہور کے فٹ پاتھ سے اٹھ کر اقتدار میں پہنچے تھے، وہ ایک مزدور خاندان کے فرد تھے اور ان سے عوام کی یہ توقعات تھیں کہ چونکہ وہ ان میں سے ہیں اس لیے ان نمایندگی کا اصل حق ان کا ہی ہے، اس لیے انھوں نے تیسری بار بھی اقتدار کا ہما ان کے سر پر بٹھا دیا،اس امید پر کہ وہ نچلے طبقے کی نمایندگی کا حق ادا کریں گے جیسا کہ وہ اپنے سیاسی جلسوں میں سیاسی تقریروں میں کہتے آئے تھے لیکن وہ تقر یریں سیاسی ہی رہیں اور میاں صاحب تیسری بار اقتدار میں آکر عوام سے بہت دور چلے گئے اور لاہور کے چوک دالگراں کے فٹ پاتھ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گئے، صرف ان کی خوشگوار یا ناگواریادیں ہی باقی رہ گئیں ۔
میاں نواز شریف کو خدا نے کیا کچھ نہیں دیا، دولت شہرت اقتدار کی بے پناہ طاقت یہ سب ان پر خدا کا خاص کرم ہی تھا ورنہ ان جیسے کئی ارب پتی جیبیں بھرے اقتدار کے ایوانوں کے باہر مقتدر لوگوں کے اشاروں کے منتظر رہے لیکن اقتدار کی یہ بازی نواز شریف لے گئے۔ جب بریگیڈیئر قیوم نے جنرل جیلانی مرحوم سے کہاکہ آپ نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیں تو وہ حیرت زدہ ہو کر اپنی نشست سے اچھل پڑے اور پھر حالات نے پلٹا کھایا اور میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ان کی وزارت اعلیٰ سے پہلے کی وزارت کی ایک سر گوشی کا میں بھی گواہ ہوں جو کہ مرحوم میاں محمد شریف نے میاں امیر الدین کے کان میں میرے سامنے کی تھی، اس کے بارے میں مزید عرض نہیں کرنا چاہتا کہ وہ دونوں ہستیاں اب اس دنیا میں نہیں ہیں، ا سلیے میرے پاس ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسری گواہی موجود نہیں۔
وزرارت اعلیٰ کے بعد جب وزارت عظمیٰ کے لیے جنرل ضیاء الحق کے سامنے میاں نواز شریف کا نام لیا گیا تو انھوں نے لاحول ولاقوۃ پڑھ دیا لیکن بعد میں پھر اسی میاں نواز شریف کے نام اپنی عمر بھی لکھ گئے ۔پاکستان سیاست کے ایک خوش قسمت سیاستدان نواز شریف کی قسمت نے قدم قدم پر یاوری کی اور جس عہدے کی بھی خواہش ان کے دل کے کسی کونے میں بھی تھی وہ ان کو مل گیا، دوسرے لفظوںمیں مٹی کو سونا بنا دیا، میاں صاحب کے لیے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لوہے کو سونے میں ڈھالنے کا فن جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا تھا اس کا انھوں نے سیاست کے بازار میں بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا اور اسی فن کے سہارے وہ اقتدار کی سیڑھیاںگھاگ سیاستدانوں سے بچ بچا کر چڑھتے ہی چلے گئے جیسے لڈو کے کھیل میں سانپ سے بچ کر گوٹ ننانوے کے ہندسہ تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتی ہے ۔
وہ اسی اقتدار کے نشے میں اونچا اڑتے ہی رہے تا آنکہ ان کو پہلی دفعہ ایک رینکر بیو روکریٹ مرحوم غلام اسحاق خان نے وزارت عظمیٰ کی کرسی سے الگ کر دیا، وہی وزارت عظمیٰ کی کرسی تھی جس کے لیے وہ جب حلف اُٹھا رہے تھے تو ان کے والد میاں شریف مرحوم نے اس حلف برداری کی تقریب میں یہ کہتے ہوئے شرکت سے معذرت کر لی کہ نواز میں یہ خوشی برداشت نہیں کر پاؤں گا لیکن میرے فلاں دوست تمہارے سامنے موجود ہوں گے، ان کو دیکھ کر یہ سمجھ لینا کہ میں موجود ہوں۔ پہلے اقتدار اعلیٰ سے محرومی کے بعد نواز شریف نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا، بحال بھی ہو گئے لیکن پھر اپنے ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی مستعفیٰ کراگئے اور اقتدار اگلی مدت کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جھولی میںڈال گئے لیکن محترمہ کے اپنے بنائے گئے صدر مرحوم فاروق لغاری نے جب بینظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس سازش کے پردے میں پھر بھی دوبارہ اقتدار کی خواہش میں میاں نواز شریف کا نام ہی گونجتا رہا۔
جس میں دوسری دفعہ تو وہ تخت اقتدار سے اتارے جانے کے بعد تختہ دار تک جانے سے بال بال بچے اور ان کے سعودی دوست ان کو اپنے ہاں مہمان بنا کر لیے گئے جہاں پر ایک اور شاہی زندگی ان کی منتظر تھی لیکن وہ شاہی زندگی کے باوجود پابند سلاسل تھے اور جب تک وہ سعودی عرب میں مقیم رہے سنہری جال میںایک قیدی پرندے کی طرح پھڑپھڑاتے ہی رہے اور ان کی اُڑان مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات تک ہی محدود رہی۔ یہ بھی ان کی خوش قسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ وہ ا پنی زندگی کے چند سال مقدس ترین مقامات میں گزار کر بالآخر لندن جا کر پناہ گزین ہوئے جہاں بیٹھ کر وہ ملک کی خدمت کے لیے بے چین رہے، اس دوران انھوں نے ایک بار ملک میں واپسی کی کوشش بھی کی جو کہ پرویز مشرف نے ناکام بناد ی اور ان کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے سعودی عرب بھجوا دیا گیا۔
میاں محمد نواز شریف کو میں نے پہلی بار ان کے ایمپریس روڈ والے دفتر میں دیکھا ۔ اس کے بعد جب ان کی سیاست شروع ہوئی تو اس اخبار نویس کا ان سے بار بار رابطہ ہوا ۔ ان کے ساتھ میرا وہ تعلق کبھی نہیں پیدا ہوا جو ایسے مقتدر اور مخیر لوگوں کے ساتھ پیدا ہو جاتا ہے یا بڑی محنت کے ساتھ قائم کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود میں ان کی یکطرفہ مہربانیوں کا شمار نہیں کر سکتا ،ان کی آنکھوں میں مجھے وہ حیا آج بھی نظر آتی ہے جو شروع دن سے میں نے دیکھی ہے اور اس حیا کو ان کی بے پناہ دولت اور شاید دوتہائی اکثریت والا بے مثل اقتدار بھی میلا نہ کر سکا، ان کی حیا کا یہ جوہر انھیں کہاں سے ملا یہ مجھے معلوم نہیں لیکن ایسے وصف قدرت کا عطیہ ہوتے ہیں کسی کی نصیحت سے پیدا نہیں ہوتے ۔
میاں صاحب ارب پتی تھے اور ہیں لیکن وہ لاہور کے فٹ پاتھ سے اٹھ کر اقتدار میں پہنچے تھے، وہ ایک مزدور خاندان کے فرد تھے اور ان سے عوام کی یہ توقعات تھیں کہ چونکہ وہ ان میں سے ہیں اس لیے ان نمایندگی کا اصل حق ان کا ہی ہے، اس لیے انھوں نے تیسری بار بھی اقتدار کا ہما ان کے سر پر بٹھا دیا،اس امید پر کہ وہ نچلے طبقے کی نمایندگی کا حق ادا کریں گے جیسا کہ وہ اپنے سیاسی جلسوں میں سیاسی تقریروں میں کہتے آئے تھے لیکن وہ تقر یریں سیاسی ہی رہیں اور میاں صاحب تیسری بار اقتدار میں آکر عوام سے بہت دور چلے گئے اور لاہور کے چوک دالگراں کے فٹ پاتھ ماضی کے دھندلکوں میں گم ہو گئے، صرف ان کی خوشگوار یا ناگواریادیں ہی باقی رہ گئیں ۔
میاں نواز شریف کو خدا نے کیا کچھ نہیں دیا، دولت شہرت اقتدار کی بے پناہ طاقت یہ سب ان پر خدا کا خاص کرم ہی تھا ورنہ ان جیسے کئی ارب پتی جیبیں بھرے اقتدار کے ایوانوں کے باہر مقتدر لوگوں کے اشاروں کے منتظر رہے لیکن اقتدار کی یہ بازی نواز شریف لے گئے۔ جب بریگیڈیئر قیوم نے جنرل جیلانی مرحوم سے کہاکہ آپ نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیں تو وہ حیرت زدہ ہو کر اپنی نشست سے اچھل پڑے اور پھر حالات نے پلٹا کھایا اور میاں صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ان کی وزارت اعلیٰ سے پہلے کی وزارت کی ایک سر گوشی کا میں بھی گواہ ہوں جو کہ مرحوم میاں محمد شریف نے میاں امیر الدین کے کان میں میرے سامنے کی تھی، اس کے بارے میں مزید عرض نہیں کرنا چاہتا کہ وہ دونوں ہستیاں اب اس دنیا میں نہیں ہیں، ا سلیے میرے پاس ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسری گواہی موجود نہیں۔
وزرارت اعلیٰ کے بعد جب وزارت عظمیٰ کے لیے جنرل ضیاء الحق کے سامنے میاں نواز شریف کا نام لیا گیا تو انھوں نے لاحول ولاقوۃ پڑھ دیا لیکن بعد میں پھر اسی میاں نواز شریف کے نام اپنی عمر بھی لکھ گئے ۔پاکستان سیاست کے ایک خوش قسمت سیاستدان نواز شریف کی قسمت نے قدم قدم پر یاوری کی اور جس عہدے کی بھی خواہش ان کے دل کے کسی کونے میں بھی تھی وہ ان کو مل گیا، دوسرے لفظوںمیں مٹی کو سونا بنا دیا، میاں صاحب کے لیے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ لوہے کو سونے میں ڈھالنے کا فن جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھا تھا اس کا انھوں نے سیاست کے بازار میں بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا اور اسی فن کے سہارے وہ اقتدار کی سیڑھیاںگھاگ سیاستدانوں سے بچ بچا کر چڑھتے ہی چلے گئے جیسے لڈو کے کھیل میں سانپ سے بچ کر گوٹ ننانوے کے ہندسہ تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتی ہے ۔
وہ اسی اقتدار کے نشے میں اونچا اڑتے ہی رہے تا آنکہ ان کو پہلی دفعہ ایک رینکر بیو روکریٹ مرحوم غلام اسحاق خان نے وزارت عظمیٰ کی کرسی سے الگ کر دیا، وہی وزارت عظمیٰ کی کرسی تھی جس کے لیے وہ جب حلف اُٹھا رہے تھے تو ان کے والد میاں شریف مرحوم نے اس حلف برداری کی تقریب میں یہ کہتے ہوئے شرکت سے معذرت کر لی کہ نواز میں یہ خوشی برداشت نہیں کر پاؤں گا لیکن میرے فلاں دوست تمہارے سامنے موجود ہوں گے، ان کو دیکھ کر یہ سمجھ لینا کہ میں موجود ہوں۔ پہلے اقتدار اعلیٰ سے محرومی کے بعد نواز شریف نے عدالتوں سے بھی رجوع کیا، بحال بھی ہو گئے لیکن پھر اپنے ساتھ غلام اسحاق خان کو بھی مستعفیٰ کراگئے اور اقتدار اگلی مدت کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جھولی میںڈال گئے لیکن محترمہ کے اپنے بنائے گئے صدر مرحوم فاروق لغاری نے جب بینظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس سازش کے پردے میں پھر بھی دوبارہ اقتدار کی خواہش میں میاں نواز شریف کا نام ہی گونجتا رہا۔