پھر خاموشی چھا جائے گی
ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی کے لواحقین کے لیے 2کروڑ روپے معاوضے کا اعلان ہوا
ڈاکٹر وحید الرحمن عرف یاسر رضوی اپنی اہلیہ اور دوبچیوں کے ساتھ لطیف پلازہ واٹر پمپ میں کئی برسوں سے مقیم تھے ۔ اس فلیٹ میں وہ اپنی والدہ کے ہمراہ آئے تھے مگر والدہ کچھ عرصہ قبل انتقال کرگئی تھیں ۔ یاسر رضوی کو اپنی ماں سے گہری محبت تھی۔ وہ مہینوں والدہ کی قبر پر حاضری دیتے رہے۔ یاسر رضوی کے والد ان کے بچپن میں انتقال کرگئے تھے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ابتدائی عمر سے محنت کو اپنا شعار بنایا اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔پہلے چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، پھر پاکستان اسٹینڈرڈ انسٹی ٹیوٹ میں ملازم ہوگئے۔
اردو کالج سے ایم اے کیا اور اخبارات میں کام کرنا شروع کیا۔ پہلے اپنی صحافتی کیریئر کی ابتداء پہلی سندھی نیوز ایجنسی سے کی، پھر مقامی اخبار میں رپورٹر ہو گئے۔ یہ اخبار مذہبی انتہاپسندی کے منشور اور اپنے نظریے کے مخالف سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کو پاکستانی اور مسلمان نہیں سمجھتا تھا مگر یاسر رضوی نے اپنی رپورٹنگ میں حقائق کو اہمیت دی۔ کسی قسم کے ایجنڈے کو اپنی خبروں کی بنیاد نہیں بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مخالف سیاسی جماعتوں اور مذہبی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ وفاقی اردو کالج یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کرگیا ۔
یاسر رضوی نے شعبہ ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کے کورس میں داخلہ لیا ۔ پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے لیے مقالہ لکھنا ضروری ہوتاہے۔ مقالے کے لیے مواد کا حصول جان جوکھوں کا کام ہے ، جو اساتذہ تحقیق شروع کرتے ہیں تو وہ تدریس سے رخصت حاصل کرلیتے ہیں مگر یاسر رضوی کی لغت میں چھٹی کا تصور نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیاں جاری رکھیں اور تحقیق کے لیے بھی وقت نکالا۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ یاسر رات گئے تک کام کرتے، اور پھر صبح دفتر چلے جاتے۔ یاسر رضوی نے مقررہ مدت میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوگئے ۔
ڈاکٹر یاسر رضوی نے اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی مدد سے بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد ہوئیں ، ٹی وی لیب اور ریڈیو اسٹیشن تعمیر ہوئے ، ڈاکٹر یاسر رضوی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے۔انھوں نے کلیہ معارف اسلامی کے ڈین پروفیسر شکیل اوج کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ مرتب کیا تھا۔ یوں وہ پروفیسر شکیل اوج کے قریبی شاگردوں کے حلقے میں داخل ہوگئے۔
ڈاکٹر شکیل اوج نے مروجہ روایات سے ہٹ کر اسلامیات کے مختلف موضوعات پر تحقیق کی تھی، یہی وجہ تھی کہ مذہبی انتہا پسند ان کے دشمن ہوگئے۔ ڈاکٹر شکیل اوج ایک بہادر شخص تھے۔ انھوں نے کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور پرزور انداز اپنالیا،ڈاکٹر شکیل اوج کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی مگر شکیل اوج کے عزائم بلند رہے۔ شکیل اوج نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہوگئے۔ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف سمیت تمام افراد نے ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی مذمت کی۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے خصوصی ٹیمیں بنائیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو تفتیشی ٹیموں میں شامل کیا گیا مگر قاتل گرفتار نہ ہوئے۔
ڈاکٹر یاسر رضوی 29 اپریل 2015ء کو صبح دس بجے گھر سے اپنی کار میں روانہ ہوئے۔ انھوں نے کچھ عرصہ قبل ہی ڈرائیونگ سیکھی تھی اور سیکنڈ ہینڈ کار کے مالک ہوگئے تھے ۔ ڈاکٹر یاسر رضوی کی اہلیہ صدف کچھ عرصہ سے بیمار تھیں، یاسر نے انھیں دوائی کھلانی تھی۔ صدف کا دل اس دن با بار گھبرا رہا تھا۔ جب یاسر بلدیہ کے امراض قلب اسپتال کے سامنے پہنچے تو سڑک پر خاصی چہل پہل تھی۔ گاڑیاں معمول کے مطابق دوڑ رہی تھیں۔ دور فٹ پاتھ پر ٹھیلے والے بھی موجود تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان یاسرکا تعاقب کرتے ہوئے آئے۔
ان نوجوانوں نے ہیلمٹ سے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے۔ شاید ایک نوجوان موبائل پر کسی سے بات کررہا تھا۔ جیسے ہی ڈاکٹر یاسر کی کار چوراہے پر پہنچی ان نوجوانوں نے یاسر پر اندھادھند گولیاں چلائیں۔ ان نوجوانوں نے اس وقت تک فائرنگ بند نہ کی جب تک ان کو یقین نہ ہوگیا کہ یاسر دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔ یاسر رضوی کو عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا۔
ٹی وی اسکرین پر ڈاکٹر یاسر رضوی کے انتقال کی بریکنگ نیوز چلنے لگی۔ اساتذہ، صحافی، طلبہ، سیاسی کارکن اور رشتے دار اسپتال پہنچے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر بھی آئے۔ پولیس افسروں نے شہر کی ناکہ بندی کا اعلان کیا۔ جیو فینسنگ کے ماہرین نے قتل کے مقام سے الیکٹرونک سگنل کو جمع کر کے تجزیہ شروع کیا۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ نے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کردی۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اساتذہ کے وفد کو چیف منسٹر ہاؤس بلایا۔ ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی کے لواحقین کے لیے 2کروڑ روپے معاوضے کا اعلان ہوا اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یاسر کی اہلیہ اور دو بیٹیوں نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کی۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اعلان کیا کہ یاسر کے اہل خانہ کو پنشن دی جائے گی۔ کراچی یونیوسٹی کی سنڈیکیٹ کے اراکین، انجمن اساتذہ اورکراچی یونیورسٹی کے عہدیداروں نے بلند بانگ دعوے کیے۔
ایوان صدر کے اہلکار دعوے کرتے ہی رہ گئے مگر کچھ نہ ہوا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد اسامہ شفیق نے دوستی کا حق ادا کیا۔ یاسر کے بچوں کے لیے صرف مکان کا کرایہ ادا کرنے کا حتمی فیصلہ ہوا باقی دعوے اخبارات کی فائلوں میں کھوگئے۔ یاسر کے سابق دوست مسرور احمد مرحوم اپنی زندگی کے آخری لمحے تک یاسر کے لواحقین کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ ایجوکیشن رپورٹنگ کرنے والے صحافی محمد عسکری اور زیبسٹ کے کلیہ سماجی علوم کے سربراہ ڈاکٹر ریاض شیخ کی کوششوں سے کچھ رقم وزیر اعلیٰ ہاؤس نے فراہم کی۔
پولیس والے پہلے تو یاسر کے قاتلوں کی گرفتاری کی خبریں شایع اور نشر کراتے رہے پھر حتمی طور پر طے ہوگیا کہ کراچی پولیس قاتلوں کو تلاش نہ کر پائی اور یہ کیس داخل دفتر کردیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد سب مکمل ہوگئے مگر نہ تو ڈاکٹر شکیل اوج اور نہ ہی ڈاکٹر یاسر رضوی کے قاتلوں کا پتہ چل سکا۔ اساتذہ کی انجمنوں نے چند مہینے تک قاتلوں کی گرفتاری کے لیے قراردادیں اپنے ایجنڈے میں شامل رکھیں پھر اساتذہ بھی اپنے قتل ہونے والے ساتھیوں کو بھول گئے۔ ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے تھا۔ دونوں بغیرکسی سفارش یا دباؤ کے محنت کرکے اساتذہ کے درجے پر فائز ہوئے تھے۔ ان اساتذہ کی اس ریاستی ڈھانچے میں خاص اہمیت نہیں تھی۔
دہشت گردی کی اس جنگ میں تو لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں اساتذہ، صحافی، وکلاء، ڈاکٹر، جج، خواتین، سیاسی کارکن اور سماجی رہنما شامل ہیں مگر ان میں سے بیشتر کو نہ توکوئی معاوضہ ملا نہ قاتلوں کو سزا ملی، یوں رونا کس بات کا ہے ؟ یاسین آباد کے قبرستان میں مغرب کی نماز کے بعد جب یاسرکو لحد میں اتارا جا رہا تھا تو خرم مشتاق کی آواز آرہی تھی کہ یاسر دفن ہوگئے، سب گھروں کو چلے جائیں گے اور پھر خاموشی ہوجائے گی۔ آج تین سال بعد محسوس ہورہا ہے کہ خرم کی بات ہی صحیح تھی۔ مگر کیا اساتذہ قتل ہوتے رہیں گے، حکومت دعوے کرتے رہے گی ، قاتل آزاد رہیں گے اور پھر خاموشی ہوجائے گی؟
اردو کالج سے ایم اے کیا اور اخبارات میں کام کرنا شروع کیا۔ پہلے اپنی صحافتی کیریئر کی ابتداء پہلی سندھی نیوز ایجنسی سے کی، پھر مقامی اخبار میں رپورٹر ہو گئے۔ یہ اخبار مذہبی انتہاپسندی کے منشور اور اپنے نظریے کے مخالف سیاسی جماعتوں اور شخصیتوں کو پاکستانی اور مسلمان نہیں سمجھتا تھا مگر یاسر رضوی نے اپنی رپورٹنگ میں حقائق کو اہمیت دی۔ کسی قسم کے ایجنڈے کو اپنی خبروں کی بنیاد نہیں بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مخالف سیاسی جماعتوں اور مذہبی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ وفاقی اردو کالج یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کرگیا ۔
یاسر رضوی نے شعبہ ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کے کورس میں داخلہ لیا ۔ پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے لیے مقالہ لکھنا ضروری ہوتاہے۔ مقالے کے لیے مواد کا حصول جان جوکھوں کا کام ہے ، جو اساتذہ تحقیق شروع کرتے ہیں تو وہ تدریس سے رخصت حاصل کرلیتے ہیں مگر یاسر رضوی کی لغت میں چھٹی کا تصور نہیں تھا۔ انھوں نے اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیاں جاری رکھیں اور تحقیق کے لیے بھی وقت نکالا۔ ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ یاسر رات گئے تک کام کرتے، اور پھر صبح دفتر چلے جاتے۔ یاسر رضوی نے مقررہ مدت میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوگئے ۔
ڈاکٹر یاسر رضوی نے اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کی مدد سے بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد ہوئیں ، ٹی وی لیب اور ریڈیو اسٹیشن تعمیر ہوئے ، ڈاکٹر یاسر رضوی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوگئے۔انھوں نے کلیہ معارف اسلامی کے ڈین پروفیسر شکیل اوج کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کا مقالہ مرتب کیا تھا۔ یوں وہ پروفیسر شکیل اوج کے قریبی شاگردوں کے حلقے میں داخل ہوگئے۔
ڈاکٹر شکیل اوج نے مروجہ روایات سے ہٹ کر اسلامیات کے مختلف موضوعات پر تحقیق کی تھی، یہی وجہ تھی کہ مذہبی انتہا پسند ان کے دشمن ہوگئے۔ ڈاکٹر شکیل اوج ایک بہادر شخص تھے۔ انھوں نے کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور پرزور انداز اپنالیا،ڈاکٹر شکیل اوج کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی مگر شکیل اوج کے عزائم بلند رہے۔ شکیل اوج نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار ہوگئے۔ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف سمیت تمام افراد نے ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی مذمت کی۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے خصوصی ٹیمیں بنائیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو تفتیشی ٹیموں میں شامل کیا گیا مگر قاتل گرفتار نہ ہوئے۔
ڈاکٹر یاسر رضوی 29 اپریل 2015ء کو صبح دس بجے گھر سے اپنی کار میں روانہ ہوئے۔ انھوں نے کچھ عرصہ قبل ہی ڈرائیونگ سیکھی تھی اور سیکنڈ ہینڈ کار کے مالک ہوگئے تھے ۔ ڈاکٹر یاسر رضوی کی اہلیہ صدف کچھ عرصہ سے بیمار تھیں، یاسر نے انھیں دوائی کھلانی تھی۔ صدف کا دل اس دن با بار گھبرا رہا تھا۔ جب یاسر بلدیہ کے امراض قلب اسپتال کے سامنے پہنچے تو سڑک پر خاصی چہل پہل تھی۔ گاڑیاں معمول کے مطابق دوڑ رہی تھیں۔ دور فٹ پاتھ پر ٹھیلے والے بھی موجود تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دو موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوان یاسرکا تعاقب کرتے ہوئے آئے۔
ان نوجوانوں نے ہیلمٹ سے اپنے چہرے چھپائے ہوئے تھے۔ شاید ایک نوجوان موبائل پر کسی سے بات کررہا تھا۔ جیسے ہی ڈاکٹر یاسر کی کار چوراہے پر پہنچی ان نوجوانوں نے یاسر پر اندھادھند گولیاں چلائیں۔ ان نوجوانوں نے اس وقت تک فائرنگ بند نہ کی جب تک ان کو یقین نہ ہوگیا کہ یاسر دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔ یاسر رضوی کو عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا۔
ٹی وی اسکرین پر ڈاکٹر یاسر رضوی کے انتقال کی بریکنگ نیوز چلنے لگی۔ اساتذہ، صحافی، طلبہ، سیاسی کارکن اور رشتے دار اسپتال پہنچے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر بھی آئے۔ پولیس افسروں نے شہر کی ناکہ بندی کا اعلان کیا۔ جیو فینسنگ کے ماہرین نے قتل کے مقام سے الیکٹرونک سگنل کو جمع کر کے تجزیہ شروع کیا۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ نے غیر معینہ مدت کے لیے ہڑتال کردی۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اساتذہ کے وفد کو چیف منسٹر ہاؤس بلایا۔ ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی کے لواحقین کے لیے 2کروڑ روپے معاوضے کا اعلان ہوا اور قاتلوں کی فوری گرفتاری کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یاسر کی اہلیہ اور دو بیٹیوں نے اپنی زندگی دوبارہ شروع کی۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اعلان کیا کہ یاسر کے اہل خانہ کو پنشن دی جائے گی۔ کراچی یونیوسٹی کی سنڈیکیٹ کے اراکین، انجمن اساتذہ اورکراچی یونیورسٹی کے عہدیداروں نے بلند بانگ دعوے کیے۔
ایوان صدر کے اہلکار دعوے کرتے ہی رہ گئے مگر کچھ نہ ہوا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد اسامہ شفیق نے دوستی کا حق ادا کیا۔ یاسر کے بچوں کے لیے صرف مکان کا کرایہ ادا کرنے کا حتمی فیصلہ ہوا باقی دعوے اخبارات کی فائلوں میں کھوگئے۔ یاسر کے سابق دوست مسرور احمد مرحوم اپنی زندگی کے آخری لمحے تک یاسر کے لواحقین کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہے۔ ایجوکیشن رپورٹنگ کرنے والے صحافی محمد عسکری اور زیبسٹ کے کلیہ سماجی علوم کے سربراہ ڈاکٹر ریاض شیخ کی کوششوں سے کچھ رقم وزیر اعلیٰ ہاؤس نے فراہم کی۔
پولیس والے پہلے تو یاسر کے قاتلوں کی گرفتاری کی خبریں شایع اور نشر کراتے رہے پھر حتمی طور پر طے ہوگیا کہ کراچی پولیس قاتلوں کو تلاش نہ کر پائی اور یہ کیس داخل دفتر کردیا گیا۔ آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد سب مکمل ہوگئے مگر نہ تو ڈاکٹر شکیل اوج اور نہ ہی ڈاکٹر یاسر رضوی کے قاتلوں کا پتہ چل سکا۔ اساتذہ کی انجمنوں نے چند مہینے تک قاتلوں کی گرفتاری کے لیے قراردادیں اپنے ایجنڈے میں شامل رکھیں پھر اساتذہ بھی اپنے قتل ہونے والے ساتھیوں کو بھول گئے۔ ڈاکٹر شکیل اوج اور ڈاکٹر یاسر رضوی کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے تھا۔ دونوں بغیرکسی سفارش یا دباؤ کے محنت کرکے اساتذہ کے درجے پر فائز ہوئے تھے۔ ان اساتذہ کی اس ریاستی ڈھانچے میں خاص اہمیت نہیں تھی۔
دہشت گردی کی اس جنگ میں تو لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں اساتذہ، صحافی، وکلاء، ڈاکٹر، جج، خواتین، سیاسی کارکن اور سماجی رہنما شامل ہیں مگر ان میں سے بیشتر کو نہ توکوئی معاوضہ ملا نہ قاتلوں کو سزا ملی، یوں رونا کس بات کا ہے ؟ یاسین آباد کے قبرستان میں مغرب کی نماز کے بعد جب یاسرکو لحد میں اتارا جا رہا تھا تو خرم مشتاق کی آواز آرہی تھی کہ یاسر دفن ہوگئے، سب گھروں کو چلے جائیں گے اور پھر خاموشی ہوجائے گی۔ آج تین سال بعد محسوس ہورہا ہے کہ خرم کی بات ہی صحیح تھی۔ مگر کیا اساتذہ قتل ہوتے رہیں گے، حکومت دعوے کرتے رہے گی ، قاتل آزاد رہیں گے اور پھر خاموشی ہوجائے گی؟