پاناما محض بہانہ تھا
جن لوگوں نے پاکستانی عوام کا پیسہ لوٹا ہے وہ ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں
میاں نواز شریف اور اُن کے ساتھیوں کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جس پارٹی کو آنے والے انتخابات میں عوام کے ووٹوں سے شکست نہیں دی جاسکتی تھی، اُسے احتساب کے نام پر عدلیہ کے ذریعے شکست دی جا رہی ہے۔ پانامہ کے معاملے سے شروع ہونے والا احتساب میں ابھی تک ایک بھی فیصلہ اُس میں لگائے گئے الزامات کے حوالے سے نہیں آیا ہے۔ آئین کی شق نمبر 62اور 63 کے تحت کسی کے صادق اور امین نہ رہنے کے فیصلوں میں بھی بہت سے ابہام موجود ہیں۔لال حویلی راولپنڈی کے مکین شیخ رشید کی پٹیشن میں بھی جس کے بارے میں موصوف کا دعویٰ ہے کہ عدلیہ نے اُنہی کی پٹیشن پر میاں صاحب کو نااہل قراردیا ہے قطعاً ایسی کوئی استدعا نہیں کی گئی تھی جو دبئی کے اقامہ پر منتج ہوتی ہو۔وہاں تو میاں صاحب کی اُن مختلف تقاریر اور بیانوں پر اعتراض اُٹھایاگیا تھا جو انھوں نے لند ن میں بنائے گئے اپنے فلیٹوں سے متعلق پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ سے باہر دیے تھے اور اِسی حوالے سے انھیں نا اہل قرار دینے اور صادق اور امین کی سند نہ عطا کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
دیکھا جائے تو پانامہ کیس کو موضوع بحث بناتے ہوئے دو سال بیت چکے ہیں اور ابھی تک ایک بھی فیصلہ اُس میں لگائے گئے الزامات کے حوالے سے سامنے نہیں آیا ہے۔ جو فیصلے آئے بھی ہیں تو وہ بھی پانامہ سے ہٹ کر کسی اور الزام کے تحت آئے ہیں۔ فیصلہ چاہے میاں نواز شریف کا ہو، جہانگیر ترین کا ہو یا پھر خواجہ آصف کاکسی فیصلے میں بھی پانامہ کے ایشو پرکوئی با ت نہیں کی گئی۔ آنے والے دنوں میں ممکن ہے اور بھی فیصلے آئیں گے مگر ایک بات یقین سے کی جاسکتی ہے کہ اُن فیصلوں میں بھی پانامہ پیپرز میں لگائے گئے کسی الزام کو زیر بحث نہیں لایاجائے گا۔ایسا لگتا ہے کہ پانامہ تو بس اک بہانہ تھا۔ اصل مقصد میاں صاحب اوراُن کی پارٹی کو نشانہ بنانا تھا۔
یہ اور بات ہے جب گندم یا گیہوں کو پیسا جاتا ہے تو ساتھ ساتھ گھن بھی پیس جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ جہانگیر ترین کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ جہانگیر ترین بے چارے عدلیہ کی اُن مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ گئے جواُسے غیر جانبدار اورلوگوں کی نظروں میں زیادہ معتبر بنانے کی غرض سے اپنائی گئیں تھی۔ ویسے بھی جہانگیر ترین کو نااہل قراردینے سے تحریک انصاف کا کوئی زیادہ نقصان تو ہونا ہی نہیں تھا جتنا مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کو ہٹانے سے اُس پارٹی کا ہوا۔ایک پارٹی سربراہ کو اور ایک کسی پارٹی کے ادنیٰ سے رکن کا ہٹایا جاناکسی بھی لحاظ سے ہم وزن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اِس فیصلے کو خاموشی کے ساتھ ہضم کرگئی۔ جہانگیر ترین کی بجائے اگر تحریک انصاف کے چیئرمین کو نااہل قرار دیا جاتا توآج تحریک انصاف بھی یقینا اُسی طرح تلملا رہی ہوتی جس طرح مسلم لیگ (ن) تلملا رہی ہے۔
دستور پاکستان میں 62اور 63کی شقیں شامل کرنے والوں کی نظروں میں ارکان پارلیمنٹ کے صادق اور امین قرار دیے جانے کے حوالے سے معیارات شاید وہ نہیں تھے جو آج اُس کی تشریح کرنے والوں نے از خود سمجھ لیے ہیں۔ صادق اور امین کہلانے کے لیے تو ہمارے مذہب میں بہت ہی سخت شرطیں لگی ہوئی ہیں۔ سیرت اور اخلاق و کردار سمیت زندگی کے ہر شعبہ میں اُسے اپنی قوم کے لیے مثالی نمونہ بننا ہوتا ہے، مگر کیا ہمارے یہاں ایک بھی رکنِ پارلیمنٹ سیرت و کردار کے اِن اعلیٰ معیارات پر پورا اُتر تا ہے۔ جرائم کی نوعیت اوراُس کے لیے سزا کا تعین کرنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ عدل و انصاف کے کن اعلیٰ و ارفع معیارات کو قائم کررہے ہیں۔
یہاں آج غضب کرپشن کی بے شمارداستانیں رقم کرنے والے اور اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکیاں دینے والے تو بے خوف وخطر گھوم پھر رہے ہیں اور جنہوں نے اِس ملک کو انتشار اور انحطاط کے اندھیروں سے نکال کردرست سمت میں گامزن کرنا چاہا وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ احتساب اگرکرنا ہے تو سب کا کرنا ہوگا۔ مخصوص اور سلیکٹڈ احتساب اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ لوگ ایسے احتساب کو تسلیم نہیں کیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ دو سال کی مشقت کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) پر سے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل نہیں کیا جاسکا۔ لوگ آج بھی مسلم لیگ (ن) کی چار سالہ کارکردگی کی وجہ سے اُس سے جڑے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح اپنا وقت گزارا ہوتا تو لوگ خود ہی اُس سے متنفر ہوچکے ہوتے اوراُس کے لیے کسی کو عدالتوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا اور تحریک انصاف کے کپتان کو اپنی کامیابی کے لیے اتنے جتن نہیںکرنے پڑتے۔کیا وجہ ہے کہ خان صاحب آج بھی اگر خوفزدہ ہیں تو صرف مسلم لیگ (ن) ہی سے ہیں ۔ انھیں پیپلز پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
عدل و انصاف کی فراہمی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ذمے داراںکو سوچنا ہوگا کہ اُن کے اب تک کیے گئے فیصلوں سے انصاف کا کتنا بول بالا ہوا ہے۔کیا انھوں نے پاناما کیس کے کسی ایک پہلو پر بھی کوئی غور کیا ہے۔ میاں صاحب کے علاوہ 480 افراد میں سے کسی ایک شخص کی بھی آف شورکمپنی کا معاملہ اُٹھایا ہے۔ اِس کے علاوہ جن دوسرے ایشوز پر ازخود نوٹس لے کر عدالتی کارروائی شروع کی ہے کیا وہ کسی مقررہ اورمختصر وقت میں اپنے حتمی اور منطقی انجام کو پہنچ پائیں گی۔این آر او اور با اثر افراد کے قرضوں کی معافی کا معاملہ ہی اگر چیف صاحب اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے طے کر جائیں تو یہ ملک و قوم پر یقینا ایک احسان ہوگا، مگر مجھ سمیت شاید ہی کسی کو یہ یقین ہے کہ اِس ملک میں یہ سب کچھ ممکن ہو پائے گا ۔ ابھی تو نقیب اللہ محسود کا صرف ایک کیس ہی چیف صاحب کے عزم و حوصلے کے لیے ایک امتحان بنا ہوا ہے۔ وہی اگر دیت کے قانون کی بجائے عدل وانصاف کے اصولوں اور تقاضوں کے مطابق طے کرلیا جائے تو یقیناہماری عدلیہ کی عزت و توقیر اور سرخروئی کا باعث بن جائے گا ۔
یہ درست ہے کہ جن لوگوں نے پاکستانی عوام کا پیسہ لوٹا ہے وہ ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ انھیں سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر نااہل کرنے کی بجائے لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہمیں عدلیہ کے ایسے فیصلوں کی اشد ضرورت ہے جن سے اِس قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس آئے ۔ سابقہ چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری نے بھی مالی بدعنوانیوں کے ایسے کئی معاملات اُٹھائے تھے، لیکن کسی کو بھی وہ منطقی انجام تک پہنچا نہیں سکے اور اُن کا وقت ختم ہوگیا۔اب میاں ثاقب نثار بظاہر ایسا ہی کچھ کرتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اُن کے پاس تووقت بھی بہت تھوڑا ہے۔کیاوہ سارے معاملات اپنی رخصتی سے قبل نمٹا پائیں گے۔اُن کے لیے تو صرف نقیب اللہ محسود کا کیس ہی ایک چھوٹا سا'' ٹیسٹ کیس'' ہے، وہ اگر اِسے ہی کامیابی سے اپنے دور میں حل کر جائیں اور متاثرین کو انصاف دلادیں تو بڑی بات ہوگی۔
دیکھا جائے تو پانامہ کیس کو موضوع بحث بناتے ہوئے دو سال بیت چکے ہیں اور ابھی تک ایک بھی فیصلہ اُس میں لگائے گئے الزامات کے حوالے سے سامنے نہیں آیا ہے۔ جو فیصلے آئے بھی ہیں تو وہ بھی پانامہ سے ہٹ کر کسی اور الزام کے تحت آئے ہیں۔ فیصلہ چاہے میاں نواز شریف کا ہو، جہانگیر ترین کا ہو یا پھر خواجہ آصف کاکسی فیصلے میں بھی پانامہ کے ایشو پرکوئی با ت نہیں کی گئی۔ آنے والے دنوں میں ممکن ہے اور بھی فیصلے آئیں گے مگر ایک بات یقین سے کی جاسکتی ہے کہ اُن فیصلوں میں بھی پانامہ پیپرز میں لگائے گئے کسی الزام کو زیر بحث نہیں لایاجائے گا۔ایسا لگتا ہے کہ پانامہ تو بس اک بہانہ تھا۔ اصل مقصد میاں صاحب اوراُن کی پارٹی کو نشانہ بنانا تھا۔
یہ اور بات ہے جب گندم یا گیہوں کو پیسا جاتا ہے تو ساتھ ساتھ گھن بھی پیس جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ جہانگیر ترین کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ جہانگیر ترین بے چارے عدلیہ کی اُن مجبوریوں کی بھینٹ چڑھ گئے جواُسے غیر جانبدار اورلوگوں کی نظروں میں زیادہ معتبر بنانے کی غرض سے اپنائی گئیں تھی۔ ویسے بھی جہانگیر ترین کو نااہل قراردینے سے تحریک انصاف کا کوئی زیادہ نقصان تو ہونا ہی نہیں تھا جتنا مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کو ہٹانے سے اُس پارٹی کا ہوا۔ایک پارٹی سربراہ کو اور ایک کسی پارٹی کے ادنیٰ سے رکن کا ہٹایا جاناکسی بھی لحاظ سے ہم وزن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اِس فیصلے کو خاموشی کے ساتھ ہضم کرگئی۔ جہانگیر ترین کی بجائے اگر تحریک انصاف کے چیئرمین کو نااہل قرار دیا جاتا توآج تحریک انصاف بھی یقینا اُسی طرح تلملا رہی ہوتی جس طرح مسلم لیگ (ن) تلملا رہی ہے۔
دستور پاکستان میں 62اور 63کی شقیں شامل کرنے والوں کی نظروں میں ارکان پارلیمنٹ کے صادق اور امین قرار دیے جانے کے حوالے سے معیارات شاید وہ نہیں تھے جو آج اُس کی تشریح کرنے والوں نے از خود سمجھ لیے ہیں۔ صادق اور امین کہلانے کے لیے تو ہمارے مذہب میں بہت ہی سخت شرطیں لگی ہوئی ہیں۔ سیرت اور اخلاق و کردار سمیت زندگی کے ہر شعبہ میں اُسے اپنی قوم کے لیے مثالی نمونہ بننا ہوتا ہے، مگر کیا ہمارے یہاں ایک بھی رکنِ پارلیمنٹ سیرت و کردار کے اِن اعلیٰ معیارات پر پورا اُتر تا ہے۔ جرائم کی نوعیت اوراُس کے لیے سزا کا تعین کرنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ عدل و انصاف کے کن اعلیٰ و ارفع معیارات کو قائم کررہے ہیں۔
یہاں آج غضب کرپشن کی بے شمارداستانیں رقم کرنے والے اور اینٹ سے اینٹ بجادینے کی دھمکیاں دینے والے تو بے خوف وخطر گھوم پھر رہے ہیں اور جنہوں نے اِس ملک کو انتشار اور انحطاط کے اندھیروں سے نکال کردرست سمت میں گامزن کرنا چاہا وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ احتساب اگرکرنا ہے تو سب کا کرنا ہوگا۔ مخصوص اور سلیکٹڈ احتساب اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ لوگ ایسے احتساب کو تسلیم نہیں کیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیڑھ دو سال کی مشقت کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) پر سے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل نہیں کیا جاسکا۔ لوگ آج بھی مسلم لیگ (ن) کی چار سالہ کارکردگی کی وجہ سے اُس سے جڑے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح اپنا وقت گزارا ہوتا تو لوگ خود ہی اُس سے متنفر ہوچکے ہوتے اوراُس کے لیے کسی کو عدالتوں کا سہارا نہیں لینا پڑتا اور تحریک انصاف کے کپتان کو اپنی کامیابی کے لیے اتنے جتن نہیںکرنے پڑتے۔کیا وجہ ہے کہ خان صاحب آج بھی اگر خوفزدہ ہیں تو صرف مسلم لیگ (ن) ہی سے ہیں ۔ انھیں پیپلز پارٹی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
عدل و انصاف کی فراہمی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ذمے داراںکو سوچنا ہوگا کہ اُن کے اب تک کیے گئے فیصلوں سے انصاف کا کتنا بول بالا ہوا ہے۔کیا انھوں نے پاناما کیس کے کسی ایک پہلو پر بھی کوئی غور کیا ہے۔ میاں صاحب کے علاوہ 480 افراد میں سے کسی ایک شخص کی بھی آف شورکمپنی کا معاملہ اُٹھایا ہے۔ اِس کے علاوہ جن دوسرے ایشوز پر ازخود نوٹس لے کر عدالتی کارروائی شروع کی ہے کیا وہ کسی مقررہ اورمختصر وقت میں اپنے حتمی اور منطقی انجام کو پہنچ پائیں گی۔این آر او اور با اثر افراد کے قرضوں کی معافی کا معاملہ ہی اگر چیف صاحب اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے طے کر جائیں تو یہ ملک و قوم پر یقینا ایک احسان ہوگا، مگر مجھ سمیت شاید ہی کسی کو یہ یقین ہے کہ اِس ملک میں یہ سب کچھ ممکن ہو پائے گا ۔ ابھی تو نقیب اللہ محسود کا صرف ایک کیس ہی چیف صاحب کے عزم و حوصلے کے لیے ایک امتحان بنا ہوا ہے۔ وہی اگر دیت کے قانون کی بجائے عدل وانصاف کے اصولوں اور تقاضوں کے مطابق طے کرلیا جائے تو یقیناہماری عدلیہ کی عزت و توقیر اور سرخروئی کا باعث بن جائے گا ۔
یہ درست ہے کہ جن لوگوں نے پاکستانی عوام کا پیسہ لوٹا ہے وہ ناقابل معافی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ انھیں سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر نااہل کرنے کی بجائے لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہمیں عدلیہ کے ایسے فیصلوں کی اشد ضرورت ہے جن سے اِس قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس آئے ۔ سابقہ چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری نے بھی مالی بدعنوانیوں کے ایسے کئی معاملات اُٹھائے تھے، لیکن کسی کو بھی وہ منطقی انجام تک پہنچا نہیں سکے اور اُن کا وقت ختم ہوگیا۔اب میاں ثاقب نثار بظاہر ایسا ہی کچھ کرتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اُن کے پاس تووقت بھی بہت تھوڑا ہے۔کیاوہ سارے معاملات اپنی رخصتی سے قبل نمٹا پائیں گے۔اُن کے لیے تو صرف نقیب اللہ محسود کا کیس ہی ایک چھوٹا سا'' ٹیسٹ کیس'' ہے، وہ اگر اِسے ہی کامیابی سے اپنے دور میں حل کر جائیں اور متاثرین کو انصاف دلادیں تو بڑی بات ہوگی۔