داستان بجلی
ترکی اپنے علاوہ مزید تین ممالک کو بجلی فراہم کرتا ہے
LONDON:
فرینک شمیڈٹ ایک جرمن الیکٹریکل انجینئر تھا جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئر مین بنایا گیا تھا۔ بجلی کی چوری کی روک تھام کے لیے اس کو ٹاسک دیا گیا۔ چھ مہینے کی مسلسل محنت کے بعد کراچی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سروے کرنے کے بعد ایک جامع رپورٹ تیار کرکے وفاقی حکومت کو ارسال کی گئی۔
شماریاتی اعداد پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق پچاس فیصد بجلی کی چوری میں خود حکومتی ادارے ملوث تھے، چالیس فیصد صنعت کار یا انڈسٹریل سیکٹر بجلی کی چوری کر رہے تھے اور صرف دس فیصد کچی آبادی بشمول غریب طبقہ بجلی کی چوری میں ملوث تھا، لیکن حکومت کی ترجیحات تھیں کہ احتساب کی ابتدا دس فیصد غریب اور پسماندہ اور کچی آبادیوں سے کیا جائے جس پر فرینک شمیڈٹ نے کہا کہ یہ تو سراسر ناانصافی اور ظلم ہوگا، کہ نوے فیصد بڑے چوروں کو چھوڑکر دس فیصد غریب اور بنیادی سہولیات سے محروم عوام کے خلاف کاروائی کی جائے۔ کم ازکم میں تو یہ آپریشن نہیں کر سکتا۔
فرینک نے کہا کہ اگر نوے فیصد بجلی چوروں سے ریکوری کی جائے تو دس فیصد غریب لوگوں کو چھوڑ کر ان کو مفت بجلی کی ریلیف دی جا سکتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور فرینک سیدھا اپنے جائے قیام ( ہوٹل) آیا اور اپنا سامان اٹھایا اس ملک کو خیر باد کہہ کر اپنے ملک جرمنی چلاگیا اور کہا کہ ''غریب عوام پر ظلم حکومتی ادارے اور صنعت کارکرتے ہیں اور رگڑا غریب عوام ہی کو دیا جاتا ہے، یہ ملک کبھی بھی نہیں سدھر سکتا۔''
جی ہاں! حقیقت پر مبنی یہ کہانی مشہور عالم ایڈولف ہٹلرکے ترقی یافتہ ملک جرمنی کے ایماندار باشندے سے متعلق ہے۔ یاد رہے گزشتہ سال اس ملک نے اپنی عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر اضافی بجلی پید ا کر لی تھی جس کی کھپت حکومت کے لیے چیلنج بن گئی تھی، جس میں اس نے عوام سے اپیل کی کہ جو بجلی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے گا، اسے مالی منفعت سے بھی نوازا جائے گا۔ جرمنی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اس مقصد کے حصول کے لیے زیر سمندر اپنی تنصیبات نصب کی ہیں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ عالمی تناظر میں سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں گھروں کے لیے بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جو شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔
ترکی اپنے علاوہ مزید تین ممالک کو بجلی فراہم کرتا ہے۔ سعودی عرب بجلی کی پیداوار نوے فیصد پیٹرول سے حاصل کرتا ہے۔ ادھر اسلامی جمہوری ایٹمی سلطنت اور قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین ''پاکستان'' شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ کی شکل میں دوائی کے طور پر دی جاتی ہے یعنی صبح، دوپہر ، شام اور کھانے کے بعد اور وہ بھی اسلامی سال کے عبادات کے مقدس مہینوں رجب، شعبان اور رمضان میں۔ حدت نماگرمی کی دہشت سے پہلے کاپر وائیر جل جل کرلوگوں کو جھلسا رہے تھے اور اب حد تو یہ ہوگئی ہے کہ بجلی کے ٹرانسفارمر بھی کھمبوں سے بغاوت کرکے راہگیروں پر برس رہے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ بجلی کے شارٹ فال کی بنیادی وجہ گیس کا نہ ملنا ہے۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صنعتی، ساحلی میگا میٹروپولیٹن سٹی کراچی کے بجلی کے معاملا ت نہایت غیر تسلی بخش ہیںجس کی شاید یہی وجہ ہو سکتی ہوکہ شہر کو بجلی کی ترسیل کی ذمے دار نجی کمپنی کراچی الیکٹرک کے اندرونی معاملات و انتظام و انصرام مختلف ناموں سے ٹھیکے دار کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ان ٹھیکیدار غیر رجسٹرڈ شدہ کمپنیوں کے قلیل ماہانہ تنخواہ کے عارضی ملازمین کو علاقوں میں بجلی کے آپریشنل معاملات دیکھنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔ تمام کمرشل اور گھریلو استعمال کے بجلی کے ڈیجیٹل میٹرز گھروں کے باہر نصب کیے گئے ہیں۔ دفتری اوقات کے درمیان میں نے ان ٹھیکے دارکمپنیوں کے ملازمین کو گھر کے باہر نصب بجلی کے میٹروں پر لٹکے ہوئے دیکھا ہے اور یہ ملازمین گھروں کے دروازے کھٹ کھٹا کر گھروں میں موجود عورتوں سے بجلی کا بل طلب کرتے ہیں ۔
یہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ جب گھرکا ہر مرد روزگار کے حصول کے لیے اپنے جائے ملازمت پر ہوں اور بچے بھی اپنی اپنی تعلیمی درسگاہوں میں ہوں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ ملازمین خراب میٹروں کی نشاندہی میں کیوں پس و پیش سے کام لیتے ہیںاور ان کی درستگی کے لیے کیو ں نہیں دفتری کاروائی سر انجام دیتے؟ اس لاپرواہی سے صارف کے لیے یہ سبب جاننے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ میٹروں میں خرابی میں وہ خود ملوث ہیں۔ صارف اپنے روز مرہ گھریلو و خاندانی اور حصول روزگار میں مصروفیت کے سبب ماہانہ بل اور میٹر دیکھ ہی نہیں پاتا۔ سردیوں میں خاص طور پر یہ شکایات عام ہیں۔
اس سلسلے میں ہماری کراچی الیکٹرک کی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ ان ٹھیکیدار کمپنیوں کی کارکردگی کا بغور جا ئزہ تو لے جو کراچی الیکٹرک کی انتظامیہ کو بد نام کرا رہی ہیں کیونکہ اس ضمن میں کراچی الیکٹرک کا میگا کرپشن کا ایک اسکینڈل میڈیا پر نشر کیا گیا تھاجس کے تحت اسی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینیر عزیز شاہد نے اپنے بند گھر پر تنصیب بجلی کے میٹر پر اضافی رقم کا بل وصول کیا۔ اس نے کراچی الیکٹرک کی انتظامیہ کے خلاف اپنے ایک ایڈوکیٹ کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن داخل کروائی۔
اس کا موقف تھا کہ کراچی الیکٹرک ڈیجیٹل میٹر میں لگی ایک سم کے ذریعے اپنے صدر دفتر میں میٹروں کو کنٹرول کرتی ہے۔ کراچی ایمنیسٹی کمپنی سے درآمد شدہ میٹر سوفٹ ویر کے ذریعے میٹر کی ریڈنگ کو تیز کر دیتے ہیں۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ ان میٹروں میں ایک ایسی بیٹری نصب ہوتی ہے جو میٹر کی سم فریکیوینسی کو حرکت میں لاتی رہتی ہے اور یہ الیکٹرونک سرکٹ لوکلی بھی تیار ہو رہے ہیں اور چین سے بھی درآمد کیے جارہے ہیں۔
زائد بلنگ، اوسط بل کا اجرا اور نان ایڈجسٹمنٹ، شدید گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کے معاملا ت تو الگ ہیں مگر سب سے اہم اور قابل توجہ ہے یہ امر کہ نئے میٹر کی تنصیب نہایت ہی مشکل کام ہے بالخصوص ایسے مکانا ت کے لیے جو ایک سے زائد منزل پر مشتمل ہوں۔ لوڈ کی زیادتی یونٹس کی زیادتی کا سبب بنتی ہے اور ہر سو یونٹس کے بعد چارج رقم میں دگنی، تگنی رقم ایک دم بڑھ جاتی ہے جس کی ادائیگی صارف کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں اگر صارف دوسری یا تیسری منزل کے لیے علیحدہ میٹر لگوانا چاہے بھی تو اس کو صرف ایک منزل کے میٹر کے لیے سب لیز کی بنیاد پر ساٹھ سے ستر ہزار روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ہر منزل کے لیے علیحدہ میٹر وں سے لوڈ تقسیم ہو جاتا ہے۔ یوں صارف کے لیے بل کی ادائیگی نسبتا آسان ہو جاتی ہے۔
اردو کی ضر ب ا لمثالیں ہمار ے سامنے ہیں ''گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے'' اور ''چراغ تلے اندھیرا'' ان ہی ضرب المثل کو سامنے رکھتے ہوئے کراچی الیکٹر ک کا معاملہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس ادارے میں مقامی عوامی منتخب نمایندوں کے رشتے دار اہم اور حساس عہدوں پر لاکھوں روپے کے پیکیج کے ساتھ فائز ہیں اب ہم باہر کے لوگوں سے کیا احتساب کی بات کریں۔ اس شہر سے ووٹ لینے والے ہی جب ایسا کریں گے تو دوسرے سے کیا شکایت۔
بجلی کے شعبے کو نجی ٹھیکے داروں کے حوالہ کرنا حکومت کی بہت بڑی غلطی ہے۔ ہا ں بجلی کی چوری نا صرف ایک مجرمانہ فعل ہے بلکہ اخلاقی جرم بھی۔ اس سلسلے میں کراچی الیکٹرک کی جانب سے گلی محلوں سے پرانے تار ختم کر کے ایک مضبوط موٹے کیبل سے ملا دیا گیا ہے جس سے بجلی چوری کے امکانات تقریبا ختم ہوتے جارہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جہاں بجلی وافر مقدار میں ہے وہاں اس کی ناقدری اور بے دریغ ضیاع بھی ہورہا ہے۔ کیونکہ چوری کا مال ہے، مفت کا مال ہے۔ اسے ضایع کر نے میں کونسی فخر اورکامیابی کی بات ہے۔ ہمیں بھی حکومتوں کو برا بھلا کہنے اور تمام الزامات اداروں پر ڈالنے سے پہلے شعور و آگاہی کے ساتھ اپنا طرز عمل پر غور کرنا ہوگا اور اس کو بدلنا ہوگا۔
فرینک شمیڈٹ ایک جرمن الیکٹریکل انجینئر تھا جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئر مین بنایا گیا تھا۔ بجلی کی چوری کی روک تھام کے لیے اس کو ٹاسک دیا گیا۔ چھ مہینے کی مسلسل محنت کے بعد کراچی اور اس کے مضافاتی علاقوں میں سروے کرنے کے بعد ایک جامع رپورٹ تیار کرکے وفاقی حکومت کو ارسال کی گئی۔
شماریاتی اعداد پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق پچاس فیصد بجلی کی چوری میں خود حکومتی ادارے ملوث تھے، چالیس فیصد صنعت کار یا انڈسٹریل سیکٹر بجلی کی چوری کر رہے تھے اور صرف دس فیصد کچی آبادی بشمول غریب طبقہ بجلی کی چوری میں ملوث تھا، لیکن حکومت کی ترجیحات تھیں کہ احتساب کی ابتدا دس فیصد غریب اور پسماندہ اور کچی آبادیوں سے کیا جائے جس پر فرینک شمیڈٹ نے کہا کہ یہ تو سراسر ناانصافی اور ظلم ہوگا، کہ نوے فیصد بڑے چوروں کو چھوڑکر دس فیصد غریب اور بنیادی سہولیات سے محروم عوام کے خلاف کاروائی کی جائے۔ کم ازکم میں تو یہ آپریشن نہیں کر سکتا۔
فرینک نے کہا کہ اگر نوے فیصد بجلی چوروں سے ریکوری کی جائے تو دس فیصد غریب لوگوں کو چھوڑ کر ان کو مفت بجلی کی ریلیف دی جا سکتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا اور فرینک سیدھا اپنے جائے قیام ( ہوٹل) آیا اور اپنا سامان اٹھایا اس ملک کو خیر باد کہہ کر اپنے ملک جرمنی چلاگیا اور کہا کہ ''غریب عوام پر ظلم حکومتی ادارے اور صنعت کارکرتے ہیں اور رگڑا غریب عوام ہی کو دیا جاتا ہے، یہ ملک کبھی بھی نہیں سدھر سکتا۔''
جی ہاں! حقیقت پر مبنی یہ کہانی مشہور عالم ایڈولف ہٹلرکے ترقی یافتہ ملک جرمنی کے ایماندار باشندے سے متعلق ہے۔ یاد رہے گزشتہ سال اس ملک نے اپنی عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر اضافی بجلی پید ا کر لی تھی جس کی کھپت حکومت کے لیے چیلنج بن گئی تھی، جس میں اس نے عوام سے اپیل کی کہ جو بجلی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے گا، اسے مالی منفعت سے بھی نوازا جائے گا۔ جرمنی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اس مقصد کے حصول کے لیے زیر سمندر اپنی تنصیبات نصب کی ہیں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ عالمی تناظر میں سب سے بڑی آبادی والے ملک چین میں گھروں کے لیے بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جو شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔
ترکی اپنے علاوہ مزید تین ممالک کو بجلی فراہم کرتا ہے۔ سعودی عرب بجلی کی پیداوار نوے فیصد پیٹرول سے حاصل کرتا ہے۔ ادھر اسلامی جمہوری ایٹمی سلطنت اور قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین ''پاکستان'' شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ کی شکل میں دوائی کے طور پر دی جاتی ہے یعنی صبح، دوپہر ، شام اور کھانے کے بعد اور وہ بھی اسلامی سال کے عبادات کے مقدس مہینوں رجب، شعبان اور رمضان میں۔ حدت نماگرمی کی دہشت سے پہلے کاپر وائیر جل جل کرلوگوں کو جھلسا رہے تھے اور اب حد تو یہ ہوگئی ہے کہ بجلی کے ٹرانسفارمر بھی کھمبوں سے بغاوت کرکے راہگیروں پر برس رہے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ بجلی کے شارٹ فال کی بنیادی وجہ گیس کا نہ ملنا ہے۔
ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صنعتی، ساحلی میگا میٹروپولیٹن سٹی کراچی کے بجلی کے معاملا ت نہایت غیر تسلی بخش ہیںجس کی شاید یہی وجہ ہو سکتی ہوکہ شہر کو بجلی کی ترسیل کی ذمے دار نجی کمپنی کراچی الیکٹرک کے اندرونی معاملات و انتظام و انصرام مختلف ناموں سے ٹھیکے دار کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ان ٹھیکیدار غیر رجسٹرڈ شدہ کمپنیوں کے قلیل ماہانہ تنخواہ کے عارضی ملازمین کو علاقوں میں بجلی کے آپریشنل معاملات دیکھنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے۔ تمام کمرشل اور گھریلو استعمال کے بجلی کے ڈیجیٹل میٹرز گھروں کے باہر نصب کیے گئے ہیں۔ دفتری اوقات کے درمیان میں نے ان ٹھیکے دارکمپنیوں کے ملازمین کو گھر کے باہر نصب بجلی کے میٹروں پر لٹکے ہوئے دیکھا ہے اور یہ ملازمین گھروں کے دروازے کھٹ کھٹا کر گھروں میں موجود عورتوں سے بجلی کا بل طلب کرتے ہیں ۔
یہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ جب گھرکا ہر مرد روزگار کے حصول کے لیے اپنے جائے ملازمت پر ہوں اور بچے بھی اپنی اپنی تعلیمی درسگاہوں میں ہوں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ ملازمین خراب میٹروں کی نشاندہی میں کیوں پس و پیش سے کام لیتے ہیںاور ان کی درستگی کے لیے کیو ں نہیں دفتری کاروائی سر انجام دیتے؟ اس لاپرواہی سے صارف کے لیے یہ سبب جاننے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ میٹروں میں خرابی میں وہ خود ملوث ہیں۔ صارف اپنے روز مرہ گھریلو و خاندانی اور حصول روزگار میں مصروفیت کے سبب ماہانہ بل اور میٹر دیکھ ہی نہیں پاتا۔ سردیوں میں خاص طور پر یہ شکایات عام ہیں۔
اس سلسلے میں ہماری کراچی الیکٹرک کی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ ان ٹھیکیدار کمپنیوں کی کارکردگی کا بغور جا ئزہ تو لے جو کراچی الیکٹرک کی انتظامیہ کو بد نام کرا رہی ہیں کیونکہ اس ضمن میں کراچی الیکٹرک کا میگا کرپشن کا ایک اسکینڈل میڈیا پر نشر کیا گیا تھاجس کے تحت اسی شہر سے تعلق رکھنے والے ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی انجینیر عزیز شاہد نے اپنے بند گھر پر تنصیب بجلی کے میٹر پر اضافی رقم کا بل وصول کیا۔ اس نے کراچی الیکٹرک کی انتظامیہ کے خلاف اپنے ایک ایڈوکیٹ کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ پیٹیشن داخل کروائی۔
اس کا موقف تھا کہ کراچی الیکٹرک ڈیجیٹل میٹر میں لگی ایک سم کے ذریعے اپنے صدر دفتر میں میٹروں کو کنٹرول کرتی ہے۔ کراچی ایمنیسٹی کمپنی سے درآمد شدہ میٹر سوفٹ ویر کے ذریعے میٹر کی ریڈنگ کو تیز کر دیتے ہیں۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ ان میٹروں میں ایک ایسی بیٹری نصب ہوتی ہے جو میٹر کی سم فریکیوینسی کو حرکت میں لاتی رہتی ہے اور یہ الیکٹرونک سرکٹ لوکلی بھی تیار ہو رہے ہیں اور چین سے بھی درآمد کیے جارہے ہیں۔
زائد بلنگ، اوسط بل کا اجرا اور نان ایڈجسٹمنٹ، شدید گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کے معاملا ت تو الگ ہیں مگر سب سے اہم اور قابل توجہ ہے یہ امر کہ نئے میٹر کی تنصیب نہایت ہی مشکل کام ہے بالخصوص ایسے مکانا ت کے لیے جو ایک سے زائد منزل پر مشتمل ہوں۔ لوڈ کی زیادتی یونٹس کی زیادتی کا سبب بنتی ہے اور ہر سو یونٹس کے بعد چارج رقم میں دگنی، تگنی رقم ایک دم بڑھ جاتی ہے جس کی ادائیگی صارف کے لیے ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں اگر صارف دوسری یا تیسری منزل کے لیے علیحدہ میٹر لگوانا چاہے بھی تو اس کو صرف ایک منزل کے میٹر کے لیے سب لیز کی بنیاد پر ساٹھ سے ستر ہزار روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ہر منزل کے لیے علیحدہ میٹر وں سے لوڈ تقسیم ہو جاتا ہے۔ یوں صارف کے لیے بل کی ادائیگی نسبتا آسان ہو جاتی ہے۔
اردو کی ضر ب ا لمثالیں ہمار ے سامنے ہیں ''گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے'' اور ''چراغ تلے اندھیرا'' ان ہی ضرب المثل کو سامنے رکھتے ہوئے کراچی الیکٹر ک کا معاملہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اس ادارے میں مقامی عوامی منتخب نمایندوں کے رشتے دار اہم اور حساس عہدوں پر لاکھوں روپے کے پیکیج کے ساتھ فائز ہیں اب ہم باہر کے لوگوں سے کیا احتساب کی بات کریں۔ اس شہر سے ووٹ لینے والے ہی جب ایسا کریں گے تو دوسرے سے کیا شکایت۔
بجلی کے شعبے کو نجی ٹھیکے داروں کے حوالہ کرنا حکومت کی بہت بڑی غلطی ہے۔ ہا ں بجلی کی چوری نا صرف ایک مجرمانہ فعل ہے بلکہ اخلاقی جرم بھی۔ اس سلسلے میں کراچی الیکٹرک کی جانب سے گلی محلوں سے پرانے تار ختم کر کے ایک مضبوط موٹے کیبل سے ملا دیا گیا ہے جس سے بجلی چوری کے امکانات تقریبا ختم ہوتے جارہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جہاں بجلی وافر مقدار میں ہے وہاں اس کی ناقدری اور بے دریغ ضیاع بھی ہورہا ہے۔ کیونکہ چوری کا مال ہے، مفت کا مال ہے۔ اسے ضایع کر نے میں کونسی فخر اورکامیابی کی بات ہے۔ ہمیں بھی حکومتوں کو برا بھلا کہنے اور تمام الزامات اداروں پر ڈالنے سے پہلے شعور و آگاہی کے ساتھ اپنا طرز عمل پر غور کرنا ہوگا اور اس کو بدلنا ہوگا۔