بد امنی کیخلاف کارروائی پولیس کی کمائی کا ذریعہ بن گئی
مقدمات ’’نامعلوم‘‘ افرادکیخلاف درج ہوتےہیں جس کےبعدپکڑ دھکڑکاسلسلہ شروع کرکےزیرحراست افراد کو دھمکیاں دی جاتی ہیں.
پولیس نے شہر میں جاری بدامنی کے واقعات میں درج مقدمات اور جرائم پیشہ عناصر کی تلاش میں جاری پولیس کی اسنیپ چیکنگ کو نہ صرف کمائی کا ذریعہ بنالیا بلکہ چیکنگ کے دوران ہتک آمیز رویے سے بھی شہریوں میں شدید اشتعال بڑھتا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق شہر میں جاری بدامنی کے واقعات میں درج مقدمات کو پولیس نے کمائی کا ذریعہ بنالیا، درج کیے جانے والے زیادہ تر مقدمات''نامعلوم'' افرادکے خلاف درج ہوتے ہیں اور پولیس ان ہی نامعلوم کو تلاش کرنے میں شک کی بنا پر چھاپے مار کر درجنوں افراد کو حراست میں لے کر قتل کے بارے میں تحقیقات کرتی ہے اور انھیں واردات میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے،تھانوں میں سادہ لباس افراد جو کہ پولیس اور ان افراد میں مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں جوڑ توڑ کے بعد مبینہ طور پر رشوت کے بعد انھیں بے گناہ قرار دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں کسی بھی تخریب کاری یا دہشت گردی کی واردات کے بعد پولیس ان واقعات کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتی ہے اور اعلیٰ پولیس حکام کی ہدایت پر قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر پکڑ دھکر کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ، شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس متحرک ہے تاہم محکمے میں موجود کچھ مفاد پرست پولیس افسران و اہلکاروں کی وجہ سے بے گناہ شہریوں کی بلاجواز حراست پولیس اور عوام میں نہ صرف مزید فاصلے بڑھا رہی ہے۔
بلکہ اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے کمیونٹی پولیسنگ کے فروغ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ اسنیپ چیکنگ کے دوران بھی پولیس شہریوں سے غیر ضروری سوالات پوچھ کر ہراساں کرتی ہے اور بھائی کے نام پر گاڑی چلانے والے کو بھی گاڑی سمیت بند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور بعدازاں مک مکا کے بعد انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے ، شہریوں کا کہنا ہے کہ اسنیپ چیکنگ کے دوران پرامن شہریوں سے پولیس کی جانب سے ہتک آمیز رویے اپنائے جانے پر ان میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے اور انھوں نے آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ سے اپیل کی ہے کہ اسنیپ چیکنگ کے دوران شہریوں کو بلاجواز تنگ کرنے والے پولیس افسران و اہلکاروں کی کارکردگی جانچ کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔
تاکہ ایسے پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے جو بلاجواز شہریوں کو ہراساں کرتے ہیں ، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں جاری بدامنی کے مقدمات کی تفتیش کے لیے ڈی ایس پی سطح کے افسران کو خصوصی ٹاسک دیا جائے تاکہ مقدمات کی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کی نہ صرف کارکردگی اندازہ لگایا جا سکے بلکہ ان کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بھی روکا جا سکے ۔
تفصیلات کے مطابق شہر میں جاری بدامنی کے واقعات میں درج مقدمات کو پولیس نے کمائی کا ذریعہ بنالیا، درج کیے جانے والے زیادہ تر مقدمات''نامعلوم'' افرادکے خلاف درج ہوتے ہیں اور پولیس ان ہی نامعلوم کو تلاش کرنے میں شک کی بنا پر چھاپے مار کر درجنوں افراد کو حراست میں لے کر قتل کے بارے میں تحقیقات کرتی ہے اور انھیں واردات میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے،تھانوں میں سادہ لباس افراد جو کہ پولیس اور ان افراد میں مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں جوڑ توڑ کے بعد مبینہ طور پر رشوت کے بعد انھیں بے گناہ قرار دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں کسی بھی تخریب کاری یا دہشت گردی کی واردات کے بعد پولیس ان واقعات کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیتی ہے اور اعلیٰ پولیس حکام کی ہدایت پر قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر پکڑ دھکر کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے ، شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس متحرک ہے تاہم محکمے میں موجود کچھ مفاد پرست پولیس افسران و اہلکاروں کی وجہ سے بے گناہ شہریوں کی بلاجواز حراست پولیس اور عوام میں نہ صرف مزید فاصلے بڑھا رہی ہے۔
بلکہ اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے کمیونٹی پولیسنگ کے فروغ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ اسنیپ چیکنگ کے دوران بھی پولیس شہریوں سے غیر ضروری سوالات پوچھ کر ہراساں کرتی ہے اور بھائی کے نام پر گاڑی چلانے والے کو بھی گاڑی سمیت بند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور بعدازاں مک مکا کے بعد انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے ، شہریوں کا کہنا ہے کہ اسنیپ چیکنگ کے دوران پرامن شہریوں سے پولیس کی جانب سے ہتک آمیز رویے اپنائے جانے پر ان میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے اور انھوں نے آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ سے اپیل کی ہے کہ اسنیپ چیکنگ کے دوران شہریوں کو بلاجواز تنگ کرنے والے پولیس افسران و اہلکاروں کی کارکردگی جانچ کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔
تاکہ ایسے پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی جائے جو بلاجواز شہریوں کو ہراساں کرتے ہیں ، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں جاری بدامنی کے مقدمات کی تفتیش کے لیے ڈی ایس پی سطح کے افسران کو خصوصی ٹاسک دیا جائے تاکہ مقدمات کی تفتیش کرنے والے پولیس افسران کی نہ صرف کارکردگی اندازہ لگایا جا سکے بلکہ ان کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بھی روکا جا سکے ۔