ضمیر برائے فروخت
جس دن ہمارے اپنے اعمال ٹھیک ہوجائیں گے، اس دن سے ہم پر اچھے لوگوں کی حکومت آجائے گی۔
ہمارے ضمیر بڑی تیزی سے مردہ ہوتے جارہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے دکھ اور درد کو محسوس نہیں کرتے۔ کونسا گناہ ہے جو اس وقت پاکستانی عوام کے اندر موجود نہیں۔ ہمارے معاشرے میں کسی کا حق مارنا، سود خوری، یتیم کا مال کھانا، کمزور پر ظلم کرنا اور زنا کاری تو عام سے گناہ بن چکے ہیں۔
اب جو گناہ ہمارے معاشرے میں سرایت کرتے جارہے ہیں انہیں دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ آئے دن چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کردیا جاتا ہے، حرام جانوروں کا گوشت فروخت کیا جارہا ہے، قبروں سے مردوں کو نکال کر ان کا گوشت کھایا جاتا ہے، اللہ معاف کرے قبروں کے اندر مردوں کے ساتھ زنا تک کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں انصاف کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آتا۔ طاقتور جو چاہے اپنی مرضی سے کرسکتا ہے، اس کےلیے کوئی قانون نہیں اور کمزور کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ یہ ایسے گناہ ہیں جو میری قوم کا کردار مسخ کرتے جارہے ہیں۔ انسان ایسے گناہوں کا مرتکب اس وقت ہی ہوتا ہے جب انسان کے اندر سے خوف خدا ختم ہو جاتا ہے۔
لیڈران اور سیاستدان، جن لوگوں کو ہماری نمائندگی کرنی ہوتی ہے اور جن لوگوں کے ساتھ ہماری بہت ساری توقعات وابستہ ہوتی ہیں، عوام انہیں اپنے قیمتی ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں تاکہ یہ ہمارے مسائل حل کریں اور اپنے علاقے کے عوام کی آواز کو ملک کے اعلیٰ اداروں تک پہنچائیں تاکہ ملکی وسائل ہمارے علاقے تک بہ آسانی پہنچ سکیں۔ ان وسائل سے فائدہ اٹھا کر ہماری آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ، ذہین، صحت مند اور تندرست بن سکیں تاکہ ہماری نسلیں اپنے ملک کی نمائندگی اچھے انداز کے ساتھ پوری دنیا میں کرتی ہوئی نظر آئیں، جس سے ملک و قوم کا نام روشن ہو۔
مگر ہمار ے ملک کے سیاستدانوں اور لیڈروں کے انداز ہی مختلف ہیں۔ وہ صرف ووٹ لینے کےلیے اپنے علاقے میں آتے ہیں، اور جب منتخب ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد ان کو نہ تو اپنے علاقے میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے علاقے کے عوام میں۔ جتنے وسائل اور بجٹ علاقے اور عوام کےلیے آتے ہیں، وہ سیاستدان اور لیڈران اپنے پروٹوکول پر خرچ کردیتے ہیں۔ عوام کی حالت پہلے سے زیادہ بد حال ہو جاتی ہے۔
اور پھر جیسے ہی اگلے الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو سیاستدانوں کو اپنے عوام کے مسائل نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ پچھلی حکومت پر الزام تراشی کرکے پارٹی تبدیل کرنے کا راستہ ہموار کر لیتے ہیں۔ یہ سیاستدان اور لیڈران ایسی سیاسی پارٹیوں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں جن کے حکومت میں آنے کا امکان روشن ہوتا ہے اور یہ بڑی آسانی سے جاکر حکومت میں آنے والی پارٹی سے کہتے ہیں کہ میرا ضمیر برائے فروخت ہے، آپ کیا ریٹ لگاتے ہیں؟
وہی ضمیر فروش سیاستدان ایک بار پھر ایک نئی پارٹی میں شامل ہوکر عوام کے پاس آجاتے ہیں اور اپنے فن خطابت سے عوام کے دل جیتنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے سیاستدانوں کو نہ تو کوئی سیاسی پارٹی اپنی پارٹی میں شامل کرے اور نہ ہی عوام ایسے سیاستدانوں کو ووٹ دیں تاکہ ان سیاستدانوں کو اپنی قدر و قیمت کا خود ہی اندازہ ہوجائے۔ جب ان ضمیر فروش سیاستدانوں کے ساتھ ایسا ہوگا تو پھر نہ یہ عوام کا حق مار سکیں گے اور نہ ہی بار بار پارٹی تبدیل کرنے کا سوچیں گے۔
لیکن پاکستانی عوام کی نفسیات بھی بہت عجیب ہے۔ اپنے اعمال کی طرف نہیں دیکھتے اور دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ! حضرت عمر فاروقؓ جیسا حکمران عطا فرما۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جیسی عوام، ویسے حکمران۔ جب ہمارے اعمال ہی ٹھیک نہیں ہوں گے تو حضرت عمر فاروقؓ جیسے حکمران ہمیں کیسے ملیں گے؟ دعاؤں میں قبولیت کہاں سے آئے گی؟
ہم نے اپنے تمام کام ہی دعاؤں پر چھوڑ رکھے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد کے ہم لوگ نزدیک تک نہیں جاتے اور سارا دن یہ دعا کرتے ہیں کے یااللہ کفار کو تباہ و برباد کردے۔ کیا وہ اللہ کے بندے نہیں؟ کیا وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق نہیں؟ دوستو! ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی نے آپ کو شعور اور عقل دی ہے۔ اگر آپ شعور اور عقل کا استعمال صراط مستقیم پر کرتے ہیں تو دنیا اور آخرت میں جزا پائیں گے۔ جب آپ اپنی عقل و شعور کا استعمال اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر کریں گے تو اس کے بدلے میں آپ دنیا اور آخرت میں رسوا ہوں گے۔ کفار ہم پر مسلط کردیئے جائیں گے اور ہم میں سے بے ضمیر اور بددیانت لوگ ہمارے حکمران بن جائیں گے۔
ایک پیر صاحب اپنے مریدوں کو اپنے پیچھے بٹھا کر لمبے عرصے تک اللہ تعالی کے حضور دعاکرتے رہے کہ اے اللہ! مجھے حکمران بنا دے۔ میں عوام کی تمام پریشانیوں، تکلیفوں اور دکھوں کو دور کر دوں گا۔ میں اس ملک کے عوام کی بدحالی کو خوش حالی میں تبدیل کردوں گا، انصاف قائم کروں گا اورغریب کی مدد کروں گا اور بھوکے کو کھانا دوں گا۔ مگر پیر صاحب کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ ایک دن ایک مرید تنگ آکر پیر صاحب سے کہتا ہے کہ حضور، اگر اجازت ہو تو میں دعا کر سکتا ہوں؟ آپ میرے پیچھے ''آمین'' کہتے جائیے۔ پیر صاحب کہتے ہیں کہ ضرور، تم بھی دعا کرکے دیکھ لو۔
مرید کہتا ہے اے اللہ اگر مجھ کو اس ملک کی حکومت مل جائے تو جتنا ہوسکا، میں عوام پر ظلم و ستم کروں گا۔ جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ بھی چھین لوں گا۔ کچھ دن بعد مرید کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور مرید ملک کا حکمران بن جاتا ہے۔ مرید اپنی دعا کے مطابق عوام پر ظلم و ستم شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے عوام کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
لوگ مرید کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایک دن پیر صاحب کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے مرید سے کہیے کہ وہ ہم پر ظلم و ستم نہ کرے۔ پیر صاحب ان لوگوں کے ساتھ اپنے مرید کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں پر ظلم و ستم نہ کرو، کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔
مرید کہتا ہے کہ پیر صاحب، آپ نے کتنا عرصہ دعا کی؟ اگر ان لوگوں کے اعمال اچھے ہوتے تو آپ کی دعا قبول ہوجاتی۔ پیر صاحب، ان لوگوں کے اعمال ہی ایسے ہیں، تب ہی میری دعا قبول ہوئی ہے۔ میں اپنی دعا کے مطابق کام کررہا ہوں۔ پیر صاحب خاموش ہوجاتے ہیں۔ جس دن ہمارے اپنے اعمال ٹھیک ہوجائیں گے، اس دن سے ہم پر اچھے لوگوں کی حکومت آجائے گی۔ جب تک ہمارے اپنے اعمال ٹھیک نہیں ہوتے، اس وقت تک مریدوں کی حکومت کو برداشت کرنا پڑے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اب جو گناہ ہمارے معاشرے میں سرایت کرتے جارہے ہیں انہیں دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے۔ آئے دن چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کردیا جاتا ہے، حرام جانوروں کا گوشت فروخت کیا جارہا ہے، قبروں سے مردوں کو نکال کر ان کا گوشت کھایا جاتا ہے، اللہ معاف کرے قبروں کے اندر مردوں کے ساتھ زنا تک کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں انصاف کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آتا۔ طاقتور جو چاہے اپنی مرضی سے کرسکتا ہے، اس کےلیے کوئی قانون نہیں اور کمزور کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ یہ ایسے گناہ ہیں جو میری قوم کا کردار مسخ کرتے جارہے ہیں۔ انسان ایسے گناہوں کا مرتکب اس وقت ہی ہوتا ہے جب انسان کے اندر سے خوف خدا ختم ہو جاتا ہے۔
لیڈران اور سیاستدان، جن لوگوں کو ہماری نمائندگی کرنی ہوتی ہے اور جن لوگوں کے ساتھ ہماری بہت ساری توقعات وابستہ ہوتی ہیں، عوام انہیں اپنے قیمتی ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں تاکہ یہ ہمارے مسائل حل کریں اور اپنے علاقے کے عوام کی آواز کو ملک کے اعلیٰ اداروں تک پہنچائیں تاکہ ملکی وسائل ہمارے علاقے تک بہ آسانی پہنچ سکیں۔ ان وسائل سے فائدہ اٹھا کر ہماری آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ، ذہین، صحت مند اور تندرست بن سکیں تاکہ ہماری نسلیں اپنے ملک کی نمائندگی اچھے انداز کے ساتھ پوری دنیا میں کرتی ہوئی نظر آئیں، جس سے ملک و قوم کا نام روشن ہو۔
مگر ہمار ے ملک کے سیاستدانوں اور لیڈروں کے انداز ہی مختلف ہیں۔ وہ صرف ووٹ لینے کےلیے اپنے علاقے میں آتے ہیں، اور جب منتخب ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد ان کو نہ تو اپنے علاقے میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے علاقے کے عوام میں۔ جتنے وسائل اور بجٹ علاقے اور عوام کےلیے آتے ہیں، وہ سیاستدان اور لیڈران اپنے پروٹوکول پر خرچ کردیتے ہیں۔ عوام کی حالت پہلے سے زیادہ بد حال ہو جاتی ہے۔
اور پھر جیسے ہی اگلے الیکشن کا زمانہ آتا ہے تو سیاستدانوں کو اپنے عوام کے مسائل نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ پچھلی حکومت پر الزام تراشی کرکے پارٹی تبدیل کرنے کا راستہ ہموار کر لیتے ہیں۔ یہ سیاستدان اور لیڈران ایسی سیاسی پارٹیوں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں جن کے حکومت میں آنے کا امکان روشن ہوتا ہے اور یہ بڑی آسانی سے جاکر حکومت میں آنے والی پارٹی سے کہتے ہیں کہ میرا ضمیر برائے فروخت ہے، آپ کیا ریٹ لگاتے ہیں؟
وہی ضمیر فروش سیاستدان ایک بار پھر ایک نئی پارٹی میں شامل ہوکر عوام کے پاس آجاتے ہیں اور اپنے فن خطابت سے عوام کے دل جیتنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے سیاستدانوں کو نہ تو کوئی سیاسی پارٹی اپنی پارٹی میں شامل کرے اور نہ ہی عوام ایسے سیاستدانوں کو ووٹ دیں تاکہ ان سیاستدانوں کو اپنی قدر و قیمت کا خود ہی اندازہ ہوجائے۔ جب ان ضمیر فروش سیاستدانوں کے ساتھ ایسا ہوگا تو پھر نہ یہ عوام کا حق مار سکیں گے اور نہ ہی بار بار پارٹی تبدیل کرنے کا سوچیں گے۔
لیکن پاکستانی عوام کی نفسیات بھی بہت عجیب ہے۔ اپنے اعمال کی طرف نہیں دیکھتے اور دعائیں مانگتے ہیں کہ اے اللہ! حضرت عمر فاروقؓ جیسا حکمران عطا فرما۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جیسی عوام، ویسے حکمران۔ جب ہمارے اعمال ہی ٹھیک نہیں ہوں گے تو حضرت عمر فاروقؓ جیسے حکمران ہمیں کیسے ملیں گے؟ دعاؤں میں قبولیت کہاں سے آئے گی؟
ہم نے اپنے تمام کام ہی دعاؤں پر چھوڑ رکھے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد کے ہم لوگ نزدیک تک نہیں جاتے اور سارا دن یہ دعا کرتے ہیں کے یااللہ کفار کو تباہ و برباد کردے۔ کیا وہ اللہ کے بندے نہیں؟ کیا وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق نہیں؟ دوستو! ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی نے آپ کو شعور اور عقل دی ہے۔ اگر آپ شعور اور عقل کا استعمال صراط مستقیم پر کرتے ہیں تو دنیا اور آخرت میں جزا پائیں گے۔ جب آپ اپنی عقل و شعور کا استعمال اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر کریں گے تو اس کے بدلے میں آپ دنیا اور آخرت میں رسوا ہوں گے۔ کفار ہم پر مسلط کردیئے جائیں گے اور ہم میں سے بے ضمیر اور بددیانت لوگ ہمارے حکمران بن جائیں گے۔
ایک پیر صاحب اپنے مریدوں کو اپنے پیچھے بٹھا کر لمبے عرصے تک اللہ تعالی کے حضور دعاکرتے رہے کہ اے اللہ! مجھے حکمران بنا دے۔ میں عوام کی تمام پریشانیوں، تکلیفوں اور دکھوں کو دور کر دوں گا۔ میں اس ملک کے عوام کی بدحالی کو خوش حالی میں تبدیل کردوں گا، انصاف قائم کروں گا اورغریب کی مدد کروں گا اور بھوکے کو کھانا دوں گا۔ مگر پیر صاحب کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ ایک دن ایک مرید تنگ آکر پیر صاحب سے کہتا ہے کہ حضور، اگر اجازت ہو تو میں دعا کر سکتا ہوں؟ آپ میرے پیچھے ''آمین'' کہتے جائیے۔ پیر صاحب کہتے ہیں کہ ضرور، تم بھی دعا کرکے دیکھ لو۔
مرید کہتا ہے اے اللہ اگر مجھ کو اس ملک کی حکومت مل جائے تو جتنا ہوسکا، میں عوام پر ظلم و ستم کروں گا۔ جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ بھی چھین لوں گا۔ کچھ دن بعد مرید کی دعا قبول ہوجاتی ہے اور مرید ملک کا حکمران بن جاتا ہے۔ مرید اپنی دعا کے مطابق عوام پر ظلم و ستم شروع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے عوام کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔
لوگ مرید کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایک دن پیر صاحب کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنے مرید سے کہیے کہ وہ ہم پر ظلم و ستم نہ کرے۔ پیر صاحب ان لوگوں کے ساتھ اپنے مرید کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں پر ظلم و ستم نہ کرو، کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔
مرید کہتا ہے کہ پیر صاحب، آپ نے کتنا عرصہ دعا کی؟ اگر ان لوگوں کے اعمال اچھے ہوتے تو آپ کی دعا قبول ہوجاتی۔ پیر صاحب، ان لوگوں کے اعمال ہی ایسے ہیں، تب ہی میری دعا قبول ہوئی ہے۔ میں اپنی دعا کے مطابق کام کررہا ہوں۔ پیر صاحب خاموش ہوجاتے ہیں۔ جس دن ہمارے اپنے اعمال ٹھیک ہوجائیں گے، اس دن سے ہم پر اچھے لوگوں کی حکومت آجائے گی۔ جب تک ہمارے اپنے اعمال ٹھیک نہیں ہوتے، اس وقت تک مریدوں کی حکومت کو برداشت کرنا پڑے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔