بد امنی کیس پیپلز پارٹی لیاری میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کر رہی ہے ایس ایچ اوز کے بیانات حلفی آئی جی
شہرمیں طالبان کی موجودگی ظاہرنہیں کی گئی، 71ملزمان گرفتاراور لیاری سمیت تمام نوگوایریافوری طور پر ختم کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے لیاری سمیت کراچی میں نو گو ایریا فوری ختم کرنے کا حکم دیاہے اورانسپکٹرجنرل سندھ پولیس وڈائریکٹرجنرل رینجرزکوہدایت کی ہے کہ قتل کے مختلف واقعات میں ملوث ان71ملزمان کو جن کی تفصیلات عدالت کی پیش کی گئی ہیں کوفوری گرفتارکیاجائے۔
چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے کراچی بے امنی کیس کی سماعت آج تک کے لیے ملتوی کردی اورہدایت کی کہ قتل اورٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کاتمام ریکارڈپیش کیا جائے۔ عدالت نے زیر حراست 68افرادکے چالان انسدادی دہشتگردی کی عدالتوں میں پیش کرنے اورانسداددہشت گردی کی عدالتوں کومقدمات قانون کے مطابق7دن کے اندراندرنمٹانے کاحکم دیاہے، عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید ہدایت کی کہ ان 71افرادکے بارے میں تفصیلات پیش کی جائیں کہ ان پر قتل کے کون کون سے مقدمات درج ہیں، ان میں سے2افرادنے بالترتیب 115اور 47 افراد کو قتل کرنے کااعتراف بھی کیا تھامگر ان کیخلاف دانستہ معمولی جرائم میں مقدمات درج کیے گئے اور رہائی کا راستہ دیا گیا۔
دوران سماعت پولیس ایس ایچ اوزکی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے بیانات حلفی میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ کئی تھانوں خصوصاًچاکیواڑہ اور کلاکوٹ کی حدودمیں سرگرم جرائم پیشہ افرادکوپیپلز پارٹی کے رہنمائوںکاتحفظ حاصل ہے تاہم ان ایس ایچ اوزمیں سے کسی نے بھی اپنے علاقہ میں طالبان کی موجودگی کے بارے میں رپورٹ نہیں دی۔صرف ایک نے کہاکہ اس کی حدودمیں کچھ محسودقبائل آباد ہیں جن کے پاس کچھ لوگ باہرسے آتے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ کراچی کے 106پولیس اسٹیشنوں میں سے صرف7پی آئی بی کالونی،سچل ، سہراب گوٹ ، کلا کوٹ،چاکیواڑہ ، پیرآباد،منگھو پیر کی حدود میں نو گوایریا موجودہیں ، چیف جسٹس نے آئی جی سے مخاطب کرتے ہوئے کہاکیااس کو ریکارڈکردیں؟ جس پر سندھ حکومت کے وکیل شاہ خاورنے کہاکہ آئی جی کو اس رپورٹ سے اتفاق نہیں ،چیف جسٹس نے کہاکہ پھر ہمیں بتایا جا ئے کہ آئی جی کی بات درست ہے یاایس ایچ اوزکی،جسٹس اعجاز افضل نے کہاایس ایچ او صورتحال کو قریب سے دیکھتاہے ان کی رائے زیادہ مفیدہو تی ہے ۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ شام سے پہلے نو گو ایریا ختم ہونے چاہئیں،آنکھوں میں دھول جھونکنے والی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایس ایچ اوزکے بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی جماعتوں کی آشیر باد حاصل ہے اور وہ کچھ کرنے نہیں دیتی کیونکہ ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں،ریاست کی اتھارٹی کہاں ہے؟۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ رینجرز ملزمان کو پکڑکرپولیس کے حوالے کرتی ہے اورپولیس انہیں پچھلے دروازے سے نکال دیتی ہے تو پھر امن کیسے قائم ہو گا؟۔دوران سماعت ایم کیو ایم کی رہنمانسرین جلیل کی کراچی میں طالبان کے داخلے سے متعلق درخواست سندھ پولیس کے وکیل شاہ خاورنے پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے5سال حکومت کی،نگراں حکومت آپ کی مرضی سے آئی ،پھر آپ نے امن قائم کیوں نہیں کیااور ان کوکیوں نہیں روکا ،کراچی کے شہریوں کی زندگیاں ان کے حوالے کیوں کی گئیں۔
جسٹس اعجازاحمد چوہدری نے کہاکہ آپ20سال سے حکومت میں ہیں اس کے باوجودخط سپریم کورٹ کو لکھتے ہیں،آپ نے کچھ نہیں کیاتو سپریم کورٹ کیاکرے ؟،اگر آئی جی اورڈی جی رینجرز کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہو رہاہے تو پھر ہمیں بتادیاجائے کس عہدیدارکوحالات بہتر کرنے کے لیے حکم جاری کریں۔ڈی جی رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیاکہ مختلف علاقوں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں اور اب تک300سے زائد جرائم پیشہ افراد کوگرفتارکرکے پولیس کے حوالے کیا گیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ آپریشن کے وقت ملیرمیں خواتین اور بچے سامنے آجاتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاقانون نافذکرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ پہلے خواتین اور بچوں کوبچائے اور پھر ملزمان کو گرفتار کیاجائے۔عدالت نے رینجرز اور پولیس دونوں کی رپورٹس پرعدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہوا اور تمام نوگواریازختم نہیں کیے گئے یہ بات ایس ایچ اوزکے بیانات حلفی سے بھی واضح ہے۔آئی جی پولیس اورڈی جی رینجرز اس حوالے سے وضاحتی رپورٹ عدالت میں پیش کریں ۔ایڈووکیٹ جنرل نے الیکشن کے بعدکیس لگانے کی استدعاکی،چیف جسٹس نے کہاکہ حالات الیکشن سے پہلے ٹھیک ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ نے کراچی بے امنی کیس کی سماعت آج تک کے لیے ملتوی کردی اورہدایت کی کہ قتل اورٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کاتمام ریکارڈپیش کیا جائے۔ عدالت نے زیر حراست 68افرادکے چالان انسدادی دہشتگردی کی عدالتوں میں پیش کرنے اورانسداددہشت گردی کی عدالتوں کومقدمات قانون کے مطابق7دن کے اندراندرنمٹانے کاحکم دیاہے، عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید ہدایت کی کہ ان 71افرادکے بارے میں تفصیلات پیش کی جائیں کہ ان پر قتل کے کون کون سے مقدمات درج ہیں، ان میں سے2افرادنے بالترتیب 115اور 47 افراد کو قتل کرنے کااعتراف بھی کیا تھامگر ان کیخلاف دانستہ معمولی جرائم میں مقدمات درج کیے گئے اور رہائی کا راستہ دیا گیا۔
دوران سماعت پولیس ایس ایچ اوزکی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے بیانات حلفی میں یہ بات تسلیم کی گئی کہ کئی تھانوں خصوصاًچاکیواڑہ اور کلاکوٹ کی حدودمیں سرگرم جرائم پیشہ افرادکوپیپلز پارٹی کے رہنمائوںکاتحفظ حاصل ہے تاہم ان ایس ایچ اوزمیں سے کسی نے بھی اپنے علاقہ میں طالبان کی موجودگی کے بارے میں رپورٹ نہیں دی۔صرف ایک نے کہاکہ اس کی حدودمیں کچھ محسودقبائل آباد ہیں جن کے پاس کچھ لوگ باہرسے آتے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ کراچی کے 106پولیس اسٹیشنوں میں سے صرف7پی آئی بی کالونی،سچل ، سہراب گوٹ ، کلا کوٹ،چاکیواڑہ ، پیرآباد،منگھو پیر کی حدود میں نو گوایریا موجودہیں ، چیف جسٹس نے آئی جی سے مخاطب کرتے ہوئے کہاکیااس کو ریکارڈکردیں؟ جس پر سندھ حکومت کے وکیل شاہ خاورنے کہاکہ آئی جی کو اس رپورٹ سے اتفاق نہیں ،چیف جسٹس نے کہاکہ پھر ہمیں بتایا جا ئے کہ آئی جی کی بات درست ہے یاایس ایچ اوزکی،جسٹس اعجاز افضل نے کہاایس ایچ او صورتحال کو قریب سے دیکھتاہے ان کی رائے زیادہ مفیدہو تی ہے ۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ شام سے پہلے نو گو ایریا ختم ہونے چاہئیں،آنکھوں میں دھول جھونکنے والی باتیں کی جارہی ہیں۔ ایس ایچ اوزکے بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو سیاسی جماعتوں کی آشیر باد حاصل ہے اور وہ کچھ کرنے نہیں دیتی کیونکہ ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں،ریاست کی اتھارٹی کہاں ہے؟۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ رینجرز ملزمان کو پکڑکرپولیس کے حوالے کرتی ہے اورپولیس انہیں پچھلے دروازے سے نکال دیتی ہے تو پھر امن کیسے قائم ہو گا؟۔دوران سماعت ایم کیو ایم کی رہنمانسرین جلیل کی کراچی میں طالبان کے داخلے سے متعلق درخواست سندھ پولیس کے وکیل شاہ خاورنے پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے5سال حکومت کی،نگراں حکومت آپ کی مرضی سے آئی ،پھر آپ نے امن قائم کیوں نہیں کیااور ان کوکیوں نہیں روکا ،کراچی کے شہریوں کی زندگیاں ان کے حوالے کیوں کی گئیں۔
جسٹس اعجازاحمد چوہدری نے کہاکہ آپ20سال سے حکومت میں ہیں اس کے باوجودخط سپریم کورٹ کو لکھتے ہیں،آپ نے کچھ نہیں کیاتو سپریم کورٹ کیاکرے ؟،اگر آئی جی اورڈی جی رینجرز کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہو رہاہے تو پھر ہمیں بتادیاجائے کس عہدیدارکوحالات بہتر کرنے کے لیے حکم جاری کریں۔ڈی جی رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیاکہ مختلف علاقوں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں اور اب تک300سے زائد جرائم پیشہ افراد کوگرفتارکرکے پولیس کے حوالے کیا گیا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ آپریشن کے وقت ملیرمیں خواتین اور بچے سامنے آجاتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاقانون نافذکرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ پہلے خواتین اور بچوں کوبچائے اور پھر ملزمان کو گرفتار کیاجائے۔عدالت نے رینجرز اور پولیس دونوں کی رپورٹس پرعدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ عدالت کے احکامات پر عمل نہیں ہوا اور تمام نوگواریازختم نہیں کیے گئے یہ بات ایس ایچ اوزکے بیانات حلفی سے بھی واضح ہے۔آئی جی پولیس اورڈی جی رینجرز اس حوالے سے وضاحتی رپورٹ عدالت میں پیش کریں ۔ایڈووکیٹ جنرل نے الیکشن کے بعدکیس لگانے کی استدعاکی،چیف جسٹس نے کہاکہ حالات الیکشن سے پہلے ٹھیک ہونے چاہئیں۔