اور تھیٹر ویران ہوگیا

کہا جاتا ہے کہ تھیٹر ابلاغ وآگہی کا پہلا مکتب ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔

muqtidakhan@hotmail.com

مدیحہ گوہر کے انتقال سے تھیٹر بالکل اسی طرح ویران ہوگیا ہے، جس طرح عاصمہ جہانگیر کے ناوقت چلے جانے سے حقوق انسانی کی جدوجہدکی تحریک دیدہ ور سالار سے محروم ہوگئی ہے ۔ لاکھ کہیں کہ ایسے بہت ہیں، جو عاصمہ کی جگہ سنبھالنے کو تیارکھڑے ہیں، مگر جو بے باکی، جرأت مندی اورصاف گوئی عاصمہ کا وصف تھی، وہ ہمیں اس دستے کے حالیہ شہسواروں میں دور دور تک نظر نہیں آتی ۔

یہی کچھ معاملہ تھیٹر کے حوالے سے مدیحہ کا ہے ۔ تھیٹر موجود ہے، تھیٹر والے بھی ہیں، مگر جس فکری بالیدگی اور اظہار کی جرأت کا مظاہرہ مدیحہ نے کیا اور آمروں کے اقدامات کا جس انداز میں پردہ چاک کیا ، وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ تھیٹر ابلاغ وآگہی کا پہلا مکتب ہے ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں،کیونکہ دنیا کی معلوم تاریخ میں انسان نے تھیٹر سے جو کچھ سیکھا ، وہ مکتب ومدارس سے کہیں زیادہ ہے ۔ جو بات استاد مختلف طریقوں سے دماغ میں بٹھانے اور سیکڑوں صفحات پر مشتمل کتاب جوکچھ سمجھانے کی کوشش کرتی ہے، تھیٹر بہت ہی مختصر وقت میں آسانی کے ساتھ ذہن نشیں کرا دیتا ہے۔لہٰذا تھیٹرفکر وآگہی کے دریچے کھولنے کا سب سے سہل اور کامیاب ذریعہ ہے۔

دنیا کی تاریخ میں ہمیں دو خطے ایسے نظر آتے ہیں، جہاں تھیٹر نے جنم لیا اور ارتقائی عمل سے گذرا ۔ ان میں اولین حیثیت ایتھنز (یونان) کو حاصل ہے۔ جہاں چھٹی عیسوی قبل مسیح تھیٹرکی شروعات ہوئی اور اس نے فکری و آگہی کے نئے چراغ روشن کیے۔ تھیٹر کا دوسرا بڑاقدیمی مرکز ہندوستان ہے ، جہاں ناٹک کے نام سے دھارمک تھیٹر کی ابتدا ہوئی ۔ جو وقت گذرنے کے ساتھ اندر سبھا کی کہانیوں کوتھیٹر کے ذریعے پیش کر کے عوام کی تفریح طبع کا ذریعہ بن گیا۔ ہندوستان میں بھی تھیٹر کی تاریخ دو صدی قبل مسیح ملتی ہے۔ دنیا کے دیگر خطوں میں تھیٹر کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود رہا ہوگا، مگر اس کی کوئی واضح تاریخ نہیں ملتی۔

سولہویں صدی میں برطانوی مصنف اور شاعر شیکسپئر(1564 - 1616) نے تھیٹر کو ایک نئی جہت اور ایک نئی زندگی دی۔ شیکسپئر جو شاعر ہونے کے ساتھ ڈرامہ نویس اور اداکار بھی تھا،اس نے برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ تک اور ہالینڈسے اٹلی (سلطنت روما )تک ہر دور اور ہر زمانے کے معاشرتی تضادات (Social Conflicts)پر مبنی کہانیوں کو ڈرامائی شکل دی۔یہ وہ دور تھا جب یورپ تاریخ کے مختلف ادوارسے نکلنے کے بعد نشاۃ ثانیہ(Renaissance) کی طرف بڑھ رہاتھا۔

ہمارے دوست انجم رضوی (جنہوں نے ایک طویل عرصہ برطانیہ میں بی بی سی میں کام کرتے گذارا ہے)کا کہنا ہے کہ شیکسپئر کا اٹلی (سلطنت روما) کی کہانیوں کو ڈراماٹائز کرنے کے پس پشت اس معاشرے میں تضادات کا گہرا ہونا تھا۔ جب کہ انگریزی اوراردو کے نئی نسل کے نمایندہ شاعراور معروف صحافی پیرزادہ سلمان اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ شیکسپئر نے یورپ کے مختلف علاقوں کی کہانیوں کو انگریزی کے قالب میں ڈھال کر انگریزی زبان وادب کو نئے الفاظ، نئی تراکیب اور نئے محاورے دیے۔ اس کے ڈراموں میں بولے جانے والے بیشتر ڈائیلاگ اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔

ہندوستان کا قدیمی سنسکرت تھیٹر دھارمک روایات سے جڑا ہونے کے سبب محدود تھا ۔ قرون وسطیٰ میں جب مسلمان برصغیر میں آئے تو ترک اور ایرانی ادب کے مقامی زبانوں پر اثرات نے ہندوستانی ادب کے ساتھ تھیٹر کے انداز کو بھی تبدیل کیا ، لیکن اصل تبدیلی انگریزوں کی آمد اور انگریزی زبان و ادب کے مطالعہ کے نتیجے میں آئی ۔ یہ تبدیلی سب سے پہلے بنگال میں رونما ہوئی اور بنگالی ادب کے ساتھ تھیٹر کا دامن بھی وسیع کیا ۔ اس کے بعد ہندوستان کی دیگر زبانوںکے ادب، شاعری اور تھیٹر میں نئی جہتوںکو ابھارا۔


اردو میں تھیٹر کی روایت بہت کمزور رہی ہیں۔ اردو میں آغا حشر کاشمیری اور امتیاز علی تاج سمیت صرف چند نام ایسے ہیں، جنہوں نے اردو میں ڈرامے لکھے اور پیش کیے۔آغا حشر مختلف کہانیوں کو ڈراماٹائزکر کے پیش کیا کرتے تھے۔البتہ امتیاز علی تاج نے کئی طبع زاد ڈرامے لکھے۔ مگر ان ڈراموں کا انداز سنسکرت کے قدیمی تھیٹر سے زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ زیادہ ترموضوعات تاریخی واقعات سے اخذ کیے گئے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد اردو تھیٹر میں ہمارے سامنے دو اہم نام خواجہ معین الدین اور علی احمد کے نام آتے ہیں۔ خواجہ صاحب مرحوم ہلکے پھلکے عوامی موضوعات کو مزاحیہ وطنزیہ انداز میں پیش کرنے میں ملکہ رکھتے تھے ، جب کہ علی احمد نے عوامی مسائل اور عوام کے فکری رجحانات کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ان کے تھیٹر انسٹیٹیوٹ (ناٹک) سے کئی نامور فنکارپیدا ہوئے، جنہوں نے فلم اور ٹیلی ویژن پر اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

آج تھیٹر کی فعالیت اور اس کا دائرہ کار خاصا بڑھ چکا ہے۔ اسٹریٹ تھیٹر سے Interactive Theatreتک تھیٹر کی کئی اقسام متعارف ہوچکی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی امریکا کے مصنف اور دانشور Augusto Boalنے تھیٹر کو ایک نئی جہت عطاکی ہے۔اسٹریٹ تھیٹر کے حوالے سے دہلی کے صفدر ہاشمی کا نام ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔صفدر ہاشمی مرحوم نے اسٹریٹ تھیٹر کے ذریعے عوام کی فکری تربیت اور حکمرانوں کی مطلق العنانی کو چیلنج کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا،اس نے حکمران طبقات کو پریشان کردیا۔ نتیجتاً انھیں 1989میں بعض عناصر نے قتل کردیا۔

پاکستان میں ویسے تو تھیٹر اور ڈرامہ کے لیے فضا کبھی سازگار نہیں رہی۔ لیکن اس حوالے سے جنرل ضیا کا دور انتہائی کربناک تھا۔اس دور میں فکری ارتقا کی تمام راہیں حد درجہ مسدود کردی گئی تھیں۔ ذرایع ابلاغ بدترین پابندیوں کا شکار تھے۔جسے ضمیر نیازی مرحوم نے Press in Chainsکا نام دیا تھا۔ جن صحافیوں نے آزادیِ اظہاراور جمہوریت کی بحالی کے لیے آواز اٹھائی انھیں قید وبند کے ساتھ کوڑوں کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔پھر ایسے امتیازی قوانین نافذ کیے گئے، جن کے نتیجے میں ایک طرف غیر مسلموں کی زندگیاں اجیرن ہوئیں ، تو دوسری طرف صنفی امتیازات میں اضافہ ہوا۔

ایک ایسے پر آشوب دور میں جب غور و فکر اورتحقیق وتخلیق کے دروازے بند کیے جارہے ہوں۔ جب عقیدے کی حرمت کے نام پر قلمکاروں، فنکاروں اور مصوروں کو پابند سلاسل کیا جا رہاہو، تو تھیٹر کے ذریعے عوام کی آواز کواٹھانا،جرأت رندانہ سے کم نہیں۔ایسے ماحول میں ایک طرف اسلم اظہر مرحوم اور منصور سعید مرحوم تھیٹر کے ذریعے خرد افروزی کی شمع جلانے نکلے تو دوسری طرف مدیحہ گوہر اور ان کے شوہر شاہد ندیم نے ''اجوکا''کے نام سے تھیٹرگروپ قائم کرکے فکری آزادی، صنفی مساوات اور غیر مسلموں کے حقوق سمیت انسانی حقوق کے تمام موضوعات پر مبنی ڈرامے اسٹیج کرکے عوام کی فکری تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ان کے ڈراموں نے حبس کے اس ماحول میں روشن خیالی اور خرد افروزی کی ایک نئی روح پھونکنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

آج جب مدیحہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کی جدوجہد کو بے آسرا کرگئیں، اسی طرح مدیحہ گوہر نے راہ عدم لے کر لوگوں کی فکری بالیدگی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو تشنہ چھوڑدیا۔کیا ہمارے نصیب میں یہی لکھا ہے کہ وہ تمام خواتین جوجرأت ، ہمت اور حق گوئی کی علامت تھیں، اپنا مشن مکمل کیے بغیر ہمارے درمیان سے یکے بعد دیگرے اٹھا لی جائیں۔ پہلے سبین محمود جنونی قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنی۔ پھر پروین رحمان کو لینڈ مافیا نے زندگی کی بندشوں سے آزاد کیا۔ اسی سال فروری میں برین ہیمرج عاصمہ کو ہم سے چھین کر لے گیا۔اب کینسر کے موذی مرض سے لڑتے لڑتے تھک ہار کرمدیحہ بھی شکست کھا گئیں، مگرامید پر دنیا قائم ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی:

کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے

مجھ سے بہتر کہنے والے، تم سے بہتر سننے والے
Load Next Story