پریشان یا خوش حال
سیاسی قائدین کی یہ ذہنی ناپختگی اور غیر ذمے داری اپنے پیچھے سوائے ایک کڑواہٹ اور بدمزگی کے کچھ نہیں چھوڑتی۔
دو تین روز قبل اچانک مجھے اپنی ایک عزیزہ جو میرے چھوٹے بھائی احسن اسلام کی خوشدامن اور ہم سب کی چچی شوکت تھیں کی فوتگی کے ضمن میں پشاور جانا پڑا۔
ٹریول ایجنسی کے دوستوں سے پتہ کیا تو معلوم ہوا آج لاہور تا پشاور سرے سے کوئی فلائٹ ہی نہیں اور بذریعہ اسلام آباد بھی کوئی ایسا فضائی رابطہ نہیں کہ جنازے سے پہلے پہنچا جاسکے (ایک صوبائی دارالحکومت سے دوسرے صوبائی مرکز تک بذریعہ ہوائی جہاز رابطے اور رسائی کی یہ صورتحال اپنی جگہ پر ایک لمحہ فکریہ ہے بشرطیکہ کوئی اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرے) سو اب صرف سڑک کا راستہ ہی بچتا تھا جو موٹروے کی سہولت کے باوجود کم از کم سات گھنٹے کا متقاضی تھا کہ دونوں طرف ٹول پلازہ تک پہنچنے سے نکلنے کا راستہ دونوں شہروں میں تعمیراتی کام کی وجہ سے آج کل زیادہ طویل اور دشوار ہوچکا ہے۔
طے یہی پایا کہ رات اسلام آباد رک کر اگلے دن باقی کا سفر کیا جائے تاکہ تعزیت کے ساتھ ساتھ دعا میں بھی شرکت کی جاسکے۔ صوبہ خیبرپختونخوا (کے پی کے) بننے سے قبل پشاور شمال مغربی صوبہ سرحد کا حصہ تھا اور اس سے ملحقہ فاٹا کے علاقے کو علاقہ غیر کہا جاتا تھا جو دونوں ہی انتہائی مجہول اور نامناسب نام تھے۔ یہ ہمارے اہل سیاست کا کمال ہے کہ آدھا ملک گنوانے اور تقریباً چھ دہائیاں گزارنے کے بعد بھی ہم سے یہ چھوٹا سا مگر انتہائی ضروری کام نہ ہوسکا۔
پشاور سے میرا پہلا براہ راست تعلق اور تعارف 1958ء کے موسم گرما میں ہوا جب والد صاحب اسکول میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران مجھے اپنے ساتھ وہاں لے گئے تھے۔ وہیں میری ملاقات ان کے عزیز دوست لالہ فقیر حسین سے ہوئی (آگے چل کر یہی لالہ فقیر حسین مرحوم چچی شوکت کے شوہر اور میرے بھائی کے سسر بنے) جو ایک بہت ہی نیک دل، محبت کرنے والے اور مہماندار انسان تھے۔
''وارث'' کے فوراً بعد آنے والا ڈرامہ سیریل ''دہلیز'' میں، میں نے قوی خاں کے کردار کا نام بھی لالہ فقیر حسین رکھا جو بہت مقبول ہوا لیکن میرے نزدیک اس کا اصل حاصل وہ خوشی تھی جو چچا فقیر حسین کو اس کی وجہ سے ملی اور جس کا وہ ہمیشہ بہت محبت سے اور بار بار ذکر کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد مختلف حوالوں سے پشاور آنا جانا رہا۔ احمد فراز، محسن احسان، فاطر غزنوی، فارغ بخاری، غلام محمد قاصر، عزیز اعجاز، ناصر علی سید اور دیگر کئی احباب سے زندگی بھر کی ملاقاتیں اور دوستیاں بھی رہیں لیکن لالہ فقیر حسین کے بعد وہاں کے جس دوسرے شخص سے سب سے زیادہ قربت کا رشتہ قائم ہوا وہ پروفیسر پریشان خٹک مرحوم ہی تھے۔
بچوں کے نام رکھنے میں ہمارے پٹھان بھائی کمال کے جدت پسند ہیں۔ سو شروع شروع میں ہم نے بھی اس نام کو پریشانی والے پریشان کے معنوں میں ہی لیا بعد میں پتہ چلا کہ ان کا اصل اور پورا نام غمے جاں پری شان خشک ہے جس کا عمومی مطلب کچھ کچھ جان کے ہیرے اور پری کے سے حسن والے سے ملتا جلتا ہے۔ اپنے نام کے حوالے سے پریشان بھائی کا یہ جملہ ان کی خوش طبعی اور ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ
''یاد رکھو پٹھان صرف دو طرح کے ہوتے ہیں یا پریشان یا خوشحال''
اب یہاں پشتو کے مشہور شاعر اور مغلیہ دور کے تاریخی کردار خوش حال خٹک کے نام کی رعایت سے انھوں نے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ اپنی جگہ پر بہت دلچسپ اور مزیدار ہے لیکن اس طرح کے جملے پھولوں کی طرح ان کے منہ سے مسلسل جھڑتے رہتے تھے۔ تاریخ، لسانیات اور پشتون تہذیب، ادب اور کلچر پر ان کی دسترس غیر معمولی تھی اور ان کے بات کرنے کا ڈھنگ ایسا تھا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
اب پتہ نہیں یہ نسلی طور پر پٹھان ہونے کا تعلق ہے یا پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا میں قائم حکومت کے پارٹی سربراہ ہونے کے تجربے کا فیض کہ 29 اپریل کو لاہور کے مینار پاکستان کے جلسے میں کی جانے والی عمران خان کی تقریر کے دوران میرا دھیان بار بار پروفیسر پری شان خٹک مرحوم کی طرف جاتا رہا۔ آج کل کے سیاسی ہنگاموں میں عمران خان، میاں محمد نواز شریف، مولانا طاہر القادری اور شہباز شریف سمیت تقریباً تمام مقررین جلسوں میں جس طرح کی زبان ایک دوسرے کے بارے استعمال کرتے ہیں وہ انتہائی غلط، تکلیف دہ، غیر اخلاقی اور افسوسناک ہے کہ ایسے طعنے، الزامات، جگتیں، گالیاں اور بدتمیزی کسی بھی مہذب معاشرے کے نمایندوں کے لیے یا ان کی طرف سے سامنے آنا ایک لمحۂ فکریہ ہی نہیں نقش رنج و عبرت بھی ہے۔
سیاسی قائدین کی یہ ذہنی ناپختگی اور غیر ذمے داری اپنے پیچھے سوائے ایک کڑواہٹ اور بدمزگی کے کچھ نہیں چھوڑتی۔ عوامی اسٹیج پر کھڑے ہوکر مسلسل ایک دوسرے کی تضحیک اور الزام تراشیوں کا یہ عمل اس لیے بھی قابل مذمت اور لائق تنقید ہے کہ اس کی وجہ سے جلسوں میںشرکت کرنے والے ہزاروں ووٹرز، ورکرز اور تماشائیوں سمیت میڈیا کے ذریعے ان کو سننے اور دیکھنے والے کروڑوں ناظرین کوعملی طور پر ان سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ بلاشبہ ان گالیوں پر تالیاں بجاتے ہیں مگر بیشتر اسی سوچ میں پڑے رہ جاتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس ہمارے یعنی عوام کے لیے کیا ہے۔
ایک طرف سے کچھ اعدادو شمار کارکردگی کے اظہار کے لیے پیش کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف سے انھی کے نقلی، جعلی، فرضی یا اضافی ہونے کا شور مچایا جاتا ہے۔ یہ کھیل اب بند ہونا چاہیے۔ عوام کے اصل مسائل سیاستدانوں کی ان نچلے درجے کی ذاتی لڑائیوں سے نہ کبھی سامنے آئیں گے اور نہ حل ہوسکیں گے۔ میں لاہور میں رہتا ہوں، لیکن وطن عزیز کے طول و عرض میں میرا آنا جانا لگا رہتا ہے جو بھی حکومت، جہاں بھی اچھا کام کررہی ہے وہ تمام تر متعلقہ مسائل کے باوجود لائق تحسین ہے کہ پاکستان ہم سب کا ہے، لاہور کی طرح آدھا پشاور بھی اکھڑا پڑا ہے۔
جس سے یقینا دونوں جگہ کے شہریوں کو بہت تکلیف ہے اور اسی طرح کی تعمیر آمادہ اسکیموں کے ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے باقی صوبوں کے عوام بھی مسائل کا شکار ہیں۔ سو مسئلہ اس کی آڑ میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا نہیں بلکہ مل جل کر اجتماعی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے۔ اب اگر عمران خان نے اپنی اس حالیہ تقریر کو صرف عوام کے مسائل اور اپنے منشور اور پروگرام تک محدود رکھا ہے تو یہ ایک اچھی اور مستحسن بات ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف وہ خود اپنے اس رویے پر قائم رہے بلکہ باقی لیڈران کرام بھی اپنے رویوں اور طرز فکر کو بدلیں اور سب مل کر صرف اور صرف عوام کی بہتری اور فلاح کی بات کریں کہ صرف اسی راستے پر چل کر پریشانیوں کو خوش حالیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
ٹریول ایجنسی کے دوستوں سے پتہ کیا تو معلوم ہوا آج لاہور تا پشاور سرے سے کوئی فلائٹ ہی نہیں اور بذریعہ اسلام آباد بھی کوئی ایسا فضائی رابطہ نہیں کہ جنازے سے پہلے پہنچا جاسکے (ایک صوبائی دارالحکومت سے دوسرے صوبائی مرکز تک بذریعہ ہوائی جہاز رابطے اور رسائی کی یہ صورتحال اپنی جگہ پر ایک لمحہ فکریہ ہے بشرطیکہ کوئی اس کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرے) سو اب صرف سڑک کا راستہ ہی بچتا تھا جو موٹروے کی سہولت کے باوجود کم از کم سات گھنٹے کا متقاضی تھا کہ دونوں طرف ٹول پلازہ تک پہنچنے سے نکلنے کا راستہ دونوں شہروں میں تعمیراتی کام کی وجہ سے آج کل زیادہ طویل اور دشوار ہوچکا ہے۔
طے یہی پایا کہ رات اسلام آباد رک کر اگلے دن باقی کا سفر کیا جائے تاکہ تعزیت کے ساتھ ساتھ دعا میں بھی شرکت کی جاسکے۔ صوبہ خیبرپختونخوا (کے پی کے) بننے سے قبل پشاور شمال مغربی صوبہ سرحد کا حصہ تھا اور اس سے ملحقہ فاٹا کے علاقے کو علاقہ غیر کہا جاتا تھا جو دونوں ہی انتہائی مجہول اور نامناسب نام تھے۔ یہ ہمارے اہل سیاست کا کمال ہے کہ آدھا ملک گنوانے اور تقریباً چھ دہائیاں گزارنے کے بعد بھی ہم سے یہ چھوٹا سا مگر انتہائی ضروری کام نہ ہوسکا۔
پشاور سے میرا پہلا براہ راست تعلق اور تعارف 1958ء کے موسم گرما میں ہوا جب والد صاحب اسکول میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران مجھے اپنے ساتھ وہاں لے گئے تھے۔ وہیں میری ملاقات ان کے عزیز دوست لالہ فقیر حسین سے ہوئی (آگے چل کر یہی لالہ فقیر حسین مرحوم چچی شوکت کے شوہر اور میرے بھائی کے سسر بنے) جو ایک بہت ہی نیک دل، محبت کرنے والے اور مہماندار انسان تھے۔
''وارث'' کے فوراً بعد آنے والا ڈرامہ سیریل ''دہلیز'' میں، میں نے قوی خاں کے کردار کا نام بھی لالہ فقیر حسین رکھا جو بہت مقبول ہوا لیکن میرے نزدیک اس کا اصل حاصل وہ خوشی تھی جو چچا فقیر حسین کو اس کی وجہ سے ملی اور جس کا وہ ہمیشہ بہت محبت سے اور بار بار ذکر کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد مختلف حوالوں سے پشاور آنا جانا رہا۔ احمد فراز، محسن احسان، فاطر غزنوی، فارغ بخاری، غلام محمد قاصر، عزیز اعجاز، ناصر علی سید اور دیگر کئی احباب سے زندگی بھر کی ملاقاتیں اور دوستیاں بھی رہیں لیکن لالہ فقیر حسین کے بعد وہاں کے جس دوسرے شخص سے سب سے زیادہ قربت کا رشتہ قائم ہوا وہ پروفیسر پریشان خٹک مرحوم ہی تھے۔
بچوں کے نام رکھنے میں ہمارے پٹھان بھائی کمال کے جدت پسند ہیں۔ سو شروع شروع میں ہم نے بھی اس نام کو پریشانی والے پریشان کے معنوں میں ہی لیا بعد میں پتہ چلا کہ ان کا اصل اور پورا نام غمے جاں پری شان خشک ہے جس کا عمومی مطلب کچھ کچھ جان کے ہیرے اور پری کے سے حسن والے سے ملتا جلتا ہے۔ اپنے نام کے حوالے سے پریشان بھائی کا یہ جملہ ان کی خوش طبعی اور ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ
''یاد رکھو پٹھان صرف دو طرح کے ہوتے ہیں یا پریشان یا خوشحال''
اب یہاں پشتو کے مشہور شاعر اور مغلیہ دور کے تاریخی کردار خوش حال خٹک کے نام کی رعایت سے انھوں نے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ اپنی جگہ پر بہت دلچسپ اور مزیدار ہے لیکن اس طرح کے جملے پھولوں کی طرح ان کے منہ سے مسلسل جھڑتے رہتے تھے۔ تاریخ، لسانیات اور پشتون تہذیب، ادب اور کلچر پر ان کی دسترس غیر معمولی تھی اور ان کے بات کرنے کا ڈھنگ ایسا تھا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔
اب پتہ نہیں یہ نسلی طور پر پٹھان ہونے کا تعلق ہے یا پی ٹی آئی کے خیبرپختونخوا میں قائم حکومت کے پارٹی سربراہ ہونے کے تجربے کا فیض کہ 29 اپریل کو لاہور کے مینار پاکستان کے جلسے میں کی جانے والی عمران خان کی تقریر کے دوران میرا دھیان بار بار پروفیسر پری شان خٹک مرحوم کی طرف جاتا رہا۔ آج کل کے سیاسی ہنگاموں میں عمران خان، میاں محمد نواز شریف، مولانا طاہر القادری اور شہباز شریف سمیت تقریباً تمام مقررین جلسوں میں جس طرح کی زبان ایک دوسرے کے بارے استعمال کرتے ہیں وہ انتہائی غلط، تکلیف دہ، غیر اخلاقی اور افسوسناک ہے کہ ایسے طعنے، الزامات، جگتیں، گالیاں اور بدتمیزی کسی بھی مہذب معاشرے کے نمایندوں کے لیے یا ان کی طرف سے سامنے آنا ایک لمحۂ فکریہ ہی نہیں نقش رنج و عبرت بھی ہے۔
سیاسی قائدین کی یہ ذہنی ناپختگی اور غیر ذمے داری اپنے پیچھے سوائے ایک کڑواہٹ اور بدمزگی کے کچھ نہیں چھوڑتی۔ عوامی اسٹیج پر کھڑے ہوکر مسلسل ایک دوسرے کی تضحیک اور الزام تراشیوں کا یہ عمل اس لیے بھی قابل مذمت اور لائق تنقید ہے کہ اس کی وجہ سے جلسوں میںشرکت کرنے والے ہزاروں ووٹرز، ورکرز اور تماشائیوں سمیت میڈیا کے ذریعے ان کو سننے اور دیکھنے والے کروڑوں ناظرین کوعملی طور پر ان سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ بلاشبہ ان گالیوں پر تالیاں بجاتے ہیں مگر بیشتر اسی سوچ میں پڑے رہ جاتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس ہمارے یعنی عوام کے لیے کیا ہے۔
ایک طرف سے کچھ اعدادو شمار کارکردگی کے اظہار کے لیے پیش کیے جاتے ہیں تو دوسری طرف سے انھی کے نقلی، جعلی، فرضی یا اضافی ہونے کا شور مچایا جاتا ہے۔ یہ کھیل اب بند ہونا چاہیے۔ عوام کے اصل مسائل سیاستدانوں کی ان نچلے درجے کی ذاتی لڑائیوں سے نہ کبھی سامنے آئیں گے اور نہ حل ہوسکیں گے۔ میں لاہور میں رہتا ہوں، لیکن وطن عزیز کے طول و عرض میں میرا آنا جانا لگا رہتا ہے جو بھی حکومت، جہاں بھی اچھا کام کررہی ہے وہ تمام تر متعلقہ مسائل کے باوجود لائق تحسین ہے کہ پاکستان ہم سب کا ہے، لاہور کی طرح آدھا پشاور بھی اکھڑا پڑا ہے۔
جس سے یقینا دونوں جگہ کے شہریوں کو بہت تکلیف ہے اور اسی طرح کی تعمیر آمادہ اسکیموں کے ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے باقی صوبوں کے عوام بھی مسائل کا شکار ہیں۔ سو مسئلہ اس کی آڑ میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا نہیں بلکہ مل جل کر اجتماعی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے۔ اب اگر عمران خان نے اپنی اس حالیہ تقریر کو صرف عوام کے مسائل اور اپنے منشور اور پروگرام تک محدود رکھا ہے تو یہ ایک اچھی اور مستحسن بات ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف وہ خود اپنے اس رویے پر قائم رہے بلکہ باقی لیڈران کرام بھی اپنے رویوں اور طرز فکر کو بدلیں اور سب مل کر صرف اور صرف عوام کی بہتری اور فلاح کی بات کریں کہ صرف اسی راستے پر چل کر پریشانیوں کو خوش حالیوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔