خواجہ آصف کی نااہلی اور مریم نواز شریف کا عزم

نااہلی کے فیصلے کے بعد خواجہ آصف سیالکوٹ پہنچے توبھی اُن کا ہزاروں لوگوں نے فقیدالمثال استقبال کیا۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

ساہیوال کے بعد صادق آباد میں بھی نون لیگ کا جلسہ لاریب بہت بڑا تھا۔ نون لیگ مگر آزمائشوں اور امتحانوں کے گرداب میں جس طرح گھِر چکی ہے، یہ آزمائشیں ابھی شائد مزید آگے بڑھیں گی۔ آزمائشیں انسانوں پر بھی آتی ہیں، قوموں اور ملکوں پر بھی۔ جنہیں مگر اپنے آدرشوں پر یقینِ کامل ہوتا ہے، آزمائشیں انھیں کندن بنا دیتی ہیں۔ تُندیِ بادِ مخالف اُن کے چراغ گُل نہیں کر سکتی۔

نواز شریف اور نون لیگ نے اقتدار کے ایوانوں میں ایک طویل عرصہ گزارا ہے۔ اب اگر بوجوہ مخالفتوں اور شدید آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو انھیں جرأت اور استقامت سے اِن کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر اُن کے پاؤں اپنی دھرتی پر مضبوطی سے جمے رہے اور عوام کے دل اُن کے ساتھ بدستور دھڑکتے رہے تو آخری فتح اُنہی کی ہو گی۔ یہ مخالفانہ طوفان دراصل انھیں اور اُونچا اُڑانے کے لیے چل رہے ہیں۔

ایسے طوفان پہلے بھی تو آئے تھے۔ اُس وقت کہا گیا تھا کہ نواز شریف داستانِ پارینہ بن گئے ہیں۔ مشرف نے کہا تھا، اب کبھی پاکستان میں اُن کی سیاست اور اقتدار کا پرچم نہیں لہرا سکے گا۔ لیکن پھر سب نے دیکھا کہ نواز شریف نے اپنے ہاتھوں سے اپنے اقتدار کی نئی داستان بھی لکھی اور اُن کی نئی سیاست کا پرچم بھی بلند مستول پر لہرایا۔ یہ معمولی کامیابی نہیں تھی۔ اب اگر ادبار اور مشکلات پھر آگئی ہیں تو کیا؟ نواز شریف کو اگر اپنے نظرئیے اور اپنی آئیڈیالوجی پر یقینِ محکم ہے تو اُن کی موجودہ ناکامیاں اور نااہلیاں انھیں سیاسی میدان سے معدوم نہیں کر سکیں گی۔

کیا یہ واقعہ اُن کے لیے مسرت اور اطمینان کا باعث نہیں ہے کہ ایک طرف اگر انھیں عدالتوں کی طرف سے تاحیات نااہل کیا گیا ہے اور نون لیگی صدارت سے بھی ہٹا دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف ایک بڑے اور معتبر امریکی اخبار، وال اسٹریٹ جرنل، نے اپنے تازہ ترین سروے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور اُن کی پارٹی اب بھی پاکستان کی سب سے مقبول جماعت ہے ۔''وال اسٹریٹ جرنل'' نے Trial of Ex-Leader Rattles Pakistan,s Democracyکے زیر عنوان شایع خبر میں یہ انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف کی نون لیگ کو36فیصد، عمران خان کی پی ٹی آئی کو24فیصد اور آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کو17فیصد عوامی مقبولیت حاصل ہے۔

اب 2مئی2018ء کو صادق آباد میں اور اس سے دو دن پہلے ساہیوال میں نون لیگی جلسوں نے بھی ''وال اسٹریٹ جرنل'' کے سروے کی کسی قدر تصدیق کر دی ہے۔ یوں جناب نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف کا بالیقین یہ کہنا قابلِ فہم ہے کہ اگلے الیکشن میں کامیابی اُنہی کی ہو گی۔ مریم نواز شریف جس پُر عزم اور مستحکم لہجے میں بات کرتی سنائی دیتی ہیں، یہ بے بنیاد نہیں ہے۔ نون لیگ کو معدوم کرنا شائد ابھی کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

بظاہر تو نون لیگ کے ایک مضبوط سیاسی ستون ، خواجہ محمد آصف، کو عدالت کی طرف سے تاحیات نااہل قرار دے کر بہت بڑا نقصان کیا گیا ہے لیکن جو لوگ حقائق سے آشنا ہیں، جانتے ہیں کہ ناکامی اور نااہلی کی اِسی ''خاک''سے خواجہ صاحب دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے بیٹے کی شکل میں ۔ ایسا نہ ہُوا تو وہ ''کنگ میکر'' بنیں گے۔ یہ بھی امکان ہے کہ سیالکوٹ سے معروف بزنس ٹائیکون ریاض الدین شیخ کواُن کی جگہ الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے۔

نااہلی کے فیصلے کے بعد خواجہ آصف سیالکوٹ پہنچے توبھی اُن کا ہزاروں لوگوں نے فقیدالمثال استقبال کیا۔ یہ منظر اِس امر کا عکاس ہے کہ نااہلی کے فیصلے نے خواجہ صاحب کے ووٹ بینک کو متاثر نہیں کیا ہے۔ اگر کوئی بے وفا لیڈر ہوتا تو خواجہ صاحب کی نااہلی کے موقع پر (بطورِ احتیاط)خاموش رہنے کو ترجیح دیتا۔ ہم نے مگر یہ خوش کن اور حیرت انگیز منظر دیکھا ہے کہ نہ تو نواز شریف ، خواجہ صاحب سے فاصلے پر کھڑے ہُوئے اور نہ محترمہ مریم نواز شریف نے خاموشی اور مصلحت کی چادر اوڑھے رکھی۔

دونوں باپ بیٹی خواجہ صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جس روز پاکستان کے سابق وزیر خارجہ، خواجہ آصف، کے خلاف یہ فیصلہ آیا، محترمہ مریم نواز شریف نے جرأت سے اپنی ٹویٹ میں وہ تصویر بھی جاری کی جس میں وہ خواجہ صاحب کے ساتھ یوں کھڑی ہیں کہ عزیمت اورعز م اُن کی چہرے سے پوری طرح عیاں ہیں۔


خواجہ محمد آصف صاحب کو یقینا اپنے خلاف آنے والے فیصلے سے شدید دھچکا اور نقصان پہنچا ہے ۔(وقتی طور پر) اُن کے سیاسی کیرئر کا(بظاہر) اختتام یوں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ مسلسل نصف درجن بار انتخابات میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ سینیٹر بھی رہے۔ووٹ کی بنیاد پر سیالکوٹ میں انھیں ہرانے والا کوئی نہیں تھا۔ اُن کے سیاسی حریف(عثمان ڈار) نے ٹھیک ہے 72ہزار ووٹ لیے لیکن کامیاب تو نہ ہو سکے۔

درست اور سچی بات یہی ہے کہ خواجہ صاحب کو سیاست اور انتخاب کے میدان میں شکست دینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی ۔اب انھیں سیاسی میدان میں جس طرح پچھاڑنے اور اکھاڑنے کی کوشش کی گئی ہے، پہلوان یوں چِت نہیں کیے جا سکتے۔ خواجہ صاحب کو آؤٹ کرنے سے نواز شریف کو مزید کمزور نہیں کیا جا سکا ہے۔ نون لیگ کے تاحیات سپریم لیڈر ایک اور مضبوط سیاسی بازو کٹنے سے دلبرداشتہ نہیں ہیں۔

عدالتوں کے فیصلوں سر آنکھوں پر ۔ عدالتوں کا احترام بھی ہم پر فرض ہے اور جج صاحبان بھی ہمارے لیے یکساں محترم۔ مگر خواجہ صاحب کا ''تاحیات نااہلی'' کے بعد سیالکوٹ میں اُن کے ووٹروں نے جس انداز سے استقبال کیا ہے، یہ نااہلی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم منظر ہے۔خواجہ صاحب اُن لوگوں میں سے بھی نہیں ہیں جو فیصلے سُن کر خاموش رہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھیں رہیں۔ انھوں نے اپنے خلاف آنے والے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کے دروازے پر بھی دستک دے دی ہے۔

شنید ہے 4مئی2018ء کو اُن کی پہلی شنوائی ہونے والی ہے۔ عدالتِ عالیہ کا مگر یہ کہنا بھی نہائت بجا ہے کہ سیاستدانوں کو اپنے متنازع معاملات پارلیمنٹ میں طے کر نے چاہئیں۔شائد مستقبل میں ہمارے ارکانِ اسمبلی کوئی عبرت پکڑیں۔

خواجہ محمد آصف کو اقامے کی بنیاد پر نااہل قرار دے کر جو مثال قائم کی گئی ہے، اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اور وفاقی وزیر کا بھی سیاسی مستقبل مخدوش اور ڈانوا ڈول ہے۔ نواز شریف کے ایک اور معتبر ساتھی، دانیال عزیز، کا کیس بھی زیر سماعت ہے۔ اُن کے بارے میں افواہیں اتنی مضبوط ہیں کہ اُن کے انتخابی حلقے میں ابھی سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ دانیال نکالے گئے تو اُن کے والد صاحب، چوہدری انور عزیز، بڑھاپے کے باوجود الیکشن لڑیں گے۔ انور عزیز صاحب ہمارے بزرگ سیاستدان ہیں۔ رکن پارلیمنٹ بھی رہے ہیں اور وفاقی وزیر بھی۔

دانیال عزیز پر انھوں نے جو محنت کی ہے، کوئی نا موافق فیصلہ اُن کا دل توڑ دے گا۔ دانیال عزیز اپنے قائد نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف کے ساتھ جس کمٹمنٹ اور مستحکم ارادوں سے مسلسل کھڑے رہے ہیں، نواز شریف نے بجا طور پر اُن کی قدر بھی کی ہے اور تحسین بھی۔خدانخواستہ اگر دانیال عزیز اور احسن اقبال بھی عدالتی فیصلوں کی زَد میں آگئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پورا ضلع سیالکوٹ اور ضلع نارووال نون لیگ کی تجربہ کار قیادت اور الیکٹیبلز سے محروم اور خالی ہو جائے گا۔ اس سے پہلے اِسی ضلعے سے نواز شریف کے وزیر قانون زاہد حامد بھی فارغ کیے جا چکے ہیں۔

خواجہ صاحب نے اپنی تاحیات نااہلی کے فیصلے کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج تو کردیا ہے لیکن کون جانے اِس چیلنج کا جواب کیا آئے؟کب آئے؟ اِس فیصلے کا مگر اب یہ اثر ضرور ہوگا کہ تمام سیاستدان انتخابات میںحصہ لینے سے پہلے اپنےNomination Papersبڑے دھیان سے پُر کیا کریں گے۔

نواز شریف باسٹھ وَن ایف سے جان چھڑا سکتے تھے لیکن اُن سے غفلت اور چُوک ہو گئی۔ انھوں نے شائد سوچا ہوگا کہ یہ شِق مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ ایسا مگر ہو چکا ہے۔ لیکن میاں محمد نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی، مریم نواز شریف، جس عزم اور عہد کا اظہار کررہے ہیں، صاف نظر آرہاہے کہ وہ آسانی سے سر جھکائیں گے نہ شکست تسلیم کریں گے۔وہ آیندہ الیکشنوں میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے بجائے کسی اور کو اپنا حریف قرار دے رہے ہیں۔
Load Next Story