چوڑی مزدوروں کے مسائل
محنت کش جس قدر شدت کے ساتھ جدوجہد کریں گے اسی قدر جلد اپنے حقوق حاصل کریں گے۔
MIAMI:
محنت کشوں کے حقوق ایسی چیز نہیں کہ ادھر محنت کشوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور اسی وقت سرمایہ دار نے حکم صادر فرمادیا کہ محنت کشوں کے تمام حقوق کسی تھالی میں رکھ کر انھیں پیش کردو بلکہ محنت کشوں کو حقوق حاصل ہوتے ہیں جدوجہد سے۔ محنت کش جس قدر شدت کے ساتھ جدوجہد کریں گے اسی قدر جلد اپنے حقوق حاصل کریں گے۔
محنت کشوں کو حقوق اس کیفیت میں بھی حاصل نہیں ہوتے کہ جب محنت کشوں کا یہ طرز عمل ہو کہ صاحب ہم گزارش کرتے ہیں، صاحب ہم اپیل کرتے ہیں، صاحب یہ خاکسار درخواست کرتا ہے، گویا یہ تمام عمل منت وسماجت کے زمرے میں آتا ہے اور منت سماجت کے عوض خیرات یا بھیک ہی مل سکتی ہے حقوق نہیں۔
یوں تو چوڑی کو ہمارے سماج کے علاوہ ہندوستان، افغانستان و بنگلہ دیش میں بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ خواتین کا تمام تر ہار سنگھار چوڑی کے استعمال کے بغیر گویا نامکمل ہے بلکہ برصغیر میں شعرا حضرات نے بھی چوڑی کو اپنی شاعری میں موضوع سخن بنایا ہے بلکہ شاعری کے علاوہ کچھ فلمسازوں نے چوڑیوں کے نام پر فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں تین پنجابی فلمیں بھی شامل ہیں۔
چوڑیاں کے نام سے پاکستان میں پہلی فلم پچاس برس قبل بنائی گئی، پھر فلم ''بھابھی دیاں چوڑیاں'' نے مقبولیت حاصل کی جب کہ ایک اور پنجابی فلم ''چوڑیاں'' کے نام سے بنائی گئی جب کہ ایک پشتو فلم بھنگڑی اور ہتھکڑی بھی تخلیق کی گئی۔ بہرکیف پھر ہم آتے ہیں چوڑی کی صنعت سے وابستہ افراد کے مسائل کی جانب ۔
چوڑی کی صنعت سے وابستہ ان محنت کشوں کا آبائی وطن ہے فیروز آباد، بھارت جہاں سے یہ صدیقی برادری سے تعلق رکھنے والے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بود و باش اختیار کرلی۔ حیدر آباد میں قیام پذیر ہونے کا ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ حیدرآباد کی ریتلی مٹی (Salica Sand) فیروز آباد کی ریتلی مٹی سے مماثلت رکھتی ہے دونوں مقامات کی ریتلی مٹی چوڑی کی صنعت کے لیے موزوں ہے کیونکہ حیدرآباد کی ریتلی مٹی میں نمی کا تناسب انتہائی قلیل ہے چنانچہ حیدرآباد میں چوڑی سازی کے چھوٹے بڑے 42 کارخانے ہیں۔
حیدرآباد کے جن علاقوں میں چوڑی کے کارخانے ہیں ان میں لیاقت آباد، گجراتی پاڑہ، حالی روڈ، ملت آباد، اسلام آباد، الیاس آباد، گل شاہ، پیر نورانی بستی، فردوس کالونی وغیرہ قابل ذکر ہیں البتہ چوڑی میں جو خام مال استعمال ہوتا ہے وہ ہے شیشہ۔ سوز ایش و ریتلی مٹی یعنی سلیکا سینڈ (Salica Sand) ان تینوں چیزوں کو بھٹی پر سو درجہ حرارت پر پگھلایا جاتا ہے جب پگھل جاتے ہیں تو بڑی سرعت کے ساتھ مختلف سانچوں میں ڈالا جاتا ہے تاکہ چوڑیوں کے مختلف سائزکے لچھے تیار کیے جاسکیں مگر اس دوران سو درجہ حرارت پر کام کرنے والے محنت کش گرمی سے پریشان ہوکر اچانک پنکھے کے سامنے آکر بیٹھ جاتے ہیں یہ عمل پورا دن جاری رہتا ہے یوں محنت کشوں کا جسم پورا دن گرم سرد ہوتا رہتا ہے جس کے باعث یہ محنت کش جس موذی و جان لیوا مرض کا شکار ہوجاتے ہیں وہ T.B ہے اس مریض کا گویا یہ مقصد ہوتا ہے کہ کھانستے کھانستے و ایڑیاں رگڑتے رگڑتے اس دنیا سے کوچ کر جائے۔
اب دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اس مرحلے میں چوڑیوں کے توڑے تیار کیے جاتے ہیں اور ہر ایک توڑے میں دو سو پچاس چوڑیاں ہوتی ہیں، اب یہ توڑے گھر مزدور خواتین کو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ خواتین ان چوڑیوں پر صدائی، رنگائی، چکلائی، کٹائی، ڈیزائننگ و پالش کا کام کرسکیں۔ اس سارے عمل میں ایک خاص قسم کا کیمیکل استعمال ہوتا ہے جب کہ جو رنگ استعمال ہوتے ہیں وہ ہیں سرخ، سبز و نیلا۔ جب کہ دیگر رنگ ان تینوں رنگوں کو ملا کر تیارکیے جاتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چوڑی کی صنعت سے وابستہ محنت کشوں کی اکثر تعداد خواتین پر مشتمل ہوتی ہے، جن کے ساتھ شریک کار ہوتی ہے کثیر تعداد بچوں کی۔ یوں جب ایک چوڑی جب کسی خاتون یا دوشیزہ کے ہاتھ کی زینت بنتی ہے تو اس چوڑی کو 72 ہاتھوں سے گزرنا پڑتا ہے یا ہم ان الفاظ میں یہ بات کرسکتے ہیں کہ ایک چوڑی میں 72 ہاتھوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔
اب تھوڑا ذکر ان محنت کش خواتین کو ملنے والی اجرت کا بھی ہوجائے تو یہ خواتین پورے دن میں جان توڑ محنت کے بعد جو اجرت حاصل کرتی ہیں وہ اجرت ہے 130 روپے سے 140 روپے یومیہ جب کہ ان خواتین کے بچوں کی محنت بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔
اس قلیل اجرت کے ساتھ جو چیز ان خواتین وہ ان کے پھول جیسے معصوم بچوں کو بن مانگے مل جاتی ہے وہ ہیں مختلف و مہلک امراض جوکہ چوڑی کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل کے باعث پیدا ہوتے ہیں وہ امراض ہیں آنکھوں کی سوجن ہونا، آنکھوں سے پانی کا بہنا، بینائی کا کمزور ہونا یا ضایع ہو جانا گیس سے ہاتھ و پاؤں کا جل جانا جلدی امراض جوڑوں کا درد T.B، کینسر وہی کینسر کہ جب کسی مریض کو بتایا جائے کہ تم کینسر کے مرض میں مبتلا ہو تو وہ مریض نصف تو اسی وقت مر جاتا ہے باقی نصف اگر مریض مفلس ہے تو بنا علاج کے بے بسی کی موت مر جاتا ہے مگر کیفیت تو یہ ہے کہ 75 فیصد خواتین ان مہلک امراض کا شکار ہیں۔
اب مرض یا امراض کے بارے میں ہم ماہر معاشیات نوبل انعام یافتہ مسٹر سیمویلسن کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے، چنانچہ لازم ہے کہ موجودہ حکومت اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے چوڑی تیار کرنے والی محنت کش خواتین کو صنعتی مزدور تسلیم کرتے ہوئے سرکاری خرچ پر ان کا علاج کروائے۔ ان خواتین کو مضر صحت کیمیکل سے محفوظ رکھنے والی ادویات فی الفورومفت مہیا کرے ان خواتین کو حکومت کے اعلان کردہ کم سے کم سرکاری پیکیج کے مطابق اجرت دی جائے اور چوڑی کی صنعت کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیتے ہوئے چوڑی کی صنعت سے وابستہ محنت کشوں کو جن میں اکثریت خواتین ہیں کو وہ تمام مراعات دی جائیں جوکہ صنعتی محنت کشوں کا حق ہیں۔ ایک اور مسئلہ ہے جس کا یہ خواتین شکار ہیں وہ یہ کہ کام کے دوران ان خواتین کی انگلیوں و انگوٹھوں کی ریکھائیں ختم ہوجاتی ہیں جس کے باعث ان خواتین کو شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں متعلقہ حکام اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے آخر ہم شکاگو کے شہید محنت کشوں کو ان کی 132 ویں برسی کے موقعے پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ جہالت، غربت، بھوک، ننگ، ملکی وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی پوری قوت سے۔
محنت کشوں کے حقوق ایسی چیز نہیں کہ ادھر محنت کشوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور اسی وقت سرمایہ دار نے حکم صادر فرمادیا کہ محنت کشوں کے تمام حقوق کسی تھالی میں رکھ کر انھیں پیش کردو بلکہ محنت کشوں کو حقوق حاصل ہوتے ہیں جدوجہد سے۔ محنت کش جس قدر شدت کے ساتھ جدوجہد کریں گے اسی قدر جلد اپنے حقوق حاصل کریں گے۔
محنت کشوں کو حقوق اس کیفیت میں بھی حاصل نہیں ہوتے کہ جب محنت کشوں کا یہ طرز عمل ہو کہ صاحب ہم گزارش کرتے ہیں، صاحب ہم اپیل کرتے ہیں، صاحب یہ خاکسار درخواست کرتا ہے، گویا یہ تمام عمل منت وسماجت کے زمرے میں آتا ہے اور منت سماجت کے عوض خیرات یا بھیک ہی مل سکتی ہے حقوق نہیں۔
یوں تو چوڑی کو ہمارے سماج کے علاوہ ہندوستان، افغانستان و بنگلہ دیش میں بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ خواتین کا تمام تر ہار سنگھار چوڑی کے استعمال کے بغیر گویا نامکمل ہے بلکہ برصغیر میں شعرا حضرات نے بھی چوڑی کو اپنی شاعری میں موضوع سخن بنایا ہے بلکہ شاعری کے علاوہ کچھ فلمسازوں نے چوڑیوں کے نام پر فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں تین پنجابی فلمیں بھی شامل ہیں۔
چوڑیاں کے نام سے پاکستان میں پہلی فلم پچاس برس قبل بنائی گئی، پھر فلم ''بھابھی دیاں چوڑیاں'' نے مقبولیت حاصل کی جب کہ ایک اور پنجابی فلم ''چوڑیاں'' کے نام سے بنائی گئی جب کہ ایک پشتو فلم بھنگڑی اور ہتھکڑی بھی تخلیق کی گئی۔ بہرکیف پھر ہم آتے ہیں چوڑی کی صنعت سے وابستہ افراد کے مسائل کی جانب ۔
چوڑی کی صنعت سے وابستہ ان محنت کشوں کا آبائی وطن ہے فیروز آباد، بھارت جہاں سے یہ صدیقی برادری سے تعلق رکھنے والے ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بود و باش اختیار کرلی۔ حیدر آباد میں قیام پذیر ہونے کا ان لوگوں کا مقصد یہ تھا کہ حیدرآباد کی ریتلی مٹی (Salica Sand) فیروز آباد کی ریتلی مٹی سے مماثلت رکھتی ہے دونوں مقامات کی ریتلی مٹی چوڑی کی صنعت کے لیے موزوں ہے کیونکہ حیدرآباد کی ریتلی مٹی میں نمی کا تناسب انتہائی قلیل ہے چنانچہ حیدرآباد میں چوڑی سازی کے چھوٹے بڑے 42 کارخانے ہیں۔
حیدرآباد کے جن علاقوں میں چوڑی کے کارخانے ہیں ان میں لیاقت آباد، گجراتی پاڑہ، حالی روڈ، ملت آباد، اسلام آباد، الیاس آباد، گل شاہ، پیر نورانی بستی، فردوس کالونی وغیرہ قابل ذکر ہیں البتہ چوڑی میں جو خام مال استعمال ہوتا ہے وہ ہے شیشہ۔ سوز ایش و ریتلی مٹی یعنی سلیکا سینڈ (Salica Sand) ان تینوں چیزوں کو بھٹی پر سو درجہ حرارت پر پگھلایا جاتا ہے جب پگھل جاتے ہیں تو بڑی سرعت کے ساتھ مختلف سانچوں میں ڈالا جاتا ہے تاکہ چوڑیوں کے مختلف سائزکے لچھے تیار کیے جاسکیں مگر اس دوران سو درجہ حرارت پر کام کرنے والے محنت کش گرمی سے پریشان ہوکر اچانک پنکھے کے سامنے آکر بیٹھ جاتے ہیں یہ عمل پورا دن جاری رہتا ہے یوں محنت کشوں کا جسم پورا دن گرم سرد ہوتا رہتا ہے جس کے باعث یہ محنت کش جس موذی و جان لیوا مرض کا شکار ہوجاتے ہیں وہ T.B ہے اس مریض کا گویا یہ مقصد ہوتا ہے کہ کھانستے کھانستے و ایڑیاں رگڑتے رگڑتے اس دنیا سے کوچ کر جائے۔
اب دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے اس مرحلے میں چوڑیوں کے توڑے تیار کیے جاتے ہیں اور ہر ایک توڑے میں دو سو پچاس چوڑیاں ہوتی ہیں، اب یہ توڑے گھر مزدور خواتین کو دیے جاتے ہیں تاکہ وہ خواتین ان چوڑیوں پر صدائی، رنگائی، چکلائی، کٹائی، ڈیزائننگ و پالش کا کام کرسکیں۔ اس سارے عمل میں ایک خاص قسم کا کیمیکل استعمال ہوتا ہے جب کہ جو رنگ استعمال ہوتے ہیں وہ ہیں سرخ، سبز و نیلا۔ جب کہ دیگر رنگ ان تینوں رنگوں کو ملا کر تیارکیے جاتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چوڑی کی صنعت سے وابستہ محنت کشوں کی اکثر تعداد خواتین پر مشتمل ہوتی ہے، جن کے ساتھ شریک کار ہوتی ہے کثیر تعداد بچوں کی۔ یوں جب ایک چوڑی جب کسی خاتون یا دوشیزہ کے ہاتھ کی زینت بنتی ہے تو اس چوڑی کو 72 ہاتھوں سے گزرنا پڑتا ہے یا ہم ان الفاظ میں یہ بات کرسکتے ہیں کہ ایک چوڑی میں 72 ہاتھوں کی محنت شامل ہوتی ہے۔
اب تھوڑا ذکر ان محنت کش خواتین کو ملنے والی اجرت کا بھی ہوجائے تو یہ خواتین پورے دن میں جان توڑ محنت کے بعد جو اجرت حاصل کرتی ہیں وہ اجرت ہے 130 روپے سے 140 روپے یومیہ جب کہ ان خواتین کے بچوں کی محنت بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔
اس قلیل اجرت کے ساتھ جو چیز ان خواتین وہ ان کے پھول جیسے معصوم بچوں کو بن مانگے مل جاتی ہے وہ ہیں مختلف و مہلک امراض جوکہ چوڑی کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکل کے باعث پیدا ہوتے ہیں وہ امراض ہیں آنکھوں کی سوجن ہونا، آنکھوں سے پانی کا بہنا، بینائی کا کمزور ہونا یا ضایع ہو جانا گیس سے ہاتھ و پاؤں کا جل جانا جلدی امراض جوڑوں کا درد T.B، کینسر وہی کینسر کہ جب کسی مریض کو بتایا جائے کہ تم کینسر کے مرض میں مبتلا ہو تو وہ مریض نصف تو اسی وقت مر جاتا ہے باقی نصف اگر مریض مفلس ہے تو بنا علاج کے بے بسی کی موت مر جاتا ہے مگر کیفیت تو یہ ہے کہ 75 فیصد خواتین ان مہلک امراض کا شکار ہیں۔
اب مرض یا امراض کے بارے میں ہم ماہر معاشیات نوبل انعام یافتہ مسٹر سیمویلسن کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے، چنانچہ لازم ہے کہ موجودہ حکومت اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے چوڑی تیار کرنے والی محنت کش خواتین کو صنعتی مزدور تسلیم کرتے ہوئے سرکاری خرچ پر ان کا علاج کروائے۔ ان خواتین کو مضر صحت کیمیکل سے محفوظ رکھنے والی ادویات فی الفورومفت مہیا کرے ان خواتین کو حکومت کے اعلان کردہ کم سے کم سرکاری پیکیج کے مطابق اجرت دی جائے اور چوڑی کی صنعت کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیتے ہوئے چوڑی کی صنعت سے وابستہ محنت کشوں کو جن میں اکثریت خواتین ہیں کو وہ تمام مراعات دی جائیں جوکہ صنعتی محنت کشوں کا حق ہیں۔ ایک اور مسئلہ ہے جس کا یہ خواتین شکار ہیں وہ یہ کہ کام کے دوران ان خواتین کی انگلیوں و انگوٹھوں کی ریکھائیں ختم ہوجاتی ہیں جس کے باعث ان خواتین کو شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں متعلقہ حکام اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے آخر ہم شکاگو کے شہید محنت کشوں کو ان کی 132 ویں برسی کے موقعے پر زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ جہالت، غربت، بھوک، ننگ، ملکی وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی پوری قوت سے۔