ذمے دار آپ بھی ہیں
ہمارے ملک میں جھوٹ سیاست کا ضروری جزو بن چکا ہے کیونکہ جھوٹ کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جا سکتی۔
RAMALLAH:
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے، موجودہ عدلیہ وہ کچھ کر رہی ہے، ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس روزانہ اسپتالوں کے دورے کر رہے ہیں۔ سبزیوں کے نرخوں کی بات ہوتی ہے مگر چیف جسٹس اس خاتون کے گھر بھی جائیں جس کے 5 مرلے کے پلاٹ پر 20 سال سے قبضہ ہے۔ ملک میں اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات التوا کا شکار اور لاکھوں افراد اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں مگر سیاسی مقدمات جلد نمٹ رہے ہیں۔
لاکھوں مقدمات کے زیر التوا ہونے کی باتیں تو کافی حد تک درست ہیں مگر اسپتالوں کے چیف جسٹس سپریم کورٹ دوروں پر نواز شریف کا اعتراض کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے صرف کراچی اور لاہور کے بعد بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور کے پی کے دارالحکومت پشاور کا دورے کر کے وہاں کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بھی دیکھ لی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں کی کارکردگی دیکھ لی ہے اور تینوں پارٹیوں کے رہنماؤں کی غلط و بے بنیاد دعوؤں کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔
پی پی سندھ حکومت کے اشتہار بند ہوگئے ہیں کہ جن میں خدمت میں سب سے آگے ہونے کے دعوے کیے جاتے تھے۔ پی پی کے اپوزیشن لیڈر نے اپنے شہر سکھر کے اسپتال کو ایشیا کا سب سے اچھا اسپتال قرار دے کرکوئی پہلا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا ایسے دعوے شہباز شریف اور عمران خان و دیگر رہنما مسلسل کرتے آ رہے ہیں۔
ملک کے سیاستدان خصوصاً حکمران جھوٹ تسلسل سے اس طرح بولتے ہیں اور دن کے رات اورکالے کے سفید ہونے کی باتیں اس طرح کرتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سوچ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ اتنا بڑا رہنما اتنا جھوٹ بھی نہیں بولے گا شاید یہ سچ ہو۔ ہمارے ملک میں جھوٹ سیاست کا ضروری جزو بن چکا ہے کیونکہ جھوٹ کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جا سکتی۔ موجودہ سیاستدانوں میں عمران خان واحد سیاستدان ہیں جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ یوٹرن لینے کے ماہر اور جھوٹے الزامات عائد کرنے میں سرفہرست ہیں جن کو متعدد نوٹس مل چکے ہیں اور جھوٹے الزامات پر مقدمات کا بھی سامنا ہے مگر وہ یا ان کا وکیل پیش نہیں ہوتے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کراچی میں کہا کہ ''ملک میں وافر بجلی موجود ہے'' تو ملک میں لوڈ شیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کر سکنے پر نام بدل دینے والے شہباز شریف کراچی آ کر کیوں لوڈ شیڈنگ کا رونا رو رہے ہیں، کیا کراچی پاکستان کا شہر نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کے وعدے پر تیسری بار اقتدار میں آئے تھے جو اب ختم ہو رہا ہے مگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہونے کے صحافی کے سوال کا جواب نہیں دیتے۔ عمران خان کی طرح سپریم کورٹ سے صادق و امین قرار نہ دیے جانے والے سابق صدر زرداری نے ملک کیا اپنے صوبے سندھ میں کوئی ایسا اسپتال بنایا جہاں وہ خود اپنا علاج کرا سکتے اور تین چار سال بیرون ملک اپنا علاج کرانے مقیم نہ رہتے۔
کے پی کے میں 5 سال اقتدار میں رہنے والی متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن اور دس سال اقتدار میں رہنے والی جماعت اسلامی کے سراج الحق پشاور میں کوئی جدید اسپتال بنوا دیتے تو کوئی مثال قائم ہوتی۔ دو عشروں سے اقتدار میں رہنے والے شریف برادران نے اپنے شہر لاہور میں کوئی مثالی اسپتال قائم کرایا ہوتا تو انھیں اور بیگم کلثوم نواز کو بیرون ملک نہ جانا پڑتا اور لاہور ہی کے چیف جسٹس پاکستان کو اپنے شہرکے کسی سرکاری اسپتال کا دورہ کرنا پڑتا۔
وزیر اعلیٰ سندھ ہی کے اعتراض پر چیف جسٹس کو لاہور، کوئٹہ اور پشاور کے سرکاری اسپتالوں کے دورے کرنا پڑے اور ملک کے بڑے شہروں میں پینے کے پانی کا معیار دیکھ کر وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ پیشکش نہ کرنا پڑتی کہ کیا آپ میرے ساتھ یہ غیر معیاری پانی پی سکتے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کراچی میں غیر معیاری پانی کی فراہمی نہ دیکھتے تو سندھ میں واٹر کمیشن کبھی نہ بنتا جس کے سربراہ جسٹس (ر) امیر مسلم ہانی سندھ کے دورے کرکے فراہمی و نکاسی آب کے بد ترین انتظامات پر برہم نظر نہ آتے۔
سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ جس طرح اپنے سوٹوں کا خیال رکھتے ہیں۔ سابق صدر زرداری اور سابق وزیر اعظم گیلانی اپنے اقتدار میں لاکھوں روپے کے مہنگے سوٹ پہننے کا مقابلہ کرنے کی بجائے کارکردگی دکھانے میں اگر میاں شہباز شریف ہی کا مقابلہ کرلیتے تو آج چیف جسٹس پاکستان کو سرکاری اسپتالوں کی بدترین حالت زار دیکھنی پڑتی نہ سو موٹو نوٹس لینے پڑتے۔ سیاسی مفاد کے لیے عمران خان اور سراج الحق سپریم کورٹ نہ جاتے تو اعلیٰ عدلیہ اپنے عدالتی معاملات سے کام رکھتی اگر حکومتوں کی کارکردگی اچھی ہوتی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اقتدار میں لاہور ہی کے کسی اسپتال کا دورہ کیا ہوتا اور وہاں کی حالت خود دیکھی ہوتی تو ملک کے چیف جسٹس کو اسپتالوں کے دورے نہ کرنا پڑتے۔ اشیائے ضرورت کے نرخ وزراء اعلیٰ دیکھ لیتے اور مہنگائی کا سدباب کرلیتے تو سبزی، دودھ اور دیگر عوامی مسائل پر عدلیہ متحرک نہ ہوتی۔ اب بھی ہزاروں معاملات چیف جسٹس کے سوموٹو کے منتظر ہیں مگر نہ جانے چیف جسٹس نے مزید سوموٹو لینے بند کردیے جس کا سارا فائدہ نااہل حکومتوں اور سب سے زیادہ نقصان بے بس محکوم عوام کا ہی ہوگا۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے، موجودہ عدلیہ وہ کچھ کر رہی ہے، ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس روزانہ اسپتالوں کے دورے کر رہے ہیں۔ سبزیوں کے نرخوں کی بات ہوتی ہے مگر چیف جسٹس اس خاتون کے گھر بھی جائیں جس کے 5 مرلے کے پلاٹ پر 20 سال سے قبضہ ہے۔ ملک میں اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات التوا کا شکار اور لاکھوں افراد اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں مگر سیاسی مقدمات جلد نمٹ رہے ہیں۔
لاکھوں مقدمات کے زیر التوا ہونے کی باتیں تو کافی حد تک درست ہیں مگر اسپتالوں کے چیف جسٹس سپریم کورٹ دوروں پر نواز شریف کا اعتراض کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے صرف کراچی اور لاہور کے بعد بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور کے پی کے دارالحکومت پشاور کا دورے کر کے وہاں کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار بھی دیکھ لی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں کی کارکردگی دیکھ لی ہے اور تینوں پارٹیوں کے رہنماؤں کی غلط و بے بنیاد دعوؤں کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔
پی پی سندھ حکومت کے اشتہار بند ہوگئے ہیں کہ جن میں خدمت میں سب سے آگے ہونے کے دعوے کیے جاتے تھے۔ پی پی کے اپوزیشن لیڈر نے اپنے شہر سکھر کے اسپتال کو ایشیا کا سب سے اچھا اسپتال قرار دے کرکوئی پہلا جھوٹا دعویٰ نہیں کیا ایسے دعوے شہباز شریف اور عمران خان و دیگر رہنما مسلسل کرتے آ رہے ہیں۔
ملک کے سیاستدان خصوصاً حکمران جھوٹ تسلسل سے اس طرح بولتے ہیں اور دن کے رات اورکالے کے سفید ہونے کی باتیں اس طرح کرتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سوچ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ اتنا بڑا رہنما اتنا جھوٹ بھی نہیں بولے گا شاید یہ سچ ہو۔ ہمارے ملک میں جھوٹ سیاست کا ضروری جزو بن چکا ہے کیونکہ جھوٹ کے بغیر سیاست کی ہی نہیں جا سکتی۔ موجودہ سیاستدانوں میں عمران خان واحد سیاستدان ہیں جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ یوٹرن لینے کے ماہر اور جھوٹے الزامات عائد کرنے میں سرفہرست ہیں جن کو متعدد نوٹس مل چکے ہیں اور جھوٹے الزامات پر مقدمات کا بھی سامنا ہے مگر وہ یا ان کا وکیل پیش نہیں ہوتے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کراچی میں کہا کہ ''ملک میں وافر بجلی موجود ہے'' تو ملک میں لوڈ شیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کر سکنے پر نام بدل دینے والے شہباز شریف کراچی آ کر کیوں لوڈ شیڈنگ کا رونا رو رہے ہیں، کیا کراچی پاکستان کا شہر نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کے وعدے پر تیسری بار اقتدار میں آئے تھے جو اب ختم ہو رہا ہے مگر لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہونے کے صحافی کے سوال کا جواب نہیں دیتے۔ عمران خان کی طرح سپریم کورٹ سے صادق و امین قرار نہ دیے جانے والے سابق صدر زرداری نے ملک کیا اپنے صوبے سندھ میں کوئی ایسا اسپتال بنایا جہاں وہ خود اپنا علاج کرا سکتے اور تین چار سال بیرون ملک اپنا علاج کرانے مقیم نہ رہتے۔
کے پی کے میں 5 سال اقتدار میں رہنے والی متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن اور دس سال اقتدار میں رہنے والی جماعت اسلامی کے سراج الحق پشاور میں کوئی جدید اسپتال بنوا دیتے تو کوئی مثال قائم ہوتی۔ دو عشروں سے اقتدار میں رہنے والے شریف برادران نے اپنے شہر لاہور میں کوئی مثالی اسپتال قائم کرایا ہوتا تو انھیں اور بیگم کلثوم نواز کو بیرون ملک نہ جانا پڑتا اور لاہور ہی کے چیف جسٹس پاکستان کو اپنے شہرکے کسی سرکاری اسپتال کا دورہ کرنا پڑتا۔
وزیر اعلیٰ سندھ ہی کے اعتراض پر چیف جسٹس کو لاہور، کوئٹہ اور پشاور کے سرکاری اسپتالوں کے دورے کرنا پڑے اور ملک کے بڑے شہروں میں پینے کے پانی کا معیار دیکھ کر وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ پیشکش نہ کرنا پڑتی کہ کیا آپ میرے ساتھ یہ غیر معیاری پانی پی سکتے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کراچی میں غیر معیاری پانی کی فراہمی نہ دیکھتے تو سندھ میں واٹر کمیشن کبھی نہ بنتا جس کے سربراہ جسٹس (ر) امیر مسلم ہانی سندھ کے دورے کرکے فراہمی و نکاسی آب کے بد ترین انتظامات پر برہم نظر نہ آتے۔
سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ جس طرح اپنے سوٹوں کا خیال رکھتے ہیں۔ سابق صدر زرداری اور سابق وزیر اعظم گیلانی اپنے اقتدار میں لاکھوں روپے کے مہنگے سوٹ پہننے کا مقابلہ کرنے کی بجائے کارکردگی دکھانے میں اگر میاں شہباز شریف ہی کا مقابلہ کرلیتے تو آج چیف جسٹس پاکستان کو سرکاری اسپتالوں کی بدترین حالت زار دیکھنی پڑتی نہ سو موٹو نوٹس لینے پڑتے۔ سیاسی مفاد کے لیے عمران خان اور سراج الحق سپریم کورٹ نہ جاتے تو اعلیٰ عدلیہ اپنے عدالتی معاملات سے کام رکھتی اگر حکومتوں کی کارکردگی اچھی ہوتی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اقتدار میں لاہور ہی کے کسی اسپتال کا دورہ کیا ہوتا اور وہاں کی حالت خود دیکھی ہوتی تو ملک کے چیف جسٹس کو اسپتالوں کے دورے نہ کرنا پڑتے۔ اشیائے ضرورت کے نرخ وزراء اعلیٰ دیکھ لیتے اور مہنگائی کا سدباب کرلیتے تو سبزی، دودھ اور دیگر عوامی مسائل پر عدلیہ متحرک نہ ہوتی۔ اب بھی ہزاروں معاملات چیف جسٹس کے سوموٹو کے منتظر ہیں مگر نہ جانے چیف جسٹس نے مزید سوموٹو لینے بند کردیے جس کا سارا فائدہ نااہل حکومتوں اور سب سے زیادہ نقصان بے بس محکوم عوام کا ہی ہوگا۔