اپنے بچوں کو ’’محافظ‘‘ بنائیں

بچوں کی تربیت اور ان کی پرورش محض یہی نہیں کہ ان کے لیے اچھی خوراک اور لباس فراہم کیا جائے۔

دیگر ممالک کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی بچوں کا جنسی استحصال کوئی نئی بات نہیں رہی، ہر سال ہزاروں بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں اور بہت سوں کو تو اپنی درندگی وحیوانیت چھپانے کی غرض سے قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ جس تواتر سے اس قسم کے سفاکانہ واقعات پیش آرہے ہیں، بحیثیت مجموعی یہ پورے معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

آئے روز اس نوع کے سانحات میڈیا پر آرہے ہیں اور برسوں سے آرہے ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی کس انتہا کو چھو رہا ہے، جہاں معصوم بچوں کی عزتیں اور زندگیاں بھی اپنے محلوں اورگلیوں میں محفوظ نہیں رہیں۔

ہوس کے پچاری انسان نما جانور اتنے آزاد ہوگئے کہ اب ان کی حیوانیت سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں ہیں، مگر یہ معاملہ اس وجہ سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ اس پہ بات کرنے سے ہمیشہ گریزکا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ والدین کا اپنے بچوں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم نہ کرنا بھی ایسے واقعات کی اہم وجہ ہے، یہی عدم واقفیت بچوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہے۔

بچوں کی تربیت اور ان کی پرورش محض یہی نہیں کہ ان کے لیے اچھی خوراک اور لباس فراہم کیا جائے یا کسی اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کروادیا جائے، بلکہ ان کی ہر آن تربیت اور تحفظ بھی والدین کی اولین ذمے داری ہے۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں بچوں کے ساتھ درندگی کا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ بچے ریاست، والدین اور معاشرے کی مشترکہ ذمے داری ہیں۔

جہاں اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور ان کا خیال رکھنا والدین کی ذمے داری ہے، وہاں بچوں کو ایسا محفوظ ماحول فراہم کرنا جہاں ہر بچہ امن اور سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکے، یہ ریاست کی ذمے داری ہے۔

اس نوعیت کے سنگین جرائم کو دو طریقوں سے روکا جاسکتا ہے۔ پہلا طریقہ ایسے مجرموں پر بے رحم قانون کا نفاذ کرتے ہوئے انھیں سخت سے سخت عبرتناک سزا دی جائے، مگر اس معاملے میں قانون، پولیس، حکومت اور متعلقہ ادارے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں، کیونکہ لگتا ہے ان میں سے کوئی بھی اس ضمن میں مخلص نہیں ہے۔

پہلی بات تو ہر سال پیش آنے والے ہزاروں واقعات میں ملوث مجرموں کو پکڑا ہی نہیں جاتا اور ان میں سے جو چند مجرم پکڑے جاتے بھی ہیں، انھیں بھی سزا نہیں دی جاتی، بلکہ انھیں بچانے کوئی نہ کوئی بااثر شخصیت سامنے آجاتی ہے۔ اس حوالے سے سزا کے قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اس لیے دوسرے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنے بچوں کی حفاظت خود ہی کرنی چاہیے۔ ضروری ہے کہ بچوں کو کچھ باتیں احتیاطی تدابیرکے طور پرسکھائی جائیں اور والدین خود بھی اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھیں۔

بچے پر جنسی تشدد کہیں بھی ہو سکتا ہے، اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار کریں۔ انھیں اعتماد میں لیں اور ان سے ہر وہ بات شیئر کریں جس سے ان کی ذہنی اور شعوری نشونما ہونے کے ساتھ انھیں اچھے یا برے کی تمیز ملتی ہو۔ بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ اگر کوئی آپ کے جسم کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرے یا آپ کے ساتھ ایسا کام کرے جو آپ کو عجیب لگے تو اس شخص کو سختی سے منع کر دیں۔ بچے جنسی زیادتی کا شکار گھر میں بھی ہوسکتے ہیں۔


ان کو آگاہی دینا ضروری ہے کہ وہ کسی بھی ملازم یا رشتے دار کے کمرے میں اکیلے جانے سے گریز کریں، اگر بچہ کسی خاص فرد سے گھبرائے یا خوفزدہ ہو تو نظر انداز مت کریں۔ بچوں کو کسی کے پاس اکیلا مت چھوڑیں۔ بچے اسکول یا وین بدلنے کی بات کریں تو اسے سنجیدگی سے لیں۔ بچہ کسی دن بھی گبھرایا ہوا یا غیر معمولی ایکسائیٹڈ ہو تو نوٹس لیں اور وجہ جانیں۔

بچے کو سکھائیں کہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائے۔ بچے کو واضح طور پر بات کرنا سکھائیں یعنی ایسی صورتحال میں جب وہ خدانخواستہ اجنبی جگہ پر ہوں اور کوئی انھیں چھونے یا اٹھانے کی کوشش کرے یا گھر کے اندر بھی تو وہ صرف رونے کی بجائے بچاؤ بچاؤ کی آواز لگائیں یا میں اسے نہیں جانتا یا یہ میرے انکل نہیں ہیں وغیرہ کہے، تاکہ لوگ متوجہ ہوں۔

اگر آپ کا بچہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں شکایت کرتا ہے تو اس معاملے میں خاموشی ہرگز اختیار نہ کیجیے۔ اپنے گھر کا ماحول مذہبی رکھیے اور بچوں کو عبادت اور عبادت گاہوں سے مانوس کرائیے تاکہ ان کے خیالات میں پاکیزگی کی آمیزش ہوتی رہے۔ خدا نخواستہ اگر کسی بچے کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجاتا ہے تو اسے ڈانٹنا مارنا تو دورکی بات بلکہ موردِالزام بھی نہ ٹھہرایے، بلکہ انتہائی ملائمت اور پیار سے اسے سمجائیں کہ اس معاملے میں اس کی کوئی غلطی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اس کا اثر اپنے ذہن پر ہرگز نہ لے ۔

ایسے وقت میں جب معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی اس انتہا کو چھو رہا ہو کہ معصوم بچوں کی عزتیں اور زندگیاں بھی اپنے محلوں اور گلیوں میں محفوظ نہیں رہیں، وہاں بچوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے آسان فہم انداز میں نصاب میں ایسی کتب شامل کرنی چاہیے تھیں جن کی تعلیم بچوں کی حفاظت میں معاون ثابت ہوتیں، مگر ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں۔ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے جنسی واقعات کی روک تھام کے لیے اصل کرنے کا کام بچوں کی بچگانہ سوچ و فہم کو مد نظر رکھتے ہوئے نصاب مرتب کرنا اور ان کی تربیت کرنا تھا، مگر اس جانب کسی نے توجہ ہی نہیں دی اور یوں برسوں میں کسی نے ایک بھی معیاری اور آسان فہم انداز میں کتاب نہیں لکھی جو بچوں کی حفاظت میں معاون بن سکتی ہو۔

اس موضوع پر بچوں کے معروف ادیب ضیاء اللہ محسن نے ''محافظ'' کے عنوان سے بہت ہی خوبصورت اور آسان فہم انداز میں ایک کتاب لکھ کر فرض کفایہ ادا کیا ہے، جس کو پڑھ کر بچے یقینا اپنی حفاظت کرنا اچھی طرح سمجھ جائیں گے اور ان شااللہ کسی جنسی بھیڑیوں سے دور ہی رہیں گے۔ اس میں ''محافظ'' کی پہچان، حفاظت کب، کیوں اور کیسے؟ موضوع سے متعلقہ تربیتی مواد، کہانیاں، نظمیں، مضامین، عملی مشقیں، حفاظت والی دعائیں، بچوں کے لیے پیغام، والدین اور اساتذہ کے لیے گزارشات شامل ہیں۔ کتاب بہترین آرٹ پیپر اور خوبصورت رنگین تصاویر سے مزین ہے۔

محمد ضیاء اللہ محسن نے بچوں کے لیے یہ نصاب لکھ کر بہت عمدہ کام کیا ہے، ان کی کاوش کو جتنا ہوسکے سراہانا چاہیے۔ کتاب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ بچوں کی حفاظت کے پیش نظر اس سے بہتر کتاب شاید اب تک کسی نے نہیں لکھی، اگر کسی نے لکھی بھی ہے تو منظر عام پر نہیں آسکی۔

حکومت پنجاب کی ہدایات کے مطابق لکھی گئی یہ کتاب ہر بچے کے ضرورت ہے۔ اسے اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے، تاکہ بچے اپنی حفاظت کرنا جان سکیں اور گھر پر بھی والدین کو چاہیے یہ مختصر کتاب اپنے بچوں کو پڑھائیں، تاکہ ہر قسم کے ناخوشگوار واقعے سے محفوظ رہا جاسکے۔ تعلیم یافتہ معاشروں میں بچوں کو اپنی حفاظت خود کرنا سکھایا جاتا ہے اور انھیں کسی بھی قسم کے جنسی زیادتی کے واقعات سے بچانے کے لیے اپنی حفاظت خود کرنے کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ''محافظ'' بھی بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرے گی۔

وطن عزیز میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس قسم کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں جن کی وجہ سے اہل دانش کی توجہ اس طرف پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے ماہرین نفسیات نے جن عمومی نکات پر زور دیا ہے حالات کا تقاضہ ہے کہ اس مسئلہ کو طاق نسیاں پر ہرگز نہ رکھا جائے بلکہ اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اس پر اولین توجہ دی جانی چاہیے۔ اور اس کے نتائج کو بھی ملحوظ رکھا جائے اور اس امر کا بغور جائز لیا جائے کہ آیا مطلوبہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں یاان میں ہنوز کوئی کسر باقی ہے جس کو دور کرنے کے کیا اقدامات ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ہمارے ماہرین کو مغربی ممالک میں ہونے والی تحقیق کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کیونکہ وہ لوگ سائنسی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں جب کہ اپنے یہاں زیادہ تر اٹکل پیچو طریقے اپنائے جاتے ہیں جن کے وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
Load Next Story