استقبالِ ماہ رمضان المبارک

یہ ماہ مقدس ہمارے لیے یہ پیغام لاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے  کے لیے رحمت و شفقت کا پیکر و غم خوار بن جائیں۔

یہ ماہ مقدس ہمارے لیے یہ پیغام لاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے  کے لیے رحمت و شفقت کا پیکر و غم خوار بن جائیں۔ فوٹو : فائل

مذہب کا اصل مقصد درحقیقت تصفیۂ عقائد، تزکیۂ نفس و روح اور اَخلاق حسنہ کی ترویج و تکمیل ہے۔ اسی لیے حضور نبی اکرم ؐ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا: '' مجھے مکارم اَخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔'' اس لحاظ سے انسانیت کا نصب العین اَخلاقِ حسنہ کی تکمیل ہے جو تزکیۂ نفس کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

مذاہب عالم کے مطالعے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا کا ہر مذہب کسی نہ کسی صورت میں تزکیۂ نفس اور روحانی طہارت کی اہمیت کو اُجاگر کرتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ہاں اس کے انداز مختلف اور طریقے علیحدہ ہیں، لیکن اسلام ایک ایسا سادہ اور آسان دین ہے جو ان تمام غیر فطری رجحانات اور افراط و تفریط سے پاک ہے۔

حضور نبی اکرمؐ نے ہمیں تقوی اور تزکیۂ نفس کے لیے ارکان اسلام کی صورت میں ایک ایسا پانچ نکاتی لائحہ عمل عطا فرما دیا، جو انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ نہایت آسان او ر قابلِ عمل بھی ہے۔ انہی اَرکان اسلام میں سے روزہ تیسرا بنیادی رکن ہے جس کی پابندی شہادت توحید و رسالتؐ اور نماز کے بعد فرض کا درجہ رکھتی ہے۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی فرضیت کے باب میں بلا استثنائے مرد و زن تمام اہل ایمان سے ارشاد فرمایا، مفہوم : ''اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔'' اس آیہ کریمہ میں دو باتیں بہ صراحت بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ روزے صرف امت محمدیہؐ پر ہی نہیں بل کہ اُممِ سابقہ پر بھی فرض کیے گئے، دوسرا روزے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔

روایات کے مطابق روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویلِ کعبہ کے واقعہ سے دس روز بعد ماہِ شعبان میں نازل ہوا۔ روزے کی فرضیت کا منکر کافر اور اس کا تارک گناہ گار ہے۔ دوسری بات جو بیان کی گئی ہے وہ روزے کا مقصد ہے جو کہ تقویٰ کا حصول ہے یعنی روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ اگر انسان روزہ رکھ کر بھی تقویٰ حاصل نہیں کرتا تو پھر انسان نے روزے کے حقیقی مقصد کو نہیں پایا۔

٭ روزے کے واجبات و شرائط : روزے کو عربی میں ''صوم'' کہتے ہیں جس کا لغوی معنی کسی ارادی فعل سے باز رہنے اور رک جانے کا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں روزے کی تعریف یہ بیان کی گئی '' روزے کی نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک ہر قسم کے مفطرات سے رک جانا۔''

اس بنا پر روزہ مندرجہ ذیل پانچ چیزوں کو ملحوظ رکھنے سے عبارت ہے: کھانے سے اجتناب۔ پینے سے اجتناب۔ ازدواجی تعلق سے اجتناب۔ روزے کی مدت معینہ اور اجتناب کی نیت۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ متذکرہ بالا افعال کا صدور اس وقت روزے کی ہیئت اختیار کرتا ہے، جب یہ بہ نیت روزہ ہو، بغیر نیت کے محض بھوک اور پیاس کو اپنے اوپر طاری کر لینا روزہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لسان العرب کے مطابق رمضان کو رمضان کا نام اس لیے دیا گیا کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔'' اس حدیث مبارکہ میں روزہ رکھنے اور رمضان المبارک میں قیام کرنے کے ساتھ ایمان اور احتساب کی شرط لگا دی گئی، یعنی اس حالت میں رمضان المبارک کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کرے کہ نبی اکرمؐ سے ثابت شدہ سب چیزوں کی تصدیق کرے اور فرضیت ِ صوم کا اعتقاد بھی رکھے تو اس کو ایمان کا روزہ کہا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ سے طلبِ ثواب کے لیے یا اس کے اخلاص کی وجہ سے روزہ رکھا اور روزے کی حالت میں صبر کا مظاہرہ اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا۔ جو آدمی ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو اس کے تمام چھوٹے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور بڑے گناہوں کی معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے یا ان کا بوجھ ہلکا بھی ہو سکتا ہے۔

سنن نسائی کی ایک روایت میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے مروی ہے: نبی اکرم ؐ نے فرمایا: ''جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے، جس طرح ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔''

صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔'' ایک خوشی ہر روزے دار کو اس وقت میسر ہوتی ہے، جب وہ کڑے دن کی بھوک اور پیاس کے بعد لذتِ طعام سے آسودہ ہوتا ہے۔ دوسری خوشی حضور نبی اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق اس وقت نصیب ہوگی جب عالمِ اُخروی میں اسے دیدارِ الٰہی کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا جائے گا۔

٭ روزے کا اجر و ثواب :

سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ''بنی آدم کا نیک عمل دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: روزہ اس سے مستثنٰے ہے، کیوں کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔'' اس حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ بعض اعمال کا ثواب صدق نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بل کہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ثواب ہوتا ہے، لیکن روزے کا ثواب بے حد و حساب ہے۔ یہ کسی ناپ تول کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے اجر و ثواب کی مقدار اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔

٭ روزے کی فضیلت کے اسباب

روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے، اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ جب کہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے، کیوں کہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کا نقصان ہوتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے، جب کہ دوسری عبادتوں میں اس قدرت مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔ روزے کے ثواب کی مقدار کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے، جب کہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کردیا ہے۔


اس لیے یہ عبادت اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ باقی تمام عبادات سے تو حقوق العباد کی کوتاہیوں کی تلافی ہوگی، لیکن روزہ اس مقصد کے لیے میدانِ حشر میں خرچ نہیں کیا جائے گا۔ روزہ ایسی عبادت ہے، جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا، حتی کہ فرشتے بھی معلوم نہیں کرسکتے۔ روزہ کی اضافت اللہ کی طرف تشریف اور عظمت کے لیے ہے جیسا کہ بیت اللہ کی اِضافت محض تعظیم و تشریف کے لیے ہے، ورنہ سارے گھر اللہ ہی کے ہیں۔

روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے وہ اللہ کو محبوب ہے۔ صبر کی جزا کی حد نہیں ہے، اس لیے رمضان کے روزوں کی جزا کو بے حد قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزا میں ہوں۔

٭ روزہ دار ڈھال ہے :

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: ''روزہ ڈھال ہے اور دوزخ کی آگ سے بچاؤ کے لیے محفوظ قلعہ ہے۔'' ایک روایت میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ''روزہ ڈھال ہے اس کے ساتھ بندہ خود کو دوزخ کی آگ سے بچاتا ہے۔''

صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمد مصطفیؐ کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے۔''

صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: ''جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیطان (زنجیروں میں) جکڑ دیے جاتے ہیں۔''

حجۃ اللہ البالغہ میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ جنت کے دروازوں کا کھولا جانا اہل ایمان کے لیے فضل ہے، ورنہ کفار و مشرکین تو ان دنوں میں گم راہی و ضلالت میں پہلے سے بھی زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں، کیوں کہ شعائر اللہ کی ہتک کرتے ہیں لیکن اہلِ ایمان چوں کہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور عبادت و ریاضت کرتے ہیں۔ اس مبارک مہینے میں نیکیوں کی کثرت کرتے ہیں اور برائیوں سے بچے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔

صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: ''جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن روزہ دار اس میں سے داخل ہوں گے اور اُن کے سوا اس دروازہ سے کوئی داخل نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا: کہاں ہیں روزہ دار؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا، پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔'' جنت میں انسانوں کے اعمال کے اعتبار سے کئی دروازے ہیں۔ پس جو شخص دنیا میں کوئی عمل کرے گا وہ جنت میں اس عمل کے دروازے سے ہی داخل ہوگا۔

ریان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محدث ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ یا تو وہ بہ نفسہ ریان ہے، کیوں کہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں۔ اس کے قریب تازہ اور سرسبز و شاداب پھل پھول بہ کثرت ہیں۔ قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس زائل ہوگی اور ترو تازگی و نظامت ہمیشہ رہے گی۔ بہ حالتِ روزہ انسان بھوک اور پیاس کے کرب سے گزرتا ہے تو لامحالہ اس کے دل میں ایثار، بے نفسی اور قربانی کا جذبہ تقویت پکڑتا ہے اور وہ عملاً اس کیفیت سے گزر کر جس کا سامنا معاشرے کے مفلوک الحال اور نانِ شبینہ سے محروم لوگ کرتے ہیں، کرب و تکلیف کے احساس سے آگاہ ہوجاتا ہے۔

فی الحقیقت روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سر و سامان لوگوں کی زبوں حالی سے کماحقہ آگاہ کرنا چاہتے ہیں، جو اپنے تن و جان کا رشتہ بہ مشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں، تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آسکے، جس کی اساس باہمی محبت و مروت' انسان دوستی اور درد مندی و غم خواری کی لافانی قدروں پر ہو۔

٭ تزکیۂ نفس :

روزہ انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک صاف کر دیتا ہے۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے، جسے اپنی بقا کے لیے غذا اور دیگر مادی لوازمات فراہم کرنا پڑتے ہیں، جب کہ روح ایک لطیف چیز ہے، جس کی بالیدگی اور نشو و نما مادی ضروریات اور دنیاوی لذات ترک کردینے میں مضمر ہے۔ روزے کا منتہائے مقصود یہی ہے کہ وہ بندے کو وہ تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔

مقام رضا کیا ہے؟ جو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہوجاتا ہے۔ اس پر غور کریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے رب کا اپنے بندے سے راضی ہوجانا اتنی بڑی بات ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی سب نعمتیں کم تر دکھائی دیتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے کہ جس کے اجر و جزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑ دیا گیا کہ اس کی رضا حد و حساب کے تعین سے ماوراء ہے۔

روزہ بھوک پیاس کے احساس کے ذریعے ہمیں اپنے اردگرد مسلمان بھائیوں کی حاجتوں کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ ہم میں سے کتنے صاحبِ ثروت حضرات ایسے ہیں جو روزہ ٹھنڈے دفاتر، ایئرکنڈیشنڈ گھروں اور گاڑیوں میں گزار کر شام کو انواع و اقسام کے کھانوں، رنگا رنگ پھلوں اور نوع بہ نوع مشروبات سے چنے ہوئے دسترخوان پر بیٹھتے وقت باہر گلیوں اور سڑکوں پر بیٹھے ہوئے غریب و مفلس روزہ دار مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا احساس بھی کرتے ہیں۔

عین ممکن ہے ہمارے پڑوس میں کوئی خالی پیٹ پانی کے گھونٹ سے روزہ رکھ رہا ہو اور شام کے کھانے کے لیے کسی کے ہاتھوں کی طرف دیکھ رہا ہو۔ لہٰذا روزہ ہمیں یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ ہم خود ہی پرتکلف کھانوں اور ٹھنڈے میٹھے مشروبات سے شکم سیر نہ ہوں، بل کہ اپنے نادار، مفلس، فاقہ کش اور تنگ دست مسلمان بھائیوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھیں، جن کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ لباس و طعام خرید کر اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا تن ڈھانپ سکیں اور پیٹ پال سکیں۔

یہ ماہ مقدس ہمارے لیے یہی پیغام لاتا ہے کہ ہم جہاں بھی ہوں، جس حالت میں بھی ہوں، ایک دوسرے کے لیے رحمت و شفقت کا پیکر بن جائیں، دوسروں کی ضرورتوں کا بھی اسی طرح احساس کریں، جس طرح اپنی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں۔ اپنی خوشیوں میں معاشرے کے ستم رسیدہ حضرات، یتیموں اور بیواؤں کو بھی شامل کریں کہ یہی اصل عید ہے۔ اپنے معاشرے کو پرکیف روحانی ماحول فراہم کرنے کے لیے رمضان شریف کا یہ پیغام ہر گھر اور گلی پہنچائیں۔ یہی تقویٰ کا تقاضا، اسلامی تعلیمات کا مدعا، روزے کا مقصد اور اس کا پیغام ہے۔
Load Next Story